Tuesday, July 22, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

پاک میرینز۔۔ بحری اثاثوں کے پاسباں

بحیرہ عرب میں مختلف محاذوں پر مستعد پاک بحریہ کے روز و شب کی روداد
محمد اصغر چوہدری

پاک سرزمین بلاشبہ دنیا کے اس خطے میں واقع ہے جس کی جغرافیائی اہمیت سے کسی صورت انکار نہیں کیا جاسکتا، یہی وجہ ہے کہ افواج پاکستان اور قوم کو وطن عزیز کے داخلی و خارجی دشمنوں سے ہمہ وقت نبردآزما رہنا پڑتا ہے۔ مشرقی سرحد پر مکار دشمن کی چیرہ دستیاں ہوں یا مغربی سرحد پر موجود ایسے پڑوسی کی شرانگیزیاں جو قیامِ امن کی راہ میں رکاوٹ بنی ہوئی ہیں۔ مکار دشمن صرف مشرقی سرحد پر ہی نہیں بلکہ کوسٹل بیلٹ میں بھی اپنی مکارانہ چالوں میں مصروف ہے البتہ وطن عزیز کے دفاع پر مامور افواجِ پاکستان کے جوان ہر جگہ اس کے سامنے سیسہ پلائی دیوار کی صورت میں کھڑے ہوئے ہیں۔ پاکستان کی بری اور فضائی فوج کی طرح پاک بحریہ بھی وطن عزیز کے تحفظ کے لئے ہر لمحہ چاک و چوبند اور متحرک رہتی ہے اس امر کا مشاہدہ اس وقت ہوا جب پاک بحریہ کے شعبہ تعلقات عامہ کی جانب سے وفاقی دارالحکومت کے سینئر دفاعی نامہ نگاروں کو تربت، اوماڑہ، گوادر، کراچی اور سرکریک کے مشکل ترین محاذوں کا دورہ کرایا گیا۔ پاک بحریہ کے ساحلی دفاع پر مامور پاک میرینز علاقے کی نگرانی اور دفاع کے مشکل ترین محاذ پر چوکس کھڑے نہ صرف دشمن پر ہیبت طاری کئے ہوئے ہیں بلکہ مقامی آبادی کے لئے جانی، سماجی اور معاشی تحفظ کے احساس کا ذریعہ بھی ہیں۔ تربت کے سنگلاخ پہاڑ ہوں یا اوماڑہ کی تپتی ریت، پاک بحریہ کے جوان سمندر کی تہہ سے لے کر فضاؤں تک دشمن کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح چبھ رہے ہیں جن سخت ترین موسمی حالات میں پاک بحریہ کے جوان اپنے فرائض انجام دیتے ہیں اس کا اندازہ ٹھنڈے اور گرم کانفرنس ہالوں میں بیٹھ کر افواج پر تنقید کرنے والوں کو نہیں ہوسکتا۔ افواجِ پاکستان نے دفاع وطں کے لئے جو حلف اٹھایا اس کے پاسداری کا عملی نمونہ کوسٹل بیلٹ کے مختلف علاقوں کے مشاہدے میں شامنے آیا۔ پاک بحریہ نے کم وسائل اور نامساعد حالات کے باوجود جیسے خود کو بڑی بحری قوت سمجھنے والے بھارت کو 1965ء کی جنگ میں ناکوں چنے چبوائے تھے جسے وہ تادیر بھلا نہیں پائے گا جبکہ دشمن کی مسلمہ مکاری اور اس کے ناپاک عزائم کو سامنے رکھتے ہوئے تب سے لے کر آج تک تینوں مسلح افواج کو جدید سے جدید تر ٹیکنالوجی کے حامل اسلحہ اور دیگر جنگی سازوسامان سے اس قدر لیس کردیا گیا ہے کہ پاک فوج مادرِوطن کے دشمنوں کو ناصرف بھرپور جواب دینے کی اہمیت رکھتی ہے بلکہ جذبہ جہاد، اعلیٰ حربی سازوسامان اور اپنی بے مثل مہارت کے ساتھ آن واحد میں انہیں نیسٹ و نابود کرنے کی بھی کامل صلاحیت حاصل کرچکی ہے۔ پاکستان بحریہ کی جنگی صلاحیت کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ایک ہزار کلومیٹر سے زائد علاقے پر پھیلے کوسٹل بیلٹ کے چبے چبے کی نگہبانی پاک بحریہ کے میرینز کررہے ہیں جن کا مورال نہ صرف بلند ہے بلکہ افسر ہوں یا جوان شوق شہادت کے جذبے سے سرشار ہیں۔ تاریخ میں پہلی مرتبہ پاکستان کے جنوب مغربی علاقے سرکریک کے اگلے مورچوں کا میڈیا کو دورہ کرایا گیا تو شاہ بندر سے باربر کرافٹ اور پیٹرولنگ بوٹس کے ذریعے اگلے مورچوں تک پہنچنے کا سفر کسی ایڈونچر سے کم نہ تھا، کریکس ایریاز میں اگلے مورچوں پر تعینات پاک بحریہ کے جوان سے جب ہم نے پوچھا کہ ’’جوان مورال کیسا ہے تو اس کا جواب تھا ہائی سر‘‘۔ دوبارہ پوچھا گیا کہ ’’شہید یا غازی تو اس جوان کا جواب تھا شہید‘‘۔ جب قوم کے بیٹے اس جوش و جذبے کے ساتھ دفاع وطن کے لئے پاک سرزمین کے چپے چپے پر موجود ہوں تو مکار دشمن کی کوئی چال کامیاب نہیں ہوسکتی۔ کشمیر اور سیاچن کی طرح سرکریک کو بھی بھارت متنازع علاقہ قرار دیتا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ ’’بنیا‘‘ سرکریک میں معدنی وسائل کی دولت پر نظریں لگائے بیٹھا ہے۔ سرکریک معدنیات، تمر کے جنگلات، سمندری حیات اور تیل و گیس سے مالا مال خطہ ہے، یہی وجہ ہے کہ پاکستان کا ازلی دشمن بھارت اس میں جغرافیائی تبدیلیوں کا خواہاں ہے۔ مذاکرات کی میز ہو یا سرکریک کا محاذ دشمن کو ہر بار منہ کی کھانا پڑی ہے۔ دشمن کی چالوں کو دیکھتے ہوئے پاک بحریہ کے میرینز گوادر تا سرکریک اپنی ساحلی پٹی کے تحفظ کے لئے ہمہ وقت مستعد ہیں۔ سرکریک کے اگلے مورچوں کا جائزہ لیا جائے تو یہ سیاچن گلیشیئر کی طرح مشکل ترین محاذ ہے جہاں دلدلی زمین سے زندگی اور بھی مشکل ہوجاتی ہے مگر قوم کے بہادر سپوت 7600 مربع کلومیٹر علاقے کے تحفظ اور نگرانی کے لئے مستعد ہیں۔ سرکریک کے محاذ پر پاک میرینز کی ایک بٹالین موجود ہے، سرحد پر نگرانی کی چوکیاں، جدید ترین ریڈار سسٹم، متحرک پیٹرولنگ بوٹس اور ہاربر کرافٹ دشمن کی کسی بھی مہم جوئی کا منہ توڑ جواب دینے کے لئے تیار ہیں۔ سرکریک کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے پاک بحریہ کے مزید دو بٹالین میرینز اور جدید آلات پاک میرینز کی قوت میں کئی گنا اضافے کا سبب ثابت ہوں گے۔ دوسری جانب سرکریک کی طرح پاکستان کے لئے گیم چینجر ثابت ہونے والے معاشی حب گوادر پورٹ کے آپریشنل ہونے سے بھی دشمنوں کے پیٹ میں مروڑ اٹھنے لگے ہیں، چنانچہ اندرونی و بیرونی دشمنوں سے نمٹنے کے لئے ایک مربوط حکمت عملی کی ضرورت تھی، گوادر پورٹ کی طرف آنے والے تجارتی قافلوں کی حفاظت کی ذمہ داری بھی پاک بحریہ کے کاندھوں پر ہے، اس مقصد کے لئے ٹاسک فورس 88 تشکیل دی گئی ہے جو جدید ترین آلات اور سامانِ حرب سے لیس ہے۔ 