Monday, May 20, 2024
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

پاک روس مشترکہ فوجی مشقیں

بھارت نے بھی ان فوجی مشقوں میں شرکت کرنا تھی، مگر عین وقت پر اس نے ان فوجی مشقوں میں شرکت کرنے سے انکار کردیا.21 سے 26 ستمبر تک جاری رہنے والی ان مشقوں میں پاکستانی فوج کے ایک دستے نے روس کی فوج کے ساتھ مشترکہ فوجی مشقیں کیں، ان فوجی مشقوں میں چین کے ساتھ ساتھ وسطی ایشیا کے ایسے ممالک نے بھی شرکت کی جن کو روس کے دوست ممالک شمار کیا جاتا ہے

عمر جاوید

ملکی سیاست کا ما حول اس قدر گرما گرم ہوچکا ہے کہ میڈیا میں ایسے اہم ایشوز کو اتنی اہمیت نہیں مل رہی، جتنی اہمیت کے وہ حقدار ہیں، جیسے روس کے شہر ”آسترکھان“ میں ہونے والی ”کیوز کاز“ فوجی مشقوں کو میڈیا میں زیادہ کوریج ملنی چاہئے تھی۔ 21 سے 26 ستمبر تک جاری رہنے والی ان مشقوں میں پاکستانی فوج کے ایک دستے نے بھی روس کی فوج کے ساتھ مشترکہ فوجی مشقیں کیں۔ ان فوجی مشقوں میں چین کے ساتھ ساتھ وسطی ایشیا کے ایسے ممالک نے بھی شرکت کی جن کو روس کے دوست ممالک شمار کیا جاتا ہے۔ دلچسپ بات یہ رہی کہ بھارت نے بھی ان فوجی مشقوں میں شرکت کرنا تھی، مگر عین وقت پر اس نے ان فوجی مشقوں میں شرکت کرنے سے انکار کردیا۔ ان مشقوں سے ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان اور روس کے تعلقات میں بہتری آرہی ہے۔ پاک روس تعلقات یہ سبق سکھاتے ہیں کہ بین الاقوامی تعلقات میں جذباتیت، دوستی اور دشمنی جیسے عناصر کی کوئی جگہ نہیں ہوتی۔ جدید ریاستی نظام میں یہ قومی مفادات ہی ہوتے ہیں، جن کی بنیاد پر دو ریاستیں ایک دوسرے کے قریب آ جاتی ہیں اور اپنے مقاصد کے حصول کے لئے مشترکہ جدوجہد کرتی ہیں۔ قیام پاکستان کے وقت سرد جنگ کا دور شروع ہوچکا تھا۔ دنیا سوویت اور امریکی بلاکوں میں بٹ چکی تھی۔
بھارت کے وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو طے کرچکے تھے کہ وہ بلاک سیاست کا حصہ بننے کے بجائے غیرجانبدار پالیسی اپنائیں گے اور دو عالمی طاقتوں کے ساتھ متوازن تعلقات روا رکھیں گے۔ پاکستان اور روس کے درمیان سفارتی تعلقات مئی 1948ء میں قائم کئے گئے۔ روس کی جانب سے وزیراعظم لیاقت علی خان کو دورۂ ماسکو کا دعوت نامہ بھی موصول ہوگیا، لیکن لیاقت علی نے واشنگٹن یاترا کو ترجیح دی، اور یوں مئی 1950ء میں لیاقت علی خان امریکی دورے پر روانہ ہوگئے۔ پاکستان نے روس کی جانب سے آئی دعوت کو اہمیت کیوں نہیں دی؟ اس کی وجوہات یہ ہیں کہ پاکستان کی سول ملٹری بیورو کریسی کے نزدیک امریکہ سے پاکستان کو خاطرخواہ دفاعی، معاشی امداد مل سکتی تھی، نیز سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں بھی امریکہ ایک نمایاں مقام رکھتا تھا، جبکہ روس نے کشمیر کے مسئلے پر بھی سرد مہری کا رویہ اپنایا تھا۔ اس کے بعد آنے والے دور میں چند واقعات نے جہاں سرد جنگ کی حدت کو مزید گرمائش فراہم کی، وہیں پاکستان اور روس میں دوریاں بڑھتی گئیں۔ جیسے 1950ء کی کوریا جنگ اور اس کے بعد 1954ء کے کولمبو پلان میں پاکستان کا جھکاؤ مکمل طور پر امریکہ اور مغرب کی طرف رہا، بعدازاں جولائی 1956ء میں نہر سوئز کے بحران میں بھی پاکستان نے مغرب کی حمایت کی۔ رہی سہی کسر پاکستان نے دفاعی معاہدات سیٹو اور سینٹو میں شمولیت کر کے پوری کرلی۔
