Thursday, July 31, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

پاک بھارت جنگ کا میدان معاش ہونا چاہئے

دونوں ممالک جن معاشی مسائل کے انبار میں پھنسے ہوئے ہیں اس سے نکلنے کیلئے زیادہ سے زیادہ علاقائی تجارت کو آپشن کے طور پر اپنایا جائے

ضمیر آفاقی

پاکستان اور بھارت دو ایسے ہمسائے ہیں جن کی صرف طویل ترین سرحدیں ہی آپس میں نہیں ملتیں بلکہ ایک طویل کلچر، تمدن اور باہمی یگانت کی بھی طویل تاریخ ہے۔ اس کے ساتھ دونوں ممالک میں بسنے والے شہریوں کی ایک دوسرے سے رنگ و نسل کے ساتھ مذہبی طور پر قرابت داریاں بھی ہیں یہاں تک کہ عبادت، زیارت گاہیں اور تاریخی ورثے بھی ہیں جبکہ دونوں ممالک کی اکثریت ایک خاص الیٹ کی آسودگی کے سوا غربت، جہالت، بھوک اور ننگ میں جکڑی ہوئی ہے۔ اگر کبھی انہونی ہوجائے اور ان دونوں ملکوں میں امن اور بھائی چارے کی فضا فروغ پا جائے، باہمی میل جول اور تجارت کے لئے سرحدیں کھل جائیں تو ڈیڑھ ارب کی آبادی کے حامل ان دو ممالک کے ساتھ ڈھائی ارب کی آبادی کے اس خطے جسے جنوبی ایشیا کہتے ہیں کے پسے ہوئے طبقات کے دکھ، پریشانیاں، غربت اور بھوک دور ہوسکتی ہے۔ مستقبل میں جنگوں کا میدان معاشی ہدف نظر آتا ہے، جو ممالک اور قومیں اس میدان میں اپنا سکہ جمانے میں کامیاب ہوگئے، وہاں ترقی اور خوشحالی کے بحر قلزم بہیں گے اور جو ممالک اپنے باہمی تنازعات کو روائتی جذباتی تعصبات، نفرت اور ہتھیاروں سے حل کرنے کی کوشش کریں گے وہاں بھوک اور ننگ کا راج کبھی ختم نہیں ہوگا۔
اس حوالے سے عالمی بینک کے اندازوں کے مطابق پاکستان اور بھارت میں رکاوٹیں دور ہونے کی صورت میں سالانہ 35 ارب ڈالر کی تجارت ہوسکتی ہے۔ لمحہ موجود میں دونوں ممالک میں تجارتی حجم محض دو ارب ڈالر ہے، یہ بات ورلڈ بینک کے ڈائریکٹر میکرو اکنامکس، ٹریڈ اینڈ انویسمنٹ کیرولینا فریونڈ نے جنوبی ایشیا کے حوالے سے رپورٹ ’’گلاس ہاف فل‘‘ کی لانچنگ کے موقع پر کی، عالمی بینک کی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ متعدد جنوبی ایشیائی ممالک دور کی بجائے اپنے پڑوسی ممالک سے زیادہ بہتر شرائط پر تجارت کرسکتے ہیں، انسان کی بنائی رکاوٹیں دور ہوجائیں تو جنوبی ایشیائی ممالک میں تجارت کا حجم 23 ارب ڈالر سے بڑھ کر 67 ارب ڈالر ہوسکتا ہے۔ بھارت، نیپال، پاکستان اور سری لنکا میں جنوبی ایشیائی ریجن کی نسبت دیگر دنیا سے امپورٹ انڈیکسز دوسروں سے دو گنا زیادہ ہیں، سی پیک کے بارے میں انہوں نے کہا اس سے تجارت کو فائدہ ضرور ہوگا، تاہم انہوں نے کہا تجارتی سہولیات اور انفرااسٹرکچر کی بھی تجارت کے فروغ میں برابر کی اہمیت ہے۔ عالمی بینک کے ماہر معیشت کے مطابق توقع ہے بنگلہ دیش اور نیپال ٹی آئی آر (ٹرانسپورٹ انٹرنیشنکس روٹرز، انٹرنیشنل روڈ ٹرانسپورٹ) کی توثیق کردیں گے، اس کے بعد ڈھاکہ سے کابل تک سڑک سے تجارت ممکن ہوسکے گی، رپورٹ کے مطابق اگر علاقائی رکاوٹیں دور ہوجائیں تو تجارت کے نتیجے میں روزگار کے بڑے مواقع پیدا ہوسکتے ہیں، دنیا کا تیز تر ترقی کرنے والا علاقہ ہونے کے باوجود پاکستان کی علاقائی تجارت کا تناسب محض 9 فیصد ہے تاہم جنوبی ایشیائی ممالک کی ہاہم تجارت صرف پانچ فیصد ہے۔
