بھارتی نیوی کے سربراہ ایڈمرل کرمبیر سنگھ نے پاکستان اور چین کے درمیان بڑھتے ہوئے تعاون اور اشتراک پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم چین اور پاکستان کے بڑھتے ہوئے تعاون پر پوری طرح سے نظر رکھے ہوئے ہیں، چین پاکستان کو خاصے جدید ہتھیار دے رہا ہے، جس سے علاقائی سیکیورٹی پر اثرات پڑیں گے اور صورتِ حال سے نمٹنے کیلئے ہمیں تیار رہنا ہوگا
ایس انجم آصف
بھارتی نیوی کے سربراہ ایڈمرل کرمبیر سنگھ نے پاکستان اور چین کے درمیان بڑھتے ہوئے تعاون اور اشتراک پر اپنی شدید تشویش اور پریشانی کا اظہار کیا ہے۔ فرانسیسی ساختہ اسکارپین کلاس آبدوز کے بھارتی نیوی میں شمولیت کے موقع پر انہوں نے اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم چین اور پاکستان کے بڑھتے ہوئے تعاون پر پوری طرح سے نظر رکھے ہوئے ہیں۔ چین پاکستان کو خاصے جدید ہتھیار دے رہا ہے، جس سے علاقائی سیکیورٹی پر اثرات پڑیں گے اور صورتِ حال سے نمٹنے کے لئے ہمیں تیار رہنا ہوگا۔ کرمبیر سنگھ کا یہ بیان واضح طور پر ان کے خوف کی عکاسی کررہا تھا، کیونکہ پاکستان اپنی نیوی کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی جو کوشش کررہا ہے اور اس میں چین پاکستان کے ساتھ جو تعاون کررہا ہے اس پر بھارت خوفزدہ ہے جبکہ بھارت خود اربوں روپے کی سرمایہ کاری کرکے اپنی نیوی کو جدید ہتھیاروں سے لیس کررہا ہے۔ نومبر 2021ء میں بھارت نے ایک تباہ کن جہاز آئی این ایس وشاکاپٹنم کو نیوی میں شامل کیا تھا، پھر بھارتی نیوی میں ایک اور جدید ترین بحری جہاز اور ایک آبدوز کو شامل کیا گیا، مگر اس کے باوجود بھارت پاکستان نیوی سے خوفزدہ ہورہا ہے۔ پاکستان نیوی بھارت کے مقابلے میں ایک چھوٹی نیوی ہے مگر وہ ایک انتہائی متحرک اور دشمن پر تیز رفتاری سے کاری ضرب لگانے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔ ایڈمرل کرمبیر سنگھ کے خوف کی اصل وجہ پاکستان نیوی کی پروفیشنل صلاحیتیں ہیں، جو بھارتی نیوی میں مفقود ہیں۔ اس کا اندازہ اس بات سے بھی بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ گزشتہ چند برسوں میں بھارتی نیوی کی آبدوزیں تین مرتبہ پاکستان کے خصوصی اقتصادی زون میں داخل ہوئیں اور تینوں مرتبہ پاکستان نیوی نے سراغ لگا کر انہیں واپس جانے پر مجبور کردیا۔ یہی نہیں بلکہ پاکستان اور بھارت کے درمیان 2019ء کی کشیدگی کے دوران پاکستان نیوی کی ایک آبدوز بھارتی سمندر میں خاصے عرصے تک موجود رہی جس کی اطلاع بھارتی نیوی کو مل گئی تھی مگر وہ تمام تر جدید اثاثوں کے باوجود پاکستانی آبدوز کا سراغ لگانے میں ناکام رہی۔ اس مشن کے لئے بھارتی نیوی کے جدید ترین امریکی ساختہ پی-81 قسم کے میری ٹائم سرویلینس طیارے بھی پاکستانی آبدوز کو ٹریک نہ کرسکے، جبکہ پاکستان نے اپنے پرانے امریکی ساختہ پی-3سی اورین طیاروں سے ہر بار نہ صرف بھارتی آبدوزوں کی لوکیشن کو درست طریقے پر ٹریک کیا بلکہ انہیں اپنے سمندری علاقے سے باہر بھی دھکیلا۔ بھارت اپنی نیوی میں مسلسل اضافہ کررہا ہے اور بین الاقوامی مارکیٹ میں بھارت کو مہلک ہتھیاروں کی خریداروں کے لئے ایک پُرکشش ملک مانا جاتا ہے اور اسی وجہ سے امریکا، یورپ اور روس، بھارت کی طرف متوجہ ہوئے ہیں لیکن روس، بھارتی نیوی کو جدید قسم کے ہتھیاروں کی فراہمی پہلے نمبر پر ہے۔ بھارت اپنی نیوی کو ایک حقیقی بلیو واٹر نیوی میں کنورٹ کرنے کا منصوبہ رکھتا ہے جس کے لئے آئندہ چند برسوں میں بھارت 56 بحری جہاز اپنی نیوی میں شامل کرے گا جس کی بھارتی حکومت منظوری بھی دے چکی ہے، لیکن باعث حیرت یہ بات ہے کہ پھر بھی بھارت کو پاکستان نیوی کے بارے میں تشویش اور پریشانی ہے۔ عالمی دفاعی ماہرین کے مطابق پاکستان سرمائے کی کمی کا شکار ہے، اس کی معیشت بھی دباؤ میں ہے اور اس کا دفاعی بجٹ بھی بھارت سے چھ گنا کم ہے، چنانچہ یہی وجہ ہے کہ پاکستان اپنے جنگی جہازوں، آبدوزوں اور دیگر بحری ضروریات کے لئے اپنے اتحادی اور قابل اعتماد دوست چین سے رجوع کرتا ہے۔ عالمی ماہرین کا خیال ہے کہ مغربی بحری جنگی ہتھیار زیادہ مہنگے ہونے کے سبب پاکستان اپنی دفاعی ضروریات کے لئے چین سے رابطہ کرتا ہے جو اسے جدید ترین ہتھیار کم قیمتوں پر فراہم کرتا ہے، اس پر بھی بھارت کر پریشانی لاحق ہے کہ وہ مہنگے داموں جو ہتھیار روس اور امریکا سے حاصل کرتا ہے پاکستان کو اسی معیار کے اور اس سے اچھے اور جدید ہتھیار چین انتہائی ارزاں داموں پر فراہم کر دیتا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال چین میں تیار کیا گیا ٹائپ 054 قسم کا جدید ترین فریگیٹ ہے، جسے پاکستان نیوی نے چین سے خریدا ہے اور جسے پاکستان نیوی نے پی این ایس تغرل کا نام دیا ہے۔ پی این ایس تغرل کے پاکستان نیوی میں شمولیت کی خبر کو بھارتی میڈیا نے کچھ زیادہ ہی کوریج دی ہے اور بھارت میں اس فریگیٹ کی صلاحیتوں کے بارے میں بہت زیادہ سوالات اٹھائے جارہے ہیں، جبکہ بھارت کے بحری منصوبہ سازوں کو یہ فکر لاحق ہوگئی ہے کہ کیا یہ جدید ترین فریگیٹ پاکستان اور چین کے درمیان اشتراک کے ساتھ ساتھ بھارت کی موجودہ برتری یا عددی برتری کو چیلنج کرتا تو دکھائی نہیں دے رہا؟ بھارتی نیوی کے سنجیدہ حلقے اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ بھارتی نیوی پاکستان سے عددی اعتبار سے برتر ضرور ہے مگر اس کی پروفیشنل صلاحیتیں پاکستان نیوی کے مقابلے میں بہت کم ہیں، لیکن وہ اپنی مجبوریوں کے باعث اس کا کھلے عام اظہار نہیں کرتے۔ کچھ عرصہ قبل پاکستان نیوی نے چین سے جدید ترین ٹائپ 054 قسم کے فریگیٹس کی خریداری کا معاہدہ کیا تھا۔ یہ فریگیٹس اس وقت چین کے جدید ترین اور انتہائی اعلیٰ صلاحیتوں کے حامل بحری جہاز تصور کئے جاتے ہیں جنہیں چینی نیوی بھی استعمال کررہی ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ چینی فریگیٹس سطح سے سطح، سطح سے فضا اور سطح سے زیرآب جنگی کارروائی کرنے کی زبردست صلاحیت رکھتے ہیں اور تغرل اور اس کے لئے مزید جنگی جہازوں کی پاکستان نیوی میں شمولیت سے اس کی صلاحیتوں میں بہت زیادہ اضافہ ہوگا جبکہ پاکستان اپنے کچھ چھوٹے جنگی جہازوں کو چینی میزائلوں اور دیگر جدید سسٹمز سے لیس کرکے اپ گریڈ بھی کررہا ہے، جس کے بعد یہ چھوٹے جنگی جہاز بھی جدید ترین بحری جہازوں میں کنورٹ ہوجائیں گے۔ بھارتی نیوی کی تغرل کی پاکستان نیوی میں شمولیت سے پریشانی کی وجہ یہ ہے کہ یہ ایک انتہائی جدید اور ماڈرن قسم کا جنگی جہاز ہے اور آج تک پاکستان نیوی میں جتنے بھی جنگی جہاز شامل کئے گئے ہیں یہ ان میں سب سے زیادہ جدید اور خوفناک کارروائی کی صلاحیت رکھنے والا جنگی جہاز ہے۔ یہ ایک ہائی ٹیک قسم کا جنگی جہاز ہے اور ہر قسم کی جنگی کارروائیوں کی صلاحیت رکھتا ہے۔ عالمی ماہرین کہتے ہیں کہ ان جہازوں کی شمولیت کے بعد پاکستان نیوی کی جنگی صلاحیتوں میں تو اضافہ ہوگا ہی بلکہ اس کی اہلیت اور اس کی دائرہ کار میں بھی اضافہ ہوجائے گا اور بھارتی نیوی کے لئے پاکستانی ساحلوں کے نزدیک آنا ایک انتہائی خطرناک چیلنج بن جائے گا۔ ٹائپ 054 قسم کے فریگیٹس چین نیوی کے ہائی ٹیک اور الٹرا ماڈرن جنگی جہاز تصور کئے جاتے ہیں اور ان پر نصب جدید ترین سینسرز اور ہتھیاروں کے باعث یہ سمندر میں ہر قسم کے آپریشنز سرانجام دے سکتا ہے۔ یہ فریگیٹس نہ صرف سمندر کی سطح پر موجود دشمن کے جہازوں کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے بلکہ زیرآب آبدوزوں کو تلاش کرکے انہیں نشانہ بنانے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔
عالمی ماہرین کے مطابق جنگی بیڑے میں ان فریگیٹس کی شمولیت سے پاکستان نیوی کا چینی نیوی سے تعاون اور اشتراک نہ صرف کئی گنا بڑھ جائے گا بلکہ پاکستان نیوی، چینی نیوی کی ایک اہم اسٹرٹیجک پارٹنر بن جائے گی اور یہ بات بھارت کی تشویش اور پریشانیوں میں اضافے کی وجہ بنے گی۔ بھارتی نیوی کی پریشانی اور تشویش کی ایک اور وجہ جسے اہم ترین کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ تغرل کی شمولیت کے بعد نہ صرف پاکستان نیوی کی طاقت اور صلاحیت میں اضافہ ہوگا بلکہ پاکستان اور چین ایک اسٹرٹیجک پارٹنر کے روپ میں پاکستان نیوی، چینی نیوی کی بحرہند میں موجودگی میں اس کے مددگار کا کردار ادا کرے گی اور بحرہند میں بھارت چینی بحریہ کی موجودگی سے سخت فکرمند اور پریشان تھا اور اب پاکستان نیوی کے جنگی جہاز بھی بحرہند تک آنے کی صلاحیت حاصل کرلیں گے جس سے بحرہند میں چینی نیوی کو خاصی تقویت حاصل ہوگی اور بھارت کی پریشانیوں میں اضافہ ہوگا۔ بھارتی اخبار ”ٹائمز آف انڈیا“ کے مطابق پاکستان نیوی کی مودیرنیزاشن اور چین کے ساتھ اس کا تعاون اور اشتراک عمل باعث بحرہند اور بحیرہ عرب میں چینی نیوی کی موجودگی اور اس کی سرگرمیوں میں اضافہ ہوگا جو بھارت کی تشویش میں اضافے کا باعث ہوگا۔ پاکستان الٹراماڈرن اور ہائی ٹیک جنگی جہازوں کے علاوہ چین سے جدید ترین آبدوزیں بھی حاصل کررہا ہے جو پاکستان نیوی کی مودیرنیزاشن منصوبے کا حصہ ہیں۔ اخبار کے مطابق پچھلی تین دہائیوں اور چینی نیوی نے بحیرہ عرب اور بحرہند میں اپنی موجودگی اور سرگرمیوں میں بہت اضافہ کیا ہے اور بحرہند میں چینی نیوی کی بڑھتی ہوئی موجودگی اور سرگرمیوں اور پاکستان نیوی کے ساتھ اس کے بڑھتے ہوئے اشتراک اور تعاون نے بھارتی پریشانیوں میں بہت زیادہ اضافہ کیا ہے۔ بروکنگ انسٹی ٹیوٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق چینی نیوی نے حالیہ برسوں میں زیادہ تر سفر پاکستان کا ہی کیا ہے اور چینی جنگی جہازوں کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ کراچی شپ یارڈ میں تمام تر سہولیات کو استعمال کرتے ہیں، جس سے بھارتی نیوی کو سخت تشویش ہے۔ بین الاقوامی ماہرین کے مطابق یہ ایک بڑی اہم نوعیت کی تبدیلی ہے کہ چینی نیوی پاکستان نیوی کی سہولیات سے فائدہ اٹھا رہی ہے جبکہ پاکستان نیوی چین کی انڈواوشین اسٹرٹیجی کا حصہ بن چکی ہے، لیکن بھارت کی پریشانی اور تشویش کی وجہ یہ ہے کہ بھارت یہ سمجھتا ہے کہ پاکستان اور چین کی نیوی کے درمیان بڑھتا تعاون اور اشتراک بھارت کے لئے نئے نئے خطرات پیدا کررہا ہے جبکہ اس ریجن میں بھارت کو پہلے ہی متعدد چیلنجوں کا سامنا ہے اور پاکستان نیوی بھی چین کی نیوی کے ساتھ مل کر اس کی بحری طاقت کا حصہ بن چکی ہے۔ ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ تغرل کا پاکستان نیوی کا حصہ بن جانے کے بعد چینی نیوی اور پاکستان نیوی کے درمیان ایک مشترکہ سسٹم کے تحت ایکسچینج آف انفارمیشن میں بہتری آئے گی اور دونوں کی مشترکہ آپْریشَن ایبیلیٹی بھی بہت زیادہ بہتر ہوجائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں ملکوں کی نیوی جوائنٹ آپریشنز کے مقاصد اور اس میں مہارت حاصل کرنے کے لئے مشترکہ بحری مشقیں بھی کررہی ہیں، جس سے بھارت کو سخت پریشانی لاحق ہے۔ حالانکہ بھارتی نیوی جو قواڈ کا حصہ ہے، نہ صرف امریکا، آسٹریلیا اور جاپانی نیوی کے ساتھ خود مشترکہ بحری مشقیں کرتی رہتی ہے بلکہ چین کے گھیراؤ کے لئے بھارت نے بحرجنوبی چین کی نگرانی کے لئے آبنائے ملاکا کے بحرہند کی جانب کھلے والے دہانے پر اپنی نیوی کو تعینات کر رکھا ہے مگر بھارت کو خوف پاکستان اور چین کی بحری قوت سے محسوس ہورہا ہے۔ بھارت اس بات سے خائف ہے کہ فروری 2021ء میں پاکستان اور چین کی نیوی نے لگاتار آٹھویں بار مشترکہ فوجی مشقیں کیں، جن کا سب سے اہم مقصد پاکستان نیوی کی قوت اور آپریشنل صلاحیتوں میں اضافہ کرنا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بھارتی نیوی اور پاکستان نیوی کے حجم میں خاصا فرق ہے، لیکن اس کے باوجود بھارت اگر پاکستان نیوی کی آپریشنل صلاحیتوں سے خوفزدہ ہے تو اس کی دو اہم وجوہات ہیں، اول یہ کہ اگر بھارت کی نیوی اپنے سائز میں پاکستان سے بڑی ہے تو بھارت کو اپنے 7000 کلومیٹر طویل بحری سرحدوں کا دفاع کرنا ہے، جس کے لئے بھارتی نیوی کی قوت کسی بھی طرح اطمینان بخش نہیں ہے جبکہ دوسری اہم وجہ دونوں ملکوں کی نیوی کی پروفیشنل صلاحیتیں ہیں اور بھارت کو اس بات کا ادراک ہے کہ اس کی نیوی کی پروفیشنل صلاحیتیں پاکستان نیوی سے بہت زیادہ کم ہیں جبکہ پاکستان مسلسل مشقیں کرکے اپنی آپریشنل اور پروفیشنل صلاحیتوں میں اضافہ کررہا ہے۔