Sunday, July 13, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

ڈالراور مہنگائی کی اْڑان

ضیا الحق سرحدی

گزشتہ ماہ عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کا ایک وفد مشن ہیڈ کی سربراہی میں پاکستان کے دورے پر آیا، ان کے اور حکومتی مذاکرات کے دوران ہی ڈالر نے خوب اڑان بھری جو واقفان حال ہیں۔ انہوں نے محض دو ہی دن میں قریباً 50 ارب روپے کی دیہاڑیاں لگا لیں اور مقروض ملک جو مزید قرض کے حصول کے لئے منتیں، ترلے کرنے کے ساتھ یقین دہانیاں کرا رہا ہے کہ ماضی میں لئے گئے قرضے میں چند گھنٹوں میں ہی روپے کی قدر گرنے سے 6 سے 7 ارب ڈالر کا اضافی بوجھ پڑ چکا ہے، ایسا کیوں ہوا؟ اتنی اندھیر نگری اس ملک میں کیوں ہے؟ عام آدمی یہ نہیں جان سکتا، ایسا کرنے والی قوتیں بہت ہی مقتدر اور پْراسرار ہوتی ہیں جو ایسا کھیل کئی دہائیوں سے کھیل رہی ہیں، انہیں کوئی کچلنے والا نہیں، کوئی دبانے والا نہیں، سمجھ نہیں آرہا کہ آخر ایسا ہوا کیوں؟ حالانکہ کوئی ایسی بات نہیں تھی کہ ڈالر کی قیمت یوں چڑھتی اور روپے کی یوں بے قدری ہوتی یا منفی اثر پڑتا، جاننے والے جانتے تھے کہ حکومت مزید قرضہ لینے اور کشکول اٹھانے کے لئے مجبور ہوچکی ہے اور آئی ایم ایف پہلے ہی ایک عرصے سے روپے کی قدر کم کرنے پر زور دے رہا تھا، ماہرین کے مطابق اسٹیٹ بینک کی جانب سے اس موقع پر کوئی واضح موقف سامنے نہ آنے پر اوپن مارکیٹ بے یقینی کا شکار ہوتی چلی جا رہی ہے۔ معیشت ناصرف منفی اثرات بلکہ ڈالر کی قدر میں تاریخی اْڑان فی ڈالر 111روپے کی حد بھی کراس کر گیا، مزید تیزی متوقع ہے جس سے معیشت پر منفی ہی نہیں بلکہ سنگین ترین نتائج سامنے آئیں گے۔ مہنگائی کا ناصرف طوفان عوام کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا جس میں بجلی، پیٹرولیم مصنوعات سمیت درآمدی غذائی و دیگر اشیاء کی قیمتیں بڑی حد تک بڑھ جائیں گی۔
ایک اندازے کے مطابق بعض ضروری چیزوں کے نرخوں میں 8 فیصد تک اضافہ ہوچکا ہے۔ ملک میں کیا ہو رہا ہے اور اس وقت مہنگائی کس نہج پہ پہنچ چکی ہے کسی حکومتی نمائندے کو توفیق نہیں کہ وہ اس بارے میں آ کر اپنی تاویلیں پیش کرے۔ ہمارے ملک کا وزیر خزانہ اسحاق ڈار جس پر کرپشن کے سنگین چارج ہے وہ گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے لندن میں زیرِعلاج ہے، یہاں کیا ہو رہا ہے اس سے ان لوگوں کو کوئی فرق نہیں پڑ رہا۔ پچھلے چند ہفتوں کے دوران ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کچھ استحکام آیا تھا، بعدازاں اسٹیٹ بینک کی مداخلت سے ملکی کرنسی کی قدر میں اگرچہ کچھ استحکام آیا جو قریب دو ماہ تک برقرار رہا۔ ایک اندازے کے مطابق موجودہ حکومت کے دور میں صرف ڈالر کی قدر میں اضافے کی وجہ سے ملکی قرضوں میں 320 ارب روپے سے زائد کا اضافہ ہوچکا ہے۔ ڈالر کی قدر میں استحکام نہیں آتا اور ملکی کرنسی ڈالر کے مقابلے میں مزید کمزور ہوتی ہے تو معیشت کے لئے اس کے اثرات تباہ کن ہوں گے۔ صرف رواں سال کے دوران ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں سات فیصد سے زائد اضافہ ہوچکا ہے۔
