ضمیر آفاقی
پاکستان میں کوئی بھی چیز خالص نہیں ملے گی، ایک طرف ہم اپنے ملک کے شہریوں کو ملاوٹ زدہ اور جعلی چیزیں فروخت کرتے ہیں تو دوسری جانب بیرون ملک بھیجے جانے والے مال پر بھی ہمارا یہی رویہ ہے، آج ہم عالمی تجارت میں اپنے ہمسایہ ملکوں سے بہت پیچھے ہیں، اندازہ لگایئے کہ پاکستان کی دواؤں کی برآمدات 30 کروڑ ڈالر جبکہ بھارت کی 20 ارب ڈالر ہے، جو پاکستان کی مجموعی برآمدات کے برابر ہے، یہ اعداد و شمار دو سال پہلے کے ہیں جبکہ اعدادوشمار یہ بھی بتاتے ہیں کہ پاکستان جعلی دواؤں کی فروخت میں دنیا بھر میں 24 ویں نمبر پر ہے۔ یہی بات کچھ عرصہ پیشتر، سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کو بھی بتائی گئی تھی کہ ملک میں جعلی دواؤں کا کاروبار عروج پر ہے۔
عالمی ادارۂ صحت کی ایک تازہ ترین رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں جعلی اور غیرمعیاری ادویہ کے کاروبار کا سالانہ حجم قریباً دو سو ارب ڈالر ہے۔ کئی اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ پوری دنیا میں جتنے بھی کاروباری شعبوں میں قانونی اور معیاری مصنوعات کی غیرقانونی اور غیرمعیاری نقل تیار کرکے جتنا بھی منافع کمایا جاتا ہے، ان میں جعلی ادویہ سے ہونے والا منافع سب سے زیادہ ہوتا ہے، لیکن عالمی سطح پر مجرمانہ منافع کی یہی ہوس لاکھوں انسانوں کی موت کی وجہ بنتی ہے اور ایسی ہلاکتیں پاکستان میں بھی ہوتی ہیں۔ پاکستان میں معیاری ادویہ کی دستیابی کو یقینی بنانے اور جعلی و غیرمعیاری ادویہ کی روک تھام کا کام ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان یا ڈریپ نامی ادارہ کرتا ہے، لیکن بے تحاشا منافع کی خاطر مریضوں کی جانوں سے کھیلنے والے غیرقانونی دوا ساز اور دوا فروش آج بھی اتنے پاکستانیوں کی ناحق موت کی وجہ بنتے ہیں کہ یہ سالانہ تعداد درجنوں یا سیکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں میں بنتی ہے۔ ڈرگ کنٹرول کے شعبے کے کئی اعلیٰ پاکستانی اہلکار تو سرے سے انکاری ہیں کہ پاکستان میں جعلی ادویہ کا کاروبار پھیلا ہوا ہے، ان کی وجہ سے مریض ہلاک بھی ہوجاتے ہیں اور کئی شہروں میں جعلی ادویہ بنانے کی فیکٹریاں قائم ہیں۔ ایسے اہلکاروں کے ان دعوؤں کی تردید کے لئے محض چند بڑے حقائق کافی ہوں گے۔
2012ء میں پاکستان کے دو شہروں میں نشے کے لئے کھانسی کا شربت پینے کے نتیجے میں ساٹھ افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ وجہ یہ تھی کہ شربت تو کھانسی کے علاج کے لئے تھا مگر پینے والوں نے اسے نشے کے لئے بہت زیادہ پیا اور اس شربت میں ایسا زہریلا مادہ بھی تھا، جو نہیں ہونا چاہئے تھا اور جو مارفین سے بھی پانچ گنا زیادہ خطرناک تھا۔ کئی جعلی ادویہ تو ایسی ہوتی ہیں، جو مریضوں کی بیماری میں طوالت حتیٰ کہ ان کی موت کی وجہ بن جاتی ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے ہی پاکستان کی ایک ڈرگ ٹیسٹنگ لیبارٹری کے اعلیٰ حکام نے پنجاب کے چیف ڈرگ کنٹرولر کو لکھا کہ 50 کے قریب دوا ساز اداروں کی بنائی 91 اینٹی بائیوٹک ادویہ غیرمعیاری نکلیں۔ پاکستانی میڈیا کے مطابق اس خط میں یہ بھی کہا گیا کہ صوبائی محکمۂ صحت نے تب تک اس بارے میں کوئی ایسے اقدامات نہیں کئے جو اسے فوری کرنا چاہئے تھے۔ اسی طرح فیصل آباد میں کوالٹی کنٹرول بورڈ نے چند روز قبل 17 ایسے میڈیکل اسٹوروں کے کیس ڈرگ کورٹس میں بھیج دینے کا فیصلہ کیا، جو غیرمعیاری اور غیررجسٹرڈ ادویہ کی فروخت میں ملوث تھے۔
