Monday, May 20, 2024
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

ڈی ایچ اے صفہ یونیورسٹی میں ڈاکٹر ہما بقائی کی کتاب رونمائی خطے میں بالادستی کا بھارتی خواب کبھی پورا نہیں ہوگا

رپورٹ: سید زین العابدین
جیو پالیٹکس اور جیو اکنامکس کے باہمی ربط سے مضبوط خارجہ پالیسی کی تشکیل ہوتی ہے، جنرل خالد احمد قدوائی
قومی سلامتی میں سرحد کے تحفظ کے ساتھ فوڈ سیکیورٹی کو بھی یقینی بنانا ہوگا، سینیٹر جاوید جبار، معاشرے میں بڑھتی انتہاپسندی قومی سلامتی کے لئے خطرناک ہوتی جارہی ہے، ڈاکٹر خالدہ غوث، خطے میں بالادستی کا بھارتی خواب بھی پورا نہیں ہوسکے گا، سابق سفیر قاضی ایم خلیل اللہ، یوکرین جنگ چین کو یورپ کی رسائی سے روکنا ہے، اکرم سہگل، میں نے اپنی کتاب میں خارجہ تعلقات کی نزاکتوں کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے، ڈاکٹر ہما بقائی

جنرل (ر) خالد احمد قدوائی (مشیر اسٹرٹیجک پلان ڈویژن)
ڈاکٹر ہما بقائی کو بین الاقوامی امور پر دسترس حاصل ہے۔ ان کے آرٹیکلز اور مضامین میں خارجہ پالیسی سے متعلق بہت اہم معلومات ہوتی ہیں۔ انہوں نے اپنی کتاب میں چالیس آرٹیکلز کو شامل کیا ہے، جس میں سفارتکاری کی اہمیت اس کی نزاکتیں، خدوخال کو بیان کیا گیا ہے۔ عالمی طاقتوں کی ریشہ دوانیوں تناؤ اور ان کی وجوہات کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ امریکا کی خواہش ہے کہ وہ تنہا عالمی طاقت رہے۔ اس کی سرپرستی میں کوئی چیلنج کرنے والا نہ ہو جبکہ چین بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو (Belt and Road Initiative) کے ذریعے اپنا دائرہ اثر بڑھا رہا ہے۔ چین اور روس کا اتحاد امریکی بالادستی کو چیلنج کررہا ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم اور دوسری ریجنل آرگنائزیشنز کے ذریعے اپنا دائرہ اثر بڑھانے کی کوشش کررہے ہیں۔ بھارت مشرق وسطیٰ کے ملکوں کے ساتھ سو بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کی بات کررہا ہے۔ مڈل ایسٹ کوریڈور پر گفتگو ہورہی ہے، گرین پاکستان کے منصوبے کے لئے پاکستان میں سعودی عرب کی 25 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری اہمیت کی حامل ہوگی۔ ڈاکٹر ہما بقائی نے اپنی کتاب میں عالمی اور علاقائی تنازعات میں گھرے ملکوں کی پوزیشنز کا بڑا تفصیلی ذکر کیا ہے اور ان ملکوں کے درمیان جاری باہمی تجارت کی اہمیت کو بھی اُجاگر کیا ہے۔ یہ کتاب سفارتکاری اور خارجہ تعلقات کے حوالے سے انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔
سینیٹر جاوید جبار
