Sunday, July 13, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

پاک بحریہ۔۔ سمندری حدود کی پاسبان

تزین اختر

بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے قیام پاکستان کے بعد 23 جنوری 1948ء کو پہلی بار رائل پاکستان نیوی کے یونٹس کا معائنہ کرتے ہوئے اپنے خطاب میں ایک اہم جملہ ارشاد فرمایا ’’کسی ملک کا کمزور دفاع دشمنوں کو جارحیت کا موقع فراہم کرتا ہے۔‘‘ قائد کے اسی فرمان کو مدنظر رکھتے ہوئے پاک بحریہ نے ملکی سمندری حدود کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنانے کے لئے جدید اسلحہ اور دیگر حربی ساز و سامان حاصل کرنے کے علاوہ ہر سطح پر اپنے آفیسر اور جوانوں کو اعلیٰ تربیت دینے کا انتظام کیا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ پاک بحریہ نہ صرف اس وقت اپنے سے کئی گنا بڑے دشمن سے نمٹنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے بلکہ ماضی میں بھی اپنی بہترین پیشہ ورانہ صلاحیتوں اور کار کردگی سے دشمن کے دانت کھٹے کر چکی ہے اور آئندہ بھی دشمن کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملانے کے لئے پْر عزم ہے۔
سمندروں کی ہمہ وقت رکھوالی اور سینہ چیرنے کو بے چین، اپنی صلاحیت اور ہیبت سے دنیا پر دھاک بٹھانے والی پاک بحریہ دنیا کی کسی بھی طاقت کا مقابلہ کرسکتی ہے، پاک بحریہ کی کشتیاں، بحری جہاز، سب میرین، ایئر کرافٹ، اسپیشل فورسز اور ڈرون طیارے پاک بحریہ کی طاقت ہیں، خوش قسمتی سے پاکستان کی بحری سرحدیں دنیاکے تین اہم خطوں مشرق وسطیٰ، وسطی ایشیا اور جنوبی ایشیا سے ملتی ہیں جوکہ بحر ہند کے شمال میں واقع ہے۔ دنیا کے چند مگر اہم ترین بحری تجارتی راستے اور مواصلات کے خطہ بحر ہند ہی سے گزرتے ہیں اور سالانہ ایک لاکھ سے زائد بحری جہازوں کا گزر اسی سمندر ہی سے ہوتا ہے۔ پاکستان کی ساحلی پٹی کی لمبائی ایک ہزار کلومیٹر سے زائد ہے جو کہ مغرب میں مکران کے ساحل سے ایران کی سرحد تک پھیلی ہوئی ہے اور اس کا مشرقی سرا، سرکریک کو چھوتا ہے جوکہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان متنازع علاقہ ہے۔
بلوچستان کے ساحلی علاقوں میں بلوچ عوام کا احساس محرومی دور کرنے اور قومی دھارے میں شامل کرنے کے لئے دیگر اداروں کے ساتھ ساتھ پاک بحریہ بھی اپنا کلیدی کردار ادا کر رہی ہے، بلوچ عوام کو بہتر سہولیات فراہم کرنے، سمندری حدودکے تحفظ، دفاعی اثاثوں اور گوادر پورٹ کی سیکورٹی کو یقینی بنانے، اسمگلنگ کی روک تھام، سمندری تجارت کو بڑھانے سمیت دیگر اہم معاملات میں پاک بحریہ اہم کردار ادا کررہی ہے۔ ایک بات قابل ذکر ہے کہ پاک بحریہ اور وزارتِ سائنس و ٹیکنالوجی کی ایک عشرے پر محیط انتھک مخلصانہ کوششوں کی بدولت اقوام متحدہ کے کمیشن برائے سمندری حدود نے مارچ 2015ء میں پاکستان کے حق میں فیصلہ سنایا جس کی رو سے پاکستانی ساحلی حدود 200 ناٹیکل میل سے بڑھ کر 350 ناٹیکل میل ہوگئی ہیں اور اس طرح 50,000 مربع کلومیٹر کا اِضافی کونٹینینٹل شیلف (کونٹینینٹل شیلف) پاکستان کے زیرِانتظام آگیا ہے۔ اس اضافے کے بعد پاکستان کا خصوصی اقتصادی زون 2,90,000 مربع کلومیٹر ہوگیا ہے۔ اس عظیم کامیابی سے پاکستان کو ایک بڑے علاقے کے سمندری وسائل پر حق حاصل ہوگیا ہے۔ پاکستان کے بحری وسائل ہماری معیشت کی شہ رگ ہیں کیونکہ 95 فیصد سے بھی زیادہ ہماری تجارت اور 100 فیصد تیل کی ترسیل سمندر ہی کے ذریعے سے ہوتی ہے۔ کراچی اور بن قاسم دو بندرگاہیں ہیں جن کے ذریعے ہماری بحری تجارت کا پہیہ رواں دواں ہے۔ گوادر پورٹ ایک طرف خلیجی ممالک سے قریب تر واقع ہے اور دوسری طرف پاک چین اقتصادی راہداری سے جڑی ہوئی ہے جوکہ ہمارے بحری اثاثوں میں ایک اہم جزو ہے۔ گوادر پورٹ کے فعال ہونے سے ملکی معیشت میں انتہائی قابل ذکر اضافہ ہوگا۔ ان اقدامات سے جہاں ملکی تجارتی سرگرمیوں میں کئی گنا اضافہ ہوگا وہاں پاک بحریہ کی ذمہ داریاں بھی کہیں زیادہ بڑھ جائیں گی۔ پا ک چین اقتصادی راہداری اور گوادر پورٹ منصوبہ ملک دشمن عناصر کو ایک آنکھ نہیں بھا رہا، پاکستان کا دشمن جارحیت کے ذریعے اپنے مذموم سیاسی مقاصد کا حصول چاہتا ہے۔ بھارتی بحریہ کے اثاثوں میں آنے والے 10 سے 15 سالوں میں 50 بڑے جنگی جہاز 3 ایئر کرافٹ کیریئرز، 22 آبدوزیں اور 5 ایٹمی آبدوزیں شامل ہونے کی توقع ہے اس کے علاوہ پاکستان کو لاحق دوسرے خطرات میں دہشت گردی سرفہرست ہے۔ پاک بحریہ سمندری حدود کی حفاظت کے لئے ہمہ وقت تیار ہے جو اپنے محدود وسائل کے باوجود دفاعی تقاضوں سے غافل نہیں ہے۔ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ کی تکمیل کے بعد گوادر بحر ہند کی سب سے بڑی بندرگاہ بن جائے گی۔ گوادر پورٹ اور پاک چین اقتصادی راہداری کے تحت پورے علاقے میں بننے والے منصوبوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لئے ان کی سیکورٹی اسپیشل میرین بٹالین کے سپرد ہے۔ گوادر بندرگاہ اور سی پیک کی بحری سیکورٹی کے لئے پاک بحریہ نے ٹاسک فورس۔88 کے نام ایک خصوصی ٹاسک فورس قائم کی۔ غیرریاستی عناصر کی جانب سے خطرات کے باعث سمندری حدود کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لئے بھی سخت اقدامات کئے گئے ہیں۔ سمندری حدود کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لئے سمندری راستوں میں اضافی پیٹرولنگ کی جاتی ہے۔
بلوچ نوجوانوں کا احساس محرومی ختم کرنے اور انہیں قومی دھارے میں شامل کرنے کے لئے پاک بحریہ نے مختلف پروگرام شروع کئے ہوئے ہیں جس کے تحت بھرتیوں کے مروجہ طریقہ کار سے پہلے بلوچ نوجوانوں کو خصوصی تربیت فراہم کی جارہی ہے اور انہیں عمر کی حد میں بھی خصوصی رعایت دی گئی ہے۔ بلوچ خواتین کو بھی قومی دھارے میں لانے کے لئے تعلیم و تدریس، پروفیشنل ٹریننگ، انڈسٹریل ہوم سمیت دیگر شعبوں میں حوصلہ افزائی کی جارہی ہے اور اس حوالے سے گوادر، تربت، اورماڑا کے مختلف علاقوں میں سینٹرز قائم کئے گئے ہیں۔ بلوچ بچوں کو قومی دھارے میں شامل کرنے کے لئے اورماڑہ میں بنائے گئے اسکولز اور طبی سہولیات کی فراہمی کے لئے اسپتالوں کا قیام قابلِ ستائش عمل ہیں۔ بالخصوص تعلیمی میدان میں پاک بحریہ کی خدمات نہایت اہم ہیں کیونکہ آج کے ترقی یافتہ دور میں تعلیم یافتہ نسل ہی ملکی سلامتی کا بیٹرا اٹھا سکتی ہے۔ بحریہ اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں سے ہزاروں طلبہ زیور تعلیم سے آراستہ ہو رہے ہیں۔ علاوہ ازیں کراچی اور اسلام آباد میں ایک ایک معذور بچوں کا اسکول قائم کیا گیا ہے جہاں 450 سے زائد معذور بچے ثانوی سطح تک تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ بلوچستان اور بالخصوص صوبہ کی ساحلی آبادی کے لئے پاک بحریہ کی تعلیمی سرگرمیاں نہایت قابل ذکر ہیں۔ پاک بحریہ نے اورماڑا، پسنی اور گوادر میں بیشتر تعلیمی اور فنی تربیتی ادارے قام کئے ہیں جن میں بحریہ ماڈل اسکول گوادر، بحریہ ماڈل اسکول اورماڑا اور کیڈٹ کالج اورماڑا زیادہ قابل ذکر ہیں، اس کے علاوہ اورماڑہ میں لڑکے اور لڑکیوں کے لئے دو ہائی اسکولز اور ایک مڈل اسکول کا قیام بھی پاک بحریہ کا ایک اور قابلِ ذکر قدم ہے۔ بحریہ کیڈٹ کالج اورماڑا میں مقامی آبادی کے بچوں کو بھرپور نمائندگی دینے سمیت ان کی بھرپور تربیت کی جارہی ہے، نیول چیف کی جانب سے شروع کی گئی ’’ایڈاپٹ اے چائلڈ اسکیم‘‘ کے تحت باصلاحیت بچوں کے تعلیمی اخراجات کا ذمہ اْٹھایا جا رہا ہے اور اس حوالے سے مخیر حضرات بھی اپنا مثبت کردار ادا کررہے ہیں۔ گوادرمیں قائم اسپتال ’’درمان جاہ‘‘ پاک بحریہ کے زیرِانتظام غریب بلوچ عوام کو بلامعاوضہ طبی سہولیات فراہم کررہا ہے۔ ٹراما کیئر، آپریشنز تھیٹر، پتھالوجی، ریڈیو ڈائیگنوسٹک سینٹر اور دانتوں کے علاج کی سہولیات پر مشتمل یہ اسپتال ایک بہت بڑی طبی سہولت ہے جو بہترین آلات سے لیس ہے جبکہ ساحلی علاقوں میں پاک بحریہ کی جانب سے وقتاً فوقتاً فری میڈیکل کیمپس بھی قائم کئے جاتے ہیں۔
عالمی امن اور سیکورٹی کے قیام کے لئے پاکستان اپنے عزم پر ہمیشہ قائم رہا ہے اور پاک بحریہ بھی علاقائی سمندری حدود میں سمندری نقل و حمل کے اہم راستوں کی سیکورٹی، میری ٹائم قوانین کی عملداری اور غیرقانونی سرگرمیوں پر نظر رکھ کر اس سلسلے میں اپنا قابل قدر حصہ ڈالنے سمیت کولیشن میری ٹائم کمپین پلان کے تحت سمندری حدود میں ممنوعہ اشیاء کی نقل و حمل سمیت غیرقانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے لئے ہونے والے کثیر القومی آپریشنز میں حصہ لے رہی ہے۔ اس اتحاد کا مقصد علاقائی سمندری ترسیلی راستوں کو جہاز رانی کے لئے محفوظ بنانا ہے۔ پاک بحریہ کا دسویں مرتبہ مشترکہ عالمی فورس کی کمان کا دورانیہ مکمل کرنا اس کی اعلیٰ کارکردگی اور پیشہ ورانہ مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے جبکہ پاک بحریہ عالمی بحری امن اور میری ٹائم سیکورٹی کے قیام کے لئے بھی ہمیشہ پیش پیش رہی ہے جس کا اظہار بین الاقوامی بحری مشق ’’امن‘‘ کے ہر دو سال بعد انعقاد سے ہوتا ہے جو نہ صرف علاقائی بلکہ عالمی امن و استحکام کے لئے ایک اہم قدم ہے۔
