منیر احمد بلوچ
بھارتی شہر پونا میں میزائل تیار کرنے والے سینٹر پریمئر ہائی اینرجی مٹیریل رسرچ لیبارٹری حیمرل میں گزشتہ مہینے 12 جون سے 20 جون کے دوران، یعنی صرف سات دن کے اندر اندر دو خوفناک دھماکے ہوئے۔ ایک دھماکہ بروز منگل ساڑھے 12 بجے کے قریب ہوا جس میں ایک سینئر اہلکار لکشمی کانت سناون ہلاک اور یوگیش کرتیکار شدید زخمی ہوگیا۔ اس دھماکے کی آواز چونکہ دور دور تک سنی گئی اس لئے جلد ہی میڈیا کو اس کی خبر ہوگئی لیکن چونکہ کسی میڈیا والے کو لیبارٹری کے اندر جانے کی اجازت نہیں دی گئی تھی اس لئے فوری طور پر یہ معلوم نہ ہوسکا کہ یہ دھماکہ کس نوعیت کا تھا اور یہ کیسے ہوا؟
کئی سوالات ہیں جن کے جوابات تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ بھارت کے حساس ترین سیکورٹی زون میں واقع ہونے کے باوجود ہرمل لیبارٹری میں یہ دھماکہ کیا، کسی فنی خرابی کی وجہ سے ہوا یا یہ کسی انجینئر کی جانب سے کی گئی غفلت کا نتیجہ تھا یا پھر کسی تخریبی کارروائی کا نتیجہ تھا؟ اس دھماکے کے بعد جب وہاں سے ایمبولینسیں ایک ایک کرکے تیز رفتاری سے نکلنے لگیں تو سب کو دھماکے کی شدید نوعیت کا احساس ہونے لگا تاہم میڈیا کو بتایا گیا کہ کوئی زیادہ جانی نقصان نہیں ہوا۔ تقریباً دو گھنٹے بعد ہرمل کے ڈائریکٹر سبا نند راؤ نے لیبارٹری کی حدود سے باہر میڈیا کے سوالات کے جواب دیتے ہوئے مختصر طور پر بس اتنا کہا:
اٹ واز ناٹ آ بگ بلاسٹ ایز سچ آ کومپوسیتی مکسچر یجنیٹڈ ان آ فائر .دوسری طرف لیبارٹری کے ورکروں کا کہنا تھا کہ کچھ اہلکار دھماکہ خیز مواد کو چھوٹے چھوٹے سیمپلز میں کاٹ رہے تھے کہ اچانک یہ دھماکہ ہوگیا۔ اگر ایسا ہی ہوا تھا تو یقیناً پونا کی اس لیبارٹری میں وہ احتیاطی تدابیر اختیار نہیں کی جا رہی تھیں جو اختیار کی جانی چاہئے تھیں، نہ ہی اس کے اہم ترین حصوں میں تجربہ کار اہلکاروں کو تعینات کیا گیا تھا۔ اگر ایسا نہیں تو پھر اس کے سوا کیا کہا جاسکتا ہے کہ یہ تخریبی کارروائی جان بوجھ کر کی گئی تھی لیکن وہ لوگ اس کارروائی میں کوئی بڑی تباہی پھیلانے میں کامیاب نہ ہوسکے۔ بہرحال اگر کسی وقت تخریب کاروں کی کوشش کامیاب ہوگئی تو اس سے پھیلنے والی تباہی کا اندازہ مذکورہ کارروائی سے باآسانی کیا جاسکتا ہے۔
