آبادی کے تناسب کی تبدیلی کے بھارتی اقدامات.بھارت کی ”بی جے پی“ حکومت کا یہ منصوبہ 2014ء میں ہی منظرعام پر آ چکا تھا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں آبادی کے تناسب میں اسی طرح تبدیلی کے اقدامات کئے جائیں کہ جس طرح اسرائیل فلسطینی علاقوں میں یہودی آبادکاروں کو بسانے کیلئے رہائشی بستیاں قائم کررہا ہے
اطہر مسعود وانی
ہر سال 5 فروری کو یومِ یکجہتی کشمیر منایا جاتا ہے تاہم رواں سال اس کی اہمیت بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے اور لاک ڈاؤن کے نفاذ کی وجہ سے بڑھ گئی ہے، بھارت نے 5 اگست 2019ء کو اپنے آئین کے آرٹیکل 370 کا خاتمہ کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کو اس کی خصوصی حیثیت سے محروم کردیا تھا۔
بھارت کی ”بی جے پی“ حکومت کا یہ منصوبہ 2014ء میں ہی منظرعام پر آ چکا تھا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں آبادی کے تناسب میں اسی طرح تبدیلی کے اقدامات کئے جائیں کہ جس طرح اسرائیل فلسطینی علاقوں میں یہودی آبادکاروں کو بسانے کے لئے رہائشی بستیاں قائم کررہا ہے۔ مقبوضہ جموں وکشمیر میں آبادی کے تناسب میں تبدیلی کے منصوبے پر عملدرآمد اس وقت کیا گیا کہ جب بھارتی حکومت نے 5 اگست 2019ء کو بھارتی پارلیمنٹ میں آئینی ترامیم کرتے ہوئے مقبوضہ جموں وکشمیر کی ریاستی حیثیت کو ختم کرتے ہوئے اقوام متحدہ کی طرف سے متنازع قرار دی گئی ریاست کو بھارت میں مدغم کرنے کا اعلان کردیا۔ اس منصوبے کے تحت بھارتی حکومت نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی سیکورٹی میں ہندوؤں کی خصوصی بستیوں کے قیام، مقبوضہ جموں وکشمیر میں بھارتی علاقوں سے لوگوں کو لا کر آباد کرانے کے اقدامات شروع کردیئے۔ اس کے ساتھ ہی مقبوضہ کشمیر میں صنعتی علاقے قائم کرنے کے نام پر ہزاروں ایکڑ اراضی سرکاری تحویل میں لے لی گئی تاکہ بھارت کے بڑے صنعتکار وہاں کارخانے لگاتے ہوئے ان کارخانوں میں کام کرنے کے لئے بڑی تعداد میں بھارت سے لوگوں کو لایا جائے اور انہیں بھی مقبوضہ کشمیر میں ہی مستقل طور پر بسایا جائے۔ اس کے ساتھ ہی مقبوضہ جموں وکشمیر میں بھارتی افراد کو لاکھوں کی تعداد میں ڈومیسائل جاری کرتے ہوئے انہیں مقامی باشندوں کا درجہ دینے کی کارروائی بھی شروع کردی گئی۔ بھارتی حکومت نے 5 اگست 2019ء کو آرٹیکل 370 کو منسوخ کردیا جس کے تحت بھارتی حکومت مقبوضہ جموں وکشمیر اسمبلی کی منظوری کے بغیر کوئی قانون سازی نہیں کرسکتی اور ساتھ ہی آرٹیکل 35(A) کو بھی منسوخ کردیا جس کے تحت ریاست جموں وکشمیر میں کوئی غیرریاستی باشندہ ملازمت نہیں کرسکتا، زمین نہیں خر ید سکتا۔ بھارتی حکومت نے جموں وکشمیر تنظیم نو ایکٹ 2019ء کے ذریعے ریاست جموں وکشمیر اور لداخ کے دو مرکز کے زیرانتظام علاقوں میں قائم کردیا۔ 27 اکتوبر 2020ء کو تنظیم نو کے تیسرے حکم کی شکل میں مزید قانون سازی عمل میں لائی گئی جس کے تحت ہندوستان کے کسی بھی شہری کو ”ریاست کے مستقل رہائشی“ کی شق کو ختم کرنے کے بعد جموں وکشمیر میں زمین خریدنے کی اجازت دی گئی ہے۔
