Monday, July 28, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

پاک چین اقتصادی راہداری فکرِ اقبال کے تناظر میں

پاکستان کا ترکی، چین اور ایشیائی ریاستوں کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانا شاعر مشرق کے خواب کی تکمیل ہے
میاں ساجد علی

علامہ اقبال کی شخصیت ایک مفکر کے طور پر نمایاں ہے مگر ہم نے ان کو محض ایک شاعر ہی سمجھا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ وہ گزشتہ صدی اور اسلامی تاریخ کے بہت بڑے شاعر تھے۔ میرے خیال میں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ انہوں نے اپنی فکر کو پھیلانے کے لئے شاعری کا سہارا لیا یا پھر یوں کہہ لیجئے کہ اس مقصد کے لئے شاعری انہیں الہام کی گئی تھی۔ جس کا اظہار انہوں نے اِس انداز سے کیا ہے ؂
مری نوائے پریشاں کو شاعری نہ سمجھ
کہ میں ہوں، محرم راز درونِ میخانہ
فکرِ اقبال کے بہت سے پہلو ابھی تک پنہاں ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ عیاں ہوتے جارہے ہیں کیونکہ علامہ اقبال نہ صرف شاعر تھے بلکہ وہ عالم اسلام کے ایک عظیم مفکر بھی تھے۔ علامہ اقبال نے جہاں بہت سی پیش گوئیاں کیں جو نہ صرف وقت کے ساتھ ساتھ مکمل ہوتی نظر آرہی ہیں بلکہ اُن کے اثرات و ثمرات اس بدلتی دُنیا کے تقاضوں کو پورا کررہی ہیں۔ دورِ حاضر میں پاکستان کا ترکی اور چین کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانا اور ایشیائی ریاستوں سے تعلقات کو مضبوط کرنا فکر اقبال کی روشنی میں ایک اہم پیش رفت ہے۔ انہوں نے اپنے مفکرانہ تخیلات کے ذریعے ان ممالک کے حال اور مستقبل کے اہم پہلوؤں کے پردے چاک کئے تھے۔ اقبال کی شخصیت ہمیں منزل کی نشاندہی کے ساتھ ساتھ منزل تک رسائی کے لئے راہ بھی ہموار کرتی ہے۔
علامہ اقبال نے پاک و ہند کی مسلمان قوم کے مستقبل کے بارے میں جو کچھ سوچا اور ان کے مسائل کا جو حل پیش کیا وہ ان کی بیدار مغزی اور معاملہ فہمی بلکہ کہنا چاہئے کہ سیاسی تدبر کا شاہکار ہے۔ 1930ء سے قبل تو سوال ہی کیا پیدا ہوسکتا تھا، اس کے بعد بھی ایک طویل عرصے تک ہندوستان کی تقسیم کا خیال تک کسی کے ذہن میں نہیں آسکتا تھا۔ یہ صرف علامہ مرحوم ہی کی دُوررس اور دوربین نگاہ تھی جس نے حالات کے رُخ اور زمانے کی رفتار کو پہچان کر مسلمانانِ ہند کے جملہ مسائل کا حل اسے قرار دیا کہ ہندوستان کے کم از کم شمال مغربی گوشے میں واقع مسلم اکثریت کے علاقوں پر مشتمل مسلمانوں کی ایک آزاد اور خودمختار مملکت قائم کی جائے۔ پاکستان کی پیش گوئی اقبال نے اپنے خطبہ الٰہ آباد کے صدارتی اجلاس میں کردی تھی۔
اسی طرح چینی قوم کے بارے میں انہوں نے کہا تھا کہ ؂
گراں خواب چینی سنبھلنے لگے
ہمالہ کے چشمے اُبلنے لگے
علامہ اقبال کی چین کے متعلق یہ پیش گوئی بال جبریل کی نظم ’’ساقی نامہ‘‘ میں کی گئی تھی۔ بال جبریل کی اشاعت کا سال 1935ء ہے اور موجودہ چین نے یکم اکتوبر 1949ء کو اپنی آزادی کا اعلان کیا تھا۔ چین میں علم کے حصول کی بات تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آج سے 1400 سال قبل ہی کردی تھی کہ ’’علم حاصل کرو، خواہ تمہیں چین ہی جانا پڑے۔‘‘