پاکستان اور بھارت جن معاشی مسائل کے انبار میں پھنسے ہوئے ہیں اس سے نکلنے کے لئے ضروری ہے کہ زیادہ سے زیادہ علاقائی تجارت کو آپشن کے طور پر اپنایا جائے۔ دونوں ممالک اگر باہمی اعتماد سازی کے اقدامات اٹھائیں تو ان کی معاشی ترقی کی رفتار انتہائی تیز ہوسکتی ہے۔ عالمی بینک کی تازہ رپورٹ کے مطابق سب سے زیادہ تجارتی پابندیاں جنوب ایشیائی ممالک کے مابین ہیں۔ بالخصوص پاکستان اور بھارت کے مابین تجارتی پابندیوں کی نوعیت انتہائی پیچیدہ ہے اور یہ پابندیاں تجارتی سرگرمیوں کی حوصلہ شکنی کا باعث بنی ہوئی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق تجارت کے لئے جنوبی ایشیائی ممالک کے مابین زیادہ سے زیادہ فضائی روابط قائم کرنا ضروری ہیں۔ جنوبی ایشیا کے ممالک میں پاکستان کے فضائی روابط سب سے کم ہیں۔ پاکستان سے ایک ہفتہ میں بھارت اور افغانستان کے لئے چھ فلائٹس ہیں۔ سری لنکا اور بنگلہ دیش کے لئے دس دس فلائٹس اور نیپال کے لئے صرف ایک فلائٹ۔ مالدیپ اور بھوٹان کے لئے پاکستان سے کوئی فلائٹ نہیں ہے۔ اس کے برعکس بھارت کی سری لنکا کے لئے ایک ہفتہ میں 147، بنگلہ دیش 67، نیپال 71، مالدیپ 32، افغانستان 22 اور بھوٹان کے لئے 23 فلائٹس ہیں۔ تاہم اگر اسلام آباد اور دہلی باہمی تجارت کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو دوطرفہ تجارت کی سطح کو 37 ارب ڈالر تک بڑھانے کے وسیع امکانات موجود ہیں۔ یہ بات کچھ عرصہ پیشتر جاری کردہ عالمی بینک کی ایک اور رپورٹ میں بتائی گئی تھی جس میں جنوبی ایشیا کے ملکوں کے درمیان تجارت کے وسیع ممکنہ مواقع کا احاطہ کرتے ہوئے ان کے راہ میں حائل رکاوٹوں کی نشاندہی کی گئی تھی۔ رپورٹ کے مطابق جنوبی ایشیا کے دو بڑوں ملکوں پاکستان اور بھارت کی باہمی کشیدگی کی وجہ سے ناصرف دونوں ملکوں کی باہمی تجارت پر منفی اثر پڑ رہا ہے بلکہ خطے کی تجارت بھی اس وجہ سے متاثر ہو رہی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ جنوبی ایشیا کے ملکوں خاص طور پر پاکستان اور بھارت کے درمیان تجارت کو فروغ دینے کی راہ میں وہ رکاوٹیں ہیں جن کا تعلق براہ راست تجارتی معاملات اور غیرتجارتی معاملات سے ہے اور جب تک ان کو دور نہیں کر لیا جاتا خطے کے ملکوں خاص طور پر پاک بھارت تجارت کے حجم میں اضافہ ممکن نہیں۔
