Saturday, July 12, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

ٹرمپ کی خطرناک قومی سلامتی اسٹرٹیجی

جنرل مرزا اسلم بیگ

’’ٹرمپ کی سیکورٹی اسٹرٹیجی ایک خطرناک منصوبہ ہے جسے کسی طرح بھی قومی سیکورٹی اسٹرٹیجی نہیں کہا جاسکتا، یہ محض ہرزہ سرائی ہے۔‘‘ راجر کوہن
ٹرمپ کی یہ سیکورٹی حکمت عملی دراصل ان کے ’’امریکہ پہلے‘‘ کے نعرے سے عبارت ہے اور یہ جنون ان کی شخصیت پر حاوی ہے جس کی عکاسی ان کی مندرجہ ذیل قومی پالیسی سے ہوتی ہے، جس کے اہداف یہ ہیں: قومی اقدار و طرز زندگی کا تحفظ، امریکی وقار کی ترویج، طاقت کے بل بوتے پر امن کا قیام، دنیا بھر میں امریکی اثرورسوخ کو وسعت دینا اور بھارت کو چین کا ہم پلہ بنانا مقصود ہے۔ اسی پالیسی کی بنیاد پر ٹرمپ کی قومی سیکورٹی اسٹرٹیجی وضع کی گئی ہے جس کا خصوصی ہدف فلسطین، افغانستان، ایران، چین، شمالی کوریا اور پاکستان ہیں۔
فلسطین: بظاہر یوں دکھائی دیتا ہے کہ ٹرمپ 1917ء میں جاری ہونے والے بالفور اعلامیے (بالفوور ڈیکلریشن ) کا صد سالہ شن منا رہے ہیں، جس کا اعلان حکومت برطانیہ نے پہلی عالمی جنگ کے دوران یہودیوں کی سلطنت کی خاط عثمانیہ کے علاقے فلسطین کو یہودی عوام کا وطن قرار دیا تھا۔
اس اعلامیے کے الفاظ یہ تھے:
’’شہنشاہ برطانیہ کی حکومت، فلسطین کو یہودیوں کا آبائی وطن قرار دینے کی حامی ہے اور اپنا اثرورسوخ استعمال کرتے ہوئے اس ہدف کو حاصل کرے گی۔ اس بات کو بھی یقینی بنایا جائے گا کہ جس طرح یہودیوں کے حقوق اور سیاسی مقام کا خیال رکھا جائے گا اسی طرح فلسطین میں پہلے سے آباد غیریہودی عوام کے مذہبی و معاشرتی حقوق کو بھی تحفظ فراہم کیا جائے گا۔‘‘
ٹرمپ کی اس حکمت عملی کے سبب فلسطین اور اسرائیل پر مشتمل دو ریاستوں کے قیام کے امکانات ختم ہوگئے ہیں جس کے اثرات خطرناک ہوں گے اور پورے مشرق وسطیٰ کو نئے خطرات کا سامنا ہوگا۔ اسی طرح 2001ء میں شروع ہونے والے پہلے کروسیڈ کے تحت مسلم ممالک کی تباہی و بربادی کا سامان مہیا کیا ہے۔ اب دوسرا کروسیڈ شروع کیا جا رہا ہے جس کا اولین ہدف فلسطین اور مشرق وسطیٰ کے ممالک ہیں اور پوری دنیا میں طاقت کے بل بوتے پر امریکی اثرورسوخ کو مسلط کرنا ہے۔ فلسطین میں قیامِ امن کے امکانات اب انتہائی معدوم ہیں کیونکہ عرب دنیا کی دلچسپی شام، عراق اور داعش کی جانب تبدیل ہوچکی ہے اور وہ عرب انقلاب کی تباہی و بربادی سے بچنے کے اقدامات میں مصروف ہیں۔ اس کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے امریکہ قیام امن کی راہ ہموار کرنے کی بجائے مکمل طور پر اسرائیل کی طرفداری کر رہا ہے جس کا مقصد پورے علاقے پر بالادستی حاصل کرنا ہے۔
افغانستان: امریکہ کو 2010ء میں افغان جنگ میں شکست ہوئی تو انہوں نے رچرڈ آرمیٹیج کو میرے پاس بھیجا تاکہ افغان طالبان کو بات چیت پر آمادہ کیا جاسکے لیکن طالبان 1990ء کی طرح دھوکے میں آنے والے نہیں تھے، انہوں نے شرط رکھی کہ بات چیت کا عمل شروع کرنے سے پہلے قابض فوجیں افغانستان سے مکمل طور پر نکل جائیں۔ لیکن بتدریج ہزیمت اٹھانے اور اپنی حیثیت کھونے کے باوجود امریکہ افغانستان میں اپنی شکست کے داغ دھونے کے لئے سازشوں میں مصروف ہے جس سے درپردہ داعش کو تقویت مل رہی ہے جو پورے خطے کے ممالک کی سلامتی کے لئے انتہائی خطرناک ہے۔ وہ پاکستان کو بھی دھمکا رہا ہے کہ افغانوں کی مزاحمت کو کچلنے کے اقدامات کرے تاکہ ’’بھارت کو چین کے مدمقابل قوت بنایا جاسکے‘‘ اور انڈو ایشین (انڈو ایشان) منصوبے کی تکمیل کر کے افغانستان سے بنگلہ دیش تک بھارت کی بالادستی قائم کی جاسکے اور ’’طاقت کے بل بوتے پر امن قائم کیا جائے۔‘‘
