Thursday, July 24, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

پاک بحریہ  بلوچ نوجوانوں کو قومی دھارے میں لانے کیلئے کوشاں

سمیرا بصری

افواج پاکستان نے ملکی دفاع کے لئے ہمیشہ کھلے اور چھپے دشمن کو شکست دی ہے، وہ دشمن سرحدوں کی حفاظت میں حائل کوئی بزدل ہو یا کسی ناانصافی کی وجہ سے دل و دماغ میں پل رہا نفرت کا افریت، پاکستانی افواج نے انہیں کاری ضرب لگائی ہے۔ صوبہ بلوچستان رقبہ کے لحاظ سے ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہونے کے باوجود بنیادی سہولیات سے محروم رہا ہے۔ کم و بیش ہر دورحکومت میں بلوچستان کے مسائل کسی نتیجہ خیز انجام تک پہنچائے بغیر ادھورے چھوڑ دیئے گئے دیگر عوامل کے ساتھ ساتھ بہرحال حکومت پاکستان کہیں نہ کہیں اس ناانصافی کی ذمہ دار رہی۔ ایک طرف صوبہ بلوچستان سرحدی لحاظ سے نہایت اہم ہے۔ سمندری حدود ملک کے لئے سی پیک منصوبہ کی صورت میں نفع بخش ثابت ہورہی ہیں۔ دوسری طرف یہ صوبہ معدنی لحاظ سے زرخیز ہونے کی وجہ سے کئی حوالوں سے پورے ملک کی ضروریات پوری کرتا ہے۔ اس پر صوبے کے عوام سے روا رکھے گئے سلوک کا منتقی انجام سامنے آیا اور بلوچ عوام کے جذبات ملک کے لئے منفی شکل اختیار کرگئے، احساس محرومی نے بغاوت جیسے عزائم کو فروغ دیا۔ دیر آید درست آید کے مترادف پاکستان نیوی نے بلوچستان کے عوام کے دلوں کو مسخر کرنے اور ان سے برتی گئی زیادتی کا مداوا کرنے کے لئے بنیادی سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنانے کی کوشش کی جس میں صحت، تعلیم، ملازمت، صاف پانی، سمندر میں ماہی گیروں کے لئے سرحدی حدود کی نشاندہی کئے جانے جیسے مثبت اور دوررس اقدامات شامل ہیں۔ پاک بحریہ کی ان کوششوں سے ناصرف صوبہ کے عوام میں ملک و قوم کے لئے خلوص و محبت کے جذبات پیدا ہوئے ہیں بلکہ کسی بھی دوسرے محب وطن پاکستانی کی طرح بلوچ عوام بھی اب ملک کے لئے خدمت اور قربانی کا جذبہ اپنے دلوں میں رکھتے ہیں۔ 2004ء میں بلوچستان کے ضلع گوادر کی تحصیل اورماڑہ میں پہلے بحریہ ماڈل اسکول کا آغاز کیا گیا، یہ اسکول ایک فلیٹ میں واقع چند کمروں پر مشتمل تھا۔ 2013ء میں یہ پودا درخت بن گیا اور جدید تقاضوں سے ہم آہنگ نئی عمارت میں منتقل کردیا گیا جس کے بعد اسے بحریہ ماڈل اسکول و کالج کا درجہ دیا گیا۔ بحریہ ماڈل کالج اورماڑہ اس ڈسٹرکٹ کا واحد پرائیویٹ کالج ہے، اس کے علاوہ اس علاقے میں سرکاری پرائمری اور ہائی اسکول موجود ہیں پر کہیں دو کمروں کے چھوٹے سے اسکول میں طالب علموں کے بیٹھنے کی جگہ نہیں ہے تو کہیں اسکول میں لیب اور دیگر جدید سہولیات کا فقدان ہے۔ ایسے میں بحریہ ماڈل کالج انٹرمیڈیٹ تک تعلیم کے مواقع فراہم کرتا ہے جہاں صرف اورماڑہ ہی نہیں بلکہ دور دراز کے دیگر علاقوں کے بچے بھی حصول تعلیم کے لئے آرہے ہیں۔ بحریہ ماڈل اسکول و کالج میں طلبا کی موجودہ تعداد تقریباً 700 ہے۔ بلوچستان جیسے علاقے میں اسکول و کالج میں بچوں کی یہ تعداد تعلیم کے سفر میں بذات خود ایک بڑی کامیابی ہے، اس دوران گوادر، جیونی اور تربت میں بھی بحریہ ماڈل اسکولوں کا قیام عمل میں لایا گیا۔ بحریہ ماڈل اسکولوں کے تمام اخراجات نیول ہیڈکوارٹر کی جانب سے ادا کئے جاتے ہیں۔ اسکول میں پڑھنے والے طلبا و طالبات کے اندر جذبہ خداری برقرار رکھنے کے لئے ہر ماہ محض 450 روپے فیس کی مد میں وصول کئے جاتے ہیں جن طالب علموں کو اس فیس کی ادائیگی میں دشواری ہورہی ہو ان کے لئے مختلف مددگار اسکیمیں بھی ترتیب دی گئی ہیں جن کے ذریعے نہ صرف مستحق بچوں کے تعلیمی اخراجات برداشت کئے جاتے ہیں بلکہ کھانے پینے اور گھر سے آنے جانے کی سہولیات بھی فراہم کی جاتی ہیں۔ سی این ایس اسپانسر آف چائلڈ پروگرام ایسا ہی قابل فخر اقدام ہے جس کے ذریعے مستحق بچوں کی مالی معاونت کی جاتی ہے۔ بحریہ ماڈل اسکول و کالج میں تعلیم کے معیار کی اعلیٰ سطح کو برقرار رکھنے کے لئے مقامی اساتذہ کے علاوہ ملک بھر سے مطلوبہ شعبہ کے ماہر اساتذہ کو تدریس کے لئے بلایا جاتا ہے اور پاک بحریہ کی طرف سے انہیں بہترین تنخواہ اور مراعات دی جاتی ہیں۔ اسکول کی انتظامیہ میں پرنسپل کے عہدے پر نیوی آفیسر تعینات ہوتے ہیں جبکہ عملہ میں باقی تقریباً تمام مقامی اور سویلین افراد بھرتی کئے جاتے ہیں۔
ذیل میں بحریہ ماڈل اسکول و کالج اورماڑہ کے اساتذہ سے کی گئی گفتگو سے بآسانی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بلوچستان کے عوام کو کس طرح قومی دھارے میں شامل کیا جارہا ہے، اس حوالے سے یاسمین موسیٰ جوکہ وائس پرنسپل بحریہ ماڈل اسکول اورماڑہ ہیں کا کہنا تھا کہ میرا تعلق اورماڑہ کے بلوچ گھرانے سے ہے، میرے والد ماہی گیر ہیں اور میں ایک ماہی گیر کی بیٹی آج ایم اے، ایم ایڈ کوالیفائیڈ وائس پرنسپل ہوں۔ میں نے جس ماحول میں آنکھ کھولی وہاں وقت بدلنے کے ساتھ ساتھ تعلیم کے لئے قبولیت تو پیدا ہوچکی تھی مگر میرے ان پڑھ والدین چشم تصور میں بنے ہوئے اس خواب کو محض خواب ہی سمجھتے تھے کہ ان کی بیٹی پڑھ لکھ کر ان کا نام روشن کرے مگر یہ آسان نہ تھا، نہ خاندانی روایات اس بات کی اجازت دیتی تھیں اور نہ ہمارے علاقے میں تعلیم کا رحجان تھا اور نہ ہی حصول تعلیم کے مواقع جو ہمیں ہماری منزل تک پہنچنے کے لئے آسانیان فراہم کرتے۔ بلوچ معاشرے میں عورت کا اسکول جانا عام بات نہیں تھی چہ جائیکہ وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرے اور قومی دھارے میں اپنا حصہ ڈالے۔ بلوچ طالب علم خاص طور پر لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے کے ضمن میں کئی محاذوں پر لڑنا پڑتا ہے۔ معاشرتی روایات، حکومتی اداروں پر بلوچ قوم کا عدم اطمینان اور سب سے بڑھ کر تعلیمی اداروں کی کمی اور غیرمعیاری ہونا بہت اہم تھے۔ میں نے میٹرک اورماڑہ کے گورنمنٹ بوائز ہائی اسکول سے کیا اس وقت تک لڑکیوں کا اسکول محض آٹھویں تک تھا اور ہم چند لڑکیاں بے حد کوشش کرنے اور اسکول کے ٹیچرز سے ٹیوشن پڑھنے کے بعد میٹرک کے امتحان میں لڑکوں کے ساتھ شامل ہوجاتی تھیں، اس طرح وسائل کی کمی کے باوجود 2004ء میں میٹرک سائنس کے ساتھ بلوچستان بورڈ سے پاس کی لیکن انٹرمیڈیٹ کے لئے کالج نہ ہونے کی وجہ سے 2005-06ء میں پرائیویٹ امیدوار کے طور پر انٹرمیڈیٹ اور 2008ء میں بی اے کا امتحان تربت جا کر دیا۔ 2009ء میں اورماڑہ بوائز اسکول میں قائم علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے بی ایڈ کیا، اسی طرح ایم اے 2013ء میں کوئٹہ یونیورسٹی سے کیا۔ یوں محدود وسائل کی وجہ سے زیادہ تعلیم پرائیویٹ امیدوار کے طور پر خود پڑھ کر حاصل کی جو بہرحال کسی بھی لحاظ سے کلاس روم اور اساتد سے تعلیم لئے جانے کے برابر نہیں، ہمارے جیسے اور بہت سارے طالب علم محض سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے اپنی مرضی کے مضامین کا انتخاب نہیں کرسکتے، میں بھی میٹرک سائنس سے کرنے کے بعد اس ہی مضمون کو جاری رکھنا چاہتی تھی مگر جو ہے اور جیسے ہے کی بنیاد پر تعلیم جاری رکھنا پڑی۔ میں نے میٹرک کے بعد سے ہی پاک بحریہ کے اسکول سے ٹیچنگ کا آغاز کردیا تھا۔ تعلیم کے ساتھ ساتھ بحریہ ماڈل اسکول میں میری ترقی بھی ہوتی رہی اور آج میں وائس پرنسپل کے طور پر اپنے فرائض انجام دے رہی ہوں۔ 2004ء میں جب پاک نیوی کی جانب سے بحریہ ماڈل اسکول کا آغاز ایک فلیٹ کے چند کمروں سے کیا گیا تو میں نے وہاں بطور ٹیچر شمولیت اختیار کی، یہ ہمارے لئے اس لحاظ سے مشکل وقت تھا کہ بلوچستان کے لوگوں کا فوج یا حکومتی اداروں پر اعتماد نہیں تھا اور اس سلسلے میں اپنی رائے بدلنے کے لئے تیار نہیں تھے۔ بلوچ عوام کا خیال تھا کہ پاکستان نیوی نے ان کے علاقے پر قبضہ کیا ہوا ہے اور یہ ہماری قوم سے مخلص نہیں ہیں۔ جب اسکول شروع ہوا تب ہم چند مقامی استانیاں اور پاکستان نیوی کی طرف سے تعینات عملی لوگوں کو گھر گھر جا کر قائل کرتے کہ اپنے بچوں کو بہتر تعلیم کے لئے اسکول بھیجیں۔ آہستہ آہستہ یہ اعتماد بحال ہوتا گیا اور آج والدین کی اولین خواہش ہے کہ ان کا بچہ بحریہ ماڈل اسکول میں ہی تعلیم حاسل کرے جہاں اسے بہترین تعلیم کے ساتھ اچھا ماحول بھی دیا جاتا ہے جو اسے آگے بڑھنے کا حوصلہ دیتا ہے۔ نیوی پر لوگوں کے اعتماد کا اندازہ اب اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ہمارے پاس ہر سال داخلہ کی خواہش رکھنے والے طلبہ و طالبات کی تعداد اسکول میں موجود گنجائش سے زیادہ ہوگئی ہے۔ ہمارے اسکول سے فارغ التحصیل طلبا کوئٹہ اور کراچی میں اسکالر شپ حاصل کرکے اعلیٰ تعلیم بھی حاصل کررہے ہیں۔ میں اپنی زندگی سے بے حد مطمئن ہوں کہ میں نے تعلیم حاصل کی اور میں اپنی بلوچ قوم کے لئے پاکستان نیوی کے ساتھ مل کر کام کررہی ہوں۔ میں بچوں کو پڑھاتی ہوں کیونکہ میرا ماننا ہے کہ جو پڑھتے ہیں وہی صحیح راہ چلتے ہیں اور ملکی حالات کے تناظر میں صرف ہمارے علاقے میں ہی نہیں بلکہ پورے ملک میں تعلیم کا فروغ ہونا چاہئے، اپنے علاقے میں آج بھی جب کہیں مجھے موقع ملتا ہے تو لوگوں کو تعلیم حاصل کرنے کے لئے قائل کرتی ہوں۔ مجھے اب بہت سے دوسرے اسکولوں سے بھی نوکری کی پیشکش ہوتی ہے مگر میں اسے قبول نہیں کرتی کیونکہ شاید مجھے وہاں تنخواہ تو زیادہ مل جائے لیکن میں نے نیوی کے ساتھ مل کر تعلیم کو اپنا مشن بنا لیا ہے جس کے لئے ہم نے بہت جدوجہد کی ہے، مجھے معلوم ہے کہ میرے پیچھے آنے والوں میں میری بلوچ قوم کے اور لوگ بھی ہیں جو مجھے مشعل راہ سمجھتے ہیں۔ بلوچ قوم جو زندگی کی بنیادی سہولیات سے محروم تھی۔ پاکستان نیوی نے ان سہولتوں کی فراہمی کے لئے اپنا کردار ادا کیا، خاص کر تعلیم کے شعبے میں بلوچ بچوں کو قومی دھارے میں شامل کرکے ان کے دلوں کو مسخر کرلیا ہے، اب یہ مشن ہی میری زندگی کا اولین فرض ہے جو میں ہمیشہ کرتی رہوں گی۔ بحریہ ماڈل اسکول و کالج اورماڑہ میں پرائمری سیکشن کی انچارج ماہ سندہ کا کہنا ہے کہ میں نے گرلز اسکول اورماڑہ سے آٹھویں تک تعلیم حاصل کی اور اس کے بعد اپنے علاقے کی چند گنی چنی دیگر لڑکیوں کی طرح میری بھی یہی فکر تھی کہ میٹرک کے پیپر کیسے دیئے جائیں، بالآخر بوائز اسکول میں کلاس کے بیچ پردہ ڈال کر پڑھنے کی سبیل نکالی گئی اس طرح میٹرک کا امتحان دیا۔ کالج نہ ہونے کی وجہ سے انٹرمیڈیٹ کے امتحانات پرائیویٹ امیدوار کے طور پر پسنی میں دادی کے گھر رہ کر دیئے۔ بی اے میں بھی صورتِ حال تبدیل نہ ہوئی اور تربت میں ایک دور کے رشتے دار کے گھر رہ کر امتحان دیئے، اسی دوران اپنے ہی علاقے میں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے بی ایڈ پاس کیا اور آج کل کوئٹہ یونیورسٹی سے سیاسیات میں ایم اے کررہی ہوں لیکن کلاس میں استاد کی زیرسرپرستی تعلیم حاصل کرنا ہمارا وہ خواب ہے جس کی تعبیر ہمیں میسر نہ ہوئی لیکن امید کرتی ہوں کہ حکومت پاکستان ہمارے علاقے میں بھی یونیورسٹی بنائے تاکہ ہماری آنے والی نسل باقاعدہ طریقے سے بھرپور تعلیم حاصل کرسکے۔ میں نے ٹیچنگ کا آغاز بحریہ ماڈل اسکول کے ابتدائی دور سے ہی کردیا تھا۔ 2005ء میں میں نے بطور ٹیچر یہاں کام کرنا شروع کیا اور اب میں پڑھانے کے ساتھ ساتھ پرائمری سیکشن کی انچارج بھی ہوں۔ تعلیم سے ہمارا ماحول بدل رہا ہے، اب بلوچ لڑکی تعلیم کے حصول اور فروغ کے لئے گھر سے نکلتی ہے جس کا تصور بھی ایک دہائی پہلے تک ناممکن تھا۔ ہم پانچ بہنیں اور ہمارا ایک بھائی ہے، ہم سب بہن بھائی پڑھ رہے ہیں اور پاکستان نیوی نے ہمیں ہمارے علاقے میں نوکری کے مواقع مہیا کئے ہیں، میری ایک بہن میرے ساتھ اسکول میں پڑھاتی ہے اور دوسری نیوی کے اسپتال میں نرس کے فرائض انجام دے رہی ہے۔ ہم بہن بھائی کے تعلیم حاصل کرنے میں ہمارے والدین کی بے حد خواہش اور محنت شامل ہے، میرا تعلق بھی ماہی گیر گھرانے سے ہے لیکن میرے والد خود ہمیں اسکول چھوڑتے تھے ان کی خواہش تھی کہ ان کے بچے اعلیٰ تعلیم حاصل کریں۔ پاکستان نیوی نے اس کام کو کسی حد تک پورا کیا ہے، ہمارے زمانے میں کالج کی سہولت نہیں تھی مگر اب میرے چھوٹے بہن بھائی بحریہ ماڈل کالج میں اپنی مرضی کے مضامین میں استاد کی زیرنگرانی تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ مجھے یہ دیکھ کر بے حد خوشی ہوتی ہے کہ صرف ہمارے ہی علاقے کے نہیں بلکہ دوسرے علاقوں کے بچے بھی بحریہ کالج میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے آتے ہیں اور اس مقصد کے لئے وہ دور قریب کے رشتے داروں کے گھر قیام کرتے ہیں اس طرح تعلیم نے ہمیں بھائی چارے کے ایک نئے رشتے میں باندھ دیا ہے اور رواداری کی نئی مثال قائم ہورہی ہے۔ پاک بحریہ نے تعلیم کے حصول کے لئے آگے بڑھنے کا ماحول بنا دیا ہے، ہم بے حد حیران ہوتے ہیں کہ ایک زمانے میں ہم بحریہ ماڈل اسکول کی جانب سے لوگوں کو گھر گھر جا کر اسکول میں اپنے بچے داخل کرانے کے لئے قائل کرتے تھے اور اب ہر سال داخلہ کے خواہشمند بچوں کی تعداد میں اتنا اضافہ ہوگیا ہے کہ ہمارے اسکول میں اس کی گنجائش نہیں ہوتی۔ پاکستان نیوی نے ہمارے علاقے کی ترقی کے لئے بے حد کام کیا ہے جس کی وجہ سے بلوچستان کے اس پسماندہ علاقے میں کافی ترقی ہوئی ہے، اس لئے بلوچ عوام پاکستان نیوی کی مشکور ہیں۔ ’’سی این ایس اسپانسر آ چائلڈ اسکیم‘‘ کا آغاز 2012ء میں کیا گیا، اس کا مقصد کوسٹل ایریا میں ضرورت مند طلبا کی مالی معاونت کرنا ہے۔ پاک نیوی اور سول سوسائٹی کے ارکان کی مشترکہ کوشش سے اب تک اس اسکیم کے تحت 150 طلبا و طالبات کو بحریہ ماڈل اسکول و کالج میں مفت تعلیم کی سہولیات فراہم کی جارہی ہیں۔ مخیر حضرات کی سہولت کے لئے اس اسکیم میں دو پیکیج 8 ہزار اور 6 ہزار روپے سالانہ فی طالب علم ہیں جو کسی بھی طرح تعلیم جیسے عظیم مقصد کے فروغ کے لئے زیادہ نہیں ہیں۔ خلوص دل سے کی گئی یہ کوشش یقیناً رائیگاں نہیں جارہی اور اب تک کوسٹل ایریا کے تقریباً 150 ذہین مگر ضرورت مند طالب علم صرف بلوچستان میں ہی نہیں بلکہ اسکالر شپ حاصل کرکے کراچی میں بھی تعلیم کے بہتر ذرائع سے مستفید ہورہے ہیں۔ اب ہم اپنے ہر شہر، ضلع اور گاؤں میں یوم آزادی جوش و جذبہ سے مناتے ہیں، اس خطے میں پاک بحریہ کی کوششوں کی وجہ سے ہمیں یہ احساس ہوا ہے کہ ہم اس ملک میں رہنے والے دوسرے پاکستانیوں جیسے عوام ہیں جہاں اختلاف علیحدگی کی بنیاد نہیں ہونا چاہئے۔ پرنسپل بحریہ ماڈل اسکول و کالج اورماڑہ لیفٹیننٹ کمانڈر امبرین کا کہنا تھا کہ میری تعیناتی اس اسکول میں تقریباً تین سال قبل ہوئی، مجھ سے پہلے لوگوں نے اس ادارے کو بے حد جانفشانی سے ترقی کی جانب گامزن کیا اور اب میں یہ اہم ذمہ داری پوری کرنے کی کوشش کررہی ہوں۔ صوبہ بلوچستان کے اس پسماندہ علاقے میں تعلیم کا فروغ ایک مشکل کام ہے دیگر بہت سے عوامل کے علاوہ یہاں کے طلبا کا ایک اہم مسئلہ غربت ہے۔ کچھ روز پہلے میری اسکول انچارج ایک طالب علم کو لے کر میرے پاس آئیں کے یہ بچہ دس روز کی چھٹی کے بعد آج اسکول میں حاضر ہوا ہے، جب میں نے تفصیل معلوم کی تو طالب علم نے مجھے بتایا کہ میڈم میرے گھر میں کھانے کے لئے پیسے نہیں تھے، مجھ سے اپنے گھر والوں کے فاقے برداشت نہیں ہوئے اور میں نے ایک مستری کے پاس دس دن مزدوری پر کام کیا جس سے مجھے پانچ ہزار روپے ملے۔ وہ پیسے میں نے اماں کو دیئے تاکہ وہ گھر میں کھانے پینے کا انتظام کرے۔ یہ وجہ تھی کہ میں اسکول سے غیرحاضر رہا۔ تعلیم کا جو مشن ہم ان علاقوں میں جاری رکھے ہوئے ہیں وہاں یہ کہانی ہر دوسرے طالب علم کی ہے، ہم پوری کوشش کرتے ہیں کہ ہر ممکن طریقے سے اپنے اسکول میں پڑھنے والے بچوں کے مسائل حل کریں، مختلف اسپانسر شپ پروگرام اس سلسلے میں ہمارے لئے بے حد مددگار ثابت ہورہے ہیں۔ کچھ مسائل ہیں مگر کامیابیوں کا تناسب تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ ہمارے اسکول و کالج کے طلبا ہر سال شاندار کامیابی حاصل کرکے اعلیٰ تعلیم حاصل کررہے ہیں، ہر سطح پر مقابلے کے امتحانات میں شامل ہو کر بھی کامیاب ہو رہے ہیں۔ مجھے یہ بتاتے ہوئے فخر محسوس ہورہا ہے کہ گزشتہ سال بحریہ ماڈل اسکول و کالج کے 64 طلبا میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے امتحانات کے لئے بلوچستان بورڈ میں فائز ہوئے اور قابل فخر طور پر ہمارا رزلٹ سو فیصد رہا، اس شاندار کامیابی پر بلوچستان بورڈ کی جانب سے بہترین کارکردگی دکھانے والے طلبا کو وظیفہ اور اسکالر شپ پروگرام کی پیشکش کی گئی ہے جوکہ ہمارے لئے بہت بڑی کامیابی ہے۔ پاکستان نیوی کی کوششیں اپنی جگہ جاری ہیں لیکن تعلیم کے فروغ کے لئے ان علاقوں میں ہنگامی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ بلوچستان کے تمام چھوٹے بڑے اضلاع میں اسکول کالج اور جامعات کے قیام کی اشد ضرورت ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرتے ہوئے پاک بحریہ کے معیار کی تعلیمی سہولیات بلوچستان کے ہر گاؤں، قصبے، تحصیل اور ضلع میں فراہم کرے۔

مطلقہ خبریں