خارجہ پالیسی امور سفارتکاری کی بہت سی جہتیں ہوتی ہیں، 70 کی دہائی سے قبل ہماری خارجہ پالیسی پر امریکی غلبہ تھا۔ پھر بھٹو صاحب کے دور میں چین سے مضبوط اور مستحکم تعلقات کی شروعات ہوئی، پاکستان کے ذریعے چین عالمی برادری سے منسلک ہونے لگا ہر خطے کی خارجہ پالیسی اور سفارتی تعلقات وہاں کے حالات اور علاقائی تنازعات کے مطابق ہیں۔ امریکا اور چین کے درمیان بالادستی کی جنگ بھی جاری ہے اور بلینز ڈالرز کی تجارت بھی ہورہی ہے۔ جتنی درآمدات چین امریکا سے کرتا ہے اس کا تین گنا مال امریکا چین سے لیتا ہے۔ جاپان کو جنوبی کوریا اور امریکا کا الائنس اہمیت کا حامل ہے۔ دوسری جانب روس چین اکٹھے ہیں، البتہ خطے میں بھارت امریکی بھٹو بننے کی کوشش کررہا ہے لیکن پاکستان کی تزویراتی اہمیت اپنی جگہ مسلمہ ہے۔ ہماری خارجہ پالیسی ہر دور میں ملکی مفاد کے مطابق رہی۔ روس نے افغانستان میں مداخلت کی تو پاکستان کے لئے کیسے ممکن تھا کہ وہ اس کی روک تھام نہ کرے۔ البتہ مذہبی انتہاپسندی کے خلاف ہمیں ٹھوس اقدامات کرنا ہوں گے۔ ڈاکٹر ہما بقائی نے 2018ء سے 2022ء تک کے اہم عالمی واقعات کا ذکر کیا ہے۔ یہ کتاب سفارتکاری اور خارجہ امور کو سمجھنے کے لئے انتہائی موزوں ہے۔
ڈاکٹر خالدہ غوث
میں نے ڈاکٹر ہما بقائی کی کتاب کو ایک شام میں پڑھا، انہوں نے اپنے منتخب آرٹیکلز میں جس انداز سے سفارتکاری کی اہمیت کو بیان کیا ہے وہ نہ صرف طلبا بلکہ پالیسی سازوں کے لئے بھی رہنمائی کا ذریعہ ہے، ہمیں عالمی برادری سے خارجہ امور میں معذرت خوانہ رویہ اختیار پیش کرنا چاہئے، خصوصاً بھارت کے معاملے میں تو دوٹوک اور ٹھوس موقف اختیار کرنا چاہئے۔ بھارتی حکومت نے مقبوضہ کشمیر کے معاملے پر جنیوا معاہدے کی کھلی خلاف ورزی کی ہے۔ اپنے ہی آئین کے آرٹیکل 370 اور 35-A کو معطل کرکے عالمی اصولوں سے انحراف کیا ہے، ڈاکٹر ہما بقائی نے اس کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ نیشنل سیکیورٹی پلان کو خطرات جارح پڑوسی کے باعث ہوتے ہیں، اس کے ساتھ غربت، بے روزگاری، عدم برداشت، بدترین حکمرانی بھی نیشنل سیکیورٹی کو متاثر کرتی ہیں، مذہبی انتہاپسندی کا بڑھنا بھی خطرناک ہے، ہما بقائی نے خطے میں پاکستان کی اہمیت اور اس کے کردار کو جس انداز سے ذکر کیا ہے وہ قابل تحسین ہے۔
قاضی ایم خلیل اللہ (سابق سفیر، ڈائریکٹر سینٹر فار انٹرنیشنل اسٹرٹیجک اسٹڈیز سندھ)
ڈاکٹر ہما بقائی نے اپنی کتاب میں خطے اور عالمی تناعات کا جس انداز سے ذکر کیا ہے وہ انتہائی معلوماتی ہے۔ انہوں نے 2018ء سے 2022ء تک کے اہم عالمی واقعات کو قلم بند کیا ہے، افغانستان سے امریکی افواج کا انخلاء اور اس کے خطے پر اثرات کو بیان کیا ہے، بھارت اور پاکستان کے تعلقات کا ذکر کیا ہے، بالاکوٹ آپریشن جس میں بھارت کو ناکامی کا سامنا رہا جبکہ چین سے گلوان وادی میں محدود لڑائی پر بھی اُسے ہزیمت اٹھانا پڑی۔ خطے میں بھارتی بالادستی کی خواہش کا پورا نہ ہونے کا ذکر اس کی وجوہات کو بیان کی ہے، گزشتہ دو عشرے سے روس پاکستان کے درمیان بڑھتے سفارتی تعلقات کا ذکر کیا ہے کہ یہ پاکستان کی توانائی کی ضروریات کے لئے کتنا مفید ہے۔ انہوں نے روس، چین اور امریکا کے درمیان بڑھتے تناؤ کی وجوہات اور اس کے تدارک کے جو نکات بیان کئے ہیں وہ انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔
