محسن فارانی
امریکی اپنے آپ کو لاکھ مہذب کہیں لیکن تہذیب کا ان سے کوئی واسطہ نہیں۔ دنیا میں جہاں کہیں بھی فساد، دہشت گردی اور خونریزی ہو رہی ہے اس میں کسی نہ کسی طرح امریکا کا ہاتھ ہے اور اندرونِ امریکا بھی کم و بیش روزانہ تعلیمی اداروں میں فائرنگ کے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ 20 مئی کی خبر کے مطابق گزشتہ 48 گھنٹوں میں فائرنگ کے متعدد واقعات ہوئے جن میں 21 افراد ہلاک اور 42 زخمی ہوئے اور ان میں سب سے ہلاکت خیز واقعہ ٹیکساس کے سانتا فی ہائی اسکول کا ہے۔ رقبے کے لحاظ سے امریکا کی دوسری بڑی ریاست ٹیکساس قاتلوں، دہشت گردوں اور غارت گروں کی ریاست بن کر رہ گئی ہے۔ ٹیکساس کا سب سے بڑا قاتل جارج واکر بْش ہے جو افغانستان اور عراق کے کم از کم بیس لاکھ مسلمانوں کا قاتل ہے۔ 2006ء میں بولیویا (جنوبی امریکا) کے پہلے ریڈ انڈین صدر ژوان ایوو مورالس آئما نے برملا کہا تھا: ’’میں دنیا میں ایک ہی دہشت گرد سے واقف ہوں اور اس کا نام جارج بْش ہے۔‘‘
22 نومبر 1963ء کو امریکا کے واحد کیتھولک صدر آئرش نژاد جان فٹز جیرالڈ کینیڈی کھلی کار میں ڈلاس (ٹیکساس) میں اپنی اہلیہ جیکولین کے ہمراہ طرفین کے تماشائیوں سے داد وصول کرتے جا رہے تھے کہ ایک عمارت سے گولیوں کی بوچھاڑ آئی جس سے کینیڈی ہلاک ہوگئے۔ قاتل لی ہاروے اوسوالڈ سابق میرین فوجی ایک پْرجوش کمونسٹ تھا۔ وہ پکڑا گیا اور اس پر قتل کی فردجرم عائد کی گئی مگر دو دن بعد جب اسے کاؤنٹی جیل منتقل کیا جا رہا تھا، اسے ایک نائٹ کلب کے مالک جیک روبی نے گولی مار کر ہلاک کردیا۔ جیک روبی پر قتل کے الزام میں مقدمہ چلا۔ وہ 1967ء میں جیل میں وفات پا گیا جبکہ وہ ازسرِنو مقدمہ چلائے جانے کا منتظر تھا۔ جسٹس وارن کمیشن نے قرار دیا تھا کہ صدر کینیڈی کا واحد قاتل اوسوالڈ ہی تھا۔ جیکولین نے بعد میں یونانی ارب پتی اوناسس سے شادی کرلی۔
مشرقی ٹیکساس کے شہر واکو (واکو ) میں 1993ء میں شاخ داؤدی (برانچ دویدین ) نامی فرقے کے پیروکار ایک عمارت میں قلعہ بند ہوگئے تھے۔ 28 فروری 1993ء کو فورسز نے عمارت پر ناکام دھاوا کیا جس میں چار فیڈرل ایجنٹ مارے گئے، محاصرہ 51 دن جاری رہا حتیٰ کہ 19 اپریل کو عمارت نذرِآتش کردی گئی۔ 70 محصورین عمارت میں جل مرے۔ 11 گرفتار ہوئے جن پر چار وفاقی ایجنٹوں کے قتل کا مقدمہ چلا، تاہم فروری 1994ء میں وہ سب بری ہوگئے۔
18مئی 2018ء کو ٹیکساس کے شہر ہیوسٹن کے قریب سانتا فی ہائی اسکول میں 17 سالہ نوجوان دمتریوس نے اندھادھند فائرنگ کر کے ایک استاد سمیت 10 طلبا و طالبات کو ہلاک اور دس کو زخمی کردیا۔ قاتل اسی اسکول کا طالبعلم تھا۔ ٹی وی چینلز نے ہیلی کاپٹروں کے ذریعے لئے گئے شاٹس میں دکھایا کہ اسکول کے طلبا مسلح پولیس اہلکاروں کے سامنے اپنے بیگز خالی کررہے تھے کہ پولیس کسی قسم کے اسلحے یا بارودی مواد کی عدم موجودگی کو یقینی بنانا چاہتی تھی۔ زخمیوں اور لاشوں کو ایئر ایمبولینس کے ذریعے قریبی اسپتال منتقل کیا گیا۔