اسی طرح ہمسایہ ملک افغانستان کے بارے میں جاوید نامہ میں لکھتے ہیں کہ ؂
آسیا یک پیکر آب و گل است
مفتِ افغان درآں پیکر دل است
از فساد او فسادِ آسیا
در کشادِ او کسادِ آسیا
اگر تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو اقبال کی یہ تینوں مندرجہ بالا پیش گوئیاں سچ ثابت ہوئیں اور انتہائی اہمیت کی حامل ہیں۔ پاکستان، چین اور افغانستان کی سرحدیں ایک دوسرے سے منسلک ہیں اور مسلم ایشیائی ریاستوں کے لئے سمندر کے پانیوں تک اہم خشکی کی گزرگاہیں بھی انہی ممالک سے ہو کر گزرتی ہیں۔
ماضی قریب میں حکومت پاکستان نے ہمسایہ ملک چین کے ساتھ اقتصادی راہداری کے منصوبے کے کام کا آغاز کیا۔ یہ اقتصادی راہداری پاکستان اور چین کے لئے جہاں خصوصی اہمیت کی حامل ہے وہاں اس خطے کے دوسرے ممالک یعنی افغانستان اور مسلم ایشیائی ریاستوں کے لئے بھی اہم ثابت ہوگی۔ اس منصوبے کے بیشتر معاشی فوائد مستقبل میں عیاں ہوں گے لیکن یہاں اسے فکر اقبال کے پس منظر میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اقبال کی دوراندیش نظر نے یہ بھانپ لیا تھا کہ اس خطے کے اہم بڑے راستوں کے لئے شاہراہوں کا جال اِن علاقوں کی ترقی کے لئے ناگزیر ہوگا۔ 1933ء میں اقبال نے حکومت افغانستان کی دعوت پر سید سلیمان ندوی اور سرراس مسعود کے ہمراہ افغانستان کا دورہ کیا۔ اس دورہ کی روداد سید سلیمان ندوی نے ’’سیر افغانستان‘‘ میں کی ہے، وہ رقم طراز ہیں کہ ؂
’’ڈاکٹر اقبال صاحب نے بھی سڑکوں کی تعمیر کے کام پر بہت سور دیا اور فرمایا کہ آئندہ تجارتی آمدورفت کے سلسلے میں سینٹرل ایشیا اور افغانستان کی مرکزیت یقینی ہے۔‘‘
علامہ اقبال کی دوررس نگاہ 1933ء میں ہی افغانستان کے دورہ میں بھانپ گئی تھی کہ اس خطہ کی ترقی کے لئے کیا تقاضے ہوں گے؟ پاک چین اقتصادی راہداری کے حوالے سے اقبال کا یہ بیان بہت اہمیت کا حامل ہے۔ ذرائع نقل و حمل اور تجارت کے لئے راہداریاں دُنیا کے بہت سے ممالک کے لئے اہم سنگ میل ہیں۔ جیسا کہ چین کے لئے جنوبی ایشیا میں بحیرہ عرب کے گرم پانی کے سمندر کا حصول اُس کے معاشی حالات کا ایک تقاضا ہے تاکہ وہ اپنی تجارت کے لئے اس خشکی کے راستے کے ذریعے سمندر کو استعمال کرتے ہوئے افریقہ، یورپ اور امریکہ تک پہنچے۔ اس ضمن میں پاکستان کی سرزمین اس لئے اُس کی پہلی ترجیح ہے۔ اس اقتصادی راہداری سے جہاں چین کو تجارتی فوائد حاصل ہوں گے وہاں پاکستان، افغانستان اور ایشیائی ریاستوں کے لئے بھی تجارت کے نئے در کھلیں گے۔ علامہ اقبال نے اپنی بیاض میں روس اور جاپان کی جنگ کے نتائج کا ذکر بھی کیا ہے۔ روس اور جاپان کے درمیان یہ لڑائی بیسویں صدی کی پہلی بڑی لڑائی تھی۔ روس نے بحرالکاہل پر اپنی بحریہ اور سمندری تجارت کے فروغ کے لئے گرم پانی کے ساحل پر قبضے کی کوشش کی۔ جس میں جاپان نے روس کو شکست دی اور اس کے بحری بیڑے کو زبردست نقصان پہنچایا۔ اس لڑائی سے مشرقی ایشیا میں طاقت کا توازن قائم ہوا۔
اس ضمن میں ہمیں 22 اپریل 2015ء کو بھارت کے اخبار ’’فرسٹ پوسٹ‘‘ کی یہ تحریر ذہن نشین کرنی چاہئے:
’’سی پیک خطے میں اسٹرٹیجک گیم چینجر ہوگا اور یہ پاکستان کو پہلے کی بہ نسبت کہیں زیادہ خوشحال اور طاقتور ملک بنانے میں کردار ادا کرے گا۔‘‘
ان حالات میں پاک چین اقتصادی راہداری کی اہمیت اور واضح ہوجاتی ہے۔ اقبال کے نزدیک ایشیائی ممالک کے لئے کامیابی و کامرانی اُن کے آپس کے تعلقات اور اتفاقات میں پوشیدہ ہے۔ اپنی مثنوی ’’پس چہ باید کرد اے اقوام شرق‘‘ میں اقبال نے مشرق کی اقوام کو خواب سے بیدار ہونے کا پیغام سنایا اور ایشیائی اقوام کو مغربی دُنیا کی چالوں اور ہتھکنڈوں سے نجات کے لئے اتحاد کا درس دیا تھا۔ اقبال نے جن حالات میں اقوام مشرق کی حمایت اور سربلندی کا بیڑا اُٹھایا وہ آج بھی موجود ہیں بلکہ دورِجدید انہی کا سلسلۂ جاریہ ہے۔ اقبال نے اقوامِ مشرق کے لئے یہ پیغام دیا کہ ؂
ربط و ضبطِ ملتِ بیضا ہے مشرق کی نجات
ایشیا والے ہیں اِس نکتے سے اب تک بے خبر
عوامی جمہوریہ چین جو کہ اس وقت ایک عالمی طاقت کے طور پر نہ صرف ابھر رہا ہے بلکہ ایک مضبوط معاشی ملک بھی ہے جس کی تجارتی اور معاشی پالیسیوں سے فائدہ اُٹھا کر ہم نہ صرف پاکستان کو مضبوط بنا سکتے ہیں بلکہ تقاضوں کا تبادلہ بھی ایک خوش آئند اقدام ہوگا۔
اس خطے میں قدیم سِلک روٹ اور شاہراہ قراقرم جیسی گزرگاہوں کی اہمیت اور افادیت عیاں ہے، جن کی بدولت اس خطے کے تجارتی تعلقات ایشیائے کوچک کے علاقوں سے قائم ہوئے۔ اسی طرح شیرشاہ سوری کی بنائی ہوئی جی ٹی روڈ بھی اپنی تاریخی اور تجارتی اہمیت کے ساتھ نمایاں ہے۔ دورِجدید میں بنی ہوئی موٹروے بھی اپنی اہمیت منوا چکی ہے۔ پاک چین اقتصادی راہداری صرف ایک سڑک ہی نہیں ہے بلکہ ترقیاتی منصوبوں کا ایک جال ہے۔ یہ طویل منصوبہ پاکستان اور چین کے تعلقات کو نئی بلندیوں پر لے کر جائے گا۔
فکرِ اقبال کی روشنی میں پاک چین اقتصادی تعلقات صرف سڑکوں، توانائی اور زرعی شعبے کے منصوبوں تک محدود نہیں، اس سے پاکستانی زراعت کی رسائی چین کی منڈیوں تک ہوگی۔ اس کے علاوہ چین کے مشرقی حصے کی آبادی جوکہ مغربی حصے کی آبادی سے نسبتاً زیادہ ہے، مغربی حصے میں رہائش پذیر ہورہی ہے جوکہ خوراک اور اُس کی طلب میں اضافے کا باعث بنے گی۔ پاکستان سے زرعی اجناس وہاں برآمد کی جائیں گی۔ موجودہ حالات میں تقریباً 60 ہزار پاکستانی مختلف ترقیاتی منصوبوں کی وجہ سے برسرِروزگار ہیں۔ اس کے علاوہ جدید تکنیکی آلات اور صلاحیتوں کا تبادلہ بھی پاکستان کے لئے خوش آئند ہے۔ اسی طرح کے اور بہت سے ترقیاتی منصوبے اس کا حصہ ہیں جس کی وجہ سے یہ منصوبہ گیم چینجر کہلا رہا ہے۔
جب بات وسطی ایشیا کی ہورہی ہے تو ہم علامہ اقبال کی ایک اور پیش گوئی پر بھی نظر ڈالتے ہیں، جس کا اشارہ انہوں نے اس شعر میں دیا تھا کہ ؂
ہفت کشور جس سے ہو تسخیر بے تیغ و تفنگ
تو اگر سمجھے تو تیرے پاس وہ ساماں بھی ہے