اکرام سہگل (دفاعی تجزیہ کار بین الاقوامی امور)
ڈاکٹر ہمابقائی نے اپنے مضامین میں سے جن آرٹیکلز کو کتاب کا حصہ بنایا ہے وہ انتہائی اہم ہیں، انہوں نے امریکی اہداف و مفادات اور چین و روس سے اس کی سردجنگ کا حوالہ دیا ہے۔ تینوں عالمی طاقتوں کے دنیا کے مختلف خطوں میں لائنیں ہیں اور مفادات ہیں خارجہ پالیسی کبھی مشکل نہیں رہی، بلکہ یہ حالات واقعات کے مطابق تبدیل ہوتی رہتی ہے، حالیہ یوکرین روس جنگ دراصل چین کو یورپ تک بھارت کی درپردہ حمایت اُسے چین و پاکستان کے سامنے کھڑا کرنے کے لئے ہے، حالانکہ افغان جنگ میں پاکستان کی مدد کے بغیر امریکی افواج کا نکلنا ناممکن تھا، ہم گزشتہ چالیس سال سے افغان مہاجرین کو پناہ دے رہے ہیں، اب بھی پاکستان کی حمایت سے افغان حکمران قدم جمانے میں کامیاب ہوئے۔ ہمیں انہی خارجہ پالیسی کو قومی مفاد کے تحت تشکیل دینا ہے اور اس کا تسلسل رکھنا ہے، پاکستان ایران گیس پائپ لائن کی تزویراتی اہمیت ہے، اس کی تکمیل انتہائی ضروری ہے۔ ڈاکٹر ہما بقائی نے ان تمام اہم واقعات کو بڑی تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔
انجینئر پروفیسر محمد افضل حق (وائس چانسلر
(ڈی ایچ اے صفہ یونیورسٹی)
ڈاکٹر ہما بقائی بین الاقوامی امور کی ماہر ہیں، انہوں نے 2018ء سے 2022ء تک کے عالمی واقعات کا ذکر اپنے آرٹیکلز میں کیا اور پھر ان میں سے منتخب مضامین کو کتاب کی شکل دی، یہ کتاب سفارتکاری اور خارجہ امور، عالمی تنازعات، بڑی طاقتوں کے درمیان جاری رسہ کشی کو سمجھنے کے لئے انتہائی معلوماتی ہے۔ جدید دنیا میں خارجہ پالیسی کا گہرا ربط مضبوط معیشت سے ہے۔ ڈاکٹر ہما بقائی نے اس کا بڑی تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ ان کی کتاب میں عالمی معلومات کا خزانہ ہے۔
ڈاکٹر ہما بقائی
میں تمام مہمانوں کی مشکور ہوں جنہوں نے میری کتاب پر رائے کا اظہار کیا، خاص طور پر لیفٹیننٹ جنرل (ر) خالد احمد قدوائی، سابق سفیر قاضی ایم خلیل اللہ، میری استاد ڈاکٹر خالدہ غوث، ڈاکٹر قیصر بنگالی جن کی رہنمائی میں لکھنا سیکھا، میرے سنیئر سینیٹر ڈاکٹر جاوید جبار جنہوں نے آئی بی اے میں بہت ساتھ دیا، ان کی وجہ سے ملک سے باہر پڑھنے جاسکی اور DHA صفہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر انجنیئر پروفیسر محمد افضل حق کی ممنون ہوں کہ انہوں نے اپنا پلیٹ فارم دیا، سابق گورنر سندھ جنرل (ر) معین الدین حیدر، رابطہ فورم انٹرنیشنل کے چیئرمین نصرت مرزا صاحب، سینئر صحافی مظہر عباس اور ان تمام لوگوں کی شکرگزار ہوں جنہوں نے اس تقریب میں شریک ہو کر مجھے عزت بخشی انشاء اللہ اس کتاب کی رونمائی کی ایک اور تقریب آئندہ بھی منعقد کریں گے۔

مطلقہ خبریں