سید زین العابدین
پاکستان کے شمالی علاقہ جات قدرتی حسن سے مالامال ہیں، ناران، کاغان، سوات، ایبٹ آباد، شوگران کی وادیاں قدرتی خوبصورتی میں اپنی مثال آپ ہیں تو فیری میڈور، راما، میچھر، گاہکوچ، نلتر کا بھی کوئی ثانی نہیں، اگر دیوسائی کا ذکر کریں تو قدرت کے نظارے اور حسن کے مختلف رنگ اس ایک خطے میں نظر آتے ہیں، دیوسائی کے قدرتی نظارے کا پورے گلگت بلتستان تو کیا پوری دُنیا میں کوئی ثانی نہیں ہوگا۔ دیوسائی اتنی بلندی پر بڑا میدانی علاقہ ہے کہ اسے دُنیا کی چھت بھی کہا جاتا ہے۔ ان وادیوں میں جا کر احساس ہوتا ہے کہ پاکستان کی وسعت میں کتنے خوبصورت خطے موجود ہیں۔ خلتی جھیل بھنڈر جھیل، عطا آباد جھیل، بڑا پانی، کالا پانی اور دیگر جھیلوں کی خوبصورتی الفاظ میں بیان نہیں کی جاسکتی۔ بلکہ انہیں آنکھوں سے دیکھ کر اور اُن کے طلسماتی سحر میں مبتلا ہو کر محظوظ ہوا جاسکتا ہے۔ ان مضامین میں ٹھنڈیانی، سری پائے اور گلگت بلتستان کی خوبصورت وادیوں کا ذکر تفصیل سے پیش کیا جائے گا۔ گلگت بلتستان کی مہمان نوازی کا ابھی تذکرہ ہوگا لیکن اس وقت بات ہوگی، سی پیک کے نقطہ آغاز کی جغرافیائی اہمیت کی گلگت بلتستان کا رقبہ 72000 اسکوائر کلومیٹر ہے۔ حالیہ مردم شماری کے مطابق آبادی 14 لاکھ 92 ہزار ہے، کچھ گاؤں میں عملہ موسم کی سختی کے باعث نہ پہنچ سکا، انہیں بھی شامل کرلیا جائے تو اندازاً 15 لاکھ کی آبادی بنتی ہے، 15 لاکھ لوگوں کے لئے سوست کا ایک ڈرائی پورٹ ہے جو 15 سال قبل قائم ہوا تھا اور گلگت بلتستان کی تجارت اسی پر انحصار کرتی ہے، سوست سے جڑا ہوا خنجراب پاس ہے جو چین کے صوبے سنکیانگ سے ملتا ہے۔ جس کا رقبہ 1664900 اسکوائر کلومیٹر ہے، یعنی پاکستان کے کُل رقبہ سے تقریباً دوگنا ہے، اس کا دارالحکومت ارمچی شہر ہے، لہٰذا گلگت بلتستان کے تاجر ویزا لینے کی تکلیف دہ صورتِ حال سے بچ کر پرمٹ پاس کے ذریعے آتے جاتے ہیں، اپنا سامان لے جاتے ہیں اور چائنا سے تجارتی سامان لے آتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ سامان لانے میں دقت نہیں ہوتی لیکن چائنیز کو پاکستانی مال فروخت کرنے میں بڑی دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے یا پھر ایک سے دو مرتبہ جو سامان پاکستان سے لے جاتے ہیں تیسری مرتبہ لے جاتے ہیں تو چین والے مقامی طور پر تیار کر چکے ہوتے ہیں۔ ڈرائی فروٹس بڑی مقدار میں چائنا جایا کرتا تھا لیکن چائنیز نے بادام، اخروٹ، پستہ، انجیر اور اسی طرح پھلوں کی بھی پیداوار شروع کردی ہے۔ نتیجتاً پاکستانی تاجر برابری کی بنیاد پر تجارت نہیں کررہا بلکہ تجارتی توازن چین کے حق میں ہے، یقیناً ہمارے تاجروں کے لئے یہ پریشانی کا باعث ہے لیکن انہیں بھی جدید تحقیق اور تقاضوں کے مطابق پیداوار میں ورائٹی لانا ہوگی۔ قراقرم ہائی وے (ے کے ایچ) 1986ء میں تعمیر ہوئی، 1300 کلومیٹر کی یہ شاہراہ چین کے شہر کاشغر سے خنجراب، ہنزہ، نگر، گلگت، چلاس، داسو، بشام، مانسہرہ، ایبٹ آباد، ہری پور ہزارہ ہوتی ہوئی حسن ابدال کے مقام پر جی ٹی روڈ سے جا ملتی ہے۔ اسے شاہراہ ریشم بھی کہا جاتا ہے، اب تو یہ سی پیک یعنی چین پاکستان اکنامک کوریڈور کہلاتا ہے۔ 2030ء میں سی پیک مکمل ہوگا۔
