ہمارے ملک کے سرکاری اداروں کے حالات اور کارکردگی ہمیں مایوسی کی طرف لے جاتے ہیں، اقربا پروری، بدعنوانی اور سیاسی قیادت کی بے جا مداخلت ایک عام سی بات ہے۔ پی آئی اے، اسٹیل مل، پاکستان ریلوے، واپڈا، ایف بی آر، نیب جس کا ان دنوں بہت شور غوغہ ہے، سب اداروں میں مفاد پرست ٹولہ مسلط ہے، اس کے علاوہ بھی کئی سرکاری ادارے ایسے ہیں جن کا ماضی تو بہت شاندار تھا لیکن اب تباہی کی طرف مائل ہیں، ان مایوس کن حالات میں انگلیوں پر گنے جانے والے کچھ ادارے ایسے ہیں جہاں کام اور ذمہ داری کو صرف نوکری نہیں سمجھا جاتا بلکہ ملکی خدمت کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے، انہی اداروں میں پاکستان اٹامک انرجی کمیشن بھی ہے جہاں میریٹ کا طوطی بولتا ہے۔ چیئرمین سے لے کر عام ٹیکنیشن کی تعیناتی بھی اعلیٰ صلاحیتوں کے بل بوتے پر کی جاتی ہے۔ پاکستان میں جب سے توانائی کے بحران نے سر اٹھایا ہے پی اے ای سی کی افادیت اور بڑھ گئی ہے، پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے مختلف پراجیکٹس کراچی اور چشمہ کے مقام پر چل رہے ہیں۔ کینپ گزشتہ 45 سال سے کامیابی سے چل رہا ہے۔ کینیڈا کے تعاون سے لگنے والے ایٹمی بجلی گھر پاکستان میں پہلا منصوبہ تھا۔ گزشتہ دنوں کے2 پر ڈوم کی تنصیب کا تاریخی کام ہوا جس کے بعد پیداواری عمل میں زیادہ وقت نہیں لگتا۔ پاکستان اٹامک انرجی کمیشن نے کینپ میں سینئر تجزیہ کار، پروفیسرز، صحافیوں اور طلبا کو بریفنگ دی اور پراجیکٹس کے مختلف مراحل کے بارے میں آگاہ کیا۔ پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے ممبر پاور سید یوسف رضا نے فرمایا کہ پی اے ای سی میں کام کرنے والے افراد ملازمت کی ذمہ داری ادا کرنے کے ساتھ خدمت کے جذبے سے سرشار ہیں کیونکہ ہمارے پاس وسائل محدود ہوتے ہیں۔ کینپ کی استعداد ابتدا میں 137 میگاواٹ تھی، یہ پراجیکٹ اپنی معیاد پوری کرچکا تھا۔ 1975ء میں بھارتی نیوکلیئر ٹیسٹ کے بعد ہم پر پابندی لگ گئی، دنیا سمجھ رہی تھی کہ ہمارا پاور پلانٹ بند ہوجائے گا، واشنگٹن پوسٹ نے تو خبر بھی چھاپ دی تھی، اسے پی این آراے (پاکستان نیوکلیئر ریگولیٹری اتھارٹی) نے 2002ء میں ریفریش (ری فریش) کروایا۔ اس وقت 80 میگاواٹ پیداوار حاصل ہورہی ہے جو تقریباً 7 سے ساڑھے روپے فی یونٹ پڑ رہی ہے، ہائیڈرو کے بعد نیوکلیئر ذرائع کی بجلی سب سے سستی پڑتی ہے۔ کینپ کے لئے سی نے 1980ء سے اپنا فیول بنانا شروع کردیا تھا۔
اس وقت دنیا میں 449 نیوکلیئر پاور پلانٹس بجلی پیدا کررہے ہیں۔ 60 منصوبے تکمیل کے مراحل میں ہیں۔ نیوکلیئر پاور پلانٹس سے کسی قسم کا خطرہ نہیں کیونکہ انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی قواعد و ضوابط پر سختی سے عمل درآمد کرواتا ہے۔ اس وقت آپ لوگ اس پراجیکٹ پر موجود ہیں تو آپ سب کو آئ اے ای اے کے مانیٹرنگ سیل میں دیکھا جارہا ہے۔ پی اے ای سی کے اوپر ہمارا پی این آراے (پاکستان نیوکلیئر ریگولیٹر اتھارٹی) ہے جہاں کسی بھی نئے منصوبے کی فزیبلیٹی کی جانچ پڑتال کی جاتی ہے۔ کینپ کے اطراف میں گوٹھ آباد ہیں۔ ہماری صحت کی ٹیمیں علاقے کا دورہ کرتی ہیں، لوگوں کا معائنہ ہوتا ہے، پینے کے پانی اور اجناس کی جانچ کی جاتی ہے۔ اس طرح تابکاری (ریڈی ایشن) سے متعلق خدشات درست نہیں، ہمارا عملہ کئی سالوں سے ان پاور پلانٹس کے اندر کام کررہا ہے جن کی صحت کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ ہم نے علاج کی سہولت فراہم کرنے کے لئے 18 میڈیکل سینٹرز قائم کر رکھے ہیں۔ کینپ ساحل سمندر پر ہے۔ اس کے قریب آبادی کو ہم پانی سپلائی کرتے ہیں، موبائل ایمبولینس سروس چل رہی ہے، ہمارا ریسکیو عملہ کسی بھی ممکنہ حادثے کے پیش نظر آبادی کو محفوظ مقام پر لے جانے کی ریہرسل کرتا رہتا ہے۔ اس حوالے سے لوگوں کی تربیت کی جاتی ہے۔ کے 2 اور کے3 منصوبہ جنریشن تین کا ماڈل ہے جس میں مزید احتیاطی تدابیر اختیار کی گئی ہیں۔ ہمارے ڈوم کی اس انداز سے تعمیر کی گئی ہے کہ اگر 750 مسافر کا بوئنگ بھی اس سے ٹکرائے گا تو اسے نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔ انیسکو کے مطابق ساحل سمندر کے پلانٹس کو سطح سمندر سے 3 میٹر بلند ہونا چاہئے، ہم نے 9 میٹر رکھا ہے۔ سروے کے مطابق یہ سیسمک زون سے محفوظ ہے۔ کے2 کا سنگ بنیاد 26 نومبر 2013ء کو رکھا گیا تھا، کنکریٹ ڈیٹ 20 اگست 2015ء تھی، دسمبر 2020ء میں یہ منصوبہ مکمل ہوگا اور اس کے 10 مہینے کے فرق سے کے3 بھی مکمل ہوجائے گا۔ اس وقت کینپ میں 11 ہزار کی افرادی قوت ہے، جس میں سے چین کے تقریباً 4 ہزار ورکرز ہیں۔ ہماری کوشش ہوتی ہے کہ لوکل لوگوں کو ملازمت فراہم کریں، 1000 ٹیکنیشنز ہم نے چشمہ سے منگوائے، چشمہ 1، 325 میگاواٹ کا پراجیکٹ ہے، 24 اپریل 2017ء کو مکمل ہوا، 280 دنوں تک 96 فیصد پیداوار دے رہا ہے۔ کے2 کا 5 اگست 2010ء کو افتتاح ہوا تھا۔ 15 اکتوبر 2016ء کو نیشنل گرڈ سسٹم میں شامل ہوا۔ 26 دسمبر 2016ء کو کمرشل آپریشن شروع ہوگیا۔ چشمہ کے ایک پراجیکٹ کا قرضہ اتر چکا ہے۔ اب فی یونٹ 5.5 روپے ہے، دوسرے کا تقریباً 8.00 روپے فی یونٹ ہے۔ چشمہ میں 4000 لوگوں کو روزگار ملا۔ ہم اپنے پاور پراجیکٹس کے 50 کلومیٹر دور دائرے میں انسانی صحت، پالتو جانوروں کا چیک اَپ اور فصلوں کی جانچ کرواتے ہیں۔
نیوکلیئر پاور پلانٹس سستے محفوظ ہونے کے ساتھ دیرپا بھی ہیں، کوئلہ کے پاور پلانٹس کی معیاد 30، گیس آئل 30، نیوکلیئر 60 سال جبکہ ہائیڈرو 80 سال ہے۔ ونڈ بھی 30 سال ہے۔ استعداد کے اعتبار سے بھی نیوکلیئر پاور پلانٹس بہتر ہیں۔ گیس و آئل کی پیداواری استعداد 15469 میگاواٹ ہے، حاصل 8113 میگاواٹ ہے، کوئلہ 150 ہے، حاصل 30 میگاواٹ ہے، ونڈ 306 ہے لیکن 90 میگاواٹ مل رہا ہے۔ ہائیڈرو میں بھی نصف کی کمی ہے جبکہ نیوکلیئر پاور پلانٹس کی استعداد 750 ہے۔ پیداوار 690 میگاواٹ کم ریٹ پر حاصل ہورہی ہے۔ آئل و گیس کا خرچہ 22 سے 24 روپے فی یونٹ، گیس، کوئلہ سے 12 سے 14 روپے ونڈ بھی 12 سے 14 روپے جبکہ نیوکلیئر سے 7 روپے فی یونٹ بجلی پڑ رہی ہے۔ البتہ ہائیڈرو سے 3.50 روپے خرچہ آتا ہے۔ 2020ء تک نیوکلیئر پیداوار 3520 میگاواٹ تک پہنچ جائے گی۔ کے الیکٹرک کو ہم اگلے سال 500 میگاواٹ اضافی بجلی دیں گے۔ اس کے علاوہ ہم نے سی5 سائن کردیا ہے جو کے2، کے3 سے نصف قیمت پر طے ہوا ہے (53%) ورلڈ وائیڈ اصول طے ہے کہ دو پلانٹس ہوں تو دوسرا پہلے کے مقابلے میں 60 فیصد پر حاصل کیا جاتا ہے۔ ہم نے مزید پراجیکٹس کے لئے مظفر گڑھ میں زمین خرید لی ہے۔ گوادر میں سیسمک مسائل ہیں، بلوچستان میں ایک جگہ کا سروے ہورہا ہے۔ ملتان، نوشہرہ میں بھی دیکھ رہے ہیں۔ چین میں اس وقت 30 پلانٹس چل رہے ہیں۔ 26 پر کام ہورہا ہے۔ ہم اپنے سائنسدانوں اور ٹیکنیشنز کو جدید ٹریننگ کے لئے ملک سے باہر بھیجتے ہیں۔ پی این آراے نے 20 سے 25 ماہرین کو امریکہ میں ٹریننگ دلوائی ہمیں سی اے این دی یوگروپ میں شامل کیا گیا۔ ہمارا ایک انجینئر نمائندگی کے لئے وہاں موجود رہتا ہے۔ 2001ء میں ورلڈ ایسوسی ایشن آف نیوکلیئر آپریشن (وانو) شامل ہوئے تھے۔ ہمارے 16 افراد بطور ماہرین موجود ہیں۔ ہمیں 2012ء میں پہلا گڈ پریکٹس ایوارڈ ملا تھا۔ 2017ء میں دوبارہ ملا۔ سی میں ملی جذبے کے تحت کام ہوتا ہے۔ ہمیں فنڈز کی کمی کا سامنا ہوتا ہے تو ہم اندرونی طور پر اسے مینج کرتے ہیں۔ بعض اوقات ہم اپنے افسران سے گاڑیاں اور دیگر سہولیات واپس لے کر اپنے اخراجات کو پورا کرتے ہیں۔ واپڈا پر ہمارے 26 ارب روپے واجب الادا ہیں۔ جس میں سے ہر ماہ ایک ارب روپے ہمیں مل جاتے ہیں۔ میں آپ کو دلچسپ بات بتاؤں کہ ہمارے پی اے ای سی کے سابق چیئرمین ڈاکٹر انصر پرویز ابھی تک کرائے کے مکان میں رہتے ہیں۔ عام طور پر لوگ ہمارے بارے میں یہ سوچتے ہیں کہ ہمیں بڑی تنخواہ اور مراعات ملتی ہوں گی۔ ایسا نہیں ہے دیگر اداروں سے موازنہ کریں تو ہمارا اسکیل بہت کم ہے جبکہ ذمہ داری بہت زیادہ ہے۔ پی اے ای سی کی ٹیم چاہتی ہے کہ ملک سے توانائی کے بحران کو ختم کرنے میں زیادہ سے زیادہ کردار ادا کریں۔ چین کے ٹیکنیشنز سے ہمارے عملے کی اتنی اچھی کوآرڈی نیشن ہے کہ ٹیکنیکل اسٹاف نے آپس میں ایک بولی ایجاد کرلی ہے جسے یہ لوگ چردو کہتے ہیں یہ چائنیز اور اردو کے لفظوں کے ملاپ سے بنائی گئی ہے۔
بریفنگ کے اختتام پر درجہ حرارت میں اضافے کے خطرات، سمندری حیاتیات کے مسائل اور انسانی صحت سے متعلق کئے گئے سوالوں کے تسلی بخش جوابات بھی دیئے گئے۔ ماہانہ فیروزاں کے ایڈیٹر محمود عالم خالد کی تجویز پر آئندہ سال بہار کے موسم میں کراچی شہر میں 2 لاکھ درخت لگانے پر بھی اتفاق کیا گیا۔ گلگت بلتستان میں کینسر اسپتال کی تعمیر کا اعلان ہوا۔ رابطہ فورم انٹرنیشنل کے چیئرمین نصرت مرزا نے پی اے ای سی کے حکام کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ نیوکلیئر پاور پراجیکٹس بجلی کی ضروریات پوری کرنے اور ترقی کے لئے ضروری ہیں اس کے خلاف کچھ لوگوں نے بہت منفی پروپیگنڈا کیا لیکن جھوٹ کو کامیابی نہیں ملتی اور ایسا ہی ہوا۔
ہم صحافیوں نے تعلیمی اداروں کے پروفیسرز اور ڈیپارٹمنٹل ہیڈز کے ساتھ مل کر ہر فورم پر اس کی حمایت کی اور عوام کو درست صورتِ حال سے آگاہ کیا۔ میں پی اے ای سی کی ٹیم کو مبارکباد دیتا ہوں اور اُمید کرتا ہوں کہ وہ ملک کی ترقی اور خودانحصاری کے ہدف کو آگے بڑھاتے رہیں گے۔ یہ دورہ ہماری درخواست پر ہوا۔ پی اے ای سی کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے اس شہر کے رہنے والوں کو کے2، کے3 کاوزٹ کرویا۔ آئندہ بھی ہم اپنے ملکی مفاد کے لئے پی اے ای سی کا ساتھ دیتے رہیں گے۔