Friday, January 31, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

پاراچنار کی اہمیت

سید زین العابدین

فاٹا کی سات ایجنسیوں میں کرم ایجنسی کی اسٹرٹیجک اہمیت ہے، کیونکہ افغانستان کے تین صوبوں، ننگرہار، خوست اور پکتیا کی سرحدیں صدر مقام پاراچنار سے متصل ہیں۔ 13 کلومیٹر کی سرحدی پٹی پر کہیں کہیں چیک پوسٹ ہے بقیہ بارڈر دشوار گزار پہاڑی سلسلے کی وجہ سے کھلا ہوا ہے۔ کُرم ایجنسی کا کُل رقبہ 3380 اسکوائر کلومیٹر ہے۔ جس میں پہاڑی سلسلے کے ساتھ طویل میدانی علاقہ بھی ہے۔ اندرون ملک اس کی سرحدیں شمالی وزیرستان، خیبر، اورکزئی ایجنسی سے ملتی ہیں۔ فاٹا کے تمام علاقوں کی اہمیت ہے لیکن کرم ایجنسی کی اسٹرٹیجک اہمیت اس لئے زیادہ ہے کہ اس کی سرحدیں اُس ملک کے تین صوبوں سے ملتی ہیں جس میں نیٹو کے پرچم تلے امریکی افواج موجود ہیں، جہاں امریکہ نے 13 فوجی اڈے بنا رکھے ہیں۔ اس کے علاوہ تحریک طالبان، القاعدہ اور داعش جیسی انتہاپسند تنظیمیں موجود ہیں جب دسمبر 2001ء میں امریکی افواج نے تورا بورا پر شدید بمباری کی تھی تو القاعدہ اور طالبان کمانڈر کی اکثریت کرم ایجنسی میں پناہ گزین ہوئی تھی۔ اس سے قبل روس افغان جنگ کے دوران یہ علاقہ نام نہاد جہادیوں کی راہداری بنا ہوا تھا۔ چونکہ افغانستان سے پاراچنار میں داخل ہونے والی پہلی سڑک خرلاچی ہے۔ مزید کاراخیلا بڑکی اور تری منگل ہیں۔ یہ تو وہ نام ہیں جہاں ایف سی اور لیوی کی چیک پوسٹ ہیں جہاں کوئی سیکورٹی نہیں ہے، وہاں سے داخل ہونے میں تو کوئی رکاوٹ ہی نہیں ہے۔ کرم ایجنسی کی آبادی 1998ء کی مردم شماری کے مطابق 448,310 نفوس پر مشتمل تھی۔ ابھی نئی مردم شماری کے اعدادوشمار نہیں آئے ہیں۔ اندازاً اس کی آبادی 6 سے 7 لاکھ کے درمیان ہوگی کیونکہ صرف پاراچنار شہر کی آبادی ہی تقریباً 3 لاکھ ہوچکی ہے۔ پاراچنار کا لٹریسی ریٹ غالباً پاکستان کے تمام شہروں میں سب سے زیادہ یعنی 100 فیصد ہے، پُرامن لوگ رہتے ہیں۔ جو کھیتی باڑی، کاروبار اور فوج کی ملازمت سے منسلک ہیں۔ کرم ایجنسی میں طوری، بنگش، اورکزئی، زازئی، مینگل، غلازئی اور پارا چمکنی قبائل آباد ہیں۔ طوری اور بنگش بڑے قبیلے ہیں۔ ضیاء الحق کے دور سے قبل ان قبائل میں مذہبی منافرت کا تصور بھی نہ تھا بلکہ ایک دوسرے میں شادیاں ہوئی تھیں۔ اس طرح مختلف قبائل میں رشتہ داریاں ہوگئی تھیں کیونکہ ایک کی بیٹی بیاہ کر دوسرے قبیلے میں گئی تھی تو دوسرے کا لڑکا پہلے قبیلے کا داماد تھا۔ مردِ مومن کے دور سے قبل یہاں قبائلی نظام پوری آب و تاب سے اپنی اچھائیوں اور بُرائیوں کے ساتھ نافذ تھا۔ پھر روس اور افغان جنگ کی وجہ سے نام نہاد جہاد کا کلچر پروان چڑھا تو اُس کی حدت نے اس سرد ترین علاقے کو نفرت کے شعلوں کی نذر کردیا۔ پاراچنار کے لوگ بہادر ہونے کے ساتھ مہربان اور رحم دل بھی ہیں، جب افغانستان کے بھگوڑے پناہ کے لئے کرم ایجنسی آئے تھے تو دیگر علاقوں کی طرح پاراچنار کے عوام بھی اُن کے مددگار بن گئے تھے۔ ان لوگوں کو اپنی دکانوں اور زمینوں پر ملازمتیں فراہم کیں۔ 28 ہزار کنال زرعی اراضی ٹھیکہ پر دیں، بعد میں ان ہی لوگوں نے زرعی زمینوں پر دیگر ہم مسلک قبائل کی ایما پر قبضہ کرلیا۔ اس ناجائز قبضے کو ایف سی اور لیوی کی بھی حمایت حاصل رہی، کیونکہ ان دونوں فورسز میں اورکزئی اور محسود قبائل کے افراد کی اکثریت ہے۔ پاراچنار میں پے درپے حملے سے یہ بات عیاں ہے کہ ’’را‘‘ اور این ٹی دی ایس کے گٹھ جوڑ کا منصوبہ یہ ہے کہ اسٹرٹیجک اہمیت کے اس علاقے پر کنٹرول حاصل کیا جاسکے۔ 4 اگست 2007ء میں عیدگاہ مارکیٹ پاراچنار کے پشاور فلائنگ کوچ اسٹینڈ پر خودکش دھماکے سے 12 افراد شہید اور درجنوں زخمی ہوئے تھے۔ خودکش بمبار کی شناخت غیور خان چمکنی کے نام سے ہوئی تھی۔ جس کا تعلق پاڑہ چمکنی کے علاقے تابئے تنگی سے تھا۔ اس شخص کا ایک رشتہ دار راولپنڈی کے ایک دھماکے میں ملوث ہونے پر حکومت کو مطلوب تھا۔ اس کے چند مہینے بعد ہی 16 فروری 2008ء کو پشاور اسٹینڈ کے ساتھ ڈاکٹر سید ریاض حسین کے الیکشن آفس کے سامنے بارود سے بھری کرولا کار کو دھماکے سے اڑا دیا گیا۔ جس سے 70 افراد شہید اور 100 سے زیادہ زخمی ہوئے تھے۔ چند سال سکون رہا پھر 17 فروری 2012ء کو کرمی بازار میں ایک اور دھماکہ کیا گیا جس میں 14 افراد شہید اور درجنوں زخمی ہوئے تھے۔ اس واقعہ کے بعد مقامی افراد نے احتجاج کیا تو ایف سی کے اہلکاروں نے پُرامن ہجوم پر گولیاں برسائیں جس سے مزید 24 افراد شہید اور 17 زخمی ہوئے تھے۔ اگست 2013ء کے رمضان المبارک میں پھر دو خودکش حملے ہوئے جس سے 47 افراد شہید اور 100 زخمی ہوئے۔ 2013ء ہی میں فرقہ وارانہ فسادات کی وجہ سے دکانیں بھی جلائی گئی تھیں۔ پھر 13 دسمبر 2015ء کو کباڑی مارکیٹ میں ریموٹ کنٹرول بم کے ذریعے دہشت گردی ہوئی جس سے کئی افراد شہید اور درجنوں زخمی ہوئے تھے۔ بڑھتی ہوئی دہشت گردی کو جواز بنا کر پاراچنار کے کرمی بازار، پنجابی بازار اور پاراچناری بازار کو ریڈ زون قرار دے کر تجارتی و کاروباری سرگرمیاں معطل کروا دی گئی تھیں۔ یعنی دہشت گردی کا شکار لوگوں سے معاشی دہشت گری بھی کی جانے لگی، یہی نہیں بلکہ پاراچنار کی سیکورٹی کے نام پر اس شہر کی حدود کے اطراف خندقیں کھود دی گئی تھیں۔ اس کے باوجود 21 جنوری 2017ء کو عیدگاہ مارکیٹ کے اندر نئی سبزی منڈی میں ریموٹ کنٹرول دھماکہ کیا گیا، جس سے 25 افراد شہید اور 73 زخمی ہوئے تھے۔ 2 ماہ 10 دنوں بعد 31 مارچ 2017ء کو پاراچنار کے نور بازار میں دھماکہ کیا گیا جس کے نتیجے میں 22 افراد جاں بحق اور 50 سے زائد زخمی ہوئے تھے اور اب 23 جون 27 رمضان المبارک جمعۃ الوداع کو پہلے ایک دھماکہ کیا گیا جب لوگ دھماکے سے زخمی ہونے والوں کی مدد کو پہنچے تو خودکش حملہ آور نے خود کو اڑا لیا، جس سے تقریباً 80 افراد جاں بحق اور 245 زخمی ہوئے۔ اس واقعہ کے بعد احتجاج کرنے والوں پر پھر گولیاں برسائی گئیں جس سے مزید 4 افراد کی شہادتیں ہوئیں اور متعدد زخمی ہوئے۔ ایک تو ظلم اوپر سے مزید ظلم، پارا چنار کے لوگ دھرنے پر بیٹھ گئے۔ 30 جون 2017ء کو آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ مذاکرات کے لئے پاراچنار پہنچے۔ مولانا مزمل حسین اور انجمن حسینیہ پاراچنار کے فقیر حسن کی قیادت میں 15 رکنی وفد نے اپنے 14 مطالبات پیش کئے جن میں سے بیشتر سیکورٹی سے متعلق تھے جسے آرمی چیف نے تسلیم کرلیا۔ اس طرح یہ پُرامن دھرنا ختم ہوا۔پاراچنار میں تسلسل کے ساتھ ہونے والے واقعات سے سوالات اٹھائے جانے لگے کہ جب شہر کے اطراف خندقیں کھود دی گئی ہیں، افغانستان سے آنے والے تینوں راستوں پر ایف سی اور لیوی کی چیک پوسٹ ہیں اور کوہاٹ سے پاراچنار جاتے ہوئے تقریباً 22 چیک پوسٹ آتی ہیں، تو پھر خودکش بمبار اور بارودی مواد گاڑی سمیت چھوٹے سے رقبے والے شہر میں کس طرح پہنچ جاتے ہیں۔ یقیناً ایف سی اور لیوی میں کالی بھیڑیں موجود ہیں، آرمی چیف نے ان کالی بھیڑوں سے نمٹنے اور پاک فوج کے دستوں کی تعیناتی کا اعلان کرتے ہوئے پاراچنار کے عوام کو پاکستان کی طاقت قرار دیا۔ پاراچنار کے عوام ہمارے سپہ سالار کی زبان سے نکلنے والے اعزازی جملوں کے حقدار ہیں، کیونکہ مٹھی بھر عوام جو چاروں طرف سے دہشت گردوں اور اُن کے سہولت کاروں سے گھرے ہوئے ہیں لیکن سبز ہلالی پرچم کو بلند رکھتے ہوئے دشمن کے عزائم کو ناکام بنا رہے ہیں۔ پاراچنار کا 2007ء سے 2011ء تک پاکستان کے دیگر علاقوں سے زمینی رابطہ منقطع رہا تھا کیونکہ دہشت گردوں نے سڑکوں پر اپنی چیک پوسٹ اور اپنے نادرا سینٹر بنا رکھے تھے۔ یہ تو پاک فوج کے آپریشنز کی وجہ سے دہشت گردوں کا خاتمہ ہوا ورنہ پاراچنار کے لوگوں پر نہ جانے کتنے ظلم کے پہاڑ توڑے جاتے۔ پاک فوج کے نئے دستوں کی تعیناتی سے پاراچنار کے عوام کو حوصلہ ملے گا اور وہ اُن کے شانہ بشانہ پاک وطن کے دفاع کا فریضہ پہلے سے بھی بڑھ کر ادا کرتے رہیں گے۔

مطلقہ خبریں