پاک بحریہ کی علاقی اور بین الاقوامی بحری افواج کے ساتھ مختلف مشقوں کے انعقاد کا مقصد بھی عالمی بحری افواج بالخصوص برادر ممالک کی بحری افواج کو قریب لانا اور باہمی تجربات کے تبادلے سے حربی صلاحیتوں میں اضافہ کرنا ہے۔ یہ پاک بحریہ کی بین العلاقائی خدمات کی چند مثالیں ہیں جو اس کے ابھرتے ہوئے عالمی کردار کی عکاسی کرتی ہیں۔ قلیل وسائل کے باوجود پاک بحریہ ملکی ترقی و استحکام میں عملی طور پر اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔
تقسیمِ ہند کے بعد پاک بحریہ کو وسائل کے فقدان کا سامنا رہاہے۔ عملی طور پر بحریہ کے پاس بنیادی ڈھانچہ نہ ہونے کے برابر تھا۔ آپریشنل، لاجسٹکس اور تر بیتی انفرااسٹرکچر بھی ضرورت سے انتہائی کم تھا لیکن گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ 21 ویں صدی میں پاک بحریہ ایک مضبوط چار جہتی قوت بن کر ابھری ہے جوکہ جدید آلات کو بروئے کار لانے کی صلاحیت سے بہرہ ور ایک عسکری قوت ہے جو پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کی انجام دہی کے علاوہ دیگر قومی و ملی فرائض بھی سرانجام دیتی ہے۔ ملحقہ سمندروں میں آپریشنز کا معاملہ ہو یا سری لنکا اور انڈونیشیا میں سونامی ریلیف آپریشن، مکران کی ساحلی پٹی میں سیلابی صورتِ حال میں ریلیف آپریشن ہو یا دوردراز کی بندرگاہوں پر پاکستانی پرچم برداری کا معاملہ، پاک بحریہ نے ہمیشہ پیشہ ورانہ قابلیتوں کا لوہا منوایا ہے۔ بحریہ نے اکیسویں صدی کی پہلی دہائی کے اہم کارناموں میں چین سے ٹیکنالوجی کی منتقلی کے معاہدے کے تحت 4 جدید اور عصرِ حاضر سے ہم آہنگ بحری جہازوں کی شمولیت، ذیڈ9 ای سی ہیلی کاپٹروں کی شمولیت اور زمینی حملے کی صلاحیت رکھنے والے میزائلوں سے لیس تیز رفتار کرافٹس کی شمولیت ہے اسی دہائی میں امریکا کی طرف سے مہیا کئے جانے والے سات پی سی3 جہاز بھی شامل کئے گئے جو دور تک بحری نگرانی کی صلاحیت رکھتے ہیں اور ’’فلائنگ ڈسٹرائر‘‘ کہلاتے ہیں، پاک بحریہ نے حال ہی میں کم رینج کی بحری نگرانی کے لئے اے ٹی آر-72 جہاز بھی اپنے فلیٹ میں شامل کئے ہیں۔ ساحلی علاقوں کی نگرانی اور بحری دفاع کو ناقابل تسخیر بنانے کے لئے پاک بحریہ نے تربت میں پی این ایس صدیق کے نام نیول ایئر اسٹیشن قائم کیا ہے جو جدید آلات و سہولیات سے لیس ہے۔ پاک بحریہ اپنے محدود وسائل کے باوجود پاکستان کے سمندری راستوں کی حفاظت، ملکی سا لمیت اور دفاع کو یقینی بنانے کے لئے پاک فوج اور ایئرفورس کی طرح اپنا کلیدی کردار ادا کر رہی ہے، پاک بحریہ کی پروفیشنل تربیت قابل داد ہے اور ملکی دفاع کو یقینی بنانے کے لئے پاک بحریہ کا عزم ہے کہ وہ کوئی بھی قربانی دینے سے دریغ نہیں کرے گی۔

مطلقہ خبریں