طلبہ نے بتایا کہ صبح آٹھ بجے فائر الارم بجنے لگا، تاہم یہ واضح نہیں تھا کہ فائر الارم کیوں بجا۔ اسکول کے نئے طالبعلم ایوان سان میگوئل نے کہا کہ جمعے کی صبح میں اپنی آرٹ کلاس میں تھا کہ ایک طالبعلم کلاس میں آ دھمکا اور چلایا: ’’سرپرائز!‘‘ پھر وہ اچانک فائرنگ کرنے لگا۔ میں خوفزدہ ہوگیا اور میں نہیں جانتا تھا کہ گھر بھاگ جاؤں یا نہیں۔ آرٹ کلاس کی ایک طالبہ نے بتایا کہ کوئی شاٹ گن لیے کلاس میں داخل ہوا تھا۔ اس کی فائرنگ سے ایک لڑکی کے گھٹنے میں گولی لگی۔ میں نے حملہ آور کی طرف نہیں دیکھا کیونکہ میں بھاگ کر چھپ گئی تھی۔ ایوان نے بتایا: ’’جب دمتریوس نے دروازہ کھول کر ساتھی طالبعلم کائل کو گولی ماری تو وہ ہمارے لئے سرپرائز ہی تھا۔ پھر اس نے ایک گولی بیچارے کائل کے سینے میں داغ دی۔ خود میرے کندھے کو چھوتی ایک گولی گزر گئی۔ ٹوٹا شیشہ لگنے سے میرا گھٹنا زخمی ہوا۔ جب قاتل کلاس روم سے نکل گیا تو ہم نے دروازے کے آگے بنچ لگا کر اسے بند کردیا حتیٰ کہ پولیس آن پہنچی۔‘‘
بیلی سوبنو سکی اسکول کے عقب میں تھی جب اس نے فائرنگ کی آواز سنی۔ اسے اسکول میں تین ماہ پہلے کی ایک فائرنگ کا تجربہ تھا، لہٰذا وہ بھاگ نکلی اور سڑک پار کر کے ایک قریبی گیس اسٹیشن میں جا پناہ لی۔ 16 سال کی سوبنوسکی صدمے سے دوچار رہی۔ اس نے بتایا: ’’مجھے لگتا ہے کہ اس طرح سوسائٹی تباہ ہوجائے گی اور حالات کا معمول پر آنا مشکل ہوگا۔ میں قاتل کو تو نہیں جانتی مگر میں نے اسے اسکول کے اندر آتے جاتے دیکھا تھا۔ وہ دیکھنے میں شریف لڑکا لگتا تھا، تاہم اس کے زیادہ دوست نہیں تھے۔‘‘ جب وہ یہ بتا رہی تھی تو اس کا باپ جس کے سر پر چمکیلا کاؤ بوائے ہیٹ تھا، تمباکو چباتے ہوئے سڑک کے کنارے بار بار تھوک رہا تھا۔ سوبنوسکی کے نام سے ظاہر ہے کہ اس کے خاندان کا تعلق مشرقی یورپ کے کسی ملک سے ہے اور قاتل دمتریوس کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔
سانتا فی ہائی اسکول کے باہر قریبی کلیئر فالز ہائی اسکول کی گریجوایٹ لڑکی مقتولین سے ہمدردی کے پھول رکھنے اپنی سہیلی کے ہمراہ آئی ہوئی تھی۔ 20 سال کی کیلی کیسی نے بتایا: ’’ہم کولمبائن اسکول اور سینڈی ہْک اسکول میں قتلِ عام کے سانحات کا ذکر کیا کرتی تھیں۔ اب ویسا ہی سانحہ یہاں پیش آ گیا۔‘‘ مذکورہ دونوں امریکی اسکولوں میں حالیہ برسوں میں فائرنگ سے ہلاکت خیزی کے ہولناک ترین واقعات پیش آئے تھے۔ علاوہ ازیں چھ ماہ پہلے جنوبی ٹیکساس کے شہر سان انٹونیو کے قریب ایک گرجے میں ایک شخص نے وحشیانہ فائرنگ کر کے 25 افراد ہلاک کر دیئے تھے جن میں ایک حاملہ خاتون بھی شامل تھیں۔
سانتا فی ہائی اسکول کی فائرنگ میں ایک پاکستانی لڑکی بھی شہید ہوئی۔ کراچی سے تعلق رکھنے والی سبیکہ عزیز اسٹڈی ایکسچینج پروگرام کے تحت ٹیکساس گئی ہوئی تھی اور 9 جون کو اسے پاکستان واپس آنا تھا، مگر دمتریوس کی فائرنگ نے اس کی بھی جان لے لی۔ سبیکہ کے والد عبدالعزیز شیخ نے میڈیا سے گفتگو میں بتایا: کینیڈی لوگر یوتھ ایکسچینج اینڈ اسٹڈی اسکالر شپ پروگرام کے لئے چھ ہزار طلبہ و طالبات میں سے 75 کو منتخب کیا گیا تھا جن میں سبیکہ بھی شامل تھی۔ وہ تین بیٹیوں میں سب سے بڑی تھی اور گزشتہ سال 21 اگست کو دس ماہ کے لئے امریکا گئی تھی۔ مجھے سانتا فی اسکول میں فائرنگ کی اطلاع گزشتہ روز افطار کے بعد ملی۔ ہم نے فون پر رابطہ کرنے کی کوشش کی مگر سبیکہ نے فون نہیں اٹھایا۔ ایک دن پہلے فون پر اس سے بات ہوئی تھی اور اس نے کہا تھا کہ وہ سب کے لئے تحائف لے کر آئے گی۔‘‘ لیکن اے بسائے آرزو کہ خاک شدہ۔۔۔ اسلام آباد میں امریکی سفیر ڈیوڈ ہیل نے سبیکہ کے اہل خانہ سے بذریعہ فون تعزیت کا اظہار کیا۔
ریاست ٹیکساس کا رقبہ 2,68,596 مربع میل ہے اور آبادی 30 لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ اس کا دارالحکومت آسٹن ہے۔ ٹیکساس کے مشرق میں ریاست لوئزیانا، شمال مشرق میں ریاست آرکنساس، شمال میں ریاست اوکلاہوما، مغرب میں ریاست نیو میکسیکو، جنوب مشرق میں خلیج میکسیکو اور جنوب میں ملک میکسیکو واقع ہیں۔ دریائے ریو گرانڈے ٹیکساس میکسیکو سرحد پر بہتا ہے جبکہ دریائے ریڈ ٹیکساس کی شمالی سرحد بناتا ہے۔ 1682ء سے ٹیکساس میں ہسپانوی جانے شروع ہوئے۔ اس وقت یہاں کئی ریڈ انڈین قبائل رہتے تھے۔ ہسپانویوں نے ان قبائل کو کھدیڑ کر ٹیکساس کو بھی اپنی کالونی میکسیکو میں شامل کرلیا۔ 1821ء میں میکسیکو نے اسپین سے آزادی حاصل کرلی اور 15 سال بعد 1836ء میں میکسیکو کے خلاف ٹیکساس نے بغاوت کردی اور یہ ایک آزاد ملک بن گیا۔ ٹیکساس کا فاتح جرنیل سیم ہیوسٹن صدر ٹھہرا۔ پھر 1845ء میں امریکا نے چکر چلا کر ملک ٹیکساس کو نگل لیا اور اسے ریاست ہائے متحدہ امریکا میں ضم کرلیا گیا۔ امریکا میں تیل کا پہلا کنواں بھی ٹیکساس میں کھودا گیا تھا، ان دنوں ٹیکساس کی 30 فیصد آبادی سیاہ فام افریقی غلاموں پر مشتمل تھی۔ ٹیکساس میں تیل کی صنعت آج بھی سب سے بڑی صنعت ہے۔
ملحوظہ: اخبارات میں سانتا فی اسکول میں شہید ہونے والی پاکستانی لڑکی کا نام ’’سبیکا‘‘ چھپا جبکہ درست نام ’’سبیکہ‘‘ ہے۔ عربی نام سبیکہ کے معنی ہیں ’’سونے کی ڈلی‘‘۔ سبیکہ کی جمع سبائک ہے، چنانچہ عربوں کے انساب کی مشہور کتاب کا نام ’’سبائک الذہب‘‘ ہے۔ ایسے ہی فضّہ نام ہے جسے بگاڑ کر ’’فضا‘‘ لکھا جاتا ہے۔’’فضہ‘‘ کا معنی ہے چاندی اور’’ذہب‘‘ کا معنی ہے سونا۔ لیکن ہمارے ہاں ذہب سے عربی نام ذْہیب کو بگاڑ کر ذوہیب یا زوہیب لکھا جاتا ہے۔