سات غیرملکیوں سمیت 35 اسپیکرز نے اپنے مقالے پیش کئے، کانفرنس کے 6 سیشنز میں ماہرین نے تجربات کا تبادلہ کیا، طلبا اور ویمن کے مابین نیوکلیئر اسٹڈیز پر مذاکرہ سودمند رہا، خواتین کو نیوکلیئر اسٹڈیز میں مزید مواقع دیئے جائیں گے
سچ ٹی وی کے پروگرام ”سچ بات“ میں پاکستان نیوکلیئر سوسائٹی کے صدر ڈاکٹر محمد طاہر خلیق، جنرل سیکریٹری ڈاکٹر محمد محسن اور کانفرنس سیکریٹری وقار احمد بٹ کی بین الاقوامی کانفرنس کے حوالے سے سینئر اینکرپرسن نصرت مرزا سے گفتگو
رپورٹ: سید زین العابدین
اسلام آباد میں پاکستان نیوکلیئر سوسائٹی کے زیراہتمام 24 سے 26 اکتوبر تک ہونے والی بین الاقوامی کانفرنس کی روداد کے حوالے سے پاکستان نیوکلیئر سوسائٹی کے صدر ڈاکٹر محمد طاہر خلیق، پاکستان نیوکلیئر سوسائٹی کے جنرل سیکریٹری ڈاکٹر محمد محسن اور پاکستان نیوکلیئر سوسائٹی کے کانفرنس سیکریٹری وقار احمد بٹ نے سچ ٹی وی کے پروگرام ”سچ بات“ میں سینئر اینکرپرسن نصرت مرزا سے گفتگو کی جو قارئین کے لئے پیش نظر ہے۔
نصرت مرزا: اس کانفرنس کی اہمیت و مقاصد کیا تھے، ملکوں کے ماہرین و سائنسدان شریک ہوئے، پاکستان سے کتنے سائنسدان موجود تھے؟
ڈاکٹر طاہر خلیق: کانفرنس کا مقصد یہ تھا کہ عام آدمی کو پُرامن نیوکلیئر ٹیکنالوجی کی اہمیت اور اس کے استعمال کی افادیت سے آگاہ کیا جائے، بین الاقوامی ماہرین کو بلانے کا مقصد بھی یہی تھا کہ ان کے تجربات و تحقیق کو اپنے ماہرین اور سائنسدانوں تک پہنچایا جائے، اس میں زراعت، ماحولیات، پانی کے حصول کے ذرائع، صحت اور توانائی پر دُنیا کے مختلف ملکوں میں ہونے والی جدید تحقیقات سے روشناس کروانا تھا کیونکہ ان تمام شعبوں کا ہمارے عام آدمی کی زندگی سے تعلق ہے، ملکی اور بین الاقوامی 35 اسپیکرز تھے جس میں 29 اسپیکرز نے تو معمول کی جو تحقیقات ہورہی ہیں اس سے متعلق اپنے مقالے پیش کئے جب کہ 6 انتہائی اہم سائنسدان تھے جو اپنے اپنے شعبوں میں اتھارٹی ہیں، بین الاقوامی اسپیکرز کی تعداد 7 تھی، تین کانفرنس میں شریک تھے، 2 کا تعلق اردن ایک ملائیشیا سے تھے جبکہ 4 ماہرین زوم لنک کے ذریعے شریک ہوئے جن میں تین آئی اے ای اے اور ایک مراکش کے ماہر تھے، غیرملکی ماہرین سے بہت سی جدید معلومات ملیں، اس کانفرنس میں پی اے ای سی، پی این آر اے، کامیسٹ، نسٹ، ہزارہ یونیورسٹی، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی، قائداعظم یونیورسٹی اور گورنمنٹ کالج لاہور کے طلباء شریک ہوئے، کانفرنس کے 6 سیشنز ہوئے، دو پیرلل یعنی ماہرین کے سامنے طلبا کا سیشن تھا، ویمن ان سول نیوکلیئر ٹاپک پر ہم نے طلباء کو عنوانات دیئے گھے کہ وہ اپنی تحقیق پر مبنی مقالہ پیش کریں، ویمن نے بھی بہت تحقیقی مواد پہیش کیا، اس پیٹرن کو ہم آگے بھی لے جائیں گے کیونکہ جو خواتین سول نیوکلیئر ٹیکنالوجی سے وابستہ ہیں، ان کو مزید مواقع فراہم کریں گے اور اس کانفرنس کے تجربے سے فائدہ اٹھائیں گے۔