ایران: 1980ء سے لے کر آج تک امریکہ، ایران کو خطے کے ممالک کے لئے زبردست خطرے کے طور پر بدنام کرتا رہا ہے لیکن اس کے برعکس طرح طرح کی تجارتی واقتصادی پابندیوں کے باوجود ایران ایک مضبوط قوت بن کر ابھرا ہے جس سے امریکہ کو ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدے پر مجبور ہونا پڑا لیکن صدر ٹرمپ اب اس معاہدے کو ’’اب تک طے پانے والا سب سے بدترین معاہدہ‘‘ قرار دے رہے ہیں اور ایران پر سے پابندیاں اٹھانے کو تیار نہیں بلکہ دھمکیاں دے رہے ہیں۔ ان کا منصوبہ ہے کہ ’’دو دہائیوں سے جاری سخت گیر ایرانیوں سے معاملات طے کرنے کا بہترین راستہ یہ ہے کہ اس معاہدے کو پھاڑ کے پھینک دیا جائے۔‘‘ ٹرمپ معاہدے کو تو پھاڑ سکتے ہیں لیکن وہ ایرانی عوام کے عزم و استقلال اور قومی اعتماد کو شکست دے کر ’’طاقت کے بل بوتے پر امن قائم کرنے کی کوششوں میں کامیاب نہیں ہوسکتے۔‘‘
چین: ٹرمپ نے چین کو ’’تذویراتی مدمقابل (اسٹریٹجک ک کمپیٹیٹر)‘‘ کا نام دیا ہے۔ چین کے ساتھ ہاتھ ملانے اور علاقائی تعاون کے ذریعے قیام امن کی حکمت عملی پر ان کا ساتھ دینے کی بجائے امریکہ بھارت کو چین کی ابھرتی ہوئی عسکری اور اقتصادی طاقت کے ہم پلہ بنانے کے لئے کام کررہا ہے جبکہ بھارت کی اوقات یہ ہے کہ وہ اب تک پاکستان کو ابھرنے سے روک نہیں سکا تو وہ چین کو محدود کرنے کی ذمہ داری کس طرح پوری کرسکے گا۔ کہا گیا ہے کہ ’’بھارت کی مدد کرنے کے لئے امریکہ بھرپور طور پر تیار ہے۔‘‘ یقیناً ایک زوال پذیر سپر پاور سے اس سے زیادہ اور کچھ کرنے کی امید بھی نہیں کی جاسکتی۔
شمالی کوریا: ایٹمی ہتھیار استعمال کرنے کی محدود صلاحیت کے باوجود شمالی کوریا نے امریکہ کو خطرات سے دوچار کردیا ہے۔ امریکہ جو ہزاروں ایٹمی ہتھیار اور موثر طور پر استعمال کرنے اور فضائی قوت کی صلاحیتوں کا حامل ہے، وہ شمالی کوریا پر کسی قسم کا دباؤ ڈالنے میں ناکام ہے اور بے بسی کے عالم میں چین سے امید لگائے بیٹھا ہے کہ وہ شمالی کوریا کے سربراہان کو قائل کرنے میں کامیاب ہوجائے گا لیکن شمالی کوریا اور افغانستان کے معاملات میں ناکامی نے اکلوتی سپر پاور امریکہ کی طاقت کی قلعی کھول دی ہے۔
پاکستان علاقائی تصادم کے مرکز میں واقع ہے۔ ہمیں اپنے مفادات کے تحفظ کی خاطر انتہائی احتیاط سے قدم اٹھانا ہے جس کے لئے منتخب پارلیمان کے تعاون اور عوام کی مدد کے ساتھ ساتھ ایران، افغانستان اور پاکستان کے مابین علاقائی اتحاد کا قیام ضروری ہے، جسے چین اور روس کی حمایت سے مزید تقویت ملے گی۔ پاکستانی قوم میں ایرانی قوم کی طرح جذبہ مزاحمت اور دباؤ کو مسترد کرنے کا حوصلہ موجود ہے جو ہمارے ہمسایہ کی عظیم تہذیبوں کی قدروں سے عبارت ہے۔ ان کے ساتھ ہماری سرحدیں ہی نہیں بلکہ سوچ و فکر بھی مشترک ہیں۔ مرحوم لیاقت علی خان کے بقول پاکستان ایشیا کا دل ہے۔ اب ہمیں اپنے قول و فعل سے اس عظیم ورثے کا حقدار ثابت کرنا برحق ہے۔
عالمی اسلامی کانفرنس (او آئی سی) کا ہنگامی اجلاس مسلم ریاستوں میں خاطر خواہ سنجیدگی پیدا نہیں کرسکا۔ صرف چند سربراہان مملکت نے اس اجلاس میں شرکت کی جو عالم اسلام میں اتحاد کے فقدان کی آئینہ دار ہے۔ ایران اور ترکی کے علاوہ کسی بھی ملک نے اس معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لیا ہے۔ خصوصاً عرب دنیا، عوامی انقلاب کی وجہ سے گومگو کی کیفیت میں مبتلا ہے۔ خطے میں پھیلی اس مایوسی سے امریکہ اور اسرائیل نے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے فلسطینی مسلمانوں اور دیگر مذاہب کے عوام کے سول اور مذہبی حقوق کو خطرات سے دوچار کردیا ہے۔ موجودہ صورتِ حال پورے عالم اسلام کے لئے ایک بڑا چیلنج ہے۔ اس سازش کے تحت امریکہ اور اسرائیل عرب علاقوں کی قیمت پر عظیم تر اسرائیل کے ایجنڈے کو وسعت دینے کا فیصلہ کر چکے ہیں جس کے سبب مشرق وسطیