ڈاکٹر سید احمد علی شاہ
بیسویں صدی میں انسان نے معیشت کے میدان میں خودکفالت سے باہمی انحصار کا سفر طے کیا۔ سرد جنگ کے دوران جب دُنیا دو بڑے دھڑوں میں تقسیم تھی، ملکی معیشت کی ترقی کے لئے خودکفالت کا راستہ سب سے موزوں تصور کیا جاتا تھا، چونکہ اس زمانے میں ملکی دفاع کو سب سے زیادہ خطرات بیرونی جارحیت سے تھے، اس لئے خودکفالت کا تصور ہی سب سے زیادہ موزون تصور ہوتا تھا۔ سوویت یونین کے انہدام کے ساتھ ہی ناصرف سرد جنگ کا خاتمہ ہوا بلکہ دُنیا کی مختلف معیشتیں آپس میں اس طرح منسلک ہوگئیں کہ خودکفالت کا تصور پسماندہ ہونے لگا۔ خودکفالت کے بجائے اب باہمی انحصار ترقی کا راستہ بنا۔ صنعت کے ہر شعبے میں خودکفیل ہونے کے بجائے چند مخصوص شعبہ جات میں تخصیص یعنی اسپیلائزیشن کا زمانہ آ گیا۔ ایک ملک صنعت و حرفت کے ایک شعبے میں کمال حاصل کرتا اور دوسرا کسی دیگر شعبے میں اور پھر باہمی تعاون سے ایک دوسرے کی ضروریات پوری کی جائیں، مثلاً ایک ملک کی کار انڈسٹری دوسرے ملک کی اسٹیل انڈسٹری پر منحصر ہوگئی، اس باہمی انحصار نے ایک ملک کو لاحق ہونے والے خطرات ممکن حد تک دور کر دیئے۔ ماضی کے حریف اب تجارتی حلیف بن گئے اور باہمی تعاون کا ایک نیا دور شروع ہوا۔ نئے دور کے نئے تقاضوں کے ساتھ ساتھ نت نئے چیلنجز بھی ہمراہ آئے۔ جدید زمانے میں ملکی معیشت کا اندرونی استحکام سے بہت گہرا تعلق ہے۔ جیسے سرد جنگ کے دوران بیرونی خطرات ایک ملک کے لئے سبب تشویش تھے، اس طرح اب جدید زمانے میں اندرونی خلفشار کئی ممالک کے لئے دردسر بن گیا۔ دُنیا کے کئی ممالک پچھلی کئی دہائیوں میں اندرونی خلفشار کا شکار ہو کر ترقی کی راہ گم کر بیٹھے۔ ان میں کانگو کی دوسری جنگ (1998ء تا 2003ء) موجودہ شامی خانہ جنگی اور نوے کی دہائی میں افغانستان کی خانہ جنگی شامل ہیں۔ اب دُنیا کو اپنی توجہ اندرونی استحکام کی طرف دینا دفاعی پالیسی کا لازمی جزو بنانا پڑا۔ بہت سے ممالک جن میں چین اور پاکستان شامل ہیں، نے اندرونی چیلنجز کو مرکزی حیثیت دی۔
جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا کہ مابعد سرد جنگ دُنیا کی مختلف معیشتیں باہم مربوط گئیں۔ اب کسی بھی ملک کا اندرونی استحکام اور خارجہ تعلقات اس کی معیشت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ پاکستان خارجہ محاذ پر ایک اہم ملک ہے جو عالمی منظرنامے میں ہمیشہ سے ایک اہم کھلاڑی رہا ہے۔ عالمی افق پر پاکستان کو چین جیسے ہمسائے اور دوست ملک کا ساتھ بھی حاصل رہا ہے۔ دونوں ممالک سفارتی، سیاسی، معاشی اور دفاعی شعبوں میں ایک دوسرے سے مستفید ہوتے رہے ہیں۔ جب صدر شی جن پنگ نے چین میں اقتدار سنبھالنے کے بعد اپنے ویژنری منصوبے بیلٹ اینڈ روڈ کا اعلان کیا تو پاکستان ان کی ترجیحات میں شامل تھا۔ اس منصوبے کے تحت دُنیا کی ساٹھ فیصد معیشتوں کو چینی مشیت سے جوڑ کر ترقی کی راہ پر گامزن کرنا تھا۔ باہمی ربط و انحصار کی یہ ایک شاندار مثال ہے۔ یہ منصوبہ ترقی پذیر ممالک کے عوام کی تقدیر بدلنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ پاکستان میں اس منصوبے کا نام چین پاک اقتصادی راہداری (سی پیک) ہے۔ اس منصوبے کے تحت پاکستان میں شاہراہوں کا جال بچھانا، ریل کے نظام کی بہتری، بجلی بنانے کے مختلف منصوبے، صنعتی زونز کی تعمیر اور گوادر کا ساحلی شہر بسانا شامل ہے۔
سی پیک کی کلید کامیابی پاکستان کے اندرونی استحکام سے جڑی ہے۔ پاکستان کو 2000ء کے بعد سے اپنے دو صوبوں میں اندرونی خلفشار کا سامنا ہے۔ بلوچستان کے علیحدگی پسند اور فاٹا۔ خیبرپختونخوا میں تحریک طالبان پاکستان کے دہشت گرد مسلسل ریاست پاکستان کو نشانہ بنائے ہوئے ہیں۔ دہشت گردی کی اس جنگ میں پاکستان نے 70 ہزار سے زائد معصوم جانیں گنوائیں اور ملکی معیشت نے اربوں ڈالر کا نقصان برداشت کیا۔ 2014ء میں دہشت گردی کے خلاف ایک جامع نیشنل ایکشن پلان بنایا گیا۔ آنے والے برسوں میں ریاست پاکستان نے دہشت گردی کے ناسور کے خلاف خاطرخواہ کامیابیاں حاصل کیں۔ مثلاً 2014ء میں دہشت گردی کے واقعات میں 30 فیصد، 2015ء میں 48 فیصد، 2016ء میں 28 فیصد، 2017ء میں 16 فیصد، 2018ء میں 29 فیصد، 2019ء میں 31 فیصد اور 2020ء میں 36 فیصد کمی واقع ہوئی۔ حیران کن طور پر 2021ء میں دہشت گردی کے واقعات 42 فیصد بڑھ گئے۔ اس سال 255 حملے قوم پرست دہشت گردوں نے کئے جبکہ 278 حملے تحریک طالبان پاکستان اور ان کے ہمنوا گروہوں کی جانب سے کئے گئے۔ حملوں کی تعداد بڑھنے کے ساتھ ساتھ ان کی شدت میں بھی اضافہ ہوا۔ 2020ء کی نسبت 2021ء میں دہشت گردوں کے ہاتھوں مرنے والوں کی تعداد بھی 52 فیصد زیادہ تھی۔ ان حملوں کا مرکزی نشانہ ہمیشہ کی طرح مسلح افواج، پولیس، پیراملٹری فورسز، تعلیمی ادارے، غیربلوچ باشندے، سرکاری اہلکار، دیگر مسلم فرقے، عبادت گاہیں اور غیرمسلم اقلیتیں بنیں۔ اگر ان حملوں کی صوبائی تقسیم دیکھی جائے تو خیبرپختونخوا (بمشول فاٹا) میں 111 حملے کئے گئے، بلوچستان میں 81، پنجاب میں 5، اندرون سندھ 3 اور کراچی میں 5 حملے کئے گئے۔ یہ تقسیم واضح کرتی ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے خیبرپختونخوا اور فاٹا میں کئے گئے حملوں کے بعد سب سے زیادہ حملے بلوچ شرپسندوں کی جانب سے کئے گئے۔ بلوچستان میں کئے گئے حملوں میں 136 معصوم لوگ ایک سال کے عرصے میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے جبکہ 345 زخمی ہوئے۔ 81 میں سے 71 حملے بلوچ قوم پرست دہشت گردوں کی جانب سے کئے گئے۔ حملہ کرنے والے گروہوں میں بلوچ لبریشن آرمی، بلوچ لبریشن فرنٹ، بلوچ لبریشن گارڈ، لشکر بلوچستان اور یونائیٹڈ بلوچ آرمی شامل ہیں۔ ان کے حملوں کا زیادہ تر نشانہ مسلح افواج، سرکاری ادارے اور غیربلوچ باشندے بنے۔
