Friday, July 18, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

پاک افغان سرحد پر کشیدگی۔۔ وجوہات اور حل

افغان فورسز کی پے در پے بلا اشتعال فائرنگ سے پاکستان کے کئی شہری اور فوجی جوان شہید ہوچکے ہیں
ضیا الرحمن ضیا
افغان طالبان کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد پاکستانی عوام میں خوشی کی لہر دوڑ گئی تھی۔ عوام یہ سمجھنے لگے کہ شاید اب پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں بہتری آجائے گی۔ عوام یہ سمجھتے تھے کہ افغان طالبان پاکستان کے دوست ہیں اور پاکستانی طالبان پاکستان کے دشمن ہیں۔ اس لئے یہ سمجھا جاتا تھا کہ شاید افغان طالبان برسر اقتدار آئیں گے تو عوام کی مشکلات کم ہوجائیں گی اور افغان طالبان پاکستانی عوام اور حکومت کے ساتھ مل کر بہتری کے لئے کام کریں گے اور دونوں ممالک کے تعلقات مثالی ہوجائیں گے اور پاکستان کی مغربی سرحد جو افغانستان کے ساتھ ملی ہوئی ہے وہ محفوظ ہوجائے گی، وہاں سے دہشتگردوں کی آمدورفت کا سلسلہ بند ہوجائے گا۔
مگر بدقسمتی سے ایسا نہ ہوسکا۔ جب افغان طالبان برسراقتدار آئے تو انہیں بہت سے مشکلات اور مسائل کا سامنا تھا۔ افغان طالبان برسراقتدار آئے تو افغانستان کے حالات نہایت دگرگوں تھے۔ افغانستان میں سیکیورٹی کے حالات نہایت ابتر تھے اور اسی طرح معاشی حالت بھی بہت زیادہ خراب تھی جس کی وجہ سے افغان طالبان دیگر کسی مسئلے کی طرف توجہ نہیں دے سکے اور سب سے پہلے سیکیورٹی کے حالات بہتر کرنے کی کوشش کی اور افغانستان سے دہشتگردوں اور دہشت گرد گروہوں کا خاتمہ کرنے کی کوشش کی۔
افغانستان صنعتی ملک بھی نہیں اور نہ ہی وہاں پر کوئی ایسی خاص پیداوار ہے جو افغانستانوں کی کمائی کا ذریعہ بن سکے، اس کے لئے ضروری تھا کہ دیگر ممالک کے ساتھ تجارت ہو لیکن دُنیا کے کسی ملک نے بھی افغان طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا جس کی وجہ سے وہ ابھی تک کسی ملک کے ساتھ کھل کر تجارت کرنے کے قابل نہیں ہوسکے۔ یہی وجہ ہے کہ افغان طالبان ابھی تک افغانستان کے معاشی حالات پر قابو نہیں پاسکے۔ انہوں نے اگرچہ دہشت گردوں کے خلاف کارروائیاں کیں اور کافی حد تک دہشت گردی کا خاتمہ بھی کردیا لیکن شاید انہوں نے تحریک طالبان پاکستان کو دہشت گردوں کی لسٹ میں ڈالا ہی نہیں، جس کی وجہ سے انہوں نے ان کے خلاف کارروائی نہیں کی۔ تحریک طالبان پاکستان کئی حوالوں سے افغان طالبان کے دست و بازو بھی رہے اور امریکا کے خلاف جنگ میں ان کا بھرپور ساتھ دیتے رہے، یہی وجہ ہے کہ افغان طالبان ان کے خلاف کارروائی کرنے سے گریزاں ہیں۔ نتیجتاً انہیں افغانستان میں محفوظ پناہ گاہیں میسر ہیں، جس کی وجہ سے پاکستان حکومت بھی ان کے خلاف کارروائی نہیں کرسکتی اور وہ پاکستان کے اندر دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہیں۔
پاکستانی حکومت نے کئی بار افغان حکومت سے رابطہ بھی کیا کہ وہ ان نام نہاد طالبان کے خلاف کارروائی کرے، انہیں پاکستان کے حوالے کرے اور بارڈر پر ان کی آمدورفت کو روکنے کے لئے اپنی طرف سے اقدامات کرے۔ لیکن افغان طالبان نے کیونکہ دہشت گردوں کی فہرست میں انہیں شامل ہی نہیں کیا اس لئے انہوں نے ان کے خلاف کوئی کارروائی بھی نہیں کی۔ جس کی وجہ سے وہ پاکستان کے اندر اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ پاکستان کے اندرونی حالات بھی ان ہی کی وجہ سے انتہائی خراب ہیں۔ اس کے علاوہ پاک افغان سرحد پر بھی افغانستان کی طرف سے بلااشتعال فائرنگ کا ایک سلسلہ چل نکلا ہے۔ افغان فورسز وہاں سے بلااشتعال فائرنگ کررہی ہیں، جس سے پاکستان کے کئی شہری شہید ہوچکے ہیں اور کئی زخمی ہیں۔ پاکستان کا بہت نقصان ہوچکا ہے۔
افغان سیکیورٹی فورسز کی ذمے داری ہے کہ وہ اسے روکے لیکن شاید وہ اس معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے جس کی وجہ سے حملوں کا یہ سلسلہ رک نہیں رہا۔ پاکستانی حکومت نے افغان قیادت سے اس سلسلے میں رابطہ کیا تو انہوں نے (بقول پاکستانی وزراء کے) معذرت کی اور یقین دہانی کرائی کہ آئندہ ایسا نہیں ہوگا لیکن ہر چند دن بعد وہی واقعہ پھر پیش آجاتا ہے۔ اب یا تو طالبان خود اس کو روکنا نہیں چاہ رہے یا اسے روکنا ان کے بس میں نہیں ہے۔ لیکن جب انہوں نے ملک کے اندر سے دہشت گردوں کے خلاف موثر کارروائیاں کرکے ان کی کمر توڑ ڈالی ہے تو پھر بارڈر پر کون سی ایسی طاقتیں ہیں جو ان پر حاوی ہیں۔ پھر پہلی بات ہی درست ہوسکتی ہے کہ افغان طالبان پاکستان سے ناراضی کی وجہ سے ایسا کررہے ہیں۔ کیونکہ پاکستان نے طالبان کی حکومت کو گرانے میں امریکا کا ساتھ دیا تھا۔ امریکا کو پاکستان سے راستہ فراہم کیا تھا جس کے ذریعے امریکا افغانستان تک پہنچا اور افغانستان پر حملہ کرکے طالبان کی حکومت کو ختم کردیا۔ اس وجہ سے افغان عوام بھی پاکستان سے ناراضی کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ اگرچہ وہ پاکستان میں آتے ہیں، یہاں کھاتے پیتے ہیں، رہتے ہیں اور اچھی خاصی کمائی بھی کرتے ہیں، اس کے باوجود پاکستان سے ناراض بھی رہتے ہیں۔ حالانکہ پاکستان نے اس کے بعد افغانستان کی بہت مدد بھی کی، بالخصوص طالبان حکومت کے قیام کے بعد پاکستان نے ان کے لئے اجلاس بھی بلائے، ان کے حق میں دُنیا میں آواز بھی بلند کی، اس کے باوجود وہ پاکستان کے ساتھ تعاون نہیں کررہے۔ اگر وہ امریکا کے ساتھ بات چیت کرنے اور تعلقات قائم کرنے کے لئے تیار ہیں جس کا مرکزی کردار تھا تو پاکستان نے تو اس کے مقابلے میں کچھ کیا ہی نہیں۔ پھر پاکستان کے ساتھ ایسا سوتیلا پن کیوں روا رکھا جا رہا ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان ایسا ملک ہے جس کے اپنے بھی اس کے اپنے نہیں۔ اسے چاروں طرف سے مسلسل مشکلات کا سامنا ہے۔ اس کی کوئی سرحد محفوظ نہیں ہے۔ ایک طرف بھارت ہے جو پاکستان کا روایتی دشمن ہے، جہاں سے خیر کی کوئی توقع ہی نہیں لیکن دوسری طرف دیکھا جائے تو دونوں اسلامی ممالک ہیں افغانستان اور ایران، لیکن ان دونوں کی طرف سے بھی پاکستان کو کبھی کوئی خیر کی خبر نہیں ملی۔ افغانستان سے بھی ہمیشہ دہشت گردی کے واقعات پیش آتے رہے اور ایران کی طرف سے بھی دہشت گردوں کی آمدورفت کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہا۔ جسے ایران حکومت نے روکنے کی کبھی کوشش نہیں کی۔ اب یہ پاکستانی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ”امن کی خواہش کو کمزوری نہ سمجھا جائے“ کا نعرہ ترک کرکے سرحد پار سے کئے جانے والے تمام حملوں کا موثر جواب دے۔ اگر افغانستان کی طرف سے حملے ہورہے ہیں تو ان کا بھی موثر جواب دینا چاہئے بلکہ ان کے علاقے میں بھی جانا پڑے تو جا کر وہاں سے ان دہشت گردوں کو اکھاڑنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ افغان فورسز ہوں یا دہشت گرد، جو پاکستان پر حملہ کررہے ہیں انہیں کسی صورت معافی نہیں ملنی چاہئے۔
پاکستانی اور افغان حکام کو مل بیٹھ کر اس مسئلے کا حل نکالنا چاہئے اور کوشش کرنی چاہئے کہ کسی طرح معاملہ افہام و تفہیم سے رفع دفع ہوجائے اور افغان طالبان کے دلوں میں اگر پاکستان کے بارے میں کوئی غبار ہے بھی تو اسے مل بیٹھ کر صاف کرلینا چاہئے تاکہ ان دونوں اسلامی ممالک کے درمیان کسی قسم کی جنگ کی صورتِ حال پیدا نہ ہو، کیونکہ دونوں طرف مسلمان ہیں۔ اس لئے آپس میں جنگ سے احتراز کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ انہیں آپس میں مل بیٹھ کر تمام تر صورتِ حال کا جائزہ لینے کے بعد اس کا کوئی حل نکالنا چاہئے اور سرحد سے دہشت گردی کی بلااشتعال کوششوں کو ناکام بنانے اور ان کا سلسلہ ختم کرنے کے لئے مشترکہ حکمت عملی اپنانی چاہئے۔ اگر اس کے بعد بھی افغانستان کی طرف سے بلااشتعال دہشت گردی ہوتی ہے تو پھر اس کا موثر جواب دینے کے لئے پاکستان کو ہمیشہ تیار رہنا چاہئے اور اس کا جواب بھی دینا چاہئے تاکہ کوئی اسے ہماری کمزوری نہ سمجھے۔

مطلقہ خبریں