Thursday, July 31, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

ٹھوس، مربوط، مستحکم خارجہ پالیسی کی تشکیل ناگزیر۔۔

ہمیں دیکھنا ہوگا کہ ہماری حکمت ِعملی کی کمزوری اور منقسم پالیسی سازی کے باعث دوست ملک ہم سے دور اور ہمارے دشمن بھارت کے قریب ہوتے جارہے ہیں، ہمارا دوست متحدہ عرب امارات بھارت کے ساتھ تجارتی و عسکری معاہدے میں شامل ہونے جارہا ہے، جس میں امریکا اور اسرائیل بھی شریک ہیں
ابرار بختیار
پاکستان سیاسی خلفشار، تقسیم، مارچ، مظاہروں، دھرنوں کی زد میں ہے، حکومت اور اپوزیشن میں خلیج دن بدن بڑھتی جارہی ہے، وزیراعظم، اپوزیشن رہنماؤں کے ساتھ بات کرنا تو کجا، ہاتھ ملانے، ساتھ بیٹھنے پر تیار نہیں، قومی سلامتی کی پارلیمانی کمیٹی کے اہم ترین اجلاس میں بھی وزیراعظم عمران خان شریک نہیں ہوئے کہ اگر وہ آئے تو انہیں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف، پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور دیگر قائدینِ حزب اختلاف سے ملنا، ہاتھ ملانا، ساتھ بیٹھنا اور بات کرنا پڑ جاتی، حالانکہ یہ اجلاس اتنا اہم اور خاص تھا کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ، انٹرسروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید اور دیگر عسکری حکام موجود تھے اور انہوں نے پاکستان کو درپیش اندرونی، علاقائی معاملات پر بہت ضروری بریفنگ دی، جس کا مقصد سیاسی قیادت کو مختلف معاملات خصوصاً تحریک لبیک پاکستان، کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ساتھ ہونے والے مذاکرات اور معاہدوں پر مشاورت اور اعتماد میں لینا تھا۔ اصولی، اخلاقی اور قومی ذمہ داری کے طور پر وزیراعظم کو اس اجلاس میں شریک ہونا اور قوم و ملک کو درپیش مسائل و معاملات پر حزبِ اختلاف کے ساتھ بات چیت اور اعتماد میں لینا اور ملک کے مفاد میں پالیسیوں پر متفقہ، متحدہ اور اجتماعی حکمت ِعملی اور منصوبہ بندی اختیار کرنی چاہئے تھی۔ اس سیاسی انتشار، باہمی اختلافات، جھگڑوں اور تنازعات کا نتیجہ ہے کہ پاکستان کو عالمی منظرنامے میں دشواریوں، مشکلات اور تنہائی جیسی صورتِ حال کا سامنا ہے۔ امریکا سے تعلقات کی نوعیت یہ ہے کہ صدر جوبائیڈن کو ایک سال ہونے کو آیا انہوں نے وزیراعظم عمران خان کو فون نہیں کیا، حالانکہ وہ اپنے اتحادی و غیراتحادی بیشتر حکمرانوں سے فون پر رابطہ کرچکے ہیں، سیاسی اقتدار اور فیصلہ سازی کے مراکز کی تقسیم کا نتیجہ ہے کہ ہم کوئی ٹھوس، مربوط، مستحکم خارجہ پالیسی تشکیل نہ دے سکے، ہماری حکمت ِعملی کی کمزوری اور منقسم پالیسی سازی کے باعث ہمارے دوست ملک بھی ہم سے دور اور ہمارے ازلی دشمن بھارت کے قریب ہوتے جارہے ہیں۔ حالیہ دنوں میں اس کی تکلیف دہ مثال متحدہ عرب امارات کی ہے، ایران کے ساتھ تعلقات میں بھی زیادہ گرمجوشی نہیں، سعودی عرب نے اگرچہ تین ارب ڈالر پاکستانی اکاؤنٹ میں جمع کرائے ہیں لیکن یہ کوئی بہت بڑی رقم نہیں، دوم وہ اس پر تین فیصد سے زیادہ سود وصول کرے گا، اس رقم کا ہمیں اس سے زیادہ کوئی فائدہ نہیں کہ زرمبادلہ کے ذخائر ادھار کی رقم سے بڑھ گئے مگر یہ رقم قابل استعمال نہیں ہے، اس کے بدلے میں عسکری تعاون حاصل کرے گا جو ایران کی ناراضی کو بڑھانے کا سبب بنے گا، اگر سعودی عرب قرضے کی بجائے تجارتی سہولتیں دیتا یا پاکستان میں سرمایہ کاری کرتا تو ہمارے لئے زیادہ فائدہ مند ہوسکتا تھا۔ دوسری جانب ہمارا دوست متحدہ عرب امارات بھارت کے ساتھ تجارتی و عسکری معاہدے میں شامل ہونے جارہا ہے جس میں امریکا اور اسرائیل بھی شریک ہیں، اس کو ”نیا کواڈ اتحاد“ کا نام دیا جارہا ہے اور سیاسی و اسٹرٹیجک اتحاد قرار دیا جارہا ہے، اطلاعات ہیں کہ امریکا، بھارت کو مشرق وسطیٰ میں اہم کردار دینے جارہا ہے، بھارتی وزیرخارجہ نے گزشتہ دنوں اسرائیل کا دورہ کیا، اپنے اہم منصب سے ملے، معاشی، سیاسی عسکری تعاون پر مذاکرات کئے، دلچسپ اور حیران کن بات یہ ہے کہ ان مذاکرات میں امریکا اور متحدہ عرب امارات کے وزرائے خارجہ بھی موجود تھے۔ ہمارے حکمرانوں، سیاستدانوں، فیصلہ سازوں کے لئے قابل غور، قابل تقلید بات یہ ہے کہ جب جوبائیڈن صدر منتخب ہوئے تو کہا جاتا تھا کہ وہ مشرق وسطیٰ میں صدر ٹرمپ کی پالیسیوں سے خود کو الگ کرلیں گے مگر ایسا ہوا نہیں، ذاتی اختلافات سے زیادہ ملکی مفادات ان کے لئے زیادہ اہم رہے، انہوں نے سابق صدر پر الزامات لگانے، انہیں بے ایمان ثابت کرنے کی بجائے ملکی مفادات میں پالیسیوں کو جاری رکھا۔ یہ ”کواڈ اتحاد“ انڈیا کے لئے جتنا اہم ہے ہمارے لئے اتنا ہی خطرناک اور نقصان دہ ہے۔ اسرائیل فوجی لحاظ سے بعض امور میں امریکا پر بھی سبقت رکھتا ہے، فوجی اور کمپیوٹر ٹیکنالوجی میں وہ بہت آگے ہے، بھارت اور اسرائیل کے درمیان تجارتی، ٹیکنالوجی اور فوجی شعبوں میں تعاون جاری ہے، بھارت کے تمام حکمرانوں کی ایک پالیسی رہی کہ واشنگٹن کا راستہ تل ابیب سے ہو کر گزرتا ہے لہٰذا امریکا سے اچھے تعلقات کے لئے اسرائیل سے بہترین تعلقات ضروری ہیں، بھارت کا حکمراں کوئی بھی ہو ملکی پالیسیوں کا تسلسل جاری رہتا ہے، حکومت ہو یا اپوزیشن، ایک دوسرے کو غدار، ڈاکو کہنے کی بجائے ملکی مفادات کو ترجیح دیتے ہیں اور پالیسیوں کو سیاسی مخالفت کی بنا پر تبدیل نہیں کرتے، پاکستان کے دوست ”سمجھے جانے والے“ خلیجی ممالک میں اس کے اثرورسوخ کا عالم یہ ہے کہ سعودی عرب ہو، عرب امارات، قطر ہو یا بحرین، مصر ہو یا شام، عراق، وہ بھارت کے قریب ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب مودی سرکار نے مقبوضہ کشمیر میں آرٹیکل 370 ختم کرکے اس کی آئینی حیثیت کو ختم کردیا تو مشرق وسطیٰ کے تمام ممالک نے پاکستانی کوشش کے باوجود اس پر کوئی ردعمل یا ناراضی کا اظہار نہیں کیا بلکہ اسے ہندوستان کا اندرونی معاملہ قرار دے کر عملاً مقبوضہ کشمیر کو بھارت کا حصہ تسلیم کرلیا، عرب امارات نے صرف اس پر اکتفا نہیں کیا بلکہ مقبوضہ کشمیر کا انفرااسٹرکچر تعمیر کرنے کے لئے بھارت کے ساتھ اربوں ڈالر کا معاہدہ کیا ہے، مقبوضہ کشمیر میں عرب سرمایہ کاری کا یہ پہلا معاہدہ ہے، معاہدے کے تحت عرب امارات، مقبوضہ وادی میں انفرااسٹرکچر کے ساتھ ساتھ انڈسٹریل پارکس، آئی ٹی ٹاورز، کثیرالمقاصد ٹاورز، لاجسٹک سینٹرز، میڈیکل کالج اور ایک اسپیشلائزڈ اسپتال تعمیر کرے گا، بھارت وزیر تجارت کے مطابق عرب امارات کے مختلف کاروباری اداروں نے مقبوضہ کشمیر کے اندر سرمایہ کاری میں دلچسپی ظاہر کی ہے، اس کے علاوہ سات ریاستوں پر مشتمل اتحاد بھارت میں 75 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا، یہ سرمایہ کاری کلین انرجی (صاف توانائی کے شعبے میں کی جائے گی جس کے تحت شمسی بجلی کے آلات کی بھارت میں تیاری کے لئے فیکٹری لگائی جائے گی، 75 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا یہ وعدہ اماراتی حکمرانوں نے کیا ہے جبکہ 15 ساورن ویلتھ فنڈز (ایس ڈبلیو ایف) اور پنشن فنڈز نے ہندوستان میں 111 لاکھ کروڑ کی سرمایہ کاری کے لئے ٹیکس میں رعایت مانگی ہے، یہ انویسٹمنٹ نیشنل انفرااسٹرکچر پائپ لائن میں کی جائے گی، معاملہ یہاں تک محدود نہیں، عرب عرمایہ کاروں کو بھارت میں زیادہ سرمایہ کاری پر آمادہ کرنے اور ترغیب دینے کے لئے اعلیٰ سطح کا اجلاس دبئی میں ہوا جس کی مشترکہ طور پر صدارت بھارتی وزیر تجارت گوپال اور ابوظہبی ریاستی کونسل کے رکن شیخ حماد بن زیدالنہیان نے کی، اجلاس میں دونوں ملکوں کے درمیان ٹیکسٹائل، فارماسیوٹیکل، ہیلتھ کیئر، متبادل توانائی، سیاحت میں سرمایہ کاری و تجارت بڑھانے پر اتفاق کیا گیا، دونوں ملکوں نے باہمی تجارت 106 ارب ڈالر کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان یہ تجارتی معاہدے، مفاہمتی یادداشتیں، دبئی ایکسپو میں ہوئیں جہاں بھارتی وزیر اپنے افسران، بڑے تاجروں، صنعت کاروں کے ساتھ موجود تھے، وہ 75 ارب ڈالر یعنی انڈین کرنسی میں کئی سو کھرب روپے کی سرمایہ کاری حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ دوسری جانب کوئی پاکستان وزیر یا بزنس مینوں کا بڑا گروپ اس عالمی ایکسپو میں شریک نہیں، ذرا تصور کریں کھربوں کی سرمایہ کاری سے بھارت میں صنعتی تجارتی ترقی کتنی ہوگی، روزگار کے کتنے مواقع پیدا ہوں گے، ملک کیسے ترقی کر جائے گا، دوسری جانب ذرا تصور کیجئے مقبوضہ کشمیر میں عرب امارات کی سرمایہ کاری سے تعمیر ہونے والے انفرااسٹرکچر، ٹاورز وغیرہ کو حریت پسندوں کی کسی کارروائی میں نقصان پہنچاتا ہے تو بھارت کس کو ذمہ دار قرار دے گا؟ اور عرب امارات کا ہمارے ساتھ کیا اور کیسا رویہ ہوگا؟ مزید یہ کہ عرب سرمایہ کاری کے نتیجے میں ہونے والی ترقی سے اگر کشمیریوں کو فائدہ پہنچتا ہے، آئی ٹی ٹاورز، میڈیکل کالج، جدید ترین اسپتال سے استفادہ کرنے والے کشمیری کس جانب کھڑے ہوں گے؟
اٹھو، وگرنہ حشر نہیں ہو گا پھر کبھی
دوڑو، زمانہ چال قیامت کی چل گیا

مطلقہ خبریں