بشیر احمد چوہدری
یوم دفاعِ پاکستان ہمیں اس دن کی یاد دلاتا ہے، جب پاکستان کے شہیدوں، جری جوانوں نے اپنی سرحدوں کے بہادر اور غیّور پاسبانوں کی فہرست میں اپنا نام رقم کیا۔ ان کا یہ ہی جذبۂ شجاعت تھا، جس نے پاکستانی عوام کے ساتھ مل کر اپنے سے پانچ گنا بڑے اور جدید اسلحہ سے لیس دشمن کے ناپاک ارادوں کو خاک میں ملا دیا۔
اس جنگ کا پس منظر یہ تھا کہ 1962ء میں بھارت نے چین کو دعوت مبارزت دی مگر منہ کی کھائی۔ چین ازخود جنگ بند نہ کردیتا تو بھارت صدیوں تک ذلت کے داغ دھو نہ سکتا۔ 1965ء میں بھارت نے رن کچھ کے محاذ پر پاکستان سے پنجہ آزمائی کی مگر ذلت اٹھانا پڑی، جس پر بھارتی وزیراعظم نے اعلان کیا کہ اب ہم مرضی کا محاذ منتخب کر کے پاکستان کو مزا چکھائیں گے۔ چنانچہ بھارت نے 6 ستمبر کو اچانک لاہور کے تین اطراف سے حملہ کردیا۔ میجر جنرل نرنجن پرشاد کی قیادت میں پچیسویں ڈویژن ٹینکوں اور توپ خانے کی مدد سے آگے بڑھ رہا تھا۔ ستلج رینجرز کے مٹھی بھر جوانوں نے ان کا راستہ روک لیا۔ ان کی پلٹنوں کے تمام جوان آخری گولی اور آخری سانس تک لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کر گئے۔ بھارتی فوج پو پھٹنے تک بہ مشکل تین میل آگے بڑھ سکی۔ اس محاذ پر پاک فوج صرف سات بٹالینوں پر مشتمل تھی اور محاذ میلوں لمبا تھا۔ لاہور میں داخل ہونے کے لئے باٹا پور کے پل پر قبضہ ضروری تھا۔ چنانچہ ایک پورے بھارتی بریگیڈ اور ایک ٹینک رجمنٹ نے دوسرا حملہ کردیا۔ لاہور کو بھارتی یلغار سے بچانے کے لئے نہر بی آر بی کا پل تباہ کرنا بہت ضروری تھا۔ دن کو یہ کام ناممکن تھا۔ دشمن نے پل کے دائیں بائیں گولوں کی بوچھاڑ کر رکھی تھی۔ پل تک دھماکہ خیز بارود لے جانے کی کوشش میں ایک جوان شہید ہوگیا۔ اس کے بعد چند رضاکاروں نے ہزاروں پونڈ وزنی بارود ایک گڑھے میں اتارا۔ اس پر ریت رکھ کر آگ لگانے والی تاروں کو جوڑا اور گولیوں کی بوچھاڑ کو چیرتے ہوئے واپس آگئے۔ ان کا واپس آنا ایک معجزے سے کم نہ تھا۔ یوں لاہور میں داخل ہونے کی بھارتی امیدیں خاک میں مل گئیں۔ اس کے بعد 17 دنوں کے دوران بھارتی فوج نے 13 بڑے حملے کیے مگر ایک انچ بھی آگے نہ بڑھ سکی۔
باٹا پور سے شکست کھانے کے بعد بھارت نے بھینی کے محاذ پر دباؤ سخت کردیا۔ یہ مقام باٹا پور سے سات میل شمال کی طرف واقع ہے۔ دشمن کا ارادہ تھا کہ وہ لاہور شہر کو ایک طرف چھوڑ کر بھینی کے راستے محمود بوٹی کے بند پر پہنچے اور وہاں سے راوی کے پل پر قبضہ کر کے لاہور کو راولپنڈی سے کاٹ دے۔ چنانچہ یہاں دشمن نے 19 حملے کیے اور تقریباً ڈیرھ ہزار گولے برسائے مگر ہر حملے میں منہ کی کھائی۔
برکی سیکٹر پر دشمن نے ایک ڈویژن اور دو بریگیڈوں کی مدد سے حملہ کیا۔ پنجاب رجمنٹ کی ایک کمپنی اس پر ٹوٹ پڑی اور پورے 9 گھنٹے تک دشمن کی یلغار روکے رکھی۔ دشمن نے دوبارہ صف بندی کرنے کے بعد حملہ کیا تو پاکستان کی ٹینک شکن رائفلوں اور توپ خانوں کے گولوں نے دشمن کو آڑے ہاتھوں لیا۔ 10 ستمبر تک دشمن نے چھ حملے کیے، جنہیں پسپا کردیا گیا۔
