Sunday, July 13, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

پانچ فروری یوم یکجہتی کشمیر

راجہ منیب

پانچ فروری کو ہر برس یوم یکجہتی کشمیر کے طور پر منایا جاتا ہے۔ پانچ فروری کا دن کشمیریوں کی جدوجہد آزادی میں بڑی اہمیت کا حامل ہے، کشمیر دراصل تقسیم ہند کا ایسا حل طلب مسئلہ ہے، جو بھارتی حکومت کی ہٹ دھرمی و ظلم و ناانصافی کے باعث تاحال حل نہیں کیا جاسکا، اس دوران کشمیری مسلمانوں نے آزادی کشمیر اور اپنے حق خودارادیت کے حصول کے لئے لاتعداد قربانیوں کی تاریخ رقم کی ہے، جو مسئلے کے حل ہونے و کشمیر کے آزاد ہونے تک جاری رہے گی۔ کشمیری عوام کی تحریک آزادی اسی روز سے شروع ہوگئی تھی جب انگریزوں نے گلاب سنگھ کے ساتھ ’’معاہدہ امرتسر‘‘ کے تحت 16 مارچ 1846ء کو کشمیر کا 75 لاکھ روپے نانک شاہی کے عوض سودا کیا۔ پانچ فروری کے یوم یکجہتی کی اہمیت کیا ہے یہ جاننے کے لئے تحریک آزادی کشمیر کے پس منظر کو جاننا ضروری ہے۔
سنہ 1946ء میں قائداعظم نے مسلم کانفرنس کی دعوت پر سری نگر کا دورہ کیا جہاں قائد کی دور اندیش نگاہوں نے سیاسی، دفاعی، اقتصادی اور جغرافیائی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے کشمیر کو پاکستان کی ’’شہ رگ‘‘ قرار دیا۔ مسلم کانفرنس نے بھی کشمیری مسلمانوں کی نمائندگی کرتے ہوئے 19 جولائی 1947ء کو سردار ابراہیم خان کے گھر سری نگر میں باقاعدہ طور پر ’’قرارداد الحاق پاکستان‘‘ منظور کی لیکن جب کشمیریوں کے فیصلے کو نظرانداز کیا گیا تو مولانا فضل الٰہی وزیر آباد کی قیادت میں 23 اگست 1947ء کو نیلابٹ کے مقام سے مسلح جدوجہد کا باقاعدہ آغاز کیا۔ 15 ماہ کے مسلسل جہاد کے بعد موجودہ آزاد کشمیر آزاد ہوا۔ پنڈت جواہر لعل نہرو اقوام متحدہ پہنچ گئے اور بین الاقوامی برادری سے وعدہ کیا کہ وہ ریاست میں رائے شماری کے ذریعے ریاست کے مستقبل کا فیصلہ مقامی عوام کی خواہشات کے مطابق کریں گے۔
اس دن کو منانے کا آغاز 1990ء کو ہوا جب جماعت اسلامی کے امیر قاضی حسین احمد کی اپیل پر اس وقت کے اپوزیشن لیڈر اور وزیراعلیٰ پنجاب میاں محمد نوازشریف نے اخبارات میں اشتہارات کے ذریعے اپیل کی کہ جموں وکشمیر کے عوام کے ساتھ مکمل اظہار یکجہتی کی جائے۔ ان کی کال پر پورے پاکستان میں 5 فروری 1990ء کو کشمیریوں کے ساتھ زبردست یکجہتی کا مظاہرہ کیا گیا۔ ملک گیر ہڑتال ہوئی اور ہندوستان سے کشمیریوں کو آزادی دینے کا مطالبہ کیا گیا۔ اس دن جگہ جگہ جہاد کشمیر کی کامیابی کے لئے دعائیں مانگیں گئیں۔ بعدازاں پاکستان پیپلزپارٹی نے 5 فروری کو عام تعطیل کا اعلان کرکے کشمیریوں کے ساتھ نہ صرف یکجہتی کا مظاہرہ کیا بلکہ وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو آزاد کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد تشریف لے گئیں جہاں انہوں نے اسمبلی اور کونسل کے مشترکہ اجلاس کے علاوہ جلسہ عام سے خطاب کیا، کشمیریوں کو ہرممکن تعاون کا یقین دلایا اور مہاجرین کشمیر کی آباد کاری کا وعدہ کیا۔ تب سے اس دن کو ہر برس سرکاری طور پر منایا جاتا ہے۔ پورے ملک میں سرکاری تعطیل ہوتی ہے۔
کشمیر ایسا مسئلہ ہے جو نہ صرف کشمیریوں کے لئے زندگی موت کا مسئلہ ہے بلکہ پاکستان کے لئے بھی یہ شہ رگ کی حیثیت رکھتا ہے۔ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔ 21 جنوری 1990ء میں جب مقبوضہ کشمیر کے عوام بھارت کے غاصبانہ قبضہ کے خلاف سری نگر اور دیگر شہروں میں لاکھوں کی تعداد میں سڑکوں پر آئے تو بھارت کی درندہ صفت فوج نے نہتے کشمیریوں کو بربریت کا نشانہ بنا کر درجنوں شہریوں کو شہید کردیا۔ کشمیر کی تاریخ میں ایک ایسا موقع تھا جب اتنی بڑی تعداد میں کشمیریوں نے منظم ہو کر اتحاد اور یکجہتی کا مظاہرہ کیا اور کشمیر پر بھارت کے غاصبانہ قبضہ اور فوجی تسلط کے خلاف اعلان کردیا۔
یہ درست ہے کہ یوم یکجہتی منانے سے کشمیریوں کی آواز عالمی برادری تک پہنچتی ہے اور اس سے مسئلہ کشمیر کے بین الاقوامی سطح پر اجاگر ہونے میں مدد ملتی ہے لیکن کیا ہم پاکستانیوں اور حکمرانوں کی طرف سے اتنا ہی کردینے سے کشمیر کاز کو کوئی تقویت پہنچ سکتی اور آزادی کی منزل قریب آسکتی ہے؟۔ آخر ہم کب تک صرف یوم یکجہتی ہی مناتے رہیں گے؟ کیا اب ہمیں کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے بعد مزید ایک قدم آگے نہیں بڑھانا چاہئے؟ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیتے ہوئے اس کو بھارت کے پنجہ استبداد سے طاقت کے ذریعے چھڑانے کی کوشش کی تھی۔ کشمیر کی آزادی کے حوالے سے قائداعظم کی کمٹمنٹ تھی اس وقت ابھی پاک فوج پوری طرح منظم نہیں ہوئی تھی اور اسلحہ کی کمی بھی درپیش تھی۔ افسوس کہ کشمیر کے حوالے سے قائد کے بعد آنے والے کسی حکمران نے بانی پاکستان جیسے عزم و ارادے کا مظاہرہ نہیں کیا حالانکہ اب تو پاکستان کے پاس دنیا کی بہترین فوج اور وہ ایٹمی کا حامل بھی ہے۔ جب مجاہدین فتح و نصرت کے پھریرے لہراتے ہوئے سری نگر تک پہنچا چاہتے تھے کہ بھارت مقبوضہ وادی کو ہاتھ سے نکلتا دیکھ کر بھاگا بھاگا یو این چلا گیا جس نے مسئلہ کشمیر کا حل کشمیریوں کو حق استصواب کی صورت میں تجویز کیا۔ اسے بھارت نے بھی تسلیم کیا لیکن آج 65 سال ہونے کو ہیں بھارت نہ صرف کشمیریوں کو یہ حق دینے سے انکاری ہے بلکہ اس نے پچاس کی دہائی میں ہی آئین میں ترمیم کرتے ہوئے کشمیر کو اپنے صوبے کی حیثیت دے دی۔ وہ کشمیر پر مذاکرات بھی کرتا ہے، اس کو منافقت کے کس درجے میں رکھا جائے؟ مذاکرات میں جو پاکستانی حکومتیں حصہ لیتی ہیں، ان کی عقل و دانش پر ماتم کیا جائے یا اسے ان کی ڈرامہ کا شاخسانہ قرار دیا جائے کہ بھارت تو کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ کہتا ہے پھر بھی یہ اس کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھ جاتے ہیں۔ کیا دونوں طرف سے منافقت نہیں ہورہی؟ ہماری طرف سے کچھ زیادہ ہی ہورہی ہے۔ قائداعظم نے جس دشمن کے ساتھ کشمیر کا فیصلہ جنگ کے ذریعے کرنے کا عزم کیا، ہمارے حکمران مسئلہ کشمیر کی موجودگی اور مزیدبراں اس کی سیاچن پر جارحیت کے باوجود اس کے ساتھ تجارت کررہے ہیں۔