ادھر وزیراعظم عمران خان کی طرف سے اپنے بھارتی ہم منصب کو مذاکرات کے حوالے سے لکھے جانے والے خط کے بعد پاکستان میں کئی معاشی ماہرین یہ امید لگا رہے ہیں کہ حالات کی بہتر ی سے خطے میں تجارت کو بھی فروغ ملے گا۔ وزیرِاعظم عمران خان نے ایک خط میں اپنے بھارتی ہم منصب نریندر مودی کو مذاکرات کی دعوت تھی۔ دونوں ممالک کے درمیان پانچ برسوں سے سرد جنگ کی سی کیفیت ہے اور سرحدوں پر آئے دن گولہ باری بھی ہوتی رہتی ہے۔ معاشی امور کے ماہرین کے خیال میں اس کشیدہ صورتِ حال کی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان تجارت کو بہت نقصان ہورہا ہے۔ معاشی امور کے ماہرین کے خیال میں پاکستان کئی شعبوں میں تجارت سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ ’’بھارت کی مارکیٹ بہت بڑی ہے، جس سے یقیناً پاکستان کو فائدہ ہوسکتا ہے۔ سروسز میں پاکستان کے بینکنگ سیکٹر، صنعت میں پاکستان کی ٹیکسٹائل جو بھارت میں پہلے ہی بہت مقبول ہے، زراعت میں چاول، پھلوں میں آم اور یہاں تک کہ ڈرامے اور فلموں میں بھی ہمیں فائدہ ہوسکتا ہے۔ اگر دونوں ممالک کے تعلقات میں حقیقی معنوں میں بہتری آسکتی ہے اور اعتماد بھی بحال ہوتا ہے تو ہمیں ٹرانزٹ ٹریڈ میں بھی فائدہ ہوسکتا ہے۔ ہم بھارت کو افغانستان اور وسطی ایشیا کے لئے راہداری کی سہولت دے سکتے ہیں، جس سے ہمیں ٹول ٹیکس کی مد میں اچھا خاصا پیسہ مل سکتا ہے۔‘‘ لیکن کئی صنعت کاروں کا خیال یہ ہے کہ بھارت سے تجارت پاکستان کے لئے نقصان دہ بھی ثابت ہوسکتی ہے۔
بزنس کمیونٹی کسی بھی ملک سے تجارت کرنے میں اب محتاط نظر آتی ہے اور اس کی ایک وجہ چین کے ساتھ ہونے والا فری ٹرید معاہدہ ہے، جو کئی ماہرین اور صنعت کاروں کے خیال میں پاکستان کے لئے بہت منفی اثر لے کر آیا ہے۔ معروف صنعت کے خیال میں میڈیسن کے شعبے میں ہم بھارت سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں کیونکہ وہاں دوائیں سستی بھی ہیں اور زیادہ بہتر بھی: ’’لیکن تجارت کے لئے کسی بھی قدم کو اٹھانے سے پہلے ہمیں اچھی طرح ہر پہلو کا جائزہ لینا چاہئے۔ پاکستان میں ماہرین اور دوسرے تمام اسٹیک ہولڈرز کو بیٹھ کر ایسے آئٹمز کی فہرست بنانی چاہئے، جس کو درآمد کرنا ضروری ہے اور جس سے مقامی صنعت کو نقصان بھی نہ ہو۔ بغیر سوچ وبچار کے تجارت کرنا پاکستان کے لئے نقصان دہ ہوسکتا ہے۔‘‘ صنعت کاروں کی طرح کچھ ماہرینِ معیشت بھی بھار ت کے ساتھ پاکستان کی تجارت میں ملک کا فائدہ نہیں دیکھتے۔ ان کے خیال میں کیونکہ بھارت ایک بڑی مارکیٹ ہے، پاکستان کے لئے اس سے مقابلہ کرنا آسان نہیں ہوگا۔ معروف معیشت دانوں کے خیال میں نہ صرف پاکستانی صنعت متاثر ہوگی بلکہ زراعت کو بھی نقصان پہنچے گا: ’’پاکستان کے مقابلے میں بھارت میں کسانوں کو زیادہ سبسڈی دی جاتی ہے۔ پاکستان میں صنعتی اور زرعی شعبوں کی حالت کوئی اچھی نہیں ہے۔ ہماری صنعتی پیداوار کی گنجائش بھی اتنی زیادہ نہیں ہے جتنی کہ بھارت کی ہے۔ ہم تو جی ایس پی پلس سے بھی فائدہ نہیں اٹھا پائے تو ان حقائق کے پیشِ نظر ہمیں اپنی مارکیٹ نہیں کھولنی چاہئے۔ اس سے بھارت کو فائدہ ہوگا اور ہمیں نقصان۔ لیکن یہ سچ اپنی جگہ پر موجود ہے کہ پاک بھارت تعلقات میں بہتری سے خطے کی عوام کی زندگیوں میں بہتری سکتی ہے۔

مطلقہ خبریں