آل پارٹیز حریت کانفرنس کی جانب سے جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کئے جانے کے تین سال مکمل ہونے پرکشمیریوں کی طرف سے سری نگراور دوسرے علاقوں میں احتجاجی ہڑتال اور مظاہرے کئے جائیں گے تو دوسری جانب پاکستان سمیت دُنیا بھر میں خصوصی تقاریب اور سیمینارز کا انعقاد ہوگا جن کے ذریعے بھارتی ریاستی دہشتگردی کو دنیا کے سامنے بے نقاب کیا جائے گا
حبیب اللہ قمر
آل پارٹیز حریت کانفرنس نے جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کئے جانے کے تین سال مکمل ہونے پر پانچ اگست کو یوم استحصال اور یوم سیاہ کے طور پر منانے کا اعلان کیا ہے۔ کشمیریوں کی طرف سے سری نگراور دوسرے علاقوں میں احتجاجی ہڑتال اور مظاہرے کئے جائیں گے تو دوسری جانب پاکستان سمیت دنیا بھر میں خصوصی تقاریب اور سیمینارز کا انعقاد ہوگا جن کے ذریعے بھارتی ریاستی دہشت گردی کو دُنیا کے سامنے بے نقاب کیا جائے گا۔ گزشتہ برس بھی حریت کانفرنس کی جانب سے دس روزہ احتجاجی کیلنڈر جاری کئے جانے پر سری نگر کی جانب بڑا احتجاجی مارچ کیا گیا اور ہر شہر و علاقے میں سیاہ پرچم لہراتے ہوئے پیغام دیا گیا کہ کشمیر کے بہادر لوگوں کی تحریک آزادی کے ساتھ غیرمتزلزل وابستگی بدترین ظلم و دہشت گردی کے باوجود اورزیادہ مضبوط و مستحکم ہوئی ہے اور کشمیریوں کی قربانیوں نے بلاشبہ بھارت کے مذموم منصوبے خاک میں ملا دیئے ہیں۔ امسال بھی حریت کانفرنس نے 5 اگست کی آمد پر احتجاج کا اعلان کیا اور کشمیری تاجروں، ملازمین، دانشوروں، صحافیوں، وکلاء، مزدوروں اور دوسرے شعبہ جات سے تعلق رکھنے والی تنظیموں اور شخصیات کی جانب سے اس احتجاج کی مکمل حمایت کا اعلان کیا ہے تو بھارتی حکومت اور فوج نے ان کے خلاف مذموم ہتھکنڈے شروع کر دیئے ہیں۔ نام نہاد سرچ آپریشن کے نام پر جگہ جگہ سے حریت کانفرنس اور انسانی حقوق سے وابستہ کارکنان کی پکڑ دھکڑ شروع کردی گئی ہے اور انہیں پولیس تھانوں اور ٹارچر سیلوں میں بند کیا جارہا ہے جہاں ان کے ساتھ غیرانسانی سلوک روا رکھا جا رہا ہے۔
کشمیریوں کی طرف سے یومِ استحصال کا اعلان مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت والی دفعات ختم کئے جانے کے تین سال مکمل ہونے پر کیا گیا ہے۔ ان دفعات کے تحت کشمیر کی ایک الگ شناخت اور حیثیت تھی جسے مودی سرکار نے ایک غیرقانونی اور غیرآئینی اقدام کے ذریعے ختم کردیا۔ آرٹیکل 370 اور 35 اے والی دفعات بھارت کی طرف سے جموں کشمیر میں آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تھیں اور بھارت ہر قسم کی کوششوں کے باوجود اپنے مذموم منصوبوں میں ناکامی سے دوچار تھا۔ اگست 2019ء میں بھارت نے جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت والی دفعات ختم کرنے جیسا خوفناک کھیل کھیلا اور مقبوضہ وادی کو دو حصوں میں تقسیم کر کے وادی کشمیر کو لداخ سے الگ کردیا گیا۔ یہ دفعات ختم ہونے سے لاکھوں کی تعداد میں غیرکشمیریوں کو اس جنت ارضی میں آباد کرنے کی راہ ہموار ہوگئی اور بھارت اس وقت بڑی تیزی سے ہندوستانی ریٹائرڈ فوجیوں، تاجروں اور دوسرے شعبہ جات سے تعلق رکھنے و الے افراد کو وہاں بسانے کی کوششیں کررہا ہے۔ جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت والی دفعات کے تحت کوئی شخص صرف اسی صورت میں جموں کشمیر کا شہری ہوسکتا تھا اگر وہ یہاں پیدا ہوا ہو۔ کسی بھی دوسری ریاست کا شہری جموں کشمیر میں جائیداد نہیں خرید سکتا تھا، اسی طرح نہ وہ یہاں کا مستقل شہری بن سکتا اور نہ ہی ملازمتوں پر حق رکھتا تھا۔ یہی آرٹیکل 35 اے جموں کشمیر کے لوگوں کو مستقل شہریت کی ضمانت دیتا تھا۔ آرٹیکل 370 کے مطابق یہ طے تھا کہ تین معاملات بھارت کی مرکزی حکومت کے پاس رہیں گے جن میں سیکیورٹی، خارجہ امور اور کرنسی شامل ہیں جبکہ اس کے علاوہ باقی تمام اختیارات جموں کشمیر حکومت کے پاس رہیں گے۔ اس آرٹیکل کے خاتمے کے بعد اقوام متحدہ کی جموں کشمیر کے حوالے سے ان قراردادوں کی رہی سہی اہمیت بھی ختم کرنے کی کوشش کی گئی جن کے مطابق جموں کشمیر کو متنازع علاقہ قرار دیا گیا اور پاکستان اور بھارت کو کہا گیا تھا کہ کشمیریوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے لئے رائے شماری کا حق دیا جائے۔ یعنی دیکھا جائے تو یہ دفعات ختم کر کے تحریک آزادی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی۔ بھارت سرکار نے دفعات ختم کرتے وقت پورے کشمیر کو فوجی چھاؤنی میں تبدیل کر کے حریت کانفرنس کی ساری قیادت کو جیلوں میں ڈال دیا تاکہ کوئی ان کی قیادت نہ کرسکے مگر آفرین ہے کشمیریوں پر کہ وہ سبھی کشمیری رہنماؤں کے جیلوں میں بند ہونے کے باوجود انتہائی منظم انداز میں تاحال جدوجہد آزادی جاری رکھے ہوئے ہیں اور بھارت ہر قسم کے حربے آزمانے کے باوجود کشمیریوں کو جھکانے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔
پانچ اگست کے متنازع اقدام کے بعد سابق وزیراعظم عمران خان کی طرف سے بین الاقوامی سطح پر مظلوم کشمیریوں کے حق میں بلاشبہ بھرپور آواز بلند کی گئی جسے کشمیری عوام نے بھی سراہا اور انہیں یہ بات محسوس ہوئی کہ وہ تنہا نہیں ہیں بلکہ پاکستان مکمل طور پر اہل کشمیر کی جدوجہد آزادی کے ساتھ ہے اور ان کی ہرممکن مدد وحمایت جاری رکھے گا۔ افسوس کی بات ہے کہ امسال 5 اگست ایسے موقع پر آیا ہے کہ پاکستان میں کوئی مضبوط حکومت نہیں ہے اور سبھی سیاسی لیڈر ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے اپنا سارا زور لگانے میں مصروف ہیں۔ انہیں کوئی فکر نہیں ہے کہ حالیہ دنوں میں بھارت کس طرح جموں کشمیر کی متنازع حیثیت کو نظرانداز کرتے ہوئے مسلسل غیرقانونی حرکتوں کا ارتکاب کررہا ہے۔ مودی حکومت نے 15 اگست کو نام نہاد یوم آزادی کے موقع پر مقبوضہ کشمیر کے ہر گھر میں بھارتی ترنگا لہرانے کا اعلان کیا ہے اور اس حوالے سے کشمیری تاجروں کو مجبور کیا جارہا ہے کہ وہ 20 روپے فی ترنگا کے حساب سے پیسے جمع کروائیں اور یہ جھنڈے خرید کو لوگوں میں تقسیم کئے جائیں۔ کشمیری عوام کی جانب سے اگرچہ اس مہم کو ناکام بنا دیا گیا ہے اور سرکاری عمارتوں کے علاوہ کسی جگہ بھارتی ترنگا لہرانے کا خواب پورا نہیں ہوسکے گا لیکن بھارتی حکومت اپنی مذموم کوششوں سے کسی طور پر بھی باز نہیں آرہی۔ اسی طرح حال ہی میں بھارت کے شہر چنائی میں 44 ویں شطرنج اولمپیاڈ کو سیاسی رنگ دینے کی کوشش کی گئی اور اس ایونٹ کی مشعل بردار ریلی کو غیرقانونی طور پر مقبوضہ کشمیر سے گزار کر اس کی عالمی سطح پر تسلیم شدہ متنازع حیثیت کو نظرانداز کیا گیا۔ اسی طرح اور بھی کئی ایک ایسے اقدام ہیں جو حالیہ دنوں میں کشمیریوں کی تحریک آزادی کے خلاف اٹھائے گئے ہیں لیکن پاکستانی حکومت کی جانب سے بھارت کے خلاف زوردار آواز بلند نہیں کی جاسکی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جن کے ایجنڈے میں بھارت سے تجارت اور دوستی شامل ہو اور اقتدار سنبھالتے ہی جن کی طرف سے سب سے پہلے بھارت کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھانے کی باتیں کی جائیں، ان سے جدوجہد آزادی کشمیر کے حوالے سے کسی مضبوط کردار کی توقع نہیں کی جاسکتی۔
تنازع کشمیر سات دہائیوں سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر موجود ہے۔ بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ متنازع علاقہ میں اگر غاصب بھارت کشمیریوں کی نسل کشی اور انسانی حقوق کی پامالیوں سے باز نہیں آرہا تو اس درندگی کے خلاف آواز اٹھانا حکومت پاکستان کی بنیادی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ کشمیری عوام پاکستان کو اپنا سب سے بڑا وکیل سمجھتے ہیں اوران کی امید بھری نظریں ہمیشہ پاکستان کی جانب ہوتی ہیں۔ حالیہ دنوں میں جب بھارت مقبوضہ کشمیر کے ہر گھر میں ترنگا لہرانے کی باتیں کر رہا ہے پوری کشمیری قوم پاکستان کے یوم آزادی پر کشمیر کے گلی کوچوں میں وطن عزیز کا سبز ہلالی پرچم لہرانے کی تیاریاں کر رہی ہے۔ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا۔ اس لحاظ سے مظلوم کشمیریوں کی ہرممکن مدد وحمایت کرنا پاکستان کی ریاستی پالیسی ہونا چاہئے اور ہمیں اپنی قومی کشمیر پالیسی پر ہر صورت کاربند رہنا چاہئے تاکہ کشمیریوں کو حوصلہ ملے اور ان کی تحریک آزادی کو کمزور کرنے کی بھارتی سازشیں ناکام بنائی جاسکیں۔ حکومت پاکستان کو 5 اگست کو یوم استحصال منائے جانے کے موقع پر بھی مظلوم کشمیریوں کے حق میں تمام بین الاقوامی فورمز پر بھرپور آواز بلند کرنی چاہئے۔ بھارت کی جارحانہ پالیسیوں کے نتیجے میں کشمیریوں کی جدوجہد آزادی دن بدن اور زیادہ مضبوط ہورہی ہے اور وہ وقت دور نہیں ہے جب جنت ارضی کشمیر کو بھارت کے غاصبانہ قبضہ سے نجات ملے گی اور کشمیری عوام ان شاء اللہ آزاد فضا میں سانس لے سکیں گے۔