پونا کے قریب واقع بھارت کا ایٹمی میزائل ٹیکنالوجی کا ریسرچ سینٹر ہرمل، جسے اب ایک وسیع ترین لیبارٹری کی شکل دے دی گئی ہے، بھارت کے ایٹمی اثاثوں کی تیاری کے لئے دنیا بھر میں معروف ہے۔ اب بات کرتے ہیں دوسرے دھماکے کی، جو بھارت کی پریمیئر ہائی انرجی میٹریل ریسرچ لیبارٹری میں 20 جون 2018ء کو ہوا جبکہ 2009ء میں بھی یہاں ہونے والے ایک دھماکے میں بہت زیادہ تباہی ہوئی تھی۔ 20 جون 2018ء کو ہونے والے مذکورہ دھماکے سے کوئی ایک ہفتہ قبل پونا کی اسی پریمیئر لیبارٹری میں ہونے والے دھماکے کو بھی میڈیا سے چھپایا گیا یا دوسرے لفظوں میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ بھارتی میڈیا نے اپنے ملک کے وسیع تر مفاد کی خاطر اسے سینسر کردیا۔ بھارت کے نیشنلسٹ میڈیا کو اس پر داد دینی پڑے گی کہ انہوں نے نیشنل سیکورٹی کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے منہ بند رکھے۔ ان کی جگہ اگر اس قسم کا کوئی واقعہ پاکستان میں ہوا ہوتا تو سب نے لٹھ لے کر سیکورٹی اداروں کے پیچھے پڑ جانا تھا۔ کمال ہے کہ اگر بھارت کے میڈیا نے خاموشی اختیار کئے رکھی تو وہاں کے کسی سیاستدان نے بھی زبان نہیں کھولی۔ اتنی احتیاط کے بعد اس بابت کوئی خبر یا بات باہر نہ نکلتی، لیکن ہوا یہ کہ پونا کی اس ریسرچ لیبارٹری میں ہونے والے دھماکے میں ہلاک اور زخمی ہونے والے 8 جونیئر اور سینئر سائنسدانوں کے خاندانوں کے ذریعے یہ بات سینہ بہ سینہ پھیل گئی، جس پر پونا لیبارٹری کے پبلک ریلیشن آفیسر منیش بھردواج نے صرف اتنا بیان جاری کیا کہ ’’یہ دھماکہ ریسرچ لیبارٹری کے پیرو سیکشن میں ہوا تھا‘‘ لیکن منیش نے بار بار سوالات کئے جانے کے باوجود یہ نہیں بتایا کہ اس دھماکے کی وجہ کیا تھی اور جو لوگ زخمی ہوئے ان پر کیا اثرات ہوئے اور ان کی حالت اس وقت کیا ہے، کیونکہ میڈیا یا کسی بھی غیرمتعلقہ فرد کو ان کے قریب جانے کی اجازت نہیں دی جا رہی تھی، حتیٰ کہ ان کے خاندانوں کے افراد کو بھی قریب نہیں جانے دیا گیا اور اسپتال کا عملہ بھی ایک مخصوص ماسک پہننے کے بعد ہی وہاں جاتا ہوا مشاہدے میں آتا رہا۔
دنیا بھر کے میڈیا کو دیکھ لیجئے، ان کی تان ہر وقت اسی پر ٹوٹتی ہے کہ پاکستان کے ایٹمی اثاثے غیرمحفوظ ہیں۔ ماضی میں وہ اس بات کو لے کر چلّاتے رہے کہ یہ کسی بھی وقت القاعدہ کے ہاتھ لگ سکتے ہیں، تو آج ان کا موقف یہ ہے کہ یہ طالبان اور داعش کے ہاتھ لگ سکتے ہیں، جو امریکا سمیت مغربی دنیا کے لئے سخت خطرے کا باعث بن سکتا ہے، اس لئے پاکستان کو اپنے ایٹمی اثاثوں کو بین الاقوامی نگرانی میں دے دینا چاہئے۔ اس قسم کی نہ جانے کتنی خرافات، کسی عام قسم کے جریدے میں نہیں بلکہ نیویارک ٹائمز‘ واشنگٹن پوسٹ‘ فنانشل ٹائمز اور گارڈین کئی اہم جرائد کی شہ سرخیاں بنتی رہی ہیں لیکن بھارت کے پونا میں واقع ایٹمی میزائل تیار کرنے والی اس حساس ترین ریسرچ لیبارٹری میں بار بار ہونے والے دھماکوں اور اس کے نتیجے میں ہونے والے جانی نقصانات اور ماحولیاتی اثرات پر ان اخبارات و جرائد میں سے کسی ایک نے ایک لفظ لکھنا بھی مناسب نہیں سمجھا۔