24 گھنٹے پاکستان بحریہ کے جہاز، پیٹرولنگ بوٹس اور ریڈار حرکت میں رہتے ہیں تاکہ دشمن میلی آنکھ سے دیکھ نہ سکے۔ گوادر کے کھلے سمندر میں انسداد دہشت گردی فورس کی جانب سے مشق بھی کی گئی جس میں مشاہدہ کیا گیا کہ انتہائی برق رفتاری اور مہارت کے ساتھ پاک بحریہ کی پیٹرولنگ بوٹس نے مشکوک کشتی کو پکڑا۔ پاک بحریہ کا ہیلی کاپٹر مسلسل فضا میں ساری کارروائی کی نگرانی کرتا رہا جبکہ زمینی دستوں نے مشکوک کمپاؤنڈ میں کارروائی کرتے ہوئے اسے کلیئر کیا، اس موقع پر بتایا گیا کہ پاک بحریہ کے ایس ایس جی گروپ، انسداد دہشت گردی اسکواڈ، پاک میرینز مسلسل مشقوں میں مصروف عمل رہتے ہیں۔ ہمہ وقت سمندر میں ہونے والی نقل و حرکت سے آگاہی حاصل کرنے کے لئے پاک بحریہ جوائنٹ میری ٹائم انفارمیشن اینڈ کوآرڈی نیشن سینٹر کا قیام عمل میں لائی ہے، یہ ادارہ پاکستان کے خصوصی اقتصادی زون میں وقوع پذیر ہونے والی سمندری سرگرمیوں کی نگرانی کرتا ہے، اس ادارے کا بنیادی مقصد معلومات کا تبادلہ اور میری ٹائم اداروں/ ایجنسیز کے مابین رابطے کو قائم رکھنا ہے، میری ٹائم شراکت داروں کی ایک ماہر آپریشنل ٹیم 24 گھنٹے جے ایم آئی سی سی میں فرائض کی انجام دہی میں مصروفِ عمل رہتی ہے۔ مختلف اداروں کے نمائندگان اپنے اپنے متعلق اداروں اور جے ایم آئی سی سی کے درمیان ایک پل کا کام انجام دیتے ہیں اور جے ایم آئی سی سی کو جلد اور شفاف معلومات فراہم کرتے ہیں، اس سینٹر میں موجود سہولیات میری ٹائم کامن آپریٹنگ پکچر کے لئے ایک وسیع نیٹ ورک فراہم کرتی ہیں تاکہ کسی بھی خطرے کی بروقت شناخت ہو اور سمندر میں ہونے والی سرگرمیوں کی روک تھام کے لئے مربوط ردعمل کا مظاہرہ کیا جائے۔ کسی بھی چیلنج سے نبردآزما ہونے کے ساتھ ساتھ جے ایم آئی سی سی ایک ایجنسی سے دوسری ایجنسی کو متعلقہ شعبوں کے علاوہ دیگر ذمہ داری کی بآسانی منتقلی میں مدد فراہم کرتا ہے، جے ایم آئی سی سی ابھی تک 48 قومی شراکت داروں کے ساتھ باہمی روابط استوار کر چکا ہے جن کا میری ٹائم شعبے سے واسطہ ہے جبکہ علاقائی اور عالمی سطح پر اس کا اپنی طرز کے پانچ اداروں سے کامن آپریٹنگ پکچر کا تبادلہ کرتا ہے جبکہ قابل عمل معلومات کی میری ٹائم شراکت داروں کے مابین جلد تبادلے کو یقینی بنانے کے لئے ایک منظم طریقہ کار کی فراہمی بھی کرتا ہے، یہ سینٹر غیرقانونی بحری سرگرمیوں کے خلاف ردعمل کے لئے متعلقہ شراکت داروں کی مدد کرتا ہے۔ 2013ء تک جے ایم آئی سی سی نے معلومات کے تبادلے کے مطلوبہ معیار اور پاکستان کے میری ٹائم شعبے سے جڑے مختلف قومی اور علاقائی شراکت دار اداروں سے رابطے کے سلسلے میں ایک طویل سفر طے کیا۔ بدلتی ہوئی صورتِ حال اور اس سے منسلک چیلنجز کی وجہ سے وسیع تر قومی سیکورٹی کے حصے کے طور پر میری ٹائم سیکورٹی پر خصوصی توجہ مرکوز کرنا ضروری ہے۔ سمندر میں خصوصاً پاک بحریہ کی عمل داری کے علاقے میں قانون کی بالادستی کے لئے جے ایم آئی سی سی نے نہ صرف کلیدی کاوشیں کیں بلکہ قومی میری ٹائم ایجنسیز کو بھرپور تعاون کی فراہمی کے سلسلے میں بھی اہم سنگ میل عبور کیا ہے۔ مکران ڈویژن کے صدر مقام تربت میں نیول ایئربیس صدیق کے فعال ہونے سے علاقے کی پسماندگی ختم کرنے میں مدد ملے گی۔ نیول ایئربیس صدیق کے فعال ہونے سے پاکستان کا دفاع مزید مضبوط ہوا ہے اور علاقے میں میری ٹائم سیکورٹی کے حوالے سے زیادہ بہتر انداز میں اپنی ذمہ داریاں ادا کرسکتے ہیں۔ مقامی آبادی کے ساتھ بہترین تعلقات کار سے پاک بحریہ اور مقامی آبادی کے درمیان اعتماد کی فضا پیدا ہوئی ہے جس کی وجہ سے جگہ جگہ پاکستان کا سبز ہلالی پرچم لہراتا نظر آتا ہے، یوں دشمن کی سازشیں دم توڑ رہی ہیں اور انہیں منہ کی کھانا پڑ رہی ہے۔ پسنی، جیوانی، تربت اور اوماڑہ جیسے علاقوں میں موقسم کی شدت کی پروا کئے بغیر بحریہ کے جوان زمین، سمندر، فضا اور سمندر کی تہہ میں موجود رہ کر وطن کی حفاظت کو یقینی بنا رہے ہیں۔ پاک بحریہ کے غازیوں نے سمندر پر اپنا سکہ کچھ اس ڈھنگ سے جمایا ہے جو اس شعر کی عملی تفسیر ہے ؂
دشت تو دشت دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے
بحرِ ظلمات میں دوڑا دیئے گھوڑے ہم نے
ہم وطن عزیز میں سکون کی نیند اس لئے سو رہے ہیں کہ ہمارے جوان چاہے سیاچن کی برف پوش چوٹیوں پر ہوں یا تربت، پسنی، سرکریک کی تپتی ریت یا سنگلاخ چٹانوں اور پانیوں میں ہر جگہ مستعدی کے ساتھ دفاع وطن کے لئے جاگ رہے ہیں۔ مقامی ماہی گیر ریمو نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ماہی گیری میرا آبائی پیشہ ہے، میری عمر 35 سال کے لگ بھگ ہے، اب ہم انتہائی اطمینان کے ساتھ سمندر میں جاتے ہیں کیونکہ پاک میرینز کی موجودگی کی وجہ سے ہمیں کوئی ڈر اور خوف نہیں رہا، ہم بے فکر مچھلی کا شکار کراچی فشریز میں فروخت کرتے ہیں۔ نیوی کے موجودگی کی بدولت ہمیں علاج معالجے سمیت دیگر بنیادی سہولیات کی فراہمی ممکن ہوسکی ہے۔ بار بار پوچھنے کے باوجود ریمو نے کسی بھی معاملے پر عدم اطمینان کا اظہار نہیں کیا۔ ایک اور ماہی گیر نے بتایا کہ پہلے بھارتی فورسز پاکستانی علاقوں سے ماہی گیروں کو گرفتار کرکے انہیں تشدد کا نشانہ بناتی تھیں تاہم اب پاکستان میرینز کی کڑی نگرانی کی وجہ سے صورتِ حال یکسر مختلف ہے، ہم اب اطمینان کے ساتھ سمندر میں جاتے ہیں اور اپنا روزگار کماتے ہیں۔ دفاعی نامہ نگاروں کو بحریہ میوزیم کارساز کا دورہ بھی کرایا گیا جہاں 1965ء کی جنگ کی ایسی منظر کشی کی گئی کہ جیسے وہ جنگ ابھی ہمارے سامنے ہورہی ہو، پاکستان کی مشرقی سرحد، ایل او سی اور کوسٹل بیلٹ پر میلی نگاہ ڈالنے والے بھارت کو یاد ہونا چاہئے کہ 1965ء میں جب بھارت کے پاس ایک طیارہ بردار جہاز ’’وکرانت‘‘ (جس پر 80 لڑاکا طیارے تھے) موجود تھا جبکہ اس ضمن میں پاکستان بالکل تہی دامن تھا۔ پاکستان کے پاس ایک آبدوز ’’غازی‘‘ تھی۔ بھارت کے پاس 21 جبکہ پاکستان کے پاس صرف 7 تباہ کن جہاز تھے۔ پاکستان کے پاس ایک کروز جبکہ بھارت کے پاس دو تھیں۔ مائن سوئپر پاکستان کے پاس 8 جبکہ بھارت کے پاس 7، تیل بردار جہاز دونوں کے پاس ایک ایک، متفرق جہاز بھارت کے پاس 16 تھے۔ یوں مجموعی طور پر پاکستان کے 18 کے مقابلے میں بھارتی بحری قوت 48 تھی۔ پاک بحریہ کے جوانوں نے بزدل دشمن کے شب خون مارنے کی اطلاع ملتے ہی 6 ستمبر کو کھلے سمندروں میں سے نکل کر اپنے اسٹیشن سنبھال لئے۔ بحری کمانڈر جانتے تھے کہ وہ کس قدر ہیبت ناک قوت کے مقابلے پر جارہے ہیں۔ ظاہری طور پر پاک بحریہ جیسی چھوٹی قوت ختم کرنے کے لئے انڈین نیوی کا ’’وکرانت‘‘ اور دیگر بحری جہاز ’’رانا‘‘، ’’رنجیت‘‘ اور ’’میسور‘‘ ہی کافی تھے۔ پہلے دو روز انڈین نیوی سمندر سے غائب رہی۔ سات اور آٹھ کی درمیانی شب پاک بحریہ کو ’’دوارکا‘‘ کے سمندری قلعے کی تباہی کا حکم ملا۔ یہاں ایک طاقتور ریڈار نصب تھا جو بیرونی ہوائی حملے سے جام نگر ہوائی اڈے کو خبردار کرتا تھا۔ علاوہ ازیں پاکستان پر حملوں کے لئے اپنے طیاروں کی رہنمائی کرتا تھا۔ دوارکا بھارت کا ایک بڑا فوجی ٹھکانہ تھا جہاں انڈین نیوی کا ’’تارپیڈو ٹریننگ اسکول‘‘ بھی تھا۔ پاک بحریہ نے پہلے دوارکا کے ساحلی توپ خانے کو خاموش کیا اور پھر گولہ باری کرکے ٹارگٹ کو بھسم کردیا۔ اس دوران انڈین ایئر فورس نے ہمارے بحری جہازوں پر حملہ کیا لیکن بحری توپچیوں نے تین بھارتی جہازوں کو مار گرایا۔ توقع تھی کہ بھارتی بدلہ لینے کے لئے باہر آئیں گے مگر وہ پاک نیوی کی پہلی ضرب سے دہشت زدہ ہو کر اپنی بندرگاہوں میں دبک کر رہ گئے۔ بعد میں پتہ چلا کہ دوارکا پر پاک حملے کے وقت بھارت کے چار ’’فری گیٹ‘‘ جہاز خلیج میں موجود تھے مگر حملے کا سن کر وہ کچھ اور آگے نکل گئے۔ دن گزرتے رہے، بحری غازی بے قراری سے دشمن کی تلاش میں کھلے سمندروں میں پھرتے رہے۔ آبدوز غازی بھارت کی بڑی بندرگاہ کے سامنے کھڑی رہی۔ بحری عجائب گھر میں پاک بحریہ کا سامان حرب، بابائے قوم گیلری، سمندری پٹی، محمد بن قاسم کی سندھ آمد سمیت ماضی کے دریچوں سے آشنائی فراہم کررہا تھا۔

مطلقہ خبریں