ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے پاکستان کے اخراج کا عمل کسی تازہ ہوا کے جھونکے سے کم نہیں کیونکہ عالمی سطح پر مہنگائی، پاکستان کی سیاسی صورتِ حال اور دیگر معاشی اشارئیے مسلسل خطرناک صورتِ حال کی جانب جاری و ساری نظر آرہے تھے
ڈاکٹر جمیل احمد خان
فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی گرے لسٹ سے پاکستان کے اخراج کا عمل کسی تازہ ہوا کے جھونکے سے کم نہیں کیونکہ عالمی سطح پر مہنگائی، پاکستان کی سیاسی صورتِ حال اور دیگر معاشی اشارئیے مسلسل خطرناک صورتِ حال کی جانب جاری و ساری نظر آرہے تھے۔
تشویشناک بات یہ ہے کہ جتنے عرصے تک پاکستان ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں موجود رہا، پاکستان کو مختلف انداز کے کم و بیش 38 ارب ڈالر کے معاشی خسارے کا سامنا ہوا جس کی وجہ بیرونی سرمایہ کاروں کی عدم دلچسپی، دُنیا کے معاشی و بینکنگ نظام کا اضافی دباؤ اور گرے لسٹ میں شامل ہونے کے دیگر اثرات و مضمرات کو قرار دیا جاسکتا ہے۔
گرے لسٹ میں ہونے کی وجہ سے بین الاقوامی اداروں اور فورمز نے پاکستان کی مدد سے اجتناب کیا، جس کے پیچھے دیگر عوامل کے ساتھ ساتھ بھارت کا ہاتھ بھی تھا، جس نے پاکستان کو 2019ء میں گرے لسٹ سے بلیک لسٹ کی طرف دھکیلنے کی تگ و دو کی تاہم پاکستان اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے تمام تر سازشوں سے سرخرو ہو کر نکلنے میں کامیاب رہا۔
اگر 2019ء میں ملائیشیا، چین اور ترکی کا ساتھ نہ ہوتا تو بھارت پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کا بلیک لسٹ ملک قرار دینے میں خاکم بدہن کامیاب بھی ہوسکتا تھا۔ واضح رہے کہ کسی بھی ملک کو گرے سے بلیک لسٹ کرنے کے لئے کم از کم 3 ووٹوں کی ضرورت پڑتی ہے۔
ماضی قریب میں بھارت کے وزیرخارجہ کھلے عام یہ اعتراف کرچکے ہیں کہ انہوں نے پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نہ نکلنے دینے کے لئے لابنگ کی۔ یہاں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ایف اے ٹی ایف میں اس کے 2 پہلو ہوتے ہیں۔
پہلا پہلو پروسیجرل ہے یعنی ایف اے ٹی ایف کے بہت سے تقاضے ہیں جن کو پورا کرنا پڑتا ہے۔ مثال کے طور پر پاکستان نے گزشتہ 4 سال کی تگ و دو سے ایف اے ٹی ایف کے تمام نکات پر عمل درآمد مکمل کیا۔ ایف اے ٹی ایف کی تنظیم ایشیا پیسفک گروپ کے تحت 200 سے زائد تقاضوں (پیرامیٹرز) کا معائنہ کرتی ہے جبکہ دوسرا پہلو سیاسی یا سفارتی ہے۔
یہی وہ تقاضے ہیں جن کے تحت کسی بھی ملک کو ایف اے ٹی ایف کی گرے یا بلیک لسٹ میں رکھنے یا نکالنے کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ سب سے پہلے ایف اے ٹی ایف نے پاکستان پر 27 نکات پر عملدرآمد کی ذمہ داری رکھی اور پھر 7 مزید نکات سامنے رکھ دیئے۔ یوں مجموعی نکات کی تعداد 34 ہوگئی جن پر عملدرآمد پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالنے کے لئے ضروری تھا۔
تمام 34 نکات میں سے 2 نکات پر عملدرآمد بے حد مشکل ثابت ہوا کیونکہ یہ نکات حافظ محمد سعید سمیت دیگر پاکستانیوں سے متعلق تھے جن پر دہشت گردی کے الزامات تھے اور پھر پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی شرائط کی تکمیل کے لئے اچھی خاصی قانون سازی بھی کرنی پڑی۔ گو کہ 2016ء سے ایف اے ٹی ایف کا تقاضا تھا کہ سلامتی کونسل کی قرارداد 1267 کے تحت تمام افراد کو نہ صرف گرفتار کیا جائے بلکہ ان کی سزاؤں کے ساتھ ساتھ ان تمام افراد اور گروپس کے اثاثے بھی قبضے میں لئے جائیں۔
پاکستان نے عجلت میں ایف اے ٹی ایف کی شرائط پر عملدرآمد مکمل کرنے کے لئے کچھ قوانین بنائے اور کچھ میں ترامیم اور سختیاں شامل کیں اور نہ صرف یہ کہ پاکستان نے تمام تر درکار قانون سازی مکمل کی بلکہ نئے قوانین و ترامیم پر عملدرآمد بھی کرکے دکھایا اور ظاہر ہے کہ ان سختیوں کے سبب عوام الناس کی دشواریوں میں بینکوں سے لین دین کے سلسلے میں کئی گنا اضافہ ہوا۔ یہاں تک کہ کچھ تجارتی گروپس نے اپنی پرائیویٹ جگہوں پر پیسوں کے لین دین کا پرائیویٹ نظام بنا لیا جسے آج بھی حکومت سے پوشیدہ رکھتے ہوئے بینکنگ نظام کے متوازی استعمال کیا جارہا ہے۔ اس میں کثیر رقم نئی قانون سازی کے تحت بلیک منی کے زمرے میں آتی ہے۔
