Wednesday, June 11, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

پاک افغان تعلقات بہتر کرنے کا عندیہ

ضمیر آفاقی

اس میں دو رائے نہیں کہ ہمسائے بدلے نہیں جا سکتے اس لئے ہمسایوں کے ساتھ اچھے تعلقات قائم رکھنا ایک طرح کی مجبوری بھی ہوتی ہے، اس کے بغیر چارہ کار نہیں ہوتا۔ پاک افغان دو ایسے ہمسائے ہیں جو سماجی، تجارتی، مذہبی تہذیبی طور پر بھی ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں بلکہ طویل سرحدیں بھی ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں۔ بدقسمتی سے گزشتہ کچھ عرصہ سے دونوں ممالک کے مابین کچھ تناؤ کی کیفیت پائی جاتی ہے بلکہ بات تناؤ سے بھی آگے جا کر کشیدگی اور سرحدی جھڑپوں تک جا پہنچی ہے۔ اس کے کئی ایک اسباب ہوسکتے ہیں۔ ہمیں فی الحال ان اسباب پر بحث نہیں کرنی بلکہ اس وقت موضوع سخن موجودہ حکومت کی وہ کوششیں ہیں جن سے پاک افغان تعلقات میں بہتری کی امید پیدا ہورہی ہے۔ گزشتہ دنوں وزیرِاعظم شاہد خاقان عباسی کی زیرصدارت نیشنل سیکورٹی کمیٹی کے ایک اہم اجلاس میں یہ اعلان کیا گیا ہے کہ وہ افغان حکومت کے ساتھ مل کر کام کرے گی اور سرحد پار سے ہونے والے حملوں کے خاتمے سمیت بہتر تعلقات میں حائل تمام رکاوٹوں کو دور کیا جائے گا۔ اس اہم اجلاس میں آرمی چیف جنرل قمر باجوہ سمیت کئی اہم شخصیات بھی شریک تھیں۔ خارجہ و سلامتی امور کے ماہرین کمیٹی کے اس بیان کو خطے میں امن کے لئے بہت اہم قرار دے رہے ہیں۔ انہی کوششوں کے نتیجے میں کابل اور اسلام آباد کے تعلقات میں حالیہ دنوں میں کچھ بہتری نظر آئی ہے۔ وزیراعظم کی جانب سے پاک افغان تعلقات کو بہتر کرنے کے حوالے سے اس اجلاس کے بعد پاکستان کی عسکری امداد کو کم کرنے کے باوجود واشنگٹن نے بھی یہ کہا ہے کہ خطے میں امن کے لئے اسلام آباد اور واشنگٹن کا اتحاد اہم ہے۔ امن کے لئے کی جانے والی کوششوں کے لئے نیشنل سیکورٹی کمیٹی کا فیصلہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان پُرخلوص انداز میں افغانستان کا مسئلہ حل کرنا چاہتا ہے اور ہم نے ماضی میں انٹیلی جنس شیئرنگ اور سرحدوں کی نگرانی سخت کرنے کے حوالے سے افغانستان کو تجاویز بھی دی تھیں۔ یہ معاہدے کی شکل اختیار کرنے جا رہی تھیں لیکن پھر افغان حکومت نے بھارت کے ایما پر ان کو مسترد کردیا۔ اب اسی طرح کی تجاویز چین نے افغانستان کے سامنے رکھی ہیں، کابل کے لئے یہ بڑا مشکل ہوگا کہ وہ ان کو مسترد کرے۔
وزیراعظم کی زیرصدارت سیاسی اور عسکری قیادت پر مشتمل قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں افغانستان کے عوام اور حکومت کے ساتھ تمام سطحوں پر مل کر کام کرنے کے عزم کا اظہار کیا گیا ہے تاکہ دوطرفہ تعلقات میں تناؤ کا سبب بننے والی رکاوٹوں کو دور کیا جا سکے۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی زیرقیادت ہونے والے قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے بعد جاری ہونے والے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ افغانستان کے ساتھ پاک افغان سرحد پر فائرنگ کے واقعات اور پاکستان میں ہونے والے دہشت گرد حملوں میں ملوث شدت پسندوں کے افغانستان میں مبینہ سپورٹ نیٹ ورک سمیت تمام معاملات پر بات کی جائے گی۔ اجلاس میں افغانوں کی زیرقیادت امن کوششوں کی حمایت کا اعادہ بھی کیا گیا۔ اس اجلاس سے پہلے وزیراعظم کی ہدایت پر تہمینہ جنجوعہ نے افغانستان کے نائب وزیر خارجہ حکمت کرزئی کی دعوت پر کابل کا ایک روزہ دورہ کیا تھا۔ اس دورے کے بعد افغان وزارت خارجہ سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ مذاکرات کے دوران دونوں ہی جانب سے اعتماد کی بحالی پر زور دیا گیا اور اس مقصد کے لئے دونوں ممالک نے کئی سطحوں پر کام کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں داخلی اور بیرونی سلامتی کی صورتِ حال پر بھی غور کیا گیا۔ جبکہ سرکاری بیان کے مطابق کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر فائرنگ کے حالیہ واقعات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اجلاس کے شرکا کا کہنا تھا کہ علاقائی امن تنازع کشمیر اور دیگر تصفیہ طلب مسائل کے حل سے براہِ راست جڑا ہوا ہے۔ واضح رہے کہ کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر پاکستان اور بھارت کی افواج کے درمیان فائرنگ و گولہ باری کے تبادلے کے واقعات بھی جنوبی ایشیا کے ان دونوں پڑوسی ممالک کے درمیان تناؤ کی ایک بڑی وجہ ہیں۔ پاکستان کی طرف سے عالمی برداری سے بھی یہ اپیل کی جاتی رہی ہے کہ وہ کشمیر کے مسئلے کے حل میں اپنا کردار ادا کرے۔ قومی سلامتی کمیٹی کے حالیہ اجلاس میں جو افغانستان سے تناؤ ختم کرنے کے حوالے سے منعقد ہوا اور اس میں ہونے والی پیش رفت کے بارے میں تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ اس پیش رفت کو تیزی کے ساتھ آگے بڑھنا چاہئے تاکہ دونوں ممالک کے مابین باہمی بھائی چارے کی فضا قائم ہوسکے اور ہماری تجارتی سرگرمیوں میں اضافے کے ساتھ دونوں ممالک کے شہری آسانی کے ساتھ ایک دوسرے کے ملک میں آ جا سکیں، پاک افغان تعلقات میں بہتری آنے سے کشمیر کے مسئلے کو حل کرنے کی راہ میں بھی آسانیاں پیدا ہوں گی جبکہ تجارتی حجم میں بھی اضافہ ہوگا۔
پاکستان اور افغانستان کے باہمی تعلقات گزشتہ ایک سال سے زائد عرصے سے انتہائی کشیدہ رہے ہیں جس کی وجہ سے ناصرف سفارتی تعلقات متاثر ہوئے بلکہ دوطرفہ تجارت پر بھی اس کا منفی اثر پڑا، معاشی تجزیہ کاروں کے مطابق قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں ہونے والی پیش رفت کاروباری برادری کے لئے اُمید کا پیغام ہے۔ پاک افغان تعلقات میں تناؤ کی وجہ سے کاروبار پر اثر پڑ رہا تھا اور افغانستان کے لئے ہماری برآمدات بھی کم ہوئی ہیں۔ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ افغانستان پاکستان کا ایک بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔ اسلام آباد اور کابل کے تعلقات میں تناؤ کی وجہ سے دوطرفہ تجارت کے حجم پر بھی منفی اثر پڑا ہے۔ ماضی میں پاک افغان ’’دوطرفہ تجارت کا حجم 2 ارب 70 کروڑ ڈالر تک پہنچ گیا تھا۔ آج یہ کم ہو کر ایک ارب 50 کروڑ ڈالر ہوگیا ہے۔ افغانستان کے دوطرفہ تجارت 80 فیصد پاکستان کے حق میں ہے۔ لیکن اب پاکستان کی برآمدات بہت زیادہ کم ہوگئی ہیں اور کاروباری برادری کا بھی نقصان ہورہا ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان دوطرفہ تجارت کے حجم میں اضافے کے وسیع امکانات موجود ہیں۔ اس میں اضافہ کرنے کے لئے دونوں ملکوں کے باہمی سفارتی تعلقات کا پائیدار بنیادوں پر استوار ہونا ضروری ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ہمسایوں سے اچھے تعلقات کا فائدہ تمام فریقین کو ہوتا ہے اور تناؤ یا کشیدگی سے نقصان بھی۔ جیسا کہ بتایا گیا ہے کہ 120 ارب ڈالر کا تجارتی نقصان ہورہا ہے، اس لئے پاک افغان مشترکہ اقتصادی کمیشن کے اجلاس کو رواں ماہ بلانے پر اتفاق سے بھی امید بندھی ہے کہ پاک افغان تعلقات میں بہتری آئے گی جس سے دنوں ملکوں کے تجارتی حجم میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں حکومت کو ہمسایوں سے بہتر تعلقات کے لئے ہرممکن اور ہر سطح پر کوششوں کو آگے بڑھانا چاہئے تاکہ اس خطے کے لوگ بھی خوشحالی کا منہ دیکھ سکیں، نفرت محبت میں تبدیل ہو جبکہ دہشت اور خوف کی جگہ پُرامن کے سوتے پھوٹیں۔ پاکستان، افغان اور بھارت ایشیا میں غربت کی انتہاؤں کو چھو رہے ہیں جس کی وجہ سے یہاں انتہاپسندی میں اضافہ ہوا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہماری آنے والی نسلیں پْرامن اور خوشحال زندگی گزاریں، تو اس کے لئے ہمیں امن کے قیام اور دوستانہ ماحول کے ساتھ تعلقات کو فروغ دینا ہوگا۔

مطلقہ خبریں