اس شعر میں لفظ ہفت کشور انتہائی اہم ہے اور پورے شعر کا خلاصہ و تشریح اسی لفظ میں پنہاں ہے۔ ہفتِ کشور سے مراد ’’سات زمینیں‘‘ یا ’’سات خطے‘‘ ہیں۔ اگر وسطی ایشیا کے نقشے پر نظر ڈالی جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ سات ممالک ایسے ہیں جن کے ناموں کے آخر میں لفظ ’’تان‘‘ مشترک ہے۔ ان ممالک کے نام پاکستان، افغانستان، تاجکستان، ترجکستان، ترکمانستان، کرغستان، قزاقستان اور ازبکستان ہیں۔ اِن ممالک میں پاکستان واحد ریاست ہے جس کی سرحد پر گرم پانی کا سمندر موجود ہے، جس سے اُس کی اہمیت واضح ہے۔ باقی چھ ممالک کی تجارت کے لئے پاکستان کے سمندر تک اقتصادی راہداری کا تجارتی راستہ کس قدر اہم ہوجاتا ہے اس کا اندازہ آسانی سے لگایا جاسکتا ہے اور کچھ بعید نہیں کہ فکرِ اقبال کی روشنی میں مستقبل میں یہ سات ممالک ایک مضبوط فیڈریشن کے طور پر اُبھریں۔
بے شک پاکستان چین دوستی ضربِ المثل کی حیثیت رکھتی ہے جس کے لئے ہمہ موسمی، ہمالہ سے بلند اور سمندر سے گہری جیسے استعارات استعمال ہوتے ہیں۔ مگر یہ واضح رہے کہ بین الاقوامی تعلقات میں جذبات نہیں چلتے، ہر کوئی اپنے مفاد کا تحفظ کرتا ہے۔ یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ علامہ اقبال جیسا مفکر ہمیں نصیب ہوا جس نے ماضی کی عظمتِ رفتہ کو خوبصورت انداز میں نہ صرف پیش کیا بلکہ مستقبل میں آنے والے درخشندہ پہلوؤں کو بھی اُجاگر کیا۔ فکر اقبال ہماری ہر طرح سے راہنمائی کرتی ہے۔ یہی فکر اقبال پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کی پاسبان ہے۔ اقبال کی شخصیت نے جس طرح قدرت کے رازوں سے پردہ اُٹھایا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ جب فکراقبال ایک آزاد مملکت کے حصول میں ہماری راہنمائی کرسکتی ہے تو کیا ہم پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کے لئے اس سے راہنمائی نہیں لے سکتے؟
سب سے بڑی ضرورت جس کو محسوس کرنا لازم ہے وہ ذاتی اور قومی وجود ہے۔ اگر یہی نہیں تو ساری تگ و دو اور جدوجہد بے معنی ہوگی۔ یہ بڑی سامنے کی بات ہے جسے 1857ء کی جنگ آزادی کے فوراً بعد محسوس کرلیا گیا تھا۔ اگرچہ اسے کوئی نام نہیں دیا گیا تھا۔ اقبال نے اسے ’’خودی‘‘ کا نام دیا۔
اس طویل سفر کے بعد ہم آخر اس مقام پر پہنچ جاتے ہیں جہاں اقبال کا روئے سخن تمام اقوامِ مشرق کی طرف ہے اور وہ انہیں بحالات موجودہ حقیقت پسندانہ مشورہ دیتے ہیں۔ وہ یورپ کے متعلق کچھ نہیں کہتے۔ ان کی رائے میں تو وہ ختم ہو بھی چکا۔ سمجھ لیجئے اس کی تہذیب اپنے خنجر سے خودکشی کر بھی چکی۔ سوال اقوام مشرق کے اپنے عروج کا ہے۔ وہ کیسے حاصل ہو؟ اس کے متعلق اقبال کو پورا پورا یقین ہے اور وہ ملہمانہ انداز میں کہتے ہیں ؂
رنگ گردوں کا ذرا دیکھ تو عنّابی ہے
یہ نکلتے ہوئے سورج کی افق تابی ہے!
اسی بلوہ مشاہدہ کی بنا پر وہ پکار اُٹھتے ہیں کہ دیکھو! مشرق کے عروق مردہ میں خونِ زندگی دوڑ گیا۔ اس کے عروج کا زمانہ شروع ہوگیا۔ اس کے سینے میں انقلاب ہی انقلاب کروٹیں لے رہے ہیں۔ اگر پاک چین اقتصادی راہداری کو ہم فکر اقبال کی روشنی میں دیکھیں تو یہ واضح ہوجاتا ہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری کا منصوبہ صرف ایک ترقیاتی منصوبہ ہی نہیں بلکہ اس خطے میں طاقت کا توازن بھی برقرار رکھنے میں معاون ثابت ہوگا۔

مطلقہ خبریں