Monday, July 21, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

پاکستان کی پیچیدہ سیاسی صورتِ حال

نصرت مرزا

پاکستان میں سیاست میں اکھاڑپچھاڑ کے بعد اب سیاسی گرمی میں اضافہ ہورہا ہے، پاکستان کے وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کے صدر تاحیات نااہل اور آصف علی زرداری اور عمران خان اہل قرار پائے، کراچی میں ایم کیو ایم کئی دھڑوں میں تقسیم ہو کر اپنا مقام کھو رہی ہے، خیبرپختونخوا میں جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی کے راستے جدا ہوگئے ہیں، اگرچہ حکومت برقرار رکھنے میں وہ پی ٹی آئی کا ساتھ دے گی، بلوچستان میں پہلے ہی تبدیلی آ چکی ہے اور وہاں سے سینیٹ کے چیئرمین کو منتخب کرلیا گیا جبکہ راجہ ظفر الحق جیسے سینئر اور تجربہ کار شخصیت ہار گئی۔ اس کے علاوہ جنوبی پنجاب میں الگ الگ دو تحریکیں شروع ہوگئی ہیں ایک صوبہ بہاولپور اور دوسری جنوبی پنجاب کے صوبہ کے قیام کی تحریکیں ہیں، مسلم لیگ (ن) سے جنوبی پنجاب کے کئی ارکان صوبائی و قومی اسمبلی نکل گئے ہیں، پنجاب میں آصف علی زرداری نے ڈیرہ ڈالا ہوا ہے اور وہ بھی جلسے و جلوس کررہے ہیں۔ کراچی میں پیپلزپارٹی اپنی جگہ بنانے کے لئے ایم کیو ایم کے انتہائی مرکزی علاقہ میں جلسہ کرچکی ہے جس میں پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کراچی کے لوگوں کو پیپلزپارٹی میں شامل ہونے کی دعوت دی اور کراچی کو بدلنے کا وعدہ کیا۔ مسلم لیگ (ن) کے نئے صدر میاں شہباز شریف نے حال ہی میں کراچی کے دو دورے کئے اور کراچی کو نیویارک بنانے کا وعدہ کیا۔ جو اگرچہ ایک غلط مثال تھی کہ کراچی نیویارک سے دس گنا پُرامن شہر ہے، اب ایسے وعدے تو الیکشن کی مہم کے دوران کئے جاتے ہیں، ہم اِس کو الیکشن مہم کا حصہ قرار دے سکتے ہیں، بٹی ہوئی ایم کیو ایم بھی یکجا ہونے کی کوشش کررہی ہے۔
تاہم سیاست میں گرمی پیدا اس وجہ سے ہورہی ہے کہ میاں محمد نواز شریف نااہل قرار دیئے جانے کے بعد سخت مزاحمت کررہے ہیں، اُن کے بیانات عدلیہ اور دوسرے اداروں کو نشانہ بنا رہے ہیں، اُن کا سخت ترین بیان جمعرات 3 مئی 2018ء کو آیا جب وہ احتساب عدالت میں پیشی کے دوران صحافیوں سے گفتگو کررہے تھے، ’’سینے میں بہت راز ہیں اُن کے افشا ہونے سے پہلے سدھر جائیں‘‘ یا یہ کہ ’’خلائی مخلوق مرضی کی پارلیمنٹ لانا چاہتی ہے، ریاست کے تین ستونوں میں سے ایک پر اُن کا قبضہ ہوچکا ہے‘‘۔ اُن کا یہ بیانیہ انتہائی سخت ہے، اس کے جواب میں عمران خان نے جیو کے میزبان حامد میر کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ نواز شریف 2013ء میں فوج کی مدد سے جیتے۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ نہیں بلکہ نواز شریف فوج اور عدلیہ کے لاڈلے رہے ہیں، ساتھ ساتھ یہ بھی کہا کہ انتخابات زیادہ سے زیادہ ڈیڑھ ماہ کے لئے ملتوی ہوں گے، اگرچہ ایسی ہی خبر ہمارے پاس بھی ہے کہ انتظامی تیاریوں کی وجہ سے انتخابات ایک سے ڈیڑھ ماہ تاخیر سے ہوسکتے ہیں۔ آصف علی زرداری اس پر یہ کہہ رہے ہیں کہ ملک کو کھوکھلا کرکے نواز شریف اداروں کو آنکھیں دکھا رہے ہیں، انہوں نے خیبرپختونخوا کے عوام کو خوشخبری دینے کی اطلاع دی، شاید وہ وہاں سے کئی اہم اور ایسے لوگ جن کا اپنا حلقہ انتخاب ہے، وہ پی پی پی میں شامل ہونے والے ہیں۔ لیکن اس صورتِ حال میں نواز شریف کا بیان کافی سخت ہے۔ آمنے سامنے کے تصادم کی اطلاع دیتا ہے، جو کوئی اچھی بات نہیں ہوگی، یہ عجیب بات ہے کہ تقریباً ساری پارٹیاں کسی نہ کسی طرح اسٹیبلشمنٹ سے مل کر اٹھتی ہیں، میاں نواز شریف کو جنرل ضیاء الحق نے حکومت میں شامل کیا۔ پی پی پی کی حکومت اُن کے ہی سہارے پر قائم ہوئی اور دوسری مرتبہ پی پی پی اداروں کی مدد سے حکومت میں آئی، عمران خان کا اداروں سے تعلق ڈھکا چھپا نہیں، وہ گفتگو اور بیانات میں احتیاط بھی نہیں برتتے۔ پھر ایک تصویر حساس اداروں کے سربراہ سے ملاقات کی منظرعام پر آچکی ہے، ایم کیو ایم کو بھی اداروں نے سنبھالا، پھر جب کوئی حد سے بڑھ جاتا ہے تو راستہ روکا جاتا ہے، اس دفعہ ادارے تو نہیں مگر سپریم کورٹ آف پاکستان متحرک ہوگئی ہے اور سیاست میں کرپشن کو روکنے کی کوشش کررہی ہے۔ میاں نواز شریف کا یہ مسئلہ رہا ہے کہ وہ اداروں کو اس طرح اپنے کنٹرول میں دیکھنا چاہتے ہیں جیسے بیورو کریسی یا پولیس وہاں پر تاحال اس کی مزاحمت ہے، ہر آرمی چیف کے ساتھ میاں نواز شریف کی نہیں بنی، بہت سے لوگوں کی طرح ہمارے سینوں میں بھی بہت سے اہم راز ہیں۔ بہرحال یہ صورت کافی خراب ہے اور اگر ہاکی کے کھیل کی بات کی جائے تو وہ گول کے قریب ’’ڈی‘‘ میں کھیل کھیلا جارہا ہے اور کسی وقت کوئی سانحہ ہوسکتا ہے، مارشل لاء کا تو تاحال امکان نہیں، امریکا نے 3 مئی 2018ء کو ایک بیان میں جمہوریت کے تسلسل پر زور دیا ہے، اگرچہ امریکا کا پاکستان میں وہ اثرورسوخ نہیں رہا جو پہلے تھا۔ دہشت گردی کے واقعات بڑھ رہے ہیں اور خاص خاص مقامات اور خاص لوگوں کو نشانہ بنایا جا رہا تھا کہ عدم استحکام پیدا ہوا، اس کے علاوہ پاکستان میں کرپشن کا ناسور ہر شعبہ زندگی میں در آیا ہے، لوگوں کی زندگی اجیرن ہوگئی ہے۔ سیاستدان اور بیورو کریٹس گرفتار پر گرفتار ہورہے ہیں مگر کرپشن زوروشور کے ساتھ جاری ہے، صلائے عام ہے اس کو جب تک ختم نہیں کیا جائے گا ریاستی ہیکل اساسی کمزور ہوتا چلا جائے گا۔ دوسرے پاکستان کے عوام کو گرمی میں بجلی کی عدم فراہمی دوسری طرح کی سنگینی پیدا کررہی ہے۔ کراچی الیکٹرک کو زیادہ سے زیادہ مراعات دیئے جانے کے باوجود اُس نے بجلی کے جانے اور آنے کی آنکھ مچولی ختم ہو کر نہیں دے رہی ہے جو کسی وقت بھی آتش فشاں کی شکل اختیار کرسکتی ہے اور اس لئے بھی کہ کراچی کے عوام کو شکوہ ہے کہ مردم شماری میں اُن کے شہر کے ایک کروڑ عوام غائب کردیئے گئے۔ ہمیشہ سے 25 فیصد آبادی کم کی جاتی رہی ہے اور اس دفعہ یہ 35 سے 40 فیصد آبادی کم کردی ہے، پھر وہاں عوامی نمائندگی سے محرومی کسی وقت بھی اثر دکھا سکتی ہے۔
اس کے علاوہ ایک پشتون تحریک اٹھ کھڑی ہوئی ہے جو یینون پلان یا کرنل پیٹر رالف منصوبہ کا حصہ ہے اور اس پر ہم انہی کالموں میں لکھ چکے ہیں کہ صوبہ خیبرپختونخوا اور گلگت بلتستان افغانستان کا حصہ دکھا گیا ہے۔ وہ علیحدگی کی بات کررہی ہے اگرچہ پاکستان پشتونوں کا سب سے بڑا حمایتی ہے، پاکستانی حکام نے امریکی سینٹ کام کے سربراہ جنرل جوزف ووٹل کو صاف صاف کہہ دیا ہے کہ افغان طالبان کے خلاف جنگ نہیں کرسکتے اس لئے ایک تو وہ ہمارے خلاف جنگ نہیں کررہے ہیں دوسرے وہ افغانیوں کی 43 فیصد آبادی سے جنگ نہیں کرسکتے ہیں، وہ ایک قوم ہے البتہ امریکا کی مدد صرف اس طرح کی جاسکتی ہے کہ افغان طالبان کو پاکستان اپنا اثرورسوخ استعمال کرکے مذاکرات کی میز پر بٹھا دے اور امریکا و افغانستان اُن کو حکومت میں مناسب جگہ دے کر رام کرسکتے ہیں، جس کو جنرل جوزف ووٹل نے تو مان لیا مگر سی آئی اے اپنا کام کررہی ہے اور اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے میں لگی ہوئی ہے اور شام میں روسی اور ایرانی افواج سے شکست کھائی ہوئی داعش کو افغانستان میں جمع کیا ہے تاکہ کسی وقت وہ پاکستان میں گھس کر گڑبڑ پھیلا سکیں۔ بدخشاں کے صوبہ کے بارے میں یہ کہا جارہا ہے کہ طالبان نے قبضہ کرلیا ہے مگر دراصل وہ داعش نے قبضہ کیا ہے اور بدخشاں چترال سے ملحق ہے، یہ کہنا حق بجانب ہے کہ پاکستان کے لئے مشکلات بڑھ رہی ہیں ، اندرونی اور بیرونی صورتِ حال کو معمول پر لانے کے لئے انتہائی تدبر، تحمل اور اعلیٰ درجے کی صلاحیت کی ضرورت ہے، اربابِ حکومت کو موجودہ بے یقینی کی کیفیت کو ختم کرنے کے لئے اقدامات کرنا چاہئے۔

مطلقہ خبریں