نصرت مرزا: 35 اسپیکرز نے کن موضوعات پر مقالے پیش کئے؟
ڈاکٹر طاہر خلیق: کانفرنس کا ایک اہم عنوان تھا، سول نیوکلیئر ٹیکنالوجی کا زراعت اور مویشی بانی میں استعمال، اس کے علاوہ صحت، صنعت، پانی کے حصول کے ذرائع، ماحولیات، سیفٹی اینڈ سیکیورٹی، الیکٹریکل جنریشن، ان سب موضوعات پر جدید تحقیق پر مبنی مقالہ جات پیش کئے گئے۔
نصرت مرزا: کیا اس نوعیت کی کانفرنس کا کراچی اور لاہور میں بھی انعقاد کیا جائے گا؟
ڈاکٹر طاہر خلیق: پورے ملک کی جامعات میں کریں گے، این ای ڈی یونیورسٹی کراچی میں ہمارا ایک نمائندہ مقرر کردیا گیا ہے، اس کانفرنس میں دیگر شہروں کی جامعات کے طلبا زوم لنک کے ذریعے شریک بھی ہوئے۔
نصرت مرزا: کیا کانفرنس کے اہداف کے حصول سے متعلق آپ مطمئن ہیں؟
ڈاکٹر طاہر خلیق: اتنی بڑی تعداد میں جامعات کے طلبا کی شرکت ہی اس کی کامیابی اور ہمارے اہداف کے حصول کو ظاہر کرتی ہے، سول نیوکلیئر ٹیکنالوجی کے استعمال سے متعلق طلبا کو آگاہ کرنے میں کامیاب ہوئے، دوسرا ہمارے بہت سینئر سائنسدان اور نیوکلیئر ماہرین نے اپنے مقالے پیش کئے جو طلبا کے لئے بہت اہم تھے۔
نصرت مرزا: ڈاکٹر محسن صاحب اس کانفرنس کی اہمیت سے متعلق آپ کیا فرمائیں گے؟
ڈاکٹر محمد محسن: سب سے پہلا ہدف یہ ہے کہ عوام کو سول نیوکلیئر ٹیکنالوجی کے فوائد سے آگاہ کیا جائے کیونکہ عوام کو ایک منفی پروپیگنڈے کے ذریعے خوفزدہ کیا گیا ہے، لیکن ہم نے انہیں یہ پیغام دیا کہ یہ ایک ماحول دوست توانائی کے حصول کا ذریعہ ہے، ساتھ ہی زرعی اجناس کے بیج بھی بہتر کرنے کا سبب ہے، یہ ملک کی خوراک کی ضروریات کو پورا کرنے میں انتہائی مددگار ہے، دُنیا کے مختلف ممالک اپنی زراعت کو سول نیوکلیئر ٹیکنالوجی کے ذریعے بڑھا رہے ہیں، ہمارے ملک میں بھی اس پر کام ہورہا ہے، اس کے علاوہ کینسر کی تشخیص اور علاج سے متعلق دُنیا بھر میں بہت تحقیق ہورہ ہے اور ہمارے ملک میں بھی اس کے علاج کے لئے 19 اسپتال کام کررہے ہیں، اس کے علاوہ صنعت میں مینوفیکچرنگ کا شعبہ، منرلز کے شعبے اور سب سے بڑھ کر تعلیم میں بہت کام کررہے ہیں۔
نصرت مرزا: پینسٹک اور پیاس تو تعلیم کے شعبے کے حوالے سے بہت اہم ہیں؟
ڈاکٹر محمد محسن: پینسٹک بہت اہم کردار ادا کررہا ہے، اس کے ساتھ سول نیوکلیئر ٹیکنالوجی میں افرادی قوت کی فراہمی کے حوالے سے پیاس کی بڑی اہمیت ہے، آئی اے ای اے پیاس کو بطور کیمپس استعمال کررہا ہے، دُنیا کے مختلف ملکوں کے ماہرین کو یہاں تربیت کے لئے بھیجا جاتا ہے، اسکالر شپس پر آئے ہوئے طلبا یہاں زیرتعلیم ہیں، اس کانفرنس میں ویمن نیوکلیئر کا بھی موضوع تھا، مادام کیوری کے نام پر پیاس میں ایک اسکالر شپ کا شعبہ قائم ہے۔
