سمندری اثاثوں اور جہاز رانی کو محفوظ بنانے کے حوالے سے پاک بحریہ کا عزم قابل ستائش ہے
محمد اظہر
’’(اور جہاز بھی اسی کے ہیں جو سمندر میں پہاڑوں کی طرح اونچے کھڑے ہوتے ہیں‘‘ (سورۂ رحمن، آیت نمبر 24
زمین کے تقریباً 70 فیصد حصے پر پانی موجود ہے۔ انسان نے جب سے سمندر میں مہم جوئی کا آغاز کیا ہے اس وقت سے اس کی ہمیشہ خواہش رہی ہے کہ وہ سمندر کی گہرائی میں اترے۔ ہائیڈروگرافی بنیادی طور پر سمندر کی گہرائی میں چھپے معلومات کے خزانے کی دریافت کا عمل ہے۔ گہرائی کے سروے اور پیمائش کی بنیاد پر دریاؤں، جھیلوں اور سمندروں کے نقشے تیار کئے جاتے ہیں جس کا مقصد سمندر کی گہرائی سے متعلق آگاہی فراہم کرنا ہے۔ ہائیڈرو گرافک سروے کی آخری شکل ناٹیکل چارٹ یا نقشہ ہے جو سمندر کی گہرائی اور دیگر خدوخال جیسے کہ زیرآب موجود چٹانوں، رکاوٹوں وغیرہ سے متعلق معلومات فراہم کرتے ہیں تاکہ سمندری سفر کو محفوظ تر بنایا جاسکے۔ ہائیڈرو گرافی کا تعلق سمندر سے متعلق ہونے والی تقریباً ہر سرگرمی سے ہے جس میں پورٹ اور ہاربر کی تعمیر، سمندری وسائل (ماہی گیری، معدنیات وغیرہ) کا استعمال، ہمسایہ ممالک کے درمیان سمندری حد بندی، زیرآب پائپ لائنز اور نشریاتی کیبلز بچھانا، سمندری آفات سے نمٹنا اور ساحلی علاقوں کی مینجمنٹ وغیرہ شامل ہیں۔ ہائیڈرو گرافی کی اس اہمیت کے پیش نظر ہر سال 21 جون کو ہائیڈرو گرافی کا عالمی دن منایا جاتا ہے جس کا مقصد اس ضمن میں دنیا بھر میں ہونے والے کاوشوں کو سراہنا اور مزید بہتر بنانا ہے۔ انٹرنیشنل ہائیڈرو گرافک آرگنائزیشن (آئیاچاو ) کی جانب سے ہر سال دنیا بھر میں بحری امور کے ضمن میں ہونے والی ہائیڈرو گرافک سرگرمیوں کے حوالے سے ایک موضوع منتخب کیا جاتا ہے اور اس سال کا منتخب کردہ موضوع باتھیمیٹری، سمندروں اور آبی راستوں کے بہترین استعمال کی بنیاد ہے۔ گزشتہ زمانے میں ہائیڈرو گرافک سروے کے لئے پرانے روایتی طریقے جیسے پتھر سے بندھی ہوئی رسیاں اور پول وغیرہ استعمال کئے جاتے تھے جو نہایت محنت طلب اور سست رفتار تھے اور پیمائش کے اعتبار سے بھی زیادہ موثر نہیں تھے تاہم جدید ٹیکنالوجی کے منظر عام پر آنے کے بعد ہائیڈرو گرافک سروے کا طریقہ کار بہت تیز رفتار اور معیاری ہوگیا ہے جس کی بدولت کم وقت میں سمندر کے زیادہ رقبے کا سروے کیا جاسکتا ہے، اس طرح ہائیڈرو گرافی کے جدید طریقہ کار کی بدولت پیمائش اور پوزیشن کا سینٹی میٹر کی حد تک بالکل ٹھیک اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ سمندر وہ علاقہ ہے جہاں دنیا بھر سے مختلف پس منظر اور زبانوں سے تعلق رکھنے والے میرینزز تجارتی، تحقیقی، دفاعی اور دیگر مقاصد کے لئے جہاز رانی کرتے ہیں، اس ضمن میں انٹرنیشنل ہائیڈرو گرافک آرگنائزیشن (آئیاچاو) ہائیڈرو گرافک سروے کے لئے سخت ضابطے اور معیار وضع کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ یہ ادارہ ناٹیکل چارٹس وغیرہ میں یکساں معیار قائم کرنے کے حوالے سے بھی باہمی رابطے کا کام کرتا ہے۔ پاکستان ایک ساحلی ملک ہے جسے قدرت نے 1000 کلومیٹر سے زائد ساحلی پٹی اور 290000 مربع کلومیٹر کے قریب سمندری علاقے سے نوازا ہے، اس وسیع و عریض رقبے میں پائے جانے والے جاندار اور بے جان وسائل صرف اور صرف پاکستان کی ملکیت ہیں۔ اقوام متحدہ، انٹرنیشنل میری ٹائم آرگنائزیشن اور انٹرنیشنل ہائیڈرو گرافک آرگنائزیشن کے رکن کی حیثیت سے پاکستان پر کچھ بین الاقوامی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ بین الاقوامی قراردادوں اور کنونشز کے مطابق پاکستان اپنی سمندری حدود کا سروے کرنے اور اس کی بنیاد پر چارٹس اور نقشے وغیرہ تیار کرنے کا پابند ہے تاکہ محفوظ تر جہاز رانی کے لئے سمندری راستوں سے متعلق بالکل ٹھیک معلومات مہیا کی جاسکیں۔ پاکستان میں پاک نیوی ہایڈرو گراکف ڈیپارٹمنٹ (ی این اچ ڈی) ہائیڈرو گرافک سروے اور ناٹیکل چارٹس اور نقشے وغیرہ تیار کرنے کی بین الاقوامی ذمہ داری پوری کرتا ہے۔ پاکستان کا واحد ہائیڈرو گرافک اور اوشیانو گرافک جہاز ایس وی بحر پیما جسے 1982ء میں جاپان سے حاصل کیا گیا تھا۔ ملک کے ساحلوں اور گہرے پانیوں کے سروے میں مرکزی کردار ادا کرتا ہے۔ ہائیڈرو گرافی کے علاوہ یہ جہاز متعدد قومی تدریسی اور تحقیقی اداروں کے اشتراک سے ہائیڈرو گرافی اور اوشیانو گرافی کی سائنسی تحقیق میں بھی معاونت فراہم کرتا ہے۔ بڑھتی ہوئی ضروریات کے پیش نظر ایک اور سروے جہاز بھی زیرتعمیر ہے جو آئندہ سال کے وسط تک تیار کرلیا جائے گا۔ پاکستان نیوی ہائیڈرو گرافک ڈیپارٹمنٹ کا چارٹنگ سینٹر جمع کئے ہوئے ہائیڈرو گرافک ڈیٹا کو سمندری چارٹس اور نقشوں میں تبدیل کرتا ہے اور بین الاقوامی معیار کے مطابق اسٹیٹ آف دی آرٹ الیکٹرانک چارٹس کے ساتھ ساتھ روایتی کاغذی نقشے بھی تیار کرتا ہے۔ یہ الیکٹرانک چارٹس آج کی الیکٹرانک نیوی گیشن میں مرکزی کردار ادا کرتے ہیں۔ ہائیڈرو گرافک سروے اور چارٹس تیار کرنے کے علاوہ پاکستان نیوی ہائیڈرو گرافک ڈیپارٹمنٹ کا کراچی میں قائم تربیتی ادارہ تربیت یافتہ افرادی قوت بھی مہیا کررہا ہے۔ یہ تربیتی ادارہ خطے میں ایک ممتاز مقام رکھتا ہے جہاں آئیاچاو سے منظور شدہ ہائیڈرو گرافک کورسز کرائے جاتے ہیں، اس ادارے میں پاکستانی افسروں اور جوانوں کے ساتھ کئی دوست ممالک کے افراد کو بھی تربیت فراہم کی جاتی ہے۔ پاکستان نیوی ہائیڈرو گرافک ڈیپارٹمنٹ بین الاقوامی سطح پر آئیاچاو اور علاقائی ہائیڈرو گرافک کمیشنز (آر اچ سی ایس ) میں پاکستان کی نمائندگی کرتا ہے۔ یہ علاقائی فورسز علاقائی سطح پر ہائیڈرو گرافک سرگرمیوں کو فروغ دیتے ہیں۔ پاکستان کو اس وقت دو ریجنل ہائیڈرو گرافک کمشنز یعنی این آئ آو اچ سی (نارتھ انڈین اوشن ہائیڈرو گرافک کمیشن) اور آرایس اے اچ سی, آر او پی ایم ای سی ایریا ہائیڈرو گرافک کمیشن جو خلیجی ریاستوں پر مشتمل ہے) کی رکنیت حاصل ہے۔ پاکستان اس وقت آرایس اے اچ سی کا چیئرمین ہے جو علاقائی سطح پر ہائیڈرو گرافک سرگرمیوں کے حوالے سے پاکستان کی اہمیت کا مظہر ہے۔ مزید برآں سمندر میں جہاز رانوں کے تحفظ کی بین الاقوامی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لئے یہ ڈیپارٹمنٹ 1976ء سے نوآریہ -چار کے آرڈینیٹر کی حیثیت سے بھی ذمہ داریاں ادا کررہا ہے۔ نوآریہ -نو خلیج اور بحیرہ احمر کے 16 ممالک پر مشتمل ہے۔ کوئی بھی ایسی اطلاع جو اس علاقے میں محو سفر جہازوں کی سیفٹی سے متعلق ہو، جہاز رانوں کو خبردار کرنے کے لئے بھیجی جاتی ہے۔ یہ پاکستان کے لئے یقیناً ایک بڑا اعزاز ہے جو پاکستان نیوی ہائیڈرو گرافک ڈیپارٹمنٹ کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں پر عالمی برادری کے اعتماد کا مظہر ہے۔ پاکستان نیوی ہائیڈرو گرافک ڈیپارٹمنٹ نے قومی اہمیت کے جن منصوبوں میں معاونت فراہم کی ہے ان کی ایک طویل فہرست ہے۔ قومی خزانے میں ان منصوبوں کا ایک بڑا حصہ ہے۔ پاکستان کی 95 فیصد تجارت کا دارومدار سمندر پر ہے۔ ہمارے پانیوں کے ہائیڈرو گرافک سروے اور ان کے مطابق تیار کردہ نقشوں نے تجارتی مقاصد کے لئے تجارتی جہازوں اور میری ٹائم سیکورٹی آپریشنز کے لئے بحری جہازوں کے سفر کو محفوظ بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے، اسی طرح اس ڈیپارٹمنٹ نے ابتدائی سروے اور تحقیقی مطالعے کے ذریعے پورٹ محمد بن قاسم، گوادر، اورماڑہ اور چلنا (مشرقی پاکستان/ بنگلہ دیش) کی بنیاد فراہم کی ہے۔ پاکستان نیوی ہائیڈرو گرافک ڈیپارٹمنٹ نے ایران اور عمان کے ساتھ سمندری حدود طے کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ مزید برآں پاکستان اور بھارت کی جانب سے سرکریک کا ایک مشترکہ سروے بھی کیا گیا جس سے دونوں ممالک کے درمیان سمندری حد بندی کے معاملے کو حل کرنے میں مدد ملی۔ علاوہ ازیں پاکستان نیوی ہائیڈرو گرافک ڈیپارٹمنٹ نے نیشنل انسٹیٹیوٹ آف اوشیانو گرافی کے ساتھ مشترکہ کوششوں کے ذریعے اقوام متحدہ میں دعویٰ دائر کرکے 50000 مربع کلومیٹر کے رقبے پر مشتمل کاٹینینٹل شیلف کے حصول میں بھی مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ مختصر یہ کہ گزشتہ 70 برسوں کے دوران محدود وسائل اور سروے کی مشکلات کے باوجود پاکستان نیوی ہائیڈرو گرافک ڈیپارٹمنٹ نے قومی معیشت، تجارت، میرین ریسرچ، میری ٹائم سیکورٹی، ہمسایہ ممالک کے ساتھ تنازعات کے حل اور پالیسی سازوں اور بحری امور سے متعلق اداروں کی معلومات میں اضافے میں بالواسطہ طور پر اہم کردار ادا کیا ہے۔ ہائیڈرو گرافی کے میدان میں پاک بحریہ کی نمایاں کوششیں اور قومی اور بین الاقوامی کاوشوں میں وسائل اور اثاثوں کی فراہمی ملک کی سمندری حدود میں جہاز راتی کو محفوظ بنانے کی بین الاقوامی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے حوالے سے پاک بحریہ کے عزم کا مظہر ہے۔