Sunday, July 13, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

پاک امریکہ تعلقات ۔۔ فیصلہ کن موڑ پر

جنرل مرزا اسلم بیگ

انیس سو پچاس سے لے کر اب تک پاکستان امریکہ کا قابل اعتماد اتحادی رہا ہے اور یہ تعلقات ساٹھ (60) برسوں پر محیط ہیں۔ اس عرصے میں پاکستان نے چار مرتبہ نظام کی تبدیلی کے کٹھن مراحل طے کئے اور پھر پرویز مشرف نے افغانستان کے خلاف جنگ میں امریکہ کا ساتھ دینے کا غیراخلاقی فیصلہ کر کے پاکستانی قوم کو شرمسار کیا اور دکھوں کا سامان مہیا کیا۔ 2001ء سے 2008ء کے عرصے میں پاکستان نے اپنی قومی سلامتی کے مفادات کا انتہائی سستے داموں یعنی صرف 33 بلین امریکی ڈالروں کے عوض سودا کیا (بقول صدر ٹرمپ) جبکہ پاکستان کو 120 بلین امریکی ڈالرسے زیادہ کا نقصان اٹھانا پڑا اور 60 ہزار سے زائد شہریوں اور قریب قریب چھ ہزار فوجیوں کی قیمتی زندگیوں کی قربانی دینا پڑی ہے۔ اس کے باوجود ٹرمپ کا کہنا ہے کہ ’’پاکستان نے امریکہ کو دھوکے اور جھوٹ کے علاوہ کچھ نہیں دیا۔‘‘ دراصل ٹرمپ کی یہ ہرزہ سرائی ایک زوال پذیر سپرپاور کی پست ذہنیت کی علامت ہے جو شکست، ہزیمت اور شرمندگی کی عکاسی کرتی ہے۔
انیس سو نوا سی میں جب افغان حریت پسندوں کے ہاتھوں سوویت یونین کو شکست اٹھانا پڑی تو اس موقع کو امریکہ نے اپنے مفادات کو عالمی سطح پر پھیلانے کے لئے غنیمت سمجھا۔ انہیں یقین کی حد تک یہ احساس تھا کہ روس کو اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کرنے کے لئے کئی دہائیاں لگیں گی جبکہ چین بھی کوئی قابل ذکر مقام حاصل کرنے سے قاصر ہوگا۔ لہٰذا امریکہ نے مسلم ممالک کو دشمن سمجھتے ہوئے ان کے خلاف کروسیڈ (صلیبی جنگیں) شروع کردیا، خصوصاً اسلامی حکومتوں، سیاسی اسلامی ممالک اور پاکستان جیسے معتدل مسلم ممالک کو نشانہ بنانے کا فیصلہ کیا شام، عراق، صومالیہ، لیبیا، یمن اور افغانستان کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیا اور بیس لاکھ سے زیادہ مسلمانوں کو بے دریغ شہید کردیا۔ امریکہ نے جنگ جیتے ہوئے افغانوں کے ساتھ دھوکہ کرتے ہوئے خانہ جنگی شروع کرائی اور نائن الیون کے سانحہ کو بہانہ بنا کر افغانستان پر لشکر کشی کردی لیکن طالبان کے ہاتھوں شرمناک شکست کھانے کے باوجود وہاں سے نکلنے پر آمادہ نہیں ہیں، اس لئے کہ وہ افغانستان کو اپنی کالونی سمجھتے ہیں۔
گزشتہ دو عشروں کے درمیان حالات نے پلٹا کھایا ہے جو امریکہ کے مفادات کے خلاف ہیں۔ ان کے مقابل صدر پیوٹن کے فلسفہ تصادم کے تحت جارجیا، یو کرائن اور شام میں روس کی سفارتی اور عسکری کامیابیوں نے روس کو دوبارہ عالمی سیاست کے مرکزی مقام پر لا کھڑا کیا ہے اور اب وہ امریکہ کے مدمقابل ہے جس کے سبب امریکہ دفاعی پوزیشن اختیار کرنے پر مجبور ہے۔ روس نے افغانستان اور پاکستان میں بھی خاصا اثرورسوخ حاصل کرلیا ہے جبکہ چین نے اپنی اقتصادی تعاون پر مبنی امن وترقی کی پالیسی پر گامزن رہتے ہوئے دنیا بھر میں عزت ووقار کا مقام پا لیا ہے اور اب وہ دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے۔ چین کی اس روز افزوں ترقی نے امریکہ کو خوف میں مبتلا کردیا ہے جس کے خلاف اس نے انڈو۔ پیسیفک مرکز ( انڈو پیسفک پیووٹ ) قائم کیا ہے جس میں بھارت کو اہم کردار دیا گیا ہے۔
انیس سو اناسی کے ایرانی انقلاب کے بعد امریکہ نے ایران کو علاقائی امن کے لئے خطرے کے طور پر بدنام کرنے کی مہم شروع کر رکھی ہے اور قدم قدم پر اقتصادی پابندیاں لگا کر ایران کے لئے مشکلات پیدا کی ہیں لیکن ایران نے ان تمام چیلنجز کا قومی حمیت اور حوصلے سے مقابلہ کیا ہے اور شام، عراق اور یمن کی عسکری مہموں میں شامل رہ کر ان علاقوں میں غیرمعمولی اثرورسوخ حاصل کرلیا ہے جو امریکہ اور سعودی عرب دونوں کے لئے تکلیف دہ ہے۔ ان اقدامات نے بلاشبہ ایران کی اقتصادیات اور قومی ترقی کے منصوبوں پر منفی اثرات مرتب کئے ہیں۔ بے روزگاری کی شرح بڑھی ہے اور اسی طرح روزمرہ استعمال کی چیزوں کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوا ہے جو حالیہ احتجاج اور بدامنی کی بڑی وجوہات ہیں جنہیں امریکہ اور ایران مخالف لابی کی حمایت حاصل ہے۔ درحقیقت اس سازش کا مقصد ایران میں نظام کی تبدیلی ہے۔
اسی طرح کی کارروائی چند سال قبل ترکی میں بھی کی گئی تھی لیکن ناکام ہوئی تھی اور بعینہ گزشتہ چار سالوں سے پاکستان میں بھی اسی طرح کا سیاسی احتجاج جاری ہے جو نظام کی تبدیلی چاہتا ہے اور ٹیکنوکریٹ کی حکومت کا حامی ہے تاکہ پاکستان میں بھی بنگلہ دیش کی طرح کا لبرل نظام لایا جاسکے لیکن یہ احتجاج ایران کے لئے کسی قسم کی پریشانی کا سبب نہیں ہے کیونکہ ایرانی حکومت اس سے نمٹنے کی اہلیت رکھتی ہے۔ ایرانی حکومت نے ابھی تک اسلامی پاسداران انقلاب (آئی آر جی سی) کو سول حکومت کی مدد کے لئے نہیں بلایا ہے۔ اسلامی پاسداران انقلاب کے ماتحت القدس اور بسیج فورس (بسیج فورس ) کی تعداد دس ملین سے زیادہ ہے جو اس قسم کے احتجاج سے نمٹنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ انہیں عراق کے ساتھ آٹھ سالہ طویل جنگ اور شام و یمن میں جاری جنگوں کا عملی تجربہ حاصل ہے جو ان کے قابل ذکر طاقت ہونے کا مظہر ہے۔
اپنی بہترین صلاحیتیں بروئے کار لانے کے باوجود امریکی فوجوں کے قدموں کے نیچے سے افغانستان کی سرزمین نکلتی جا رہی ہے۔ گزشتہ سال کے دوران طالبان نے 2500 سے زیادہ بڑی اور چھوٹی فوجی کارروائیاں کرکے انہیں بھاری جانی ومالی نقصان پہنچایا ہے۔
طالبان کو اب افغانستان کے ستر فیصد علاقوں پر کنٹرول حاصل ہے جہاں اسلامی قوانین نافذ ہیں۔ اس طرح امریکہ کو تمام محاذوں پر شکست کا سامنا ہے، چاہے وہ روس ہو، چین ہو، ایران ہو یا افغانستان کا محاذ جنگ ہو ہر طرف سے ناامید ہو کر امریکہ اب پاکستان پر دباؤ ڈال رہا ہے کہ اسے افغانستان کی اس مشکل صورتِ حال سے نکالے لیکن ایسا کرنا اب پاکستان کے بس میں نہیں ہے۔ کیونکہ یہ بات باعث افسوس ہے کہ امریکی فوج ایک عظیم قوت ہونے کے باوجود قومی دفاع کی مکمل صلاحیت نہیں رکھتی ہے۔ امریکی تجزیہ نگار ہارلم اللمان کے بقول امریکی فوج 700 بلین ڈالر کا سالانہ بجٹ خرچ کر کے بھی قومی دفاع میں ناکام ہے اور پاکستانی فوج کی طرف دیکھ رہی ہے کہ وہ اسے اس دلدل سے نکالے جس کا بجٹ صرف 7 بلین ڈالر ہے لیکن دنیا کی بہترین فوج تسلیم کی جاتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ افغانستان کی دلدل سے نکلنے کا فیصلہ اور اختیار خود امریکہ کے پاس ہے۔ فیصلہ اب امریکہ نے کرنا ہے کہ کتنی جلدی وہ طالبان کے مطالبات تسلیم کر کے اس دلدل سے نکل سکے۔
طالبان کی شرط ہے کہ امن مذاکرات سے پہلے امریکہ افغانستان سے نکل جائے۔ اس کے بعد ہی پاکستانی فوج بھی امریکیوں کو وہاں سے نکالنے میں مدد دینے کے لئے تیار ہوگی۔ امریکیوں کو اب اس حقیقت کا بھی اعتراف کرنا ہوگا کہ طالبان دہشت گرد نہیں ہیں بلکہ حریت پسند ہیں جنہوں نے گزشتہ 37 سالوں میں دنیا کی بڑی سے بڑی عسکری قوتوں کو شکست دی ہے اور بے مثال قربانیاں دی ہیں۔ وہ ناقابل تسخیر اور پُرعزم ہیں اور اب انہیں نہ تو دھوکے میں رکھا جا سکتا ہے اور نہ ہی شکست دی جاسکتی ہے۔
یہ ہیں وہ حالات جن کا صدر ٹرمپ کو سامنا ہے۔ وہ شرمندگی اور بے چارگی کی عبرتناک شکل ہیں اور ان کی کیفیت ایک نوآموز باکسر جیسی ہے، جو کھیل کے تمام اصولوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے غلط جگہ ( بلوو دی بیلٹ ) حملہ کرسکتا ہے۔ پاکستان کو محتاط رہنا ہوگا کیونکہ صدر ٹرمپ کے بقول پاکستان نے امریکیوں کو بیوقوف سمجھتے ہوئے، سوائے جھوٹ اور دھوکے کے کچھ نہیں دیا جبکہ وہ خود حددرجہ بیوقوف ہیں۔
اب تک پاکستان کا ردعمل سفارتی اعتبار سے درست ہے۔ ہماری مسلح افواج اور حکومت کو حالات کی سنگینی سے نمٹنے کے لئے اپنے آپ کو اعتماد کے ساتھ تیار رکھنا ہوگا اور یہ اسی وقت ممکن ہوسکتا ہے جب ہمارے سیاسی قائدین الزام تراشی کی سیاست کو ختم کرتے ہوئے ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کے عمل کو ختم کردیں اور درپیش چیلنجز کا سامنا کرنے کے لئے متحد ہوجائیں۔ پچاس سالہ ماضی کی غلطیوں کا ازالہ کرنے اور اتحادیوں کا انتخاب کرنے کے لئے ہمارے پاس یہ تاریخی موقع ہے اور اپنی قومی سلامتی کے پیش نظر ماضی میں اختیار کئے جانے والے غلط راستوں کو درست کیا جاسکتا ہے۔
صدر ٹرمپ کی ہرزہ سرائی اور دھمکیوں سے نمٹنے کے لئے ہمیں اپنے دفاع میں تزویراتی گہرائی پیدا کرنا از بس لازم ہے۔ اس مقصد کے لئے ہمیں پاکستان، ایران، افغانستان اور ترکی کا اتحاد بنانے کی ضرورت ہے، جس کی مدد کے لئے اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی چین اور روس کو ہماری معاونت کے لئے متعین کردیا ہے۔ سبحان اللہ!

مطلقہ خبریں