نصرت مرزا: ڈاکٹر محمد محسن صاحب آپ کی اپنی مہارت کس شعبے میں ہے؟
ڈاکٹر محمد محسن: میری مہارت افرادی قوت اور اس کی تربیت سے متعلق ہے، پورے ملک میں موجود نیوکلیئر ماہرین سے رابطہ رکھنا اور ان کی مہارت کے مطابق مختلف شعبے میں ان کی تعیناتی ہے۔
نصرت مرزا: وقار صاحب یہ کانفرنس پاکستان کے لئے کتنی سودمند اور کامیاب رہی؟
وقار احمد بٹ: پہلے سیشن میں ہمارے پرویز بٹ جو پاکستان نیوکلیئر پروگرام کے بانیوں میں سے ہیں انہوں نے اس حوالے سے نیوکلیئر پروگرام کی پوری تاریخ بیان کی پھر ڈاکٹر انصر پرویز صاحب جنہیں الیکٹریکل جنریشن میں بڑی مہارت ہے انہوں نے شرکاء کو بریف کیا پھر میڈیسن میں ہمارے ڈاکٹر عرفان نے اپنا مقالہ پیش کیا، اس کے ساتھ احمد بٹ صاحب نے اپنے تجربات، مہارت اور نیوکلیئر ٹیکنالوجی کے بڑھتے ہوئے استعمال پر مقالہ پیش کیا، اس کانفرنس میں نوجوان سائنسدانوں، ماہرین کے علاوہ ہمارے نیوکلیئر اسٹڈیز کے طلبا نے حیرت انگیز ریسرچ پیش کی جو ہماری توقعات سے بڑھ کر تھی۔
نصرت مرزا: زراعت میں کیا کامیابی حاصل ہوئی ہے؟ گندم کی فی ایکڑ پیداوار بڑھانے کے لئے کیا کام ہوا ہے؟
وقار احمد بٹ: 120 اجناس کے بیج پر کام ہوچکا ہے، گندم کے بیج پر کام ہورہا ہے تاکہ ماحول کے مطابق پیداوار کو بڑھایا جاسکے، ہمارا ہدف یہ ہے کہ ایسی اجناس متعارف کروائیں جن کی زیادہ گرمی یا زیادہ سردی میں پیداوار بڑھ سکے اور وائرس کے حملوں سے بھی محفوظ رہ سکے، ٹنڈوجام، فیصل آباد اور پشاور کے ایگری کلچر سینٹر اس کام میں لگے ہوئے ہیں، فارمرز بھی ہمیں اپنے تجربات اور بڑھتی پیداوار کے بارے میں بتاتے ہیں، اس کے علاوہ کینسر کے علاج کے حوالے سے بھی جدید تحقیق کے مطابق کام ہورہا ہے، یہ مہنگا علاج ہے، سستے سے سستا انجکشن بھی باہر سے منگوائیں تو 70 سے 80 لاکھ کا پڑتا ہے، اپنے ملک میں تیار کریں تو تقریباً 9 سے ساڑھے 9 لاکھ روپے میں تیار ہوتا ہے۔
نصرت مرزا: عام آدمی تک پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کی کامیابیوں کو کیوں نہیں پہنچایا جارہا ہے تاکہ زراعت میں عام کسان کی آپ تک رسائی آسان ہوجائے کیونکہ دُنیا میں فوڈز سیکیورٹی اہم ہوتی جارہی ہے۔
وقار احمد بٹ: جدید طریقے کے مطابق زراعت پر کام کرنے سے مثبت نتائج آئیں گے، روایتی انداز کو چھوڑنا ہوگا۔
نصرت مرزا: ہمارے نیوکلیئر سائنٹسٹ ڈاکٹر تسنیم نے حالیہ سیلاب پر یہ کہا کہ اگر زمین میں پانی کھڑا ہے اور جذب نہیں ہورہا تو اُسے ڈرل ٹیکنالوجی کے ذریعے زیرزمین محفوظ بھی کیا جاسکتا ہے۔ سندھ و بلوچستان کے جن علاقوں میں سیلابی پانی زمین میں جذب نہیں ہورہا ہمیں اس جدید طریقے کو اپنانا ہوگا۔