عالمی شہرت یافتہ مصنفہ ارون دھتی رائے، ہندوستان ٹائمز کے ایڈیٹر ویر سنگھوی، ٹائمز آف انڈیا کے کنسلٹنٹ ایڈیٹر سوامی ناتھن، کالم نگار جگ سوریا جیسی شخصیات اپنے مضامین میں بھارتی حکومت سے کشمیریوں کو آزادی دینے کی بات کرتے ہیں لیکن ہمارے ہاں حکمرانوں کی سطح پر آزادی کشمیر کے لئے کوئی کوشش اور عزم نظر نہیں آتا، محض بیان بازی کی جاتی ہے، جس سے مسئلہ کشمیر قیامت تک حل نہیں ہوسکتا۔ کشمیر کاز کو اجاگر کرنے کے لئے پارلیمنٹ کی ایک کشمیر کمیٹی بھی ہے جو آج مولانا فضل الرحمن کے بھاری بھرکم بوجھ تلے سسک رہی ہے، مولانا کے بزرگوں نے تو فرمایا تھا، شکر ہے کہ وہ قیام پاکستان کے گناہ میں شامل نہیں تھے مولانا کی جماعت نے اپنے بزرگوں کے ایسے اقوال اور افعال سے کبھی لاتعلقی ظاہر نہیں کی۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ وہ کشمیر کاز کے لئے کتنے کمٹڈ ہیں۔
لاکھوں کشمیری بھارتی سفاک سپاہ کی بربریت کا نشانہ بن کے موت کی آغوش میں جاکر سو گئے، باقی کو بھی ایسے ہی جانکاہ حالات کا سامنا ہے، وہ امید بھری نظروں سے پاکستان کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ وہ مایوس ہوئے تو ان کی الحاق پاکستان کی سوچ خودمختار کشمیر کی سوچ میں ڈھل سکتی ہے، جس سے بانی پاکستان کی روح تڑپ اٹھے گی۔ بھارت کو یہ تو باور کروانے کی کوشش کریں کہ پاکستان مسئلہ کشمیر پر کوئی سودے بازی کرنے پر تیار نہیں۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ مسئلہ کشمیر کے حل کی بھارت کی طرف سے حقیقی کوشش تک اس کے ساتھ کوئی تعلق نہ رکھا جائے۔ اب تو پاک فوج بھی پوری قوت اور طاقت سے بھارت کا منہ توڑ سکتی ہے، پاکستانی افواج پر بھروسہ کریں اور انہیں مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کا کہیں، مذاکرات سے ہوئے تو ٹھیک ورنہ چھین لیں گے، ہمارے بہادر فوجی جوان، بھارت کو بھی پتا چل جائے گا کہ اس نے کس ایشیائی شیر سے پنگا لیا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ سیاست دان خود تو کچھ کرتے نہیں ہیں اور پاک فوج کے بھی ہاتھ باندھ رکھے ہیں۔ اس پانچ فروری کو ہمیں کشمیر کا مسئلہ مکمل طور پر فوج کے حوالے کرنے کا فیصلہ ان سیاست دانوں سے لے کرنا ہوگا تب ہی اس کا حل ممکن ہے۔ ورنہ قیامت تک سیاست دان اپنی کرسی بچانے اور تجارت و کاروبار کے چکر میں کشمیریوں پر ظلم و ستم ہونے دیں گے اور بیان بازیوں سے ہم عام عوام کو بیوقوف بناتے رہیں گے۔
ہر سال کی طرح ملک بھر میں کشمیری عوام سے اظہار یکجہتی کے لئے صبح 10 بجے ایک منٹ کے لئے خاموشی اختیار کی جائے گی اور وہ خاموشی ہر سال کی طرح بے مقصد و بے کار جائے گی کیونکہ ہم لوگ خاموشی کے بعد سنجیدہ تو ہوتے ہی نہیں ہیں۔ ایک منٹ کی خاموشی کے بعد ہم کشمیر کے مسئلہ کو بھول کر پورا سال گزار دیتے ہیں۔ مجھے یقین ہے ستر فیصد پاکستانی اس چھٹی کو سو کر، شام کو گھوم پھر کر سیروتفریح کر کے مناتے ہیں، کشمیر کے لئے کچھ نہیں سوچتے اور نہ ہی کرتے ہیں۔ ورنہ ایک دن اگر ہم صیحح طرح سے منالیں تو بھارت کو نانی یاد آجائے۔ اگر ہم اس دن سب لوگ گھروں سے نکل کر نیشنل انٹرنیشنل میڈیا کو بلا کر بھرپور احتجاج ریکارڈ کروائیں اور اپنی حکومت سے بھی کشمیریوں کے حق میں مزید تیزی سے فیصلہ کرنے اور بھارت سے دوٹوک بات کرنے کا فیصلہ منظور کروالیں ورنہ فوج کو مکمل اختیارات دے کر مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے اجازت لے دیں کہ فوج مذاکرات کرے یا جنگ بس کشمیر آزاد کروا لے تو دنیا دیکھے گی کہ کیسے کشمیر چند دن میں بھارت آزاد کرے گا۔ بلکہ پاک فوج کے خوف سے اپنے ہتھیار بھی کشمیر میں ہی چھوڑ کر بھاگے گا۔

مطلقہ خبریں