10 اور 11 ستمبر کی درمیانی شب دشمن نے پہلے سے زیادہ قوت کے ساتھ حملہ کیا۔ میجر عزیز بھٹی شہید نے رات بھر دشمن کو روکے رکھا۔ صبح کے قریب دشمن نے نہر کی طرف سے بھی گاؤں کو محاصرے میں لے لیا تو میجر عزیز بھٹی نے نہر کے مغربی کنارے پر جانے کا فیصلہ کیا۔ ستمبر کی صبح وہ ذاتی سلامتی سے بے نیاز ہو کر نہر کے کنارے ایک اونچی اور کھلی جگہ پر کھڑے اپنے جوانوں کی قیادت کر رہے تھے اور اسی مقام پر انہوں نے لڑتے ہوئے جامِ شہادت نوش کیا، انہیں سب سے بڑا فوجی اعزاز نشان حیدر دیا گیا۔
بھارتی ہائی کمانڈ نے بھیکی ونڈ اور کھیم کرن کے نواح میں تقریباً دو ڈویژن فوج صف آرا کی۔ اس محاذ پر ضلع لاہور کے سرحدی گاؤں بیدیاں کو پیش قدمی کے آغاز کے لئے منتخب کیا گیا۔ اس رات یہاں پاکستانی فوج کی صرف ایک بٹالین موجود تھی۔ اگلے دفاعی مورچوں میں فرسٹ ایسٹ بنگال رجمنٹ کی صرف ایک کمپنی صف آرا تھی۔ یہاں دشمن نے 14 بڑے حملے کیے مگر ایک انچ آگے نہ بڑھ سکے۔ اس کے بعد دشمن نے کھیم کرن پر حملہ کیا، اس کی فضائیہ بھی کود پڑی مگر جلد پسپا ہوگئی۔ دشمن کے سات ٹینک تباہ ہوئے اور 8 ستمبر کو کھیم کرن پر پاکستان کا قبضہ ہوگیا۔ ضلع ساہیوال کی طرف سے موضع نور کی چوکی صرف ایک پاکستانی پلاٹون نے شب خون مار کر فتح کرلی۔ اس کے بعد دشمن نے موضع پکا میں دفاعی پوزیشن لے لی۔
لاہور پر حملے کے 24 گھنٹے بعد بھارتی فوج نے تقریباً پانچ سو ٹینک اور پچاس ہزار فوج کے ساتھ سیالکوٹ پر اچانک حملہ کردیا۔ پاکستان کی طرف سے صرف سوا سو ٹینک اور تقریباً 9 ہزار جوان میدان میں آئے۔ بھارتی منصوبہ یہ تھا کہ پہلے جسٹر پھر سچیت گڑھ پر حملہ کیا جائے۔ یہاں پاکستانی فوج کو الجھا کر حملہ آور پسرور سے ہو کر جی ٹی روڈ پر پہنچنا چاہتا تھا۔ جسٹر پر پاک فوج نے صرف دو بٹالینوں کے ساتھ حملہ آور کا مقابلہ کیا۔ ادھر سچیت گڑھ میں بریگیڈیر ایس ایم حسین نے دشمن کو ناکوں چنے چبوا دیئے تھے۔ بھارتی فوج نے چونڈہ کے محاذ پر حملہ کیا تو اس محاذ پر پیدل فوج کی دو بٹالین اور ایک آرمرڈ رجمنٹ دشمن کے استقبال کو موجود تھیں۔ یہاں پاکستان کے صرف تیس ٹینکوں نے بھارت کے ایک سو دیوہیکل ٹینکوں کو پسپا ہونے پر مجبور کردیا۔
دشمن کا پروگرام 24 گھنٹے کے اندر چونڈہ سے آگے بڑھ جانا تھا مگر 72 گھنٹے بعد بھی وہ ایک انچ آگے نہ بڑھ سکا چنانچہ وہ مزید طاقت لے کر میدان میں اترا اور اس طرح دوسری عالمی جنگ کے بعد ٹینکوں کی جنگ کا دوسرا بڑا میدان گرم ہوا۔ بھارتی فوج نے 17 ستمبر کو چونڈہ کے مغرب میں ریلوے لائن سے سڑک کی طرف پیش قدمی شروع کردی، جہاں ہمارے افسر اور جوان گھات لگائے بیٹھے تھے۔ پاکستانی فوج نے ٹینکوں کے انجن بند کر دیئے تھے، دشمن بے خبری میں اپنی کمین گاہ سے پوری طرح نکل آئی تو انہوں نے فائرنگ کا حکم دے دیا۔ اس معرکے میں دشمن کے صرف 105 سپاہی زندہ بچے، جنہیں گرفتار کرلیا گیا۔