وقار احمد بٹ: ریڈیو آئسوٹوپ کو زمین میں چھوڑ کر یہ اندازہ ہوجاتا ہے کہ زمین کی اندرونی سطح کہاں نرم یا سخت ہے یا چٹان کہاں ہے، نیوکلیئر ٹیکنیک کے ذریعے اس پانی کو زیرزمین لے جایا جاسکتا ہے، حکومت جب اس حوالے سے آگاہ کرے گی تو ضرور کام کیا جائے گا۔ اس کانفرنس کے ذریعے ہم نے تجربات کا تبادلہ کیا ہے، ایک ونگ ہے، ویمن ونگ ان نیوکلیئر گلوبل جس کا پاکستان بھی رکن تھا اس میں پاکستان خاصا متحرک رہا ہے، نیوکلیئر میں مختلف شعبے ہیں جس میں ہماری یونیورسٹیز کے طلبا بڑی تعداد میں منسلک ہورہے ہیں۔
نصرت مرزا: کیا اس کانفرنس کی روداد کو عام آدمی تک پہنچانے کا کوئی بندوبست کیا جائے گا؟
ڈاکٹر طاہر خلیق: کانفرنس میں جتنے مقالے پیش کئے گئے اس میں سے کچھ ہمارے پاس موجود ہیں اور ماہرین سے کہا ہے کہ وہ جمع کروا دیں ٹیکنیکل ڈیپارٹمنٹ میں تو ہم انگریزی ہی میں بھیجیں گے، عام آدمی اور طلبا کے لئے آپ نے اچھا مشورہ دیا ہے کہ اس کا ترجمہ اُردو میں کیا جائے، اس کی تشہیر پر خاص توجہ دیں گے ابھی ہمارے پاس تمام مقالہ جات نہیں آئے ہیں۔
نصرت مرزا: ڈاکٹر محمد محسن اس حوالے سے آپ کیا فرمائیں گے؟
ڈاکٹر محمد محسن: ملک کی ضرورت کے مطابق نیوکلیئر ٹیکنالوجی سے مدد لیتے رہیں گے، پی آئی ای اے ایس انسٹی ٹیوٹ کا دُنیا میں ایک خاص مقام ہے، 369 واں نمبر ہے یعنی دُنیا کی 500 بہترین یونیورسٹیز میں شامل ہے۔
نصرت مرزا: زراعت میں سابق اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کی ایک ویڈیو میں یہ بتایا گیا تھا کہ جب اور جہاں فصل کو پانی درکار ہوگا ہم ڈرپ ایری گیشن اور مصنوعی بارش کے ذریعے فراہم کرسکیں گے، کیا ہمارے پاس یہ مہارت ہے، ہمیں اس حوالے سے عوام کو بھی آگاہ کرنا ہوگا؟
ڈاکٹر محمد محسن: الحمداللہ پاکستان کے پاس یہ صلاحیت موجود ہے، عام آدمی تک ان کامیابیوں کو پہنچانے کی ضرورت ہے اور تمام ذرائع استعمال کرنا چاہئے۔
وقار احمد بٹ: بالکل ڈرپ ایری گیشن کے ذریعے ہم پانی کو ضائع ہونے سے بچا سکتے ہیں، آپ نے صنعتکاروں کا ذکر کیا تھا اس کانفرنس میں صنعتکاروں کی اتنی زیادہ شرکت نہیں تھی مگر پاکستان انجینئرنگ بورڈ سے ہماری میٹنگز ہوچکی ہیں، سولر پینل کے حوالے سے ایک وزیر صاحب نے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا لہٰذا پاکستان نیوکلیئر سوسائٹی اس حوالے سے اب عملی اقدامات کررہا ہے، ہمارے صنعتکار بھی پی این ایس کے ٹیکنیکل بورڈ کے ممبر ہیں جس میں اسٹیل مل کے مالک اور مختلف چیمبر آف کامرس کے سربراہان اور ان کے ارکان بھی شامل ہیں، اب ہم سیمینارز کے بعد اس پر عملدرآمد بھی کررہے ہیں، سیالکوٹ کے صنعتکاروں کے ساتھ نومبر میں ایک پروگرام ہے سرجیکل گڈز اور میڈیکل ڈیوائسز کے بنانے میں ہم کیا مدد کرسکتے ہیں اس کے بارے میں انہیں آگاہ کریں گے۔