فاروق بلوچ
پاکستان آرمی نے دنیا کی سخت اور بہادر ترین فوج ہونے کا اعزاز برقرار رکھتے ہوئے عالمی کیمبرین پیٹرول مشقوں میں ایک بار پھر سونے کا تمغہ اپنے نام کرلیا جبکہ بھارت کو چاندی کا تمغہ ملا۔ برطانیہ کے علاقے ویلز میں ہونے والی عالمی کیمبرین پیٹرول مشقوں میں پاک فوج نے امریکا، آسٹریلیا، برطانیہ، فرانس، روس، کینیڈا، جنوبی افریقہ، جرمنی اور بھارت سمیت کئی ممالک کو پیچھے چھوڑ کر گولڈ میڈل حاصل کیا۔ پاک آرمی کی 59 پنجاب رجمنٹ نے برطانیہ میں منعقدہ کیمبرین پیٹرول مشق 2017ء میں طلائی تمغہ جیت کر نہ صرف پہلی پوزیشن حاصل کی بلکہ پوری قوم کا سر بھی فخر سے بلند کردیا، اس مشق میں پاکستانی دستے کی قیادت کیپٹن عثمان کررہے تھے۔ واضح رہے کہ کیمبرین پیٹرول سخت ترین اور پیچیدہ سالانہ پیٹرولنگ مشق ہے، اس مشق میں قائدانہ صلاحیتوں، جسمانی چستی، نظم و ضبط، تکنیکی مہارت، جرأت مندی اور پیشہ وارانہ مہارتوں کے ساتھ سنگلاخ پہاڑی علاقوں میں کم سے کم وقت میں مشن کی تکمیل ضروری ہوتی ہے، اس سخت جان مشق میں پاک آرمی کی جیت اعلیٰ پیشہ وارانہ مہارتوں کا ثبوت ہے۔ پاک آرمی نے گزشتہ سال بھی 140 ممالک کو شکست دے کر پہلی پوزیشن حاصل کی اور اب چوتھی مرتبہ یہ اعزاز حاصل کیا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد سے پاک فوج نے بھارت سے کئی جنگیں لڑی ہیں، اس کے علاوہ متعدد سرحدی جھڑپوں میں دفاع وطن کا فریضہ انجام دیتے ہوئے دشمنوں کو ناکوں چنے چبوائے ہیں، ان کے علاوہ پاک فوج نے عرب اسرائیل جنگ، عراق کویت جنگ اور خلیج کی جنگ میں حلیف عرب ممالک کی فوجی امداد کے لئے بھی نمایاں خدمات انجام دیں۔ پاک فوج نے دہشت گردوں کا قلعہ قمع کرنے کے لئے کئی آپریشن کئے جن میں آپریشن بلیک تھنڈر اسٹارم، آپریشن راہ راست، آپریشن راہ نجات اور آپریشن ضرب عضب اور اس وقت ملک بھر میں جاری آپریشن ردالفساد شامل ہیں۔ پاک فوج نے ہر مشکل وقت میں اپنی عوام کا ساتھ دیا۔ فوجی جوانوں نے زلزلہ زدگان، سیلاب زدگان اور دیگر ملکی اور غیرملکی حادثات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا جبکہ تربیتی و مقابلہ جاتی مشقوں میں بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے، اس سلسلے میں گزشتہ ماہ برطانیہ میں دنیا بھر سے 140 ممالک کی فوجوں کی مشقیں ہوئیں، ہر ملک کی فوج نے تن من سے ان مشقوں میں حصہ لیا، ان مشقوں میں پاک فوج نے بھی شرکت کرکے اپنی اس کارکردگی جس کا لوہا دنیا بھر میں پہلے بھی منوایا ہوا تھا اب چوتھی بار کیمبرین پیٹرول مشقیں جیت کر چیمپئن کا اعزاز حاصل کیا۔ ویلز کے علاقے میں ہونے والی عالمی کیمبرین پیٹرول مشقوں میں پاک فوج نے امریکا، آسٹریلیا، برطانیہ، فرانس، روس، کینیڈا، جنوبی افریقہ، جرمنی اور بھارت سمیت کئی ممالک کو شکست دی۔ پاک فوج نے دنیا میں سب سے زیادہ سخت جان، جفاکش اور محنتی ہونے کا اعزاز برقرار رکھتے ہوئے عالمی کیمبرین پیٹرول مشقوں میں ایک بار پھر سونے کا تمغہ جیتا، ان مشقوں میں فوجیوں کا مضبوط دل گردہ چیک کرنے کے لئے مشکل ترین ٹریک بچھایا گیا۔ ٹھنڈا پانی، صحرا، پہاڑ، جنگل، دشمنوں سے مقابلہ، دفاعی فائرنگ اور بہت سے خطرناک راستے اس امتحان کا حصہ بنے مگر پاکستانی فوجیوں نے یہاں مضبوط ٹیموں کو شکست دے کر سونے کا تمغہ جیت لیا۔ پاک فوج نے اس سے قبل بھی تین مرتبہ متعدد ممالک کی افواج کو پیچھے چھوڑ کر گولڈ میڈل اپنے نام کیا تھا۔ کیمبرین پیٹرول مشقیں دنیا کی مشکل ترین فوجی مشقیں سمجھی جاتی ہیں، اس مشکل ترین ایکسرسائز میں دنیا نے پاکستان فوج کو ’’اول نمبر‘‘ کی فوج قرار دیا گیا۔ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کیمبرین پیٹرول مشقوں میں سونے کا تمغہ جیتنے والی پاکستان آرمی کی ٹیم کی شاندار کارکردگی کو سراہا ہے۔
کیمبرین پیٹرول مشقوں کا نام سنتے ہی ویلز کا یخ بستہ موسم، سنگلاخ پہاڑ اور دنیا کے سخت جان فوجی ایک دوسرے سے مقابلہ کرتے ہوئے ذہن میں آنے لگتے ہیں، انہی فوجیوں میں پاکستانی فوج کے جوان بھی شامل ہوئے جو ملک کے اندر تو دہشت گردی کے عفریت سے نبردآزما ہیں ہی اس کے ساتھ ساتھ ملک سے باہر بھی بین الاقوامی سطح پر دنیا کی بڑی فوجوں کے ساتھ مقابلے میں اپنی ہمت اور دلیری کا سکہ بھی بٹھا رہے ہیں۔ چوتھی بار ایکسرسائز کیمبرین پیٹرول مشقوں میں گولڈ میڈل حاصل کرنے والے پاکستانی فوجی عام فوجی تو نہیں ہوسکتے کیونکہ اس ایکسرسائز میں ایک ہزار سے زائد برطانیہ کے فوجی جبکہ دیگر 140 بین الاقوامی فوجی ٹیمیں بھی حصہ لیتی ہیں۔ برطانوی فوج کی 160 بریگیڈ ہر سال اس مقابلے کو منعقد کراتی ہے۔ ایکسرسائز کیمبرین پیٹرول کا ایونٹ اپنے انداز کا ایک منفرد اور دنیا کا سب سے بڑا فوجی ایونٹ ہے۔ یہ ایک پیٹرول مشق ہے جس کا دورانیہ 48 گھنٹے ہوتا ہے اس میں تقریباً 50 میل تک کا فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے جس میں حصہ لینے والوں کی صلاحیت کے ساتھ ساتھ جسمانی برداشت کو بھی جانچا جاتا ہے، اس کا آغاز برطانوی فوج نے 1960ء میں کیا اور ابھی تک یہ سلسلہ جاری ہے۔ پاکستان نے 2005ء سے اس میں حصہ لینا شروع کیا اور اب تک گیارہ بار اس میں حصہ لے چکا ہے۔ پاک فوج کی 59 پنجاب رجمنٹ نے کیمبرین پیٹرول میں دوسری بار حصہ لیا اور دونوں بار گولڈ میڈل حاصل کیا، اس کے لئے ٹیم کے انتخاب کا معیار یہ ہے کہ پہلے پاکستان میں مختلف ٹیموں کے مابین لوکل سطح پر مقابلے منعقد کرائے جاتے ہیں جنہیں پاس کرنے کے بعد آرمی کی سطح پر ایک مقابلہ رکھا جاتا ہے جو ٹیم اس مقابلے میں جیتتی ہے وہ کیمبرین پیٹرول میں حصہ لیتی ہے۔ انگلینڈ جانے سے پہلے اس ٹیم کی ٹریننگ ایسے علاقوں میں کی جاتی ہے جو ویلز کے علاقے سے ملتے جلتے ہوں تاکہ وہاں جا کر ٹیم موسم کی سختی کو برداشت کرسکے۔ ایکسرسائز کیمبرین پیٹرول میں 59 پنجاب رجمنٹ کی گیارہ رکنی ٹیم نے حصہ لیا جن میں میجر جواد جمیل، کیپٹن محمد عثمان افضل، لیفٹیننٹ عبدالرحیم، حوالدار بابر عدیل، حوالدار غلام مصطفی، نائیک محمد آصف، لانس نائیک قیصر عباس، لانس نائیک ناصر علی، لانس نائیک محمد اشفاق، سپاہی وقاص احمد اور سپاہی محمد نذیر شامل تھے، اس ٹیم کی ٹریننگ جونیئر لیڈرز اکیڈمی شنکیاری میں کی گئی۔ میجر جواد جوکہ اس ٹیم کے انتظامی انچارج تھے، انہوں نے بتایا کہ ہم مقابلہ شروع ہونے سے تقریباً 10 سے 15 دن پہلے وہاں چلے جاتے ہیں، اس سے یہ ہوتا ہے کہ ہم ویلز کے موسم کے عادی ہوجاتے ہیں پھر مشترکہ ٹریننگ شروع ہوجاتی ہے۔ کچھ ایسے ہتھیار استعمال کرنا ہوتے ہیں جو ہمارے لئے نئے ہوتے ہیں کیونکہ مقابلے میں ان کے ہتھیار ہمیں استعمال کرنا ہوتے ہیں۔ کچھ ٹریننگ بھی ہمیں ان کے ساتھ کرنی ہوتی ہے، جب بھی کوئی ٹیم جاتی ہے تو اس کی میزبانی کوئی برطانوی رجمنٹ کرتی ہے، پاکستانی ٹیم کی میزبانی پچھلے تین برسوں سے 32 انجینئرز کررہی ہے۔ پاکستانی ٹیم کے کپتان کیپٹن محمد عثمان افضل نے ان مشقوں اور حالیہ کامیابی کے حوالے سے بتایا کہ ان کے لئے ویلز میں سب سے بڑا چیلنج وہاں کا شدید سرد موسم تھا، اس لئے وہاں کچھ بھی آسان نہیں تھا۔ کچھ اہداف ایسے تھے کہ جن تک پہنچنے کے لئے پانی سے بھی گزرنا پڑتا تھا بلکہ وہاں جگہ جگہ پانی تھا۔ راستوں میں پانی اتنا تھا کہ پاؤں پورے کا پورا اندر دھنس جاتا اور چار یا پانچ کلومیٹر چلنے کے بعد جرابیں تبدیل کرنی پڑتی تھیں۔ وہاں اچانک بارش شروع ہوجاتی یا اچانک دھوپ نکل آتی۔ موسم کا کچھ پتہ نہیں چلتا تھا۔ کیپٹن عثمان کا کہنا تھا کہ شاید ہی کوئی ایسا ملک ہو جس نے مسلسل تین بار میں گولڈ میڈل جیتا ہو، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان آرمی کتنی پروفیشنل ہے۔ بہترین نتائج حاصل کرنے کے لئے ایک ماڈل بنایا جاتا ہے، اس ماڈل کو دیکھ کر ہی ٹیم کیپٹن اپنے ساتھیوں کو احکامات دیتا ہے، ہمارا اس بار بنایا گیا ماڈل بھی بہت پسند کیا گیا اور اسے بیسٹ ماڈل کہا گیا۔ کیپٹن عثمان نے بتایا کہ ہر ٹیم میں 8 افراد حصہ لیتے ہیں جبکہ 2 افراد ایسے ہوتے ہیں جو ایمرجنسی کی صورت میں ٹیم میں شامل کئے جاتے ہیں، کچھ ٹیمیں دس بارہ گھنٹوں میں ہی آؤٹ ہوجاتی ہیں جبکہ بہت سے لوگ زخمی ہوجاتے ہیں، اگر ایک ٹیم میں دو سے زیادہ لوگ زخمی ہوجائیں تو وہ ٹیم مقابلے سے نکل جاتی ہے، ان مشقوں میں ہر سال نئی چیزیں شامل کی جاتی ہیں، اس کے لئے ہم ایک بورڈ میٹنگ کرتے ہیں جس میں ہم زیادہ سے زیادہ چیزیں سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مشقبل میں نئی ٹیم کے گولڈ میڈل لینے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے میجر جواد نے کہا کہ ان مشقوں میں جانے والی ٹیم کو چاہئے کہ وہ اپنی ٹریننگ کو بہت اچھی طرح پورا کریں اور جونیئر لیڈرز اکیڈمی جوکہ اس ٹریننگ کی ذمہ دار ہے کو چاہئے کہ زیادہ سے زیادہ تجربہ کار اور کوالیفائیڈ اسٹاف کے ساتھ ساتھ پہلے سے جیتی ہوئی ٹیموں کو بھی اس ٹریننگ کا حصہ بنائیں۔ ہمیں زیادہ سے زیادہ وسائل کو بروئے کار لانا چاہئے کیونکہ اس میں صرف جسمانی فٹنس ہی نہیں بلکہ ذہنی تندرستی اور استعداد بھی دکھانی ہوتی ہے۔ کیپٹن عثمان کا اس سلسلے میں کہنا تھا کہ ہماری اکیڈمی کا ٹریننگ لیول بہت اچھا ہے، اسے ایسے ہی کام کرنا چاہئے اور ساتھ ساتھ تجربہ کار لوگوں کو بھی لازمی شامل کرنا چاہئے جبکہ ٹیم کو بھی چاہئے کہ پوری ایمانداری کے ساتھ ٹریننگ حاصل کرے اور ملک و قوم کے لئے فخر کا باعث بنیں۔ سپاہی وقاص احمد کا کہنا تھا کہ ہمارے لئے یہ بہت ہی فخر کی بات تھی کہ ہماری یونٹ دوسری بار اس مقابلے کے لئے جا رہی تھی اور جب ہم نے دوسری بار بھی گولڈ میڈل حاصل کرلیا تو یہ فخر دوگنا بڑھ گیا کہ یہ نہ صرف ہماری یونٹ بلکہ ہمارے ملک کے لئے بھی اعزاز تھا۔ نائیک محمد آصف نے کہا کہ ہمارے لئے یہ بات اس لئے بھی قابل فخر ہے کہ ہم نے نہ صرف اس سال گولڈ میڈل حاصل کیا بلکہ پچھلے سال کے گولڈ میڈل کا دفاع بھی کیا اور اس کے لئے ہم اللہ تعالیٰ کے جتنے بھی شکر گزار ہوں کم ہے۔ حوالدار بابر عدیل نے کہا کہ 2005ء سے ہم ان مشقوں میں حصہ لے رہے ہیں، اب تک پاک فوج کے جوان چار مرتبہ گولڈ میڈل حاصل کر چکے ہیں جو ہمارے لئے فخر کی بات ہے، اس میں ہماری محنت کے ساتھ ساتھ قوم کی دعاؤں کا حصہ بھی ہے، خاص طور پر انگلینڈ میں مقیم پاکستانیوں نے ہمارے لئے بہت دعائیں کیں۔