اگر دنیا کا کوئی بھی ملک ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں شامل ہو تو آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک سمیت دیگر ادارے اس کی مدد میں حیل و حجت سے کام لیتے ہیں اور اس وقت دنیا کے 23 ممالک اس ادارے کی گرے لسٹ پر موجود ہیں۔
گرے لسٹ پر موجود ممالک میں متحدہ عرب امارات، اردن، فلپائن اور دیگر بڑے بڑے ممالک شامل ہیں۔ ایسے میں ایف اے ٹی ایف کے سربراہ کا یہ بیان کہ پاکستان نے نکات پر عملدرآمد کے لئے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے، اہمیت کا حامل ہے۔ ایشیا پیسفک گروپ نے ہر لحاظ سے جائزہ لینے کے بعد ہی نکات پر عملدرآمد کی رپورٹ ایف اے ٹی ایف اجلاس میں پیش کی۔ یقیناً اس سے معاشی اعتبار کے علاوہ ملکی وقار میں گراں قدر اضافہ ہوگا۔
ملکی عدالتی نظام میں استغاثہ کے کمزور کردار کی وجہ سے نہ صرف فردِ جرم کم عائد کی جاتی ہے بلکہ سزائیں بھی آٹے میں نمک کے برابر دی جاتی ہیں جو ایف اے ٹی ایف کے نکات پر عملدرآمد کا کلیدی حصہ ہے کہ سزاؤں کی شرح میں اضافہ ہونا چاہئے تاہم یہ بات بھی ایف اے ٹی ایف نے عملدرآمد کے کھاتے میں درج کرلی ہے جسے خوش آئند قرار دیا جاسکتا ہے، لیکن حکومت کو اس بات سے غافل نہیں ہونا چاہئے کہ ایف اے ٹی ایف کی ٹیم کو اکتوبر سے قبل پاکستان آ کر ان تمام نکات پر عملدرآمد کا فزیکل معائنہ بھی کرنا ہے اور تھوڑی سی حکومتی لغزش ہمیں گرے لسٹ میں برقرار رکھنے کا پیش خیمہ بھی بن سکتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ اس تمام تر مثبت صورتِ حال کا سہرا کس کے سر جاتا ہے؟ تو ٹیم کی قیادت کرنے والے سیکریٹری خزانہ، سیکریٹری قانون، سیکریٹری داخلہ، سیکریٹری خارجہ، چیئرمین نیب، چیئرمین ایف بی آر، ایف آئی اے، اے این ایف، اسٹیٹ بینک اور آئی ایس آئی نے کڑی محنت سے تمام تر مسائل کا حل نکالا جبکہ جی ایچ کیو کا اس تمام تر معاملے میں کردار کلیدی رہا ہے۔
تکنیکی پہلو اپنی جگہ، تاہم ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنے میں سیاسی و سفارتی محاذ پر کی گئی کاوشوں کو نظرانداز کرنا بھی زیادتی ہوگی۔ وزیرِ خارجہ کے غیرملکی دوروں کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ ایف اے ٹی ایف میں بھی لابنگ کے نام پر سیاست ہورہی تھی جس کا شکار ہونے سے پاکستان کو بچا لیا گیا۔
رہی بات بھارت کی تو بھارت شروع ہی سے پاکستان سے دشمنی کرتا آرہا ہے۔ نریندر مودی حکومت کی پوری کوشش ہوگی کہ کسی طرح پاکستان کے گرے لسٹ سے نکلنے میں رخنہ اندازی کرے تاہم پاکستان ایف اے ٹی ایف کے 39 رکن ممالک کو غیر رسمی طور پر بتا چکا ہے کہ ہم نے تمام تر نکات پر عملدرآمد مکمل کر لیا ہے۔
وزیرِ خارجہ کے دورۂ امریکا کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے امریکی دفترِ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس کا کہنا تھا کہ پاک امریکا وزرائے خارجہ کے مابین بہت کامیاب بات چیت ہوئی۔ یوں پاکستان نے ایف اے ٹی ایف کے نکات پر عملدرآمد کے تکنیکی کے علاوہ سیاسی پہلوؤں کا بھی احاطہ کرلیا۔
اگر کوئی ملک ایف اے ٹی ایف کے مفید نکات پر عملدرآمد میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کرتا تو اس ملک میں بدعنوانی کو لگام نہیں دی جاسکے گی، منی لانڈرنگ جیسے جرائم زیادہ ہوں گے، معیشت بلیک اکانومی میں ڈھلتی چلی جائے گی اور غریب آدمی کو ریلیف بھی نہیں مل سکے گا۔
یہاں ایک اور چیز جس کا جائزہ لیا جاتا ہے وہ نکات پر عملدرآمد کے علاوہ مستقل مزاجی ہے یعنی پاکستان کس تسلسل اور تواتر سے مذکورہ نکات پر عملدرآمد جاری رکھتا ہے۔ یہ پاکستان کے اپنے مفاد میں ہے کہ ٹیرر فنانسنگ اور منی لانڈرنگ جیسے جرائم کے خلاف دستاویزاتی عمل، قانون سازی اور سختی سے عملدرآمد جیسے نکات پر نہ صرف یہ کہ عمل کرے بلکہ اگر اس تمام صورتِ حال میں مزید بہتری لائی جاسکتی ہو تو ضرور لائے۔