عالمی ادارۂ صحت کے رکن 191 ممالک میں سے صرف 20 فیصد ریاستوں کے پاس فارما انڈسٹری سے متعلق کوالٹی کنٹرول کا بہترین نظام ہے۔ اس کے برعکس پاکستان میں، ’’آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے‘‘۔ چند حلقے تو یہ دعوے کرتے ہیں کہ اس جنوبی ایشیائی ملک میں کچھ ’’رجسٹرڈ دوا ساز ادارے‘‘ ایسے ہیں، جو فارماسیوٹیکل فیکٹریوں کے طور پر ’’دو دو کمروں کے گھروں‘‘ میں کام کررہے ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ کچھ پرائیویٹ کمپنیاں اور مقامی پروڈیوسرز بھی جعلی ادویہ کی تیاری اور فروخت میں ملوث ہیں۔ ڈرگ کنٹرول اتھارٹی کے آئے دن کے چھاپوں کے باوجود بڑی مقدار میں ایسی ادویہ کھلے عام دستیاب ہیں۔ لیبارٹریوں کی قلت کے باعث جعلی ادویہ کی بروقت جانچ پڑتال کا بھی فقدان ہے۔ ایسی ادویہ بنانے والے کئی افراد ڈاکٹروں کے ساتھ مل کر کروڑوں کا منافع کما رہے ہیں، جو ڈاکٹر ایسا کرتے ہیں یا محض کسی خاص کمپنی کی تیار کردہ ادویہ ہی مریضوں کے لئے نسخے میں لکھتے ہیں، انہیں بیش قیمت تحائف ملتے یا بیرون ملک دورے کرائے جاتے ہیں۔ گائناکولوجی کی بات کی جائے، تو غیرمعیاری ادویہ زچہ اور بچہ دونوں کے لئے جان لیوا ثابت ہوسکتی ہیں، اس قبیح دھندے میں دوا ساز، ڈاکٹر، ڈرگ کنٹرولر اور دوا فروش، ہر فرد واحد تو نہیں لیکن ہر شعبے کے لوگ شامل ہوتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق جعلی ادویہ کے باعث کئی بار مریض صحت یاب ہونے کے بجائے مزید بیمار ہوجاتے ہیں۔ جعلی اینٹی بائیوٹکس کے استعمال سے مریض کے جسم میں انفیکشن پھیل جائے تو اس کی موت واقع ہوجاتی ہے۔ جعلی یا غیرمعیاری ادویہ کی فروخت پر کڑی سزا ہونی چاہئے تاکہ یہ جان لیوا رجحان ختم تو ہو۔ پاکستان جیسے ملک میں، جہاں نشے کے ٹیکے بھی کیمسٹ ہی غیرقانونی طور پر بیچتے ہیں، اصل صورتِ حال کتنی پریشان کن ہوگی۔ لاہور اور پشاور میں بھی جعلی ادویہ ساز خاصے فعال ہیں۔ جو نقلی دوا بیس روپے کی لاگت سے بنتی، وہ ڈھائی تین سو روپے میں بیچی جاتی ہے۔ دو دو کمروں کے گھروں کو فیکٹری بناکر رجسٹرڈ کیا جاتا ہے۔ وہاں جو کچھ بنتا ہے، اس میں موت تو ہوسکتی ہے، زندگی نہیں۔ ایسی ادویہ خراب پیکنگ سے بھی پہچانی جاسکتی ہیں۔
ڈاکٹروں کے مطابق متعدد چھوٹے شہر ایسے ہیں جہاں کیمسٹ کی کسی دکان پر ایک چوتھائی سے لے کر نصف تک ادویہ جعلی یا غیرمعیاری ہوتی ہیں۔ پاکستان میں کئی دیگر شعبوں کی طرح اس بارے میں بھی کوئی مصدقہ قومی ڈیٹا نہیں۔ عرف عام میں ایسی دوائیوں کو ’’ٹھیکے کی دوائیاں‘‘ کہا جاتا ہے۔ مریض کو ٹیکا لگائیں، تو اس میں یا تو پانی ہوگا یا گلوکوز۔ ایک اور مسئلہ کہ ڈاکٹر مریض کو جو دوائی تجویز کرتا ہے، کبھی کبھی کیمسٹ کوئی دوسری بیچنے کے لئے مجوزہ دوائی اپنی مرضی سے تبدیل کر دیتا ہے۔ اس گھناؤنے کاروبار اور غیرمعیاری ادویہ بنانے والوں کو صرف جرمانے نہیں کئے جانے چاہئیں بلکہ ان کے لائسنس منسوخ کرکے انہیں سخت سزائیں سنانی چاہئیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ مارچ 2018ء کے بعد سپریم کورٹ نے اس سلسلے میں نیشنل ٹاسک فورس بنائی تھی، وہ بہت اچھا کام کررہی ہے: ’’اس فورس نے گزشتہ آٹھ ماہ میں دو ہزار دورے کئے، مختلف علاقوں میں چھاپے مارے تاکہ جعلی اور غیرمعیاری ادویہ کی تیاری اور فروخت کو روکا جاسکے۔‘‘ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ڈیٹا جمع کرنے کا کوئی رواج نہیں اور نہ ہی سسٹم کو بہتر بنانے کے لئے وسائل ہیں۔ اس وقت ملک میں قریب 37 ہزار ادویہ رجسٹرڈ ہیں، جن کے ’’استعمال سے انسانی اموات کا تو کسی کو کوئی علم نہیں لیکن ان کے جو ضمنی اثرات ہوتے ہیں، جو فیڈ بیک مریض دیتے ہیں، وہ ہمیں متعلقہ دوا ساز ادارے بتا دیتے ہیں۔ محولہ بالا رپورٹ ہماری آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہے، اگر ہم کھلی آنکھوں سے دیکھنے کے قائل ہوں اور سدباب کرنا چاہیں۔؟