پچھلے 12 برسوں کا حساب دیکھیں تو خوفناک صورتِ حال سامنے آتی ہے کہ 2001ء میں ایک ڈالر کی قیمت 59 روپے لے لگ بھگ تھی جبکہ نومبر 2013ء میں یہ 109روپے تک پہنچ گئی۔ یعنی اس دوران ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی کرنسی کی قدر میں 85 فیصد تک کمی آئی ہے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدوں نے ملکی معیشت کو کس طرح مزید کمزور کیا ہے۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ اوپن مارکیٹ میں کرنسی کی قیمت پر کنٹرول رکھنے کے لئے اسٹیٹ بینک کی مداخلت بے حد اہم تھی تاہم آئی ایم ایف کی ہدایت کے مطابق اسٹیٹ بینک اب ایسا نہیں کرسکتا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اوپن مارکیٹ میں کرنسی کی قدر کا دارومدار ڈیمانڈ اینڈ سپلائی پر ہے، اگر ڈالر کی طلب زیادہ ہوگی تو مارکیٹ اوپر چلی جائے گی۔ دوسرے لفظوں میں کرنسی مافیا کو کھلی چھٹی مل گئی ہے کہ وہ جب چاہیں ڈالر کا بحران پیدا کر کے ملکی معیشت کی گردن دبوچ لیں۔
ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر کم ہو رہی ہے اس کی کئی وجوہات ہیں۔ ایک تو گزشتہ چند برسوں میں تجارتی خسارہ بہت بڑھ چکا ہے، جو تقریباً 30 ارب ڈالر ہے۔ اس خسارے کو پورا کرنے کے لئے دوبارہ فنانسنگ کی ضرورت پڑے گی، جس کے لئے شاید ہمارے پاس اتنے زیادہ وسائل نہ ہوں، اس کے علاوہ آئندہ چند ماہ میں قرضوں کی ادائیگی بھی کرنی ہے۔ اگر ہم نے برآمدات کو بڑھانا ہے تاکہ وہ بین الاقوامی مارکیٹ میں مقابلہ کرسکیں تو اس کے لئے روپے کی قدر کو کم کرنا پڑے گا تاکہ برآمدات سستی ہوں۔
حکومت کی بنیادی ایجنڈا اصلاحات ہونا چاہئے تاکہ ایک ایسا ماحول بنے جس میں سرمایہ کاری ہو اور منافع بھی تاکہ کاروبار دنیا بھر کے کاروباروں کا مقابلہ کرسکیں۔ جب کوئی چیز دباؤ میں آتی ہے تو اس پر افواہوں کا بھی دباؤ بڑھتا ہے چونکہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بڑھتا جا رہا ہے جو اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ کرنسی کی قدر جو ہونی چاہئے، اس سے زیادہ ہے اور جب اس کو بڑھائیں گے تو بتدریج خسارہ کم ہونا شروع ہوگا۔ لہٰذا روپے کی قدر پر دباؤ حقیقی ہے مگر یہ بات بھی درست ہے کہ پھر افواہیں بھی اپنا کردار ادا کرتی ہیں۔ روپے کی قدر میں کمی سے ایک نقصان تو یہ ہوگا کہ غیرملکی کرنسی میں قرضوں کا بوجھ اور زیادہ بڑھ جائے گا کیونکہ اگر ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قیمت مزید ایک روپیہ کم ہوتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ 70 ارب ڈالر کے قرضوں میں 70 ارب روپے کا اضافہ ہوجائے گا، دوسری طرف درآمدات بھی مہنگی ہوں گی۔ افراط زر میں بھی اضافہ ہوسکتا ہے اور چونکہ اشیاء تیار کرنے کے لئے خام مال بھی درآمد کیا جاتا ہے تو ان کی قیمتیں بڑھنے سے اشیاء کی پیداواری لاگت میں بھی اضافہ ہوگا، جس سے معاشی ترقی کی رفتار بھی کم ہوسکتی ہے، اسی طرح جو منصوبے لگ رہے ہیں ان کی لاگت میں بھی اضافہ ہوگا جس سے وہ کارآمد نہ رہنے کا خدشہ بھی پیدا ہوسکتا ہے، ان سب چیزوں کو دیکھنے کی ضرورت ہے تاہم اس کا مثبت پہلو یہ ہے کہ اگر برآمدات بڑھ جاتی ہیں اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو قابو کر لیتی ہیں تو پھر ادائیگی کے توازن میں جو مسائل ہیں وہ کم ہوجائیں گے۔ بجٹ خسارہ بھی حدوں کو چھو جائے گا، جس پر حکومت اس سے ہٹ کر مہنگائی کا ایک اور بم عوام پر گرائے گی۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے موجودہ دور میں ملکی تاریخ کے سب سے زیادہ قرض لیے گئے ہیں اور ہر شہری پر 97535 روپے قرض کا اضافی بوجھ ڈالا گیا۔ یاد رہے کہ مسلم لیگ (ن)کے موجودہ صدر میاں محمد نواز شریف ہی نے اپنے سابق دور میں ’’قرض اتارو، ملک سنوارو‘‘ کا نعرہ دے کر ملک کو آئی ایم ایف اور عالمی بینک کے چنگل سے آزار کرانے کا اعلان کیا تھا۔ ملک کے کروڑوں عوام نے اس مقصدکے لئے رقوم دیں، یہاں تک کہ خواتین نے اپنے زیور تک اس مشن کے حصول کے لئے عطیات کر دیئے۔ اس سب کا نتیجہ یہ ہوا کہ قرض کا حجم تو یوں کا توں رہا مگر ’’قرض اتارو، ملک سنوارو‘‘ کا نعرہ دینے والوں کی نسلیں تک سنور گئیں۔ پاکستان کی تاریخ کے 70 برس میں کسی ایک سال میں لیا جانے والا سب سے زیادہ قرضہ 10 ارب 55 کروڑ ڈالر رواں برس لیا گیا۔ میاں نواز شریف کی حکومت نے چار سال میں 35 ارب ڈالر قرض لیا، جو بذات خود ریکارڈ ہے۔
معاشی خوشحالی کی نوید سنا سنا کر نہ تھکنے والے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی پالیسیوں کی بدولت اس وقت ملک کے اہم ترین اور حساس ترین مقامات جن میں متعدد ایئرپورٹ اور ریڈیو پاکستان کی عمارات تک شامل ہیں، گروی رکھ کر قرض لیے گئے۔ اس دور میں کوشش کی گئی کہ ہر اس چیز کو گروی رکھ دیا جائے جو ملک کا ’’اثاثہ‘‘ ہے۔ نوبل انعام یافتہ بھارتی پروفیسر امریتاسین اور پاکستانی ماہر اقتصادیات ڈاکٹر محبوب الحق نے 1990ء میں نظریہ پیش کیا تھا ’’کسی ملک کی ترقی ناپنے کا فارمولا کل قومی پیداوار و آمدنی دیکھنے کے بجائے یہ ہونا چاہئے کہ ایک عام شہری قومی دولت و ترقی میں کتنا حصہ دار ہے‘‘۔ ملکی تاریخ میں بے روزگاری، مہنگائی، کرپشن، بدامنی، میرٹ کا قتلِ عام اور لاقانونیت اپنی انتہاؤں کو چھو چکی۔ ملک کے پڑھے لکھے اور ہنرمند افراد کسی بھی طرح بیرون ملک جانے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ ملک انسانی اسمگلروں کی جنت بن چکی ہے، آئے روز ایسے سانحات منظر عام پر آتے رہتے ہیں جن سے ملکی معیشت کی حالت کا دگرگوں ہونا ظاہر ہوتا ہے۔ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جس کی ترقی اور بہتری کی واحد سیڑھی بہت بڑی تعداد میں نوجوان افرادی قوت ہے مگر افسوس کہ حکمرانوں کی عاقبت نااندیش پالیسیوں کے باعث یہی افرادی قوت کسی بھی طرح کسی بھی ذریعے سے باہر جانے کی کوشش میں ہے۔ حکمران ملک سے عدم اعتمادی اور افراتفری کی فضا کا خاتمہ کریں اور روزگار کی فراہمی کا بندوبست کریں۔ سیاست دان دنیا بھر میں پھیلے اپنے اثاثہ جات واپس لائیں اور یہاں کاروبار کریں تاکہ ملک میں روزگار ملے اور خوشحالی کا حقیقی دور دورہ ہو۔

مطلقہ خبریں