ریاست جموں وکشمیر میں برطانوی ہندوستان کے وقت سے لے کر اب تک کے آبادی کے اعدادوشمار دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ 1947ء میں ریاست جموں وکشمیر پر بھارت کے قبضے کے بعد سے ریاست میں آبادی کی واضح اکثریت رکھنے والے مسلمانوں کی آبادی کے تناسب میں بتدریج نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔ 1901ء میں مسلمانوں کی شرح آبادی 74.16 فیصد تھی، 1911ء کی مردم شماری میں 75.94 فیصد، 1941ء میں 75.97 فیصد تھی جو 2011ء کی آخری مردم شماری میں نمایاں طور پر کم ہو کر 68.31 رہ گئی ہے۔ 1901ء کی مردم شماری میں ریاست کشمیر اور جموں کی آبادی 2,905,578 تھی۔ ان میں سے 2,154,695 (74.16%) مسلمان، 689,073 (23.72%) ہندو، 25,828 (0.89%) سکھ اور 35,047 (1.21%) بدھسٹ یعنی 935 (0.032%) دیگر تھے۔ ہندو بنیادی طور پر جموں میں پائے جاتے تھے، جہاں وہ آبادی کا 60% سے کچھ کم تھے۔ برطانوی ہندوستانی سلطنت کی 1911ء کی مردم شماری میں کشمیر اور جموں کی کل آبادی بڑھ کر 3,158,126 ہوگئی تھی۔ ان میں سے 2,398,320 (75.94%) مسلمان، 696,830 (22.06%) ہندو، 31,658 (1%) سکھ اور 36,512 (1.16%) بدھسٹ تھے۔ برٹش انڈیا میں آخری مردم شماری 1941ء میں ہوئی جو 1931ء کے جائزے پر مشتمل تھی، اس کے مطابق ریاست کی کل آبادی 3,945,000 تھی، اس میں مسلمانوں کی آبادی 2,997,000 یعنی کل آبادی کا 75.97 تھی جبکہ ہندو آبادی 808,000 یعنی کل آبادی کا 20.48 فیصد، سکھ آبادی 55,000 یعنی کل آبادی کا 1.39 فیصد۔ یکم مارچ 2001ء ء کی مردم شماری کے مطابق مقبوضہ جموں وکشمیر کی کل آبادی ایک کروڑ 69 ہزار 917 ہے جبکہ 1981ء کی مردم شماری کے مطابق یہ آبادی 59 لاکھ 87 ہزار 399 تھی۔ 2011ء کی مردم شماری کی تفصیلات کے مطابق جموں وکشمیر کی آبادی 1.25 کروڑ ہے، جوکہ 2001ء کی مردم شماری میں 1.01 کروڑ کے اعدادوشمار سے زیادہ ہے۔ تازہ ترین مردم شماری کے اعدادوشمار کے مطابق جموں وکشمیر کی کل آبادی 12,541,302 ہے۔ اندازے کے مطابق 2023ء میں ایک کروڑ 56 لاکھ ہے۔ جموں وکشمیر کے مذہبی مردم شماری کے اعدادوشمار تازہ ترین مردم شماری کے مطابق ریاست جموں وکشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ جموں وکشمیر کی آبادی کا 68.31 فیصد مسلمان ہیں۔ مقبوضہ ریاست جموں وکشمیر کے 22 میں سے 17 اضلاع میں مسلم اکثریتی مذہب ہے، 4 اضلاع میں ہندو اکثریت میں ہیں۔ مقبوضہ ریاست جموں وکشمیر میں مسلم آبادی کل آبادی 1.25 کروڑ میں سے 85.67 لاکھ، یعنی 68.31 فیصد مسلمان ہیں۔ جموں وکشمیر میں عیسائی آبادی 35 ہزار یعنی کل آبادی کا 0.28 فیصد ہے۔ ریاست جموں وکشمیر میں ہندو اقلیت ہیں جو کل آبادی کا 28.44 فیصد ہیں۔
بھارت نے یکطرفہ اور غیرقانونی طور پر مقبوضہ جموں وکشمیر کی حیثیت کو ایک ریاست سے تبدیل کرکے مرکز کے زیرانتظام علاقوں میں جموں وکشمیر ری آرگنائزیشن ایکٹ۔2019ء کے ذریعے کردیا۔ بعدازاں متعدد ترامیم کے ذریعے اپریل 2020ء میں ہندوستان نے درجنوں مقامی ریاستی قوانین میں تبدیلیاں کیں، جس کا مقصد ریاست کی موجودہ آبادی میں تبدیلیاں لانا تھا۔ ری آرگنائزیشن ایکٹ 2019ء کے ذریعے انڈین غیرقانونی طور پر مقبوضہ جموں وکشمیر کے الحاق کا بھارتی اقدام اقوام متحدہ کی قراردادوں اور بین الاقوامی قانون کی صریح خلاف ورزی ہے۔ بین الاقوامی قانون کی روح کو سمجھنا اس کے حقیقی اطلاق کے لئے ضروری ہے۔ نئے ڈومیسائل قوانین نے غیرکشمیری ہندوؤں کو کشمیری ڈومیسائل حاصل کرنے کی اجازت دی ہے۔ اڈاپٹیشن آف اسٹیٹ لاز آرڈر 2020ء میں کشمیری قومیت کی نئی تعریف وضع کی گئی ہے۔ نئے معیارات کے مطابق کوئی بھی ”جس نے جموں وکشمیر کے مرکز کے زیرانتظام علاقے میں پندرہ سال کی مدت کے لئے قیام کیا ہو یا سات سال کی مدت سے تعلیم حاصل کی ہو اور مرکز کے زیرانتظام علاقے میں واقع کسی تعلیمی ادارے میں 10ویں یا 12ویں جماعت کے امتحان میں شرکت کی ہو۔ جموں وکشمیر کے یا جو جموں اور کشمیر کے مرکز کے زیرانتظام علاقے میں ریلیف اور بحالی کمشنر (مہاجر) کے ذریعہ ایک مہاجر کے طور پر رجسٹرڈ ہے۔ کشمیریوں کی شناخت (کشمیریت) اور ان کی ریاستی حیثیت کو اڈاپٹیشن آف اسٹیٹ لاز آرڈر 2020ء کے ذریعے ختم کردیا گیا ہے۔ جموں وکشمیر تنظیم نو ایکٹ 2019ء سے حاصل کرنے کے لئے بھارت کا تیسرا ہدف ریاست میں آبادیاتی تبدیلیاں کرنے کے طویل انتظار کے ایجنڈے پر عمل درآمد کرنا ہے تاکہ مسلمانوں کی آبادی کے فیصد کو کم کیا جاسکے تاکہ ہندوؤں، غیرکشمیریوں کو ریاست کے کئی حصوں میں آباد کیا جاسکے۔ بھارتی حکومت کے نئے ڈومیسائل قوانین کا نفاذ جموں وکشمیر تنظیم نو ایکٹ 2019ء جو باضابطہ طور پر 31 اکتوبر 2019ء کو نافذ کیا گیا تھا، ہندوستان کی وزارتِ داخلہ نے مقبوضہ جموں وکشمیر میں 25 سے زیادہ قوانین کو منسوخ کرکے ان کی جگہ نئے قوانین نافذ کئے، جن میں اسٹیٹ سبجیکٹ، ڈومیسائل قوانین میں تبدیلی بھی شامل ہے۔ مقبوضہ جموں وکشمیر کے لئے نئی ترامیم متعارف سے کوئی بھی بھارتی شہری مقبوضہ جموں وکشمیر میں جائیداد خرید سکے گا۔ ہندوستانی وزارتِ داخلہ کے ایک نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ نیا قانون، یونین ٹیریٹری آف جموں وکشمیر کی تنظیم نو (مرکزی قوانین کی موافقت) تھرڈ آرڈر 2020ء فوری طور پر نافذالعمل ہوگا۔ اس نوٹیفکیشن سے پہلے ہندوستانی مقبوضہ کشمیر کے صرف ”مستقل باشندے“ ہی خطے میں جائیداد خرید سکتے تھے، اب یہ شق ہٹا دی گئی ہے۔