گلگت بلتستان کی اہمیت بڑھ رہی ہے، حکومت پاکستان کو یہاں کے عوام کے لئے ذرائع ابلاغ کی سہولیات کو بہتر کرنا ہوگا، کمیونیکیشن کا نظام ابھی تک پرانی ڈگر پر ہے، انٹرنیٹ، واٹس اپ اور موبائل سروس نہایت ہی خراب ہے، 4جی نیٹ ورک کی نیلانی گزشتہ دنوں ہوئی ہے، عملی اقدام ہونے تک مشکلات برداشت کرنا ہوگی، سڑکوں کا حال بہت خراب ہے، خوبصورت وادیوں میں جانے کے لئے دشوار گزار خطرناک راستے ہیں، گلگت کی خوبصورت وادی نلتر جانے کے لئے 17 کلومیٹر کا فاصلہ 2 سے ڈھائی گھنٹوں میں طے ہوتا ہے، اسکردو روڈ کا حال تو بہت ہی بُرا ہے، موجودہ وزیراعلیٰ کام شروع ہونے کے دعوے تو کررہے ہیں لیکن کام ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا۔ گلگت بلتستان کے پہاڑ خشک ہیں لیکن اس میں معدنیاتی ذخائر بہت ہیں، مقامی تاجر قیمتی دھات اور پتھر نکالتے ہیں لیکن تربیت اور جدید ٹیکنالوجی نہ ہونے سے 80 سے 90 فیصد ذخائر برباد ہوجاتے ہیں، جنگلات کا رقبہ خیبرپختونخوا کے پہاڑوں کی مناسبت سے کم ہے، کُل رقبے کا 9.1 فیصد جنگلات پر مشتمل ہے، جس میں فاریسٹ ڈیپارٹمنٹ کے لگائے گئے، جنگلات کے ساتھ مقامی لوگوں کی زمین پر اگنے والے جنگلات بھی شامل ہیں۔ جنگلات سے حاصل ہونے والی لکڑیوں میں دیار، بیار، کائل، چلغوزہ، اخروٹ اور جنگلی بادام کی لکڑی خاص قیمتی ہوتی ہے۔ چلاس اور دیامر کے اضلاع میں لکڑیوں کی پیداوار زیادہ ہے، دیار کا سرکاری ریٹ 600 روپے، کائل کا 197 روپے اسکوائر فٹ ہے۔ فاریسٹ ڈیپارٹمنٹ جی بی کو دو حصوں سدرن اور نادرن میں تقسیم کرتا ہے۔ سدرن میں سورج کی روشنی براہ راست وادیوں پر پڑتی ہے جہاں کائل کے جنگلات ہیں، نادرن میں بادل چھایا رہتا ہے، وہاں دیار کی پیداوار زیادہ ہے۔ اگر حکومت جنگلات پر ہی بھرپور توجہ دے تو خاصا زرمبادلہ حاصل ہوسکتا ہے۔ فاریسٹ ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے ہر ضلع میں 4 سے 6 نرسریاں قائم ہیں جو جنگلات کے بڑھانے میں مددگار ہیں۔
گلگت بلتستان کے برف پوش پہاڑوں سے جو پانی آتا ہے ناروے کی ایجنسی کی تحقیق کے مطابق اس سے 50 ہزار میگاواٹ بجلی باآسانی پیدا کی جاسکتی ہے لیکن اس پر توجہ دی جائے تب یہ کام ہوسکے گا۔ سیاحت کی بات کی جائے تو 2015ء سے اس میں اضافہ ہوا ہے، چلاس اور نانگاپربت بیس کیمپ کے سانحے سے سیاحت کو شدید نقصان پہنچا تھا۔ 2016ء میں تقریباً 10 لاکھ سیاحوں نے گلگت بلتستان کے سبزہ زاروں، گلیشیئرز اور جھیلوں کا رُخ کیا، سیاحوں کے لئے مناسب ہوٹل اور ذرائع آمدورفت کی فراہمی بنیادی کام ہے، حکومت نے ب کیٹیگری کے ہوٹل کا کرایہ فی کمرا 3000 روپے مقرر کرکے اچھا اقدام کیا ہے، اب مختلف اضلاع کی خوبصورت وادیوں میں جانے والے راستوں کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے، بلندیوں پر واقع خوبصورت جھیلوں اور چشموں تک پہنچنے کے لئے مخصوص جیپ استعمال کی جاتی ہے، اگر سیاح راولپنڈی یا کسی دوسرے شہر سے ذاتی گاڑی پر آتے ہیں یا ہائس کو بوُکڈ کرتے ہیں تو انہیں اپنی گاڑیوں کو چھوڑ کر کرائے پر جیپ لینی پڑتی ہے۔ سڑکیں بن جائیں تو اس دشواری سے بچا جاسکتا ہے۔ گزشتہ سال سیاحوں کی بڑی تعداد آنے کی وجہ سے مقامی افراد کو مالی فائدہ حاصل ہوا، مختلف وادیوں میں لوگوں نے اپنے گھروں کا ایک حصہ سیاحوں کے لئے مخصوص کرنا شروع کردیا ہے۔ یعنی خود روزگار اسکیم شروع کردی ہے جو اچھی کاوش ہے، خوبصورت اور سرد مقامات پر اگر مناسب رہائش، گرم پانی کے ساتھ دستیاب ہو تو ایک نعمت ہوتی ہے۔
گلگت بلتستان کے لوگ مہمان نواز ہونے کے ساتھ سخی بھی ہیں، دور سے آنے والے مہمانوں کو بڑی حد تک رعایت بھی دیتے ہیں۔ اُمید ہے کہ 2018ء کا سیزن سیاحت کے حوالے سے بھرپور ہوگا، پاکستان کے دوردراز علاقوں سے جانے والے سیاح محدود بجٹ میں بھرپور انداز سے لطف اندوز ہوں گے۔ گلگت بلتستان کی سیاحت کے فروغ میں سچ ٹی وی کا بھی اہم کردار ہے، ٹریول شو ہمارا پاکستان 2013ء میں نشر ہوا تھا، جس کے بعد سیاحت بڑھی ہے، اب اس کا دوسرا حصہ نشر ہوگا تو سیاحوں کو کئی خوبصورت وادیوں کے بارے میں جاننے کا موقع ملے گا۔ اسکردو کے شنگریلا ریزورٹ، سوخت نالہ، کچورالیک، شگر میں سیاچن کا بیس کیمپ، نگر میں ہسپر کی وادی، نانگا پربت کا دیو پوائنٹ دیوسائی کا تقریباً 45 کلومیٹر کا مبہوت کر دینے والا سفر سیاحوں کا منتظر ہے۔
گلگت بلتستان کی اہمیت بڑھ رہی ہے، حکومت پاکستان کو یہاں کے عوام کے لئے ذرائع ابلاغ کی سہولیات کو بہتر کرنا ہوگا، کمیونیکیشن کا نظام ابھی تک پرانی ڈگر پر ہے، انٹرنیٹ، واٹس اپ اور موبائل سروس نہایت ہی خراب ہے، 4جی نیٹ ورک کی نیلانی گزشتہ دنوں ہوئی ہے، عملی اقدام ہونے تک مشکلات برداشت کرنا ہوگی، سڑکوں کا حال بہت خراب ہے، خوبصورت وادیوں میں جانے کے لئے دشوار گزار خطرناک راستے ہیں، گلگت کی خوبصورت وادی نلتر جانے کے لئے 17 کلومیٹر کا فاصلہ 2 سے ڈھائی گھنٹوں میں طے ہوتا ہے، اسکردو روڈ کا حال تو بہت ہی بُرا ہے، موجودہ وزیراعلیٰ کام شروع ہونے کے دعوے تو کررہے ہیں لیکن کام ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا۔ گلگت بلتستان کے پہاڑ خشک ہیں لیکن اس میں معدنیاتی ذخائر بہت ہیں، مقامی تاجر قیمتی دھات اور پتھر نکالتے ہیں لیکن تربیت اور جدید ٹیکنالوجی نہ ہونے سے 80 سے 90 فیصد ذخائر برباد ہوجاتے ہیں، جنگلات کا رقبہ خیبرپختونخوا کے پہاڑوں کی مناسبت سے کم ہے، کُل رقبے کا 9.1 فیصد جنگلات پر مشتمل ہے، جس میں فاریسٹ ڈیپارٹمنٹ کے لگائے گئے، جنگلات کے ساتھ مقامی لوگوں کی زمین پر اگنے والے جنگلات بھی شامل ہیں۔ جنگلات سے حاصل ہونے والی لکڑیوں میں دیار، بیار، کائل، چلغوزہ، اخروٹ اور جنگلی بادام کی لکڑی خاص قیمتی ہوتی ہے۔ چلاس اور دیامر کے اضلاع میں لکڑیوں کی پیداوار زیادہ ہے، دیار کا سرکاری ریٹ 600 روپے، کائل کا 197 روپے اسکوائر فٹ ہے۔ فاریسٹ ڈیپارٹمنٹ جی بی کو دو حصوں سدرن اور نادرن میں تقسیم کرتا ہے۔ سدرن میں سورج کی روشنی براہ راست وادیوں پر پڑتی ہے جہاں کائل کے جنگلات ہیں، نادرن میں بادل چھایا رہتا ہے، وہاں دیار کی پیداوار زیادہ ہے۔ اگر حکومت جنگلات پر ہی بھرپور توجہ دے تو خاصا زرمبادلہ حاصل ہوسکتا ہے۔ فاریسٹ ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے ہر ضلع میں 4 سے 6 نرسریاں قائم ہیں جو جنگلات کے بڑھانے میں مددگار ہیں۔
گلگت بلتستان کے برف پوش پہاڑوں سے جو پانی آتا ہے ناروے کی ایجنسی کی تحقیق کے مطابق اس سے 50 ہزار میگاواٹ بجلی باآسانی پیدا کی جاسکتی ہے لیکن اس پر توجہ دی جائے تب یہ کام ہوسکے گا۔ سیاحت کی بات کی جائے تو 2015ء سے اس میں اضافہ ہوا ہے، چلاس اور نانگاپربت بیس کیمپ کے سانحے سے سیاحت کو شدید نقصان پہنچا تھا۔ 2016ء میں تقریباً 10 لاکھ سیاحوں نے گلگت بلتستان کے سبزہ زاروں، گلیشیئرز اور جھیلوں کا رُخ کیا، سیاحوں کے لئے مناسب ہوٹل اور ذرائع آمدورفت کی فراہمی بنیادی کام ہے، حکومت نے ب کیٹیگری کے ہوٹل کا کرایہ فی کمرا 3000 روپے مقرر کرکے اچھا اقدام کیا ہے، اب مختلف اضلاع کی خوبصورت وادیوں میں جانے والے راستوں کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے، بلندیوں پر واقع خوبصورت جھیلوں اور چشموں تک پہنچنے کے لئے مخصوص جیپ استعمال کی جاتی ہے، اگر سیاح راولپنڈی یا کسی دوسرے شہر سے ذاتی گاڑی پر آتے ہیں یا ہائس کو بوُکڈ کرتے ہیں تو انہیں اپنی گاڑیوں کو چھوڑ کر کرائے پر جیپ لینی پڑتی ہے۔ سڑکیں بن جائیں تو اس دشواری سے بچا جاسکتا ہے۔ گزشتہ سال سیاحوں کی بڑی تعداد آنے کی وجہ سے مقامی افراد کو مالی فائدہ حاصل ہوا، مختلف وادیوں میں لوگوں نے اپنے گھروں کا ایک حصہ سیاحوں کے لئے مخصوص کرنا شروع کردیا ہے۔ یعنی خود روزگار اسکیم شروع کردی ہے جو اچھی کاوش ہے، خوبصورت اور سرد مقامات پر اگر مناسب رہائش، گرم پانی کے ساتھ دستیاب ہو تو ایک نعمت ہوتی ہے۔
گلگت بلتستان کے لوگ مہمان نواز ہونے کے ساتھ سخی بھی ہیں، دور سے آنے والے مہمانوں کو بڑی حد تک رعایت بھی دیتے ہیں۔ اُمید ہے کہ 2018ء کا سیزن سیاحت کے حوالے سے بھرپور ہوگا، پاکستان کے دوردراز علاقوں سے جانے والے سیاح محدود بجٹ میں بھرپور انداز سے لطف اندوز ہوں گے۔ گلگت بلتستان کی سیاحت کے فروغ میں سچ ٹی وی کا بھی اہم کردار ہے، ٹریول شو ہمارا پاکستان 2013ء میں نشر ہوا تھا، جس کے بعد سیاحت بڑھی ہے، اب اس کا دوسرا حصہ نشر ہوگا تو سیاحوں کو کئی خوبصورت وادیوں کے بارے میں جاننے کا موقع ملے گا۔ اسکردو کے شنگریلا ریزورٹ، سوخت نالہ، کچورالیک، شگر میں سیاچن کا بیس کیمپ، نگر میں ہسپر کی وادی، نانگا پربت کا دیو پوائنٹ دیوسائی کا تقریباً 45 کلومیٹر کا مبہوت کر دینے والا سفر سیاحوں کا منتظر ہے۔