بھارت چاہتا تھا کہ پاکستانی فوج کو کارگل سے لے کر تھرپارکر تک تقریباً ڈیڑھ ہزار میل لمبی سرحد پر پھیلا کر کمزور کردیا جائے، چنانچہ راجستھان کے محاذ پر بھارتی فوج کی ایک پیدل بٹالین نے ٹینکوں کے دو اسکوارڈرنز کی مدد سے گدرو پر حملہ کردیا۔ یہاں مْٹھی بھر رینجرز نے دشمن کی یلغار کو تین گھنٹے روکے رکھا۔ 9 ستمبر کو آگے بڑھ کر مونا باؤ پر گولہ باری شروع کردی۔ اس اسٹیشن سے بھارتی فوج کو رسد پہنچ رہی تھی۔ صرف 17 گولے برسائے گئے تھے کہ دشمن کی فوج میں کھلبلی مچ گئی۔ مونا باؤ پر قبضہ کرنے سے دشمن کی سپلائی کٹ گئی۔ اس معرکے میں سندھ کے حْر مجاہدین بھی فوج کے دست و بازو بنے۔ سندھ کے محاذ پر روہڑی، کھاری، جے سندھ اور متراکی فوجی چوکیوں پر پاکستانی جوانوں نے قبضہ کرلیا۔ یوں بھارتی فوج 1200 مربع میل گنوا بیٹھی۔
چھمب پر بھارت سے پہلی فضائی جھڑپ ہوئی۔ چند لمحوں میں دشمن کے چار ویمپائر طیاروں کو مار گرایا۔ اس کے بعد اس محاذ پر اسکواڈرن لیڈر ایم ایم عالم اور فلائٹ لیفٹیننٹ یوسف علی خان نے دشمن کی زمینی فوج کو بے بس کر کے رکھ دیا۔ پاک فضائیہ کے ایک اسٹار فائٹر ایف 104 نے دشمن کا جہاز پسرو اڈے پر اتار کر اسکواڈرن لیڈر برج پال سنگھ کو گرفتار کیا۔ 6 ستمبر کو بھارت نے پاکستان پر فضائی حملہ بھی کردیا۔ پاک فضائیہ کے دو اسٹار فائٹروں نے دشمن کے چار طیاروں کا مقابلہ کیا اور وہ ایک کو گرا بھی لیا۔ لاہور پر بھارتی فوج کے حملے کے بعد پاکستان کے چھ سیبر طیارے فضا میں یک دم نمودار ہوئے اور بیس منٹ تک دشمن پر بم، راکٹ اور گولیاں برسائیں۔ پٹھان کوٹ ہوائی اڈے کی تباہی نے بھارتی فضائیہ کی کمر توڑ دی۔ اس کارنامے کے بھی سرخیل سجاد حیدر تھے۔ انہوں نے نہایت نیچی پرواز کر کے دشمن کے 12 جنگی اور 2 ٹرانسپورٹ طیارے اڈے پر کھڑے کھڑے ہی تباہ کر دیئے اور اڈے کو ناقابلِ استعمال کردیا۔
فضائی تاریخ کا ناقابل فراموش معرکہ ایم ایم عالم کا ہے۔ انہوں نے سرگودھا کے قریب ایک ہی جھڑپ میں چند سیکنڈ کے اندر دشمن کے پانچ طیارے گرا کر عالمی ریکارڈ قائم کردیا۔ 21 ستمبر کو سحر سے ذرا پہلے ونگ کمانڈر نذیر لطیف اور اسکواڈرن لیڈر نجیب احمد خان نے 2 بی 57 بمبار طیاروں کے ذریعے دشمن کے ہوائی اڈے کو بموں کا نشانہ بنایا اور یوں انبالہ کے دفاعی نظام کا غرور خاک میں ملا دیا۔ 17 روز جنگ کے دوران پاکستان کے جرأت مند ہوابازوں نے 35 طیاروں کو دوبدو مقابلے میں اور 43 کو زمین پر ہی تباہ کردیا تھا۔ 32 طیارے، طیارہ شکن توپوں کا نشانہ بنے۔ بھارت کے مجموعی طور پر 110 طیارے تباہ کیے گئے۔ ہماری فضائیہ نے دشمن کے 149 ٹینک 200 بڑی گاڑیاں اور 20 بڑی توپیں بھی تباہ کیں جبکہ ہمارے صرف 19 طیارے تباہ ہوئے۔
جنگ ستمبر میں پاک بحریہ کو سمندری جنگ کے معرکوں میں جو برتری حاصل رہی، ان میں معرکہ دوارکا قابل ذکر ہے۔ یہ معرکہ پاک بحریہ کی تاریخ میں یادگار ہے۔ دوارکا کی تباہی کا بیرونی اخبارات میں بڑا چرچا ہوا۔ برطانوی اخبارات نے تو خاص طور پر کہا کہ پہلی جنگ عظیم کے بعد بھارت کی سرزمین پر سمندر کی جانب سے پہلی گولہ باری ہوئی ہے۔ انہوں پاک بحریہ کی مستعدی کی تعریف کی۔
اس موقع پر جہاں پاکستان کی تینوں مسلح افواج ہر محاذ پر برسرپیکار تھیں، وہاں لاہور کے عوام کا جذبہ بھی بت مثال اور دیدنی تھا۔ پاکستانی عوام فضا میں پاک فضائیہ کے شاہینوں کی کارروائیاں ایسے دیکھتے، جیسے پتنگ بازی ہورہی ہے، دشمن کا طیارہ گرتا تو چھتوں پر بوکاٹا کا شور مچتا۔