بھارت کی ایک سرکاری رپورٹ کے مطابق جموں اور کشمیر کی حکومت نے مرکز کے زیرانتظام مقبوضہ جموں وکشمیر میں تقریباً 4 لاکھ ڈومیسائل سرٹیفکیٹ جاری کئے ہیں۔ 1947ء میں پاکستان سے نکل کر جموں ڈویژن میں آباد ہونے والے ہندوؤں کو تقریباً 55,931 ڈومیسائل سرٹیفکیٹ جاری کئے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک پسماندہ ہندو برادری والمیکی کے 2,754 افراد اور تقریباً ایک ہزار گورکھوں کو بھی ڈومیسائل سرٹیفکیٹ جاری کئے گئے ہیں۔ شمالی ہند کے انگریزی روزنامہ ”دی ٹریبیون“ نے ایک اعلیٰ ہندوستانی عہدیدار پون کوتوال کے حوالے سے بتایا کہ تقریباً 400,000 لوگوں کو ڈومیسائل سرٹیفکیٹ دیئے گئے ہیں۔ 2022ء میں بھارتی حکومت نے مقبوضہ جموں کے ریوینوافسران کو یہ اختیار دیا کہ ان تمام لوگوں کو رہائش کا سرٹیفکیٹ جاری کریں جو جموں شہر میں ایک سال سے زیادہ عرصے سے مقیم ہیں تاکہ انتخابی فہرستوں کی جاری خصوصی سمری نظرثانی میں ان کے داخلے کو آسان بنایا جاسکے۔ ضلع الیکشن آفیسر اور ڈپٹی کمشنر جموں، اونی لواسا نے ایک حکم نامہ جاری کیا کہ ایسے رہائشیوں کو ووٹر لسٹوں میں شامل کیا جائے جو ایک سال سے جموں میں مقیم ہیں اور اسی سال 15 ستمبر کو نئے ووٹروں کے اندراج، حذف کرنے، درست کرنے اور ووٹروں کی تبدیلی کے لئے انتخابی فہرستوں کی خصوصی سمری نظرثانی کا آغاز کیا گیا۔ اس کا مقصد ریاستی اسمبلی میں جموں کی سیٹوں میں اضافہ کرنا ہے تاکہ ریاستی اسمبلی میں مسلمانوں کے اکثریتی خطے وادی کشمیر کی اسمبلی سیٹوں پر غیرمسلم اکثریتی خطے جموں کو حاوی کرتے ہوئے مقبوضہ جموں وکشمیر اسمبلی میں ”بی جے پی“ کی حکومت قائم کی جاسکے۔ اس عمل کے ذریعے جموں میں 20 سے 25 لاکھ نئے ووٹروں کا اندراج کیا گیا ہے اور جموں کی اسمبلی سیٹوں میں 6 سیٹوں کا اضافہ بھی کردیا گیا ہے۔
نئی دہلی کے 5 اگست 2019ء کو جموں وکشمیر کی نیم خودمختار حیثیت کو ختم کرنے اور اس کے بعد اسے بھارتی یونین کے زیرانتظام علاقے میں تبدیل کرنے کے اقدام کے بعد مقبوضہ کشمیر سے باہر کے سرمایہ کاروں کے لئے ”لینڈ بینک“ بنانے کی کوششیں تیز کردی ہیں۔ اس مقصد کے لئے وادی کشمیر میں 7% سے زیادہ سرکاری اراضی کی نشاندہی کی جا چکی ہے۔ اس سلسلے میں 14 ہزار ایکڑ سے 20 ہزار ایکڑ اراضی کی نشاندہی کا عمل مکمل کیا جا چکا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر دریاؤں، ندی نالوں اور گیلی زمینوں کے سیلابی میدانوں میں یا اس سے ملحق ہیں۔ حالیہ مہینوں میں وادی کشمیر کے 10 اضلاع میں سرکاری ملکیتی اراضی کی دستیابی کے بارے میں معلومات مرتب کی گئی ہیں۔ وہ کل 1,624,162 کنال یعنی 203,020 ایکڑ ہے۔ اراضی کی یہ نشاندہی بھارتی سرمایہ کاروں کی طرف سے مقبوضہ کشمیر میں بڑی صنعتیں لگانے کے لئے کی گئی ہے۔ اراضی کی نشاندہی کا یہ عمل اب بھی جاری ہے۔ نومبر 2020ء کو ”اسکل ٹائمز“ اخبار کے پونے ایڈیشن نے جموں وکشمیر کے ڈوڈا ضلع کے ڈپٹی کمشنر ساگر ڈوئیفوڈ کے حوالے سے کہا، ”مہاراشٹر کے ساتھ ساتھ ملک کے دیگر حصوں سے کئی سرمایہ کار جموں اور کشمیر میں سرمایہ کاری کرنے کے خواہشمند ہیں اور یہ آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد ہی ممکن ہوا ہے۔“ مہاراشٹر کی ریاستی حکومت کو مقبوضہ کشمیر کے ضلع اننت ناگ اسلام آباد کے پہلگام علاقے میں زمین کی الاٹمنٹ کی گئی ہے اور کچھ بڑے کاروباری گروپوں نے کشمیر میں کاروبار قائم کرنے میں اپنی دلچسپی ظاہر کی ہے۔ اس کے علاوہ مقبوضہ کشمیر یں جنگلی حیات کی پناہ گاہ سے ملحقہ کھنمو میں چار مزید سیمنٹ فیکٹریوں کو کام کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ کشمیر میں آبادیاتی تبدیلیاں اسٹیٹ لاز آرڈر 2020ء کے نفاذ پر بھارتی پارلیمنٹ کے ایک سینئر ”بی جے پی“ رکن مسٹر سبرامنیم سوامی نے واضح طور پر کشمیر کے لئے بی جے پی حکومت کے مستقبل کے منصوبوں کو بیان کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان کی کسی بھی ریاست میں مسلمانوں کی آبادی 30 فیصد سے زیادہ نہیں ہونی چاہئے۔ اس طرح کشمیر اس سے مستثنیٰ کیسے ہوسکتا ہے۔ مسٹر سوامی آرٹیکل 370 اور آرٹیکل 35A کو متعدد سطحوں پر کالعدم کرنے کے لئے ایک طریقہ کار وضع کرنے کے لئے ہندوستانی وزیرداخلہ امیت شاہ کے ساتھ مل کر کام کررہے ہیں۔ انہوں نے ترامیم اور نئے ڈومیسائل قوانین کا جواز پیش کیا اور واضح طور پر بڑے پیمانے پر ریاست کی ڈیموگرافی کو تبدیل کرنے کا اشارہ دیا۔ بھارت پہلے ہی وادی کی آبادی کو تبدیل کرنے کے لئے ایک جامع حکمت عملی پر عمل پیرا ہے، اس حکمت عملی کے چار حصے ہیں، سب سے پہلے وادی کے اہم علاقوں میں سابق فوجیوں کی کالونیوں کا قیام جہاں ہندوستانی سیکیورٹی فورسز کے ریٹائرڈ افسران اور جوانوں کو بتدریج آباد کیا جائے گا۔ ہندوستان کے کئی حصوں سے اس ریٹائرڈ فوجی کو نئے ڈومیسائل قوانین کے تحت قانونی حیثیت ملے گی، جو مقبوضہ جموں وکشمیر میں 15 سال کی مدت کے لئے خدمات انجام دینے والے کسی بھی شخص کو ڈومیسائل کی اجازت دیتا ہے۔ دوسرا کشمیری پنڈتوں کے لئے کالونیاں بنانے کے لئے 17000 کنال سے زیادہ اراضی مختص کی گئی ہے۔ تیسرا بھارت نے پہلے ہی ہندوؤں کو ڈومیسائل جاری کرنا شروع کردیا ہے، جن کے آباؤاجداد مغربی پاکستان سے ہجرت کرکے آئے تھے۔ فی الحال جموں میں رہنے والے ان ہندوؤں کو وادی کے مختلف حصوں میں آباد کیا جارہا ہے۔ چوتھا مقبوضہ جموں وکشمیر میں مختلف ہندو عبادت گاہوں کو زمین کی الاٹمنٹ، امرناتھ شرائن بورڈ کو 2008ء میں 800 کنال اراضی دی گئی تھی جس کی وجہ سے پوری ریاست میں بڑے پیمانے پر کشمیریوں کی بغاوت ہوئی تھی۔ یہ جنگل کی زمین ہے جسے ہندوستان کے مختلف حصوں سے ہندو آبادی کی آبادکاری کے لئے میں آبادیاتی تبدیلیاں لانے کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں آبادی کا تناسب تبدیل کرنے سمیت تمام اقدامات سے کیا حاصل کرنا چاہتا ہے اور بھارت کے ان اقدامات سے باشندگان جموں وکشمیر کو کن کن نقصانات اور تباہ کن صورتِ حال سے دوچار ہونا پڑ سکتا ہے۔ مقبوضہ جموں وکشمیر میں 1988ء سے بھارت کے خلاف آزادی کی بے مثال تحریک آزادی شروع ہونے کے بعد بھارت کشمیریوں کے خلاف بھرپور فوجی طاقت سمیت تمام ریاستی اداروں کی مدد سے انتہائی نوعیت کے انسانیت سوز اقدامات کا حربہ استعمال کرتا چلا آر ہا ہے۔ 5 اگست 2019ء کے اقدام سے پہلے ہی بھارت نے مزید تین سے چار لاکھ نیم فوجی دستوں کو مقبوضہ کشمیر میں متعین کیا اور عالمی ذرائع تصدیق کررہے ہیں کہ مقبوضہ کشمیر میں تقریباً 10 لاکھ بھارتی فوج متعین ہے اور مقبوضہ کشمیر دُنیا کا وہ واحد خطہ ہے کہ جہاں اتنی بڑی تعداد میں فوج حالت جنگ کی طرح نہتے شہریوں کے خلاف کارروائیوں میں مصروف ہے۔ گزشتہ 30 سال میں ایک لاکھ سے زائد کشمیری بھارت فورسز کے ہاتھوں شہید کئے گئے ہیں، ہزاروں کی تعداد میں کشمیری بھارتی تشدد سے معذور ہوچکے ہیں، ہزاروں قید، ہزاروں لاپتہ، ہزاروں عصمت دری کے واقعات، بھارتی فوج کے ہاتھوں ہزاروں کی تعداد میں کشمیریوں کو شہید کرکے اجتماعی قبروں میں دفن کرنا، بھارتی فورسز کے ہاتھوں درجنوں کی تعداد میں ایک ایک واقعہ میں قتل عام کے متعدد واقعات اور بھارتی فوج کو کشمیریوں کے قتل، تشدد، تباہی کے واقعات میں مکمل تحفظ فراہم کرنے سے متعلق خصوصی کالے قوانین کا نفاذ۔ ان تمام اقدامات کے باوجود بھارت کشمیریوں کے جذبہ آزادی کو کچلنے میں ناکام چلا آرہا ہے۔ اس صورتِ حال میں مقبوضہ کشمیر میں آبادی کے تناسب میں تبدیلی کے بھارتی اقدامات سے مقبوضہ جموں وکشمیر کے ریاستی باشندے اپنی ہی وطن میں اقلیت میں تبدیل ہوجائیں گے، ان کی زمینوں پر بھارتی افراد کا قبضہ ہوجائے گا، مقامی سرکاری ملازمتوں پر بھارتی افراد کا غلبہ ہوجائے گا، مقامی صنعت وتجارت بھارتی افراد کے ہاتھوں میں چلی جائے گی، ریاست کشمیر کی ہزاروں سال کی مخصوص اور منفرد تہذیب وثقافت پر بھارت کے مختلف خطوں کے افراد کے طرز معاشرت کا غلبہ ہوجائے گا اور ریاست کے مسلمان اقلیت میں تبدیل ہونے کے بعد بھارت کے مسلمانوں کی طرح انتہاپسند ہندوؤں کی انسانیت سوز پُرتشدد کارروائیوں کا نشانہ بننا شروع ہوجائیں گے۔ بھارت کے ان اقدامات سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق ریاست جموں وکشمیر میں رائے شماری کرانے کا مقصد ہی بھارتی تخریب کاری اور دہشت گردی کی نظر ہوجائے گا۔