یہی وہ وقت تھا جب 1955ء میں روسی لیڈر خروشیف نے بھارت کا دورہ کیا اور روس بھارت میں قربتیں بڑھ گئیں، اب خطے میں تقسیم واضح ہوچکی تھی۔ اس پر ستم یہ کہ 1957ء میں کشمیر کے مسئلے پر روس نے بھارت کے حق میں اپنا ویٹو کا حق استعمال کیا۔ اب خروشیف کھل کر کہہ رہا تھا کہ کشمیر بھارت کا حصہ ہے۔ حالات میں مزید تلخی اس وقت پیدا ہوئی جب بڈبیر بیس سے امریکی طیارے یو ٹو نے پرواز بھری، مگر روسیوں نے اسے مار گرایا اور اس کے پائلٹ گیری پاور کو حراست میں لے لیا۔ خروشیف نے پشاور کے گرد لال دائرہ کھینچ دیا۔ یہ پاک روس تعلقات کا ایک نازک لمحہ تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ روس نے پاکستان میں پختونستان اسٹنٹ، سندھو دیش اور بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کی بھی حمایت کرنا شروع کردی، لیکن بھارت چین جنگ سے قبل امریکہ نے بھارت کو جس طرح اسلحے سے لیس کرنا شروع کیا، یہ عمل پاک روس کو قدرے قریب لایا۔ 1963ء میں تجارتی معاہدہ کیا گیا، کشمیر ایشو پر بھی روسی موقف کی سختی قدرے کم ہوئی۔
ایوب خان نے اپریل 1965ء میں روس کا دورہ کیا، جس میں خاصی برف پگھلی۔ 1965ء کی جنگ کے بعد تاشقند میں روس نے ایوب خان اور لال بہادر شاستری کے درمیان معاہدہ کرانے میں اہم کردار ادا کیا۔ ایوب خان نے ستمبر 1967ء میں دوبارہ ماسکو کا دورہ کیا۔ اس دورے میں روس نے دفاعی معاہدہ کرنے سے گریز کیا، لیکن زراعت، تھرمل پاور کے حوالے سے اہم معاہدے کئے۔ روسی وزیراعظم الیگزی کوسیجن نے اپریل 1968ء اور مئی 1969ء میں پاکستان کے دورے کئے، جن میں اسٹیل مل کے حوالے سے اہم پیش رفت ہوئی۔ کوسیجن نے پاکستان کو ایشیائی سلامتی سے متعلق ایک معاہدے کی پیشکش کی، لیکن پاکستان نے اسے اینٹی چین گردانتے ہوئے مسترد کردیا۔ یہاں ایک اہم واقعہ ہوا، جب امریکی صدر نکسن نے پاکستانی آشیرواد سے خفیہ طور پر چین کا دورہ کیا، اسے اس وقت ”عہد حاضر کا سفارتی دھماکہ“ کہا گیا، جس پر روس کا برافروختہ ہونا ایک یقینی امر تھا۔ بھارت اور روس میں دوبارہ قربتیں بڑھیں اور اگست 1971ء میں روس بھارت دفاعی معاہدے نے بھارت کے مشرقی پاکستان کے حوالے سے ہاتھ مضبوط کرنے شروع کئے، یوں روس نے مشرقی پاکستان میں بھارتی مداخلت کی کھلی پشت پناہی کی اور دفاعی حوالے سے بھی بھارت کو مدد فراہم کی۔