30 ستمبر 2017ء کو بھی پونا کی اس پریمیئر ہائی انرجی ریسرچ لیبارٹری کی چھت ایک خوفناک دھماکے سے اڑ گئی تھی۔ یہ اس قدر خوفناک دھماکہ تھا کہ اس سے اردگرد کی عمارات بھی متاثر ہوئی تھیں۔ جب اس حساس ترین لیبارٹری میں ہونے والی اس شدید تباہی پر بھارت بھر میں آوازیں اٹھنا شروع ہوئیں تو میڈیا کو بتایا گیا کہ یہ دھماکہ ایک الگ تھلگ عمارت میں ریموٹ کنٹرول اختلاط کے عمل کی وجہ سے ہوا۔ اس کے ساتھ یہ بھی بتایا گیا کہ چونکہ مکسر روم میں کوئی موجود نہیں تھا اس لئے جانی نقصان نہیں ہوا، حالانکہ یہ سفید جھوٹ تھا کیونکہ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ ماہر انجینئرز اور عملے کے بغیر خودکار طریقے سے یہ عمل انجام دیا جاسکتا ہے۔ اب تک حاصل ہونے والی رپورٹس کے مطابق اس ہائی انرجی ریسرچ لیبارٹری میں بہت سے ورکرز کو ایک ٹھیکیدار کے ذریعے کنٹریکٹ پر بھرتی کیا گیا تھا جن میں دو ایسے ورکرز بھی شامل ہیں جو اس دھماکے کی وجہ سے ابھی تک اپنے ہوش و حواس میں نہیں آسکے اور جن کے متعلق ان کے خاندان کے افراد کہہ رہے ہیں کہ انہیں کسی قسم کی ’’سیفٹی ٹریننگ‘‘ بھی نہیں دی گئی تھی۔ اس سے دنیا بخوبی اندازہ کرسکتی ہے کہ بھارت بھر میں اس قدر حساس اور اہم ترین کاموں کے لئے کس قدر غفلت کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔
مذکورہ لیبارٹری میں کنٹریکٹ اور ڈیلی ویجز پر کام کرنے والوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر پونا میں ہونے والے اس دھماکے بارے انکشاف کرتے ہوئے انڈین ٹربیون کے نمائندے کو بتایا کہ یہ دھماکہ اس وقت ہوا جب ایک ورک چارج ورکر جو اس وقت اسپتال میں ہے، ایک کیمیکل والی بوتل دینے گیا تھا۔ واضح رہے کہ بھارت کے دفاعی اور ایٹمی میزائل تیار کرنے والے ادارے ڈیفنس ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن (ڈی آر ڈی او) کو اس کی تیاریوں میں اہم کردار ادا کنے والی پونا کی یہ لیبارٹری نینی تال میں 1908ء میں قائم کی گئی تھی۔ اس وقت تک اس لیبارٹری کو ’’کیمیکل ایگزامینر آفس‘‘ کا نام دیا تھا، لیکن 1960ء میں اس کی حیثیت تبدیل کرتے ہوئے اسے رسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ لیبارٹری کا نام دیا گیا تھا۔ بعدازاں اسے پونا کے قریبی علاقے پاشان منتقل کردیا تھا اور پھر 1963ء میں اسے ڈی آر ڈی او کے کنٹرول میں دیتے ہوئے مارچ 1995ء میں اسے ہرمل میں ہائی انرجی میٹریل ریسرچ لیبارٹری میں تبدیل کرتے ہوئے یہاں میزائلوں کی تیاری شروع کردی گئی تھی جو تاحال جاری ہے۔