یہاں غور طلب پہلو یہ ہے کہ آخر 2021ء میں دہشت گردی کے واقعات کیوں اتنے بڑھ گئے اور بلوچستان میں ان کی کارروائیوں میں کیوں اضافہ ہوا؟ بادی النظر میں اس کی دو وجوہات سمجھ آتی ہیں۔ اول تو یہ کہ افغانستان سے امریکی انخلا اس کی ایک وجہ بنا۔ کچھ میڈیا رپورٹس کے مطابق طالبان کی افغانستان میں اقتدار نشینی کے بعد بلوچ علیحدگی پسند رہنما افغانستان سے ایران منتقل ہوگئے اور اب نئی حکمت عملی کے ساتھ بلوچستان میں حملہ آور ہوئے ہیں۔ دوسری وجہ سی پیک پروجیکٹس کا تکمیل کی طرف گامزن ہونا ہے۔ سی پیک کے تحت مکمل ہونے والے منصوبے جہاں ایک طرف خطے کی تقدیر بدلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں وہیں علیحدگی پسندوں کے بیانیے کو ہمیشہ کے لئے ختم کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس لئے جیسے جیسے سی پیک اپنی منزل کی تکمیل کے قریب ہورہا ہے ایسے ہی قوم پرست دہشت گردوں کے حملے بھی بڑھتے جارہے ہیں۔
پاکستانی معیشت کے استحکام کے لئے سی پیک کی کامیابی ازحد ضروری ہے۔ ساٹھ فیصد سے زیادہ نوجوان آبادی والا ملک اب مزید تاخیر کا متحمل نہیں ہے۔ پاکستانی نوجوان کو روزگار کی فراہمی کے لئے مختلف صنعتوں کو پروان چڑھانا ہے، صنعت کو رواں رکھنے کے لئے بجلی کے نئے منصوبے بنانا ہوں گے، معیشت کو باہم مربوط رکھنے کے لئے وسیع و عریض شاہراہوں کا نیٹ ورک درکار ہے اور ریل کے نظام کو اپ ڈیٹ کرنا ضروری ہے اور سب سے زیادہ اہم امر یہ کہ پاکستانی معیشت کو دیگر معیشتوں کے ساتھ باہم مربوط کرنے کے لئے نئی بندرگاہوں کا بنانا تاکہ پاکستانی صنعت عالمی مارکیٹ سے پوری طرح جڑ سکے اور روزگار کے مزید مواقع پیدا کرسکے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سی پیک پاکستان کی ان تمام ضرورتوں کو پورا کرتا ہے۔ اس میں مختلف صنعتی زونز کی تعمیر، بجلی پیدا کرنے کے منصوبے، شاہراہوں اور موٹرویز کا نیٹ ورک، ریل کی بحالی کا منصوبہ اور گوادر کی بندرگاہ کی تعمیر کا منصوبہ شامل ہیں۔ سی پیک کی کامیابی پاکستانی مستقبل کی کامیابی ہے اور اس کامیابی کا راستہ بلوچستان سے ہو کر گزرتا ہے۔ بلوچستان سی پیک میں مرکزی اہمیت کا حامل ہے۔ گوادر کی بندرگاہ بنائے بغیر سی پیک کے دیگر تمام منصوبوں سے پوری طرح فائدہ نہیں اٹھایا جاسکتا۔ سی پیک منصوبے ناصرف ایک طرف پورے پاکستان کو آپس میں ملاتے ہیں بلکہ ملک کا رابطہ بیرونی دُنیا سے جوڑتے ہیں۔ سی پیک منصوبہ سردست دہشت گردی کی تازہ لہر کے نشانے پر ہے۔ مختلف پروجیکٹس کو نشانہ بنایا گیا ہے جن میں کے پی کے میں داسو ڈیم کی تعمیر اور بلوچستان میں گوادر کے منصوبے شامل ہیں۔ یہ منصوبہ ملک دشمنوں کی ہٹ لسٹ پر آ چکا ہے۔ ان منصوبوں کی جلد از جلد تکمیل کے لئے ریاست پاکستان کو یہ انددرونی خلفشار ختم کرنا ہوگا۔ ملک کو اندرونی استحکام بخشنا ہوگا تاکہ سی پیک سے خاطرخواہ فوائد حاصل کئے جاسکیں۔