جنگ کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے زمام کار سنبھالی اور خارجہ پالیسی کا ازسرنو جائزہ لے کر روس سے خوشگوار تعلقات بنانے کی کوششیں شروع کیں، جس کا ثبوت ان کے روس کے کامیاب دورے تھے، جس کے نتیجے میں اسٹیل مل کا سنگ بنیاد رکھا گیا، گدو تھرمل کے حوالے سے روسی تکنیکی مدد ملی۔ روس نے پاکستان کے کئی قرضے معاف کردیئے۔ یہاں تک کہ ذوالفقار علی بھٹو کی گرفتاری کے موقع پر بھی برزنیف نے ان کی رہائی کے لئے ضیاء حکومت سے رابطے کئے، لیکن افغانستان میں سوویت مداخلت نے پاک روس تعلقات میں تلخیوں کے طویل دور کا آغاز کیا اور پاکستان نے امریکی آشیرواد سے سوویت یونین کو افغانستان میں مجاہدین کے ذریعے خاصی زک پہنچائی۔ یہاں تک کہ روس جنیوا معاہدے کے تحت 1988ء میں افغانستان سے جانے پر مجبور ہوگیا۔ سوویت یونین کا خاتمہ ہوا اور سرد جنگ ختم ہوگئی، دنیا یونی پولر بن گئی۔ طالبان کے ظہور میں آنے کے بعد پاک روس تعلقات میں رنجشیں بڑھ گئیں اور پیوٹن کے اقتدار سنبھالنے کے بعد روس کا جھکاؤ مکمل طور پر بھارت کی جانب ہوگیا۔ اس دور میں نواز شریف 25 سال میں پہلے وزیراعظم تھے، جنہوں نے اپریل 1999ء میں روس کا دورہ کیا۔
پرویز مشرف نے 2000ء اور فروری 2003ء میں ماسکو کا دورہ کیا، جس کے نتیجے میں روس نے شنگھائی تعاون تنظیم میں پاکستان کی بطور مبصر شمولیت کی حمایت کی۔ 2007ء میں روسی وزیراعظم میخائل فریڈ کوف نے پاکستان کا دورہ کیا، جو 38 سال میں کسی روسی لیڈر کا پہلا دورہ تھا۔ اکتوبر 2012ء میں روسی صدر ولادی میر پیوٹن کا دورہ پاکستان طے تھا، مگر بھارتی دباؤ پر عین موقع پر اسے ملتوی کرنا پڑا، تاہم روسی وزیرخارجہ نے فوری دورہ کر کے تعاون اور ترقی کے عمل کو جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا۔ سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے جولائی 2015ء میں ماسکو کا دورہ کیا، جس کے نتیجے میں روس پاکستان کو ایم آئی-35 ہیلی کاپٹر دینے پر آمادہ ہوگیا۔ آج پاک روس تعلقات ایک نئے دور میں داخل ہوچکے ہیں۔ روس افغانستان کے تناظر میں پاکستان کو ایک اہم کھلاڑی سمجھتا ہے، روس جانتا ہے کہ طالبان کے وسط ایشیائی خطے میں پھیلاؤ کی روک تھام کے لئے بھی پاکستان کا کردار کا ہوسکتا ہے، علاوہ ازیں پاک چین اقتصادی کوریڈور منصوبے میں بھی روس دلچسپی دکھا رہا ہے، جبکہ پاکستان سے قربت کا ایک اہم محرک بھارت امریکی حربی گٹھ جوڑ بھی ہے، جو روس کو کھٹک رہا ہے۔ مجموعی طور پر پاک روس تعلقات میں 2011ء تا 2016ء کے عرصے میں اعتماد سازی میں کئی گنا اضافہ دیکھا گیا ہے۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ اب کریملن، دلی کی اس طرح اندھی حمایت نہیں کرتا جو ماضی کا خاصہ رہی ہے۔ یہ بہترین وقت ہے کہ گلوبل سیاست کے تیزی سے بدلتے ہوئے تناظر میں نئی حقیقتوں کو تسلیم کر کے کریملن اور اسلام آباد، ماضی کی تلخیوں کو بھلا کر ایک نئے دور کی بنیاد رکھیں تاکہ خطے میں امن و ترقی کے نئے دور کا آغاز ہوسکے۔

مطلقہ خبریں