Saturday, July 26, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

پاکستان کی بقا کا مشکل ترین دور۔۔

نصرت مرزا

سال 2006ء میں، میں حیدرآباد دکن انڈیا کے دورے پر گیا، وہاں کے پریس کلب میں صحافیوں سے خطاب میں کہا کہ پاکستان بحران سے گزر رہا ہے، تو وہاں موجود ایک صحافی نے مجھ سے وقفہ سوال میں پوچھا کہ اتنے برس گزر جانے کے باوجود پاکستان بحران کی زد میں ہے، تعجب کی بات نہیں؟ جواب میں میرا کہنا تھا کہ ہمارے مہربانوں کی تعداد زیادہ ہے، پاکستان ایک اعلان شدہ مسلم ملک ہے اور اس میں پورے برصغیر پاک و ہند کا ہی نہیں ساری مسلم دُنیا کا جوہر موجود ہے، ازبکستان سے آئے ہوئے مغل، افغانستان سے آئے ہوئے پٹھان، عربستان سے آئے ہوئے سید اور خود موجودہ بھارت اور عربستان کے شیخ وہاں موجود ہیں اور وہ کوئی عام لوگ نہیں بلکہ اپنے اندر ایک خاص جذبہ اور ولولہ رکھتے ہیں، جوہر یا ٹیلنٹ اتنا زیادہ ہے کہ ہم سے سنبھالے نہیں سنبھلتا۔ یہ بات کہہ کر سوال کا جواب دے دیا مگر اس کالم میں مجھے یہ بھی کہنا ہے اور پھر ہمارے یہاں کی جو اشرافیہ ہے وہ وڈیروں، چوہدریوں، ملکوں اور سرداروں پر مشتمل ہے، جن میں اکثر پاکستان کے ہی خلاف تھی اور جو خلاف نہیں تھے وہ اپنے مفادات کا تحفظ کرنے میں لگے رہتے ہیں، مال بنانے کی عادت اُن میں پڑ گئی ہے، ہم سرمایہ دارانہ نظام کے اُس حصہ کو ختم نہیں کرسکے جو مضر ہے اور پاکستان کے اُن لوگوں کو بھی ختم نہیں کرسکے جو پاکستان مخالف تو نہ رہے تھے البتہ اُن میں پاکستان کے قیام کے وقت بانیانِ پاکستان کے جذبات اور جو عزم تھا وہ اُن میں مفقود ہے، اِس کے بعد بار بار کی عسکری مداخلت نے اِن سیاستدانوں کو پاکستان کے قیام اور یہاں پر اپنے سرمایہ کو محفوظ ہونے کے تصور کو زک پہنچائی اور یہ کلیہ معرضِ وجود میں آیا کہ پاکستان صرف عسکری قوت کا ہے، سو یہاں سے مال بناؤ، لوٹ مار کرو اور امیروں کی طرح غیرممالک میں رہو۔ یہ نظریہ پھر عسکری لوگوں میں بھی عود کر آیا، سینکڑوں مثالیں موجود ہیں جو سرمایہ کے ساتھ غیرممالک میں بڑی بڑی جاگیریں خرید کر عیش و آرام کی زندگی گزار رہے ہیں، کسی نے امریکا اور یورپ میں ریسٹورنٹ کی شاخیں بنا ڈالی ہیں، زیادہ تر لوگ لندن کا رُخ کرتے ہیں کیونکہ یہاں سرمایہ محفوظ سمجھا جاتا ہے، لوٹ کے مال کو جتنا تحفظ لندن میں ملتا ہے وہ کسی اور ملک کی قسمت میں نہیں ہے، اب لوگ اٹلی اور دیگر ممالک کا رُخ بھی کررہے ہیں، نیا اسکینڈل آنے کے منتظر ہیں، بہت سے ایماندار افسر پاکستان میں ملازمت نہ ملنے پر غیرملک چلے گئے اور وہاں سے اپنی معاشی زندگی کو محنت کرکے بہتر بنانے میں لگے ہوئے ہیں یا بہتر بنا چکے ہیں۔ بہت سے صحافی بھی اِس کام پر لگ گئے جن کو موردِالزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا ہے کہ بہرحال وہ اپنی محنت سے روزی کما رہے ہیں۔ اس طرح پاکستان کا جوہر جو پاکستان کے کام آسکتا تھا اُس سے غیرممالک کو استفادہ حاصل ہورہا ہے اور جس دولت سے پاکستان کی معیشت سنبھل سکتی تھی وہ دوسرے ملکوں کی معیشت کو سنبھالا دے رہی ہے۔ اس طرح پاکستان کی افرادی دولت اور سرمایہ نے مسلسل رخت سفر باندھا ہوا ہے۔ یعنی اس افرادی دولت کی بے قدری اور سرمایہ کا غیرمحفوظ ہونے کی وجہ سے یہاں سے اڑ گیا اور پھر وہ لوگ جو یہاں سے سرمایہ لوٹ کر لے گئے، وہ باہر سے بیٹھ کر اپنے سرمایہ کی طاقت کے زور پر پاکستان میں سیاست کررہے ہیں، جس سے سیاسی و معاشی بحران پیدا ہوتا رہا ہے اور اب یہ شدید ہوگیا ہے۔
اوپر بیان کئے گئے حقائق نے غیرملکی اور خصوصاً امریکا کو پاکستان میں مداخلت کا موقع پاکستان کے وقت سے ہی مل گیا، جب خان لیاقت علی خاں کے پہلے دورۂ امریکا کے دران صیہونیوں کا ایک وفد پاکستان کے پہلے وزیراعظم سے ملا اور اُن سے کہا کہ ہمیں معلوم ہے کہ آپ معاشی مشکلات سے دوچار ہیں، ہم آپ کی مشکلات اپنے ذمہ لے لیں گے اگر پاکستان اسرائیل کو تسلیم کرلے، اس پر خان لیاقت علی خاں نے جو کہا اس کے راوی سابق امیر جماعت سید منور حسن صاحب ہیں، کہ ”اسرائیل کو تسلیم کرنا پاکستان کے نظریہ کے خلاف ہے“۔ اِس کے بعد اُن کو راولپنڈی میں شہید کردیا گیا اور ان کے سہولت کار وہ ٹوڈی حکمراں تھے جو انگریزوں کے غلام تھے اور اُن میں کچھ اور نام بھی آتے ہیں۔ اگر وہ نہ ہوتے تو اس پولیس افسر کے طیارہ کو نہ گرایا جاتا جو لیاقت علی خان کے قتل کی تحقیق کو مکمل کر چکا تھا، جو اس طیارے حادثے میں سارے ثبوت بھی جل کر راکھ ہوگئے مگر مجھے یقین ہے کہ کسی نہ کسی کے پاس اُن کی شہادت کے بارے میں کچھ ثبوت موجود ہوں گے۔
اس کے ساتھ ساتھ انگریزوں کی تربیت یافتہ انگریزی داں بیوروکریسی، مخلص اور محب وطن بانیانِ پاکستان رہنماؤں کو قبول نہ کرسکی۔ وہ انگریز کے اثر سے باہر نہ نکل سکی۔ اگرچہ قائداعظم محمد علی جناح نے اس بیوروکریسی کو اسٹیٹ بینک کراچی کی بلڈنگ بلا کر اُن سے عہد لیا تھا کہ وہ پاکستان کی تعمیر کریں گے اور انہوں نے کہا تھا کہ میری ٹوکری میں مرغی کے جو چوزے ہیں وہ اُن کو اس قابل نہیں سمجھتے کہ وہ ملک کو چلا سکیں۔ یہ بات مجھے حکیم احسن صاحب سابق میئر کراچی نے جو اس وقت قائداعظم کے ہمراہ اور وہ واحد سیاستدان تھے جو اس اجلاس میں شریک تھے۔ انہوں نے مجھے بحرین میں جہاں وہ سفیر تھے بتایا۔ یہ بات انہوں نے دوسرے سیاستدانوں کو بھی بتا دی جو ٹوڈیز تھے وہ پھر بیوروکریسی کے خلاف ہوگئے اور اُن کے خلاف مہم جو کرکے انہیں بے بس کردیا۔ سوال یہ ہے کہ قائداعظم نے بیوروکریسی سے ایسا کچھ کیوں کہا۔ اس کی دو وجوہات سمجھ آتی ہیں ایک تو یہ کہ وہ پڑھے لکھے تھے اور انہوں نے خود پاکستان کی خدمت کا بیڑا اپنی مرضی سے اٹھایا تھا اگرچہ اُن میں سے کچھ ایسے ضرور ہوں گے جو اپنی ترقی کے خواہاں رہے ہوں گے کیونکہ بھارت جیسے بڑے ملک میں وہ ترقی کے احکامات محدود پاتے، اس کے تو وہ موقع پرست یا مفاد پرست یا ترقی کے لالچ میں پاکستان آئے تھے مگر زیادہ تر اچھے بیوروکریٹس تھے، دوسری وجہ یہ ہے کہ انگریز نے جب جانے کا فیصلہ کیا تو جو انگریزوں کے خدمت گزار پنجاب میں موجود سیاستداں تھے انہوں نے انگریزوں کے سامنے واویلا کیا کہ ہمارا کیا بنے گا تو انگریز نے ان سے کہا کہ وہ مسلم لیگ میں شامل ہوجائیں۔ چنانچہ انہوں نے دو طرح سے تباہی مچائی۔ لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد وہ مشرقی پاکستان کو علیحدہ کرنے کی سوچ میں لگ گئے اور بیوروکریسی کو کونے سے لگانے کا بیڑا اٹھایا۔ واضح رہے کہ بیوروکریسی میں اس وقت زیادہ تر لوگ غیرپنجابی تھے سوائے ایک سیکریٹری کے۔ انہوں نے سازش کرکے اچھے بیوروکریٹس کو ایک ایک کرکے نکالا۔ جنرل ایوب خان کے زمانے میں پانچ ہزار بیوروکریٹس نے استعفے دیئے اور 303 کو یحییٰ خان نے نکالا۔ یوں پاکستان سے جڑے مضبوط بیوروکریسی کے چھٹکارا حاصل کرلیا گیا۔ اگرچہ ایوب خان کے زمانے میں امریکی اخبارات لکھتے ہیں کہ وہ پاکستان کے شاہین ہیں اور جنہیں اس وقت تک خریدا نہیں جاسکا سوائے ایک کے جو وزیرخزانہ کے عہدہ پر فائز تھے۔ ایوب خان کے دور میں بہت صنعتی ترقی ہوئی پاکستان کا پہلا پنج سالہ منصوبہ بنا، جس کو پھر جنوبی کوریا، ملائیشیا، تھائی لینڈ لے کر گئے اور ترقی کر گئے۔ پاکستان میں اِس دور میں ایک اور کام ہوا کہ فضاء میں ہم نے دو راکٹ رہبر I اور رہبر II بھیجے۔ تو اس وقت کے امریکی سفیر نے لکھا کہ پاکستان آئندہ بیس سالوں میں ایک طاقتور ملک بن جائے گا۔ اس وقت امریکی صدر نے اس نوٹ پر لکھا کہ فکس اٹ، کتاب (نیور ایگزیٹ فروم پاکستان ڈینیئل مرکیی) چنانچہ ہمارا زوال شروع ہوگیا۔ 65 کی جنگ نے ایوب خان کو نکالا جانا اور مشرقی پاکستان کی علیحدگی اس پر جا کر منتج ہوئی۔ قائداعظم اکیڈمی کے سابق ڈائریکٹر خواجہ رضی حیدر اس بات کے راوی ہیں کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے وقت مغربی پاکستان کی اشرافیہ میں کسی اضطراب کا پتہ نہیں چلتا، البتہ پاکستانی عوام غم سے چور چور تھی اور غصہ انتہا کو چھو رہا تھا۔
پھر یوں ہوا کہ من اللہ پاکستان ایٹمی ملک بن گیا، جس کے بعد ہم امریکا اور مغرب کے زد میں آگئے، امریکا ہمیں پریشان کرتا رہا۔ بے اطمینانی پھیلاتا رہا، مارشل لاء لگاتا رہا، مگر سب نے پاکستان کے لئے کچھ نہ کچھ کام کیا۔ اور اب یہ بحران عروج پر اس لئے پہنچ گیا ہے کہ ہم خودمختار ہونا چاہتے ہیں۔ اس کی پہلی اینٹ رکھ دی گئی، انشاء اللہ خودمختاری کی سوچ پیدا ہوگئی ہے اور کسی نہ کسی وقت یہ پایہئ تکمیل کو پہنچ جائے گی۔ اُمید ہے کہ ہمارے بیوروکریسی اور سیاستدانوں کو بھی پاکستان میں اپنا مستقبل محفوظ ہونے کا احساس جلدی ہوجائے گا تو بحران بھی ختم ہوجائے گا۔ تاہم ابھی بہت خطرات ہیں، جوبائیڈن منصوبہ کے تحت پاکستان کو نقصان پہنچانے کا عمل شروع ہوچکا ہے، دیکھتے ہیں کہ پاکستان کی قوم اس کا کیونکر مقابلہ کرتی ہے، بکھرتی ہے یا سنبھلتی ہے۔ مولانا رومی کے اس قول کے ساتھ ”یہ وقت بھی گزر جائے گا“ پاکستان کو نقصان پہنچائے بغیر۔

مطلقہ خبریں