پاک امریکا تعلقات کی پیچیدگیوں سے نمٹنے کیلئے پاکستان کو دو ایشوز پر اپنی بھرپور توجہ مرکوز کرنا ہوگی اول یہ کہ جن شعبوں میں امریکا کے ساتھ پالیسی اشتراک موجود ہے وہاں پاکستان کو تعلقات میں بہتری لانی چاہئے اور جہاں پالیسی میں اختلاف رائے پایا جاتا ہے وہاں امریکا کے ساتھ پائیدار بات چیت کا سلسلہ جاری رکھنے کی ضرورت ہے، کسی سپر پاور سے دوری اختیار کرنا کبھی پسندیدہ عمل نہیں ہوسکتا
ڈاکٹر حسن عسکری رضوی
اس بات کے ٹھوس اشارے ملے ہیں کہ پاکستان اور امریکا باہمی تعلقات میں پائے جانے والے تعطل کو دور کرکے باہمی مفادات کے لئے متحرک ہونا چاہتے ہیں۔ یہ سگنلز اس وقت ملے جب پاکستان کے وزیرخارجہ بلاول بھٹو زرداری نے ستمبر کے آخر میں یو این جنرل اسمبلی کے اجلاس کے بعد واشنگٹن ڈی سی کا دورہ کیا۔ ان کی امریکی وزیرخارجہ سمیت امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے سینئر حکام سے بات چیت ہوئی۔ گزشتہ ماہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور بعض سینئر کمانڈرز کے واشنگٹن ڈی سی کے دورے سے بھی مثبت اور خوش آئند اشاروں کی تصدیق ہوتی ہے اور سیکیورٹی سے متعلق امور میں تعاون میں اضافے کا عندیہ ملتا ہے۔ امریکی حکومت نے ایف-16 جنگی جہازوں کے لئے 450 ملین ڈالرز مالیت کے اسپیئرپارٹس اور دیگر ضروری آلات کی فراہمی کا یقین دلایا ہے۔ پاکستان نے امریکا سے یہ جنگی جہاز 1980ء کے عشرے میں خریدے تھے۔ یہ اُمید بھی کی جا رہی ہے کہ امریکا پاکستان میں سیلاب متاثرین کے لئے ریلیف فنڈز کی فراہمی بھی جاری رکھے گا۔
توقع ہے کہ پاک امریکا تعلقات کی بحالی اسکوپ کے اعتبار سے محدود نوعیت کی ہوگی اور زیربحث ایشوز کے تناظر میں بیک وقت مثبت او رمنفی تال میل کی عکاسی ہوگی۔ روایتی لحاظ سے دیکھا جائے تو امریکا کے مفادات پاکستان کے بجائے پاکستان کے گردونواح سے وابستہ ہیں۔ دونوں ممالک کے مابین پُرجوش تعلقات کے تین ادوار گزرے ہیں جو کچھ اس طرح سے ہیں: 1954-55ء سے 1962ء تک، 1980ء سے 1989ء تک اور پھر 2001ء سے 2016ء تک۔ اس دوران پاکستان کو امریکا سے سویلین میدان میں مالیاتی اور ٹیکنالوجیکل امداد، سماجی ترقی، تعلیمی گرانٹس، دفاعی اسلحہ اور گرانٹس کے علاوہ ملٹری ٹریننگ کی سہولیات بھی ملتی رہیں۔ تاہم ان ادوار میں باہمی تعلقات میں وقتاًفوقتاً مسائل بھی کھڑے ہوتے رہے۔ پُرجوش تعلقات کے ان تینوں ادوار میں امریکا اور پاکستان کے مابین دوطرفہ شکایات کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ ان دوطرفہ تعلقات کو 2011ء کے سال میں سنگین ترین مسائل کا سامنا کرنا پڑا، جن میں سے کچھ بعد والے برسوں میں بھی جاری رہے۔ ان تعلقات سے عالمی مفادات کی حامل سپر پاور اور ایک ایسے ترقی پذیر ملک کو درپیش کثیر جہتی مشکلات کی بھی عکاسی ہوتی ہے جس کے مفادات مقامی اور علاقائی نوعیت کے حامل ہیں۔
آج کی عالمی سیاست میں پاکستا ن تین وجوہات کی بنا پر امریکا کے لئے خاص اہمیت رکھتا ہے: پاکستان کی ایٹمی ہتھیاروں کی صلاحیت، پاکستان کا تزویراتی محل وقوع اور افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے بعد امریکا کے علاقائی مفادات۔ پاکستان کے بھی امریکا میں کثیرجہتی مفادات موجود ہیں جن میں ان عالمی مالیاتی اداروں کی طرف سے مالیاتی سپورٹ شامل ہے جن پر امریکا اور دیگر مغربی ممالک کا بھاری اثرورسوخ پایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ دوطرفہ معاشی امداد، ہائی ٹیکنالوجی کے حامل دفاعی آلات اور ہتھیار، سویلین ٹیکنالوجیز، عسکری تربیت کی سہولت، تجارت بالخصوص ٹیکسٹائل مصنوعات کی برآمد اور پاکستانی اشرافیہ کے امریکا کے ساتھ جڑے مضبوط روابط شامل ہیں۔ بھارت کے ساتھ جاری تنازعات میں پاکستان اکثر امریکا سے ناکام سفارتی سپورٹ حاصل کرنے کی کوشش بھی کرتا رہتا ہے۔ امریکا اور پاکستان دونوں کو اس انڈر اسٹینڈنگ کے ساتھ باقاعدہ روابط برقرار رکھنے کی ضرورت ہے کہ ان کے تمام مقاصد کا تسلی بخش حد تک حصول ممکن نہیں۔ حکمت عملی یہ ہونی چاہئے کہ دوطرفہ شعبوں میں تعاون کی نشاندہی کرلی جائے مگر اختلافی امور پر رابطے برقرار رکھے جائیں۔ امریکا کی یہ اولین ترجیح ہوگی کہ پاکستان سی پیک منصوبہ ختم کردے یا اسے ڈاؤن گریڈ کردے کیونکہ یہ کوریڈور چین کو تجارت اور انسانی نقل وحرکت کے لئے متبادل روٹ فراہم کرتا ہے۔ امریکی حکومت نے اس بات پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے کہ پاکستان مغربی چین کو گوادر کے ذریعے سمندر سے لنک کرنے کے منصوبے میں تعاون کر رہا ہے اور چین کی طرف سے پاکستان کو ملنے والے قرضوں کے مضمرات سے بھی خبردار کیا ہے۔ اس کا اصرار اس پر ہے کہ چین اس کوریڈور اور صنعتی قرضوں کی آڑ میں پاکستانی معیشت کے گرد شکنجہ کس سکتا ہے۔ پاکستان ان دلائل کو مسترد کرتا ہے۔
چین کے عالمی کردار کو محدود کرنے میں امریکا کو ایشیا پیسفک ریجن کے بعض ممالک کی سپورٹ بھی حاصل ہے اور وہ اس کی بحیرہ جنوبی چین کے آزادانہ استعمال کی صلاحیت کو کمزور کرنا چاہتا ہے۔ امریکا نے اس ریجن کی بعض ریاستوں کے ساتھ دوطرفہ انڈر اسٹینڈنگ پیدا کر رکھی ہے اور اس مقصد کے لئے بھارت، جاپان اور آسٹریلیا کے ساتھ مل کر کئی اقدامات اور انتظامات کا بندوبست بھی کیا ہے۔ امریکا کی حکمت عملی یہ ہے کہ وہ چین کی تجارت، سرمایہ کاری اور افریقہ، جنوبی ایشیا اور مشرق وسطیٰ میں قرضوں کے ذریعے سڑکوں کی تعمیر کے نام پر عالمی اشتراک کی پالیسی کی حوصلہ شکنی کرنا چاہتا ہے۔ چین کا بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو بھی اسی پالیسی کا اہم حصہ ہے۔ امریکا چین کی اس پالیسی کا توڑ کرنے کے لئے کئی ممالک کے ساتھ مل کر چین مخالف نیٹ ورکنگ پر کام کر رہا ہے۔ امریکی پالیسی کا ایک اور پہلو بھارت کا کردار ہے۔ چین کا گھیراؤ کرنے میں بھارت اب امریکا کا اہم اور قابلِ بھروسہ اتحادی اور تزویراتی شراکت دار بن چکا ہے۔ نیز ان دونوں ممالک کے مابین ایشیا پیسفک ریجن میں سیکیورٹی امور، افغانستان اور اس کے گردونواح میں کثیرالقومی دہشت گردی کے معاملات میں گہرا اتفاق پایا جاتا ہے۔ امریکا اور بھارت کے دفاعی اور معاشی تعلقات میں گزشتہ دس برسوں کے دوران خاطرخواہ بہتری آئی ہے جس کی وجہ سے تجارت، امریکی کثیر قومی کارپوریشنز کی طرف سے بھارت میں بھاری سرمایہ کاری اور دونوں ممالک میں انفارمیشن اور کمیونیکیشن ٹیکنالوجیز کی مد میں دوطرفہ تعاون جاری ہے۔ سیکیورٹی کے شعبے میں امریکا کے سرکاری اور نیم سرکاری حلقے بھارت کو ایک مستحکم ملک سمجھتے ہیں جو خطے کی روایتی اور غیرروایتی سیکیورٹی میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔ امریکا کے اسٹرٹیجک تناظر میں دیکھا جائے تو بھارت کو پاکستان کے مقابلے میں کہیں زیادہ ترجیح حاصل ہے۔ امریکا پاکستان اور بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات کو دو مختلف پالیسی ٹریکس پر دیکھتا ہے۔ امریکا سے یہ توقع عبث ہے کہ وہ پاک بھارت ایشوز پر پاکستان کے موقف کی حمایت کرے گا تاہم وہ چاہتا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے مابین جاری کشیدگی نچلے لیول پر رہنی چاہئے۔
اتنے ایشوز پر اختلاف رائے کی موجودگی میں پاک امریکا تعلقات کے ضمن میں ایک محدود اسکوپ پایا جاتا ہے۔ کسی ایک ایشو پر ان میں اتفاق رائے ہوسکتا ہے تو کسی دوسرے ایشو پر دونوں ممالک کا ایک دوسرے کے ساتھ اختلاف رائے بھی ہوسکتا ہے۔ پاک امریکا تعلقات کی پیچیدگیوں سے نمٹنے کے لئے پاکستان کو دو ایشوز پر اپنی بھرپور توجہ مرکوز کرنا ہوگی: اول یہ کہ جن شعبوں میں امریکا کے ساتھ پالیسی اشتراک موجود ہے وہاں پاکستان کو تعلقات میں بہتری لانی چاہئے اور جہاں پالیسی میں اختلاف رائے پایا جاتا ہے وہاں امریکا کے ساتھ پائیدار بات چیت کا سلسلہ جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔ کسی سپر پاور سے دوری اختیار کرنا کبھی پسندیدہ عمل نہیں ہوسکتا۔ پاکستان کو اپنی داخلی معیشت اور سیاست میں بہتری لانے پر بھرپور توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ معیشت کے داخلی ذرائع کو اس قدر مستحکم کرنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان کو بیرونی ذرائع پر انحصار نہ کرنا پڑے۔ ایک اچھی اور مستحکم معیشت پاکستان کو عالمی سطح پر پُرکشش ملک بنانے میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔ اس کے لئے پاکستان کو داخلی سیاست میں محاذآرائی کو کم کرنا چاہئے نیز جمہوریت اور دستور پسندی کے اصولوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے ملک میں سماجی اور سیاسی ہم آہنگی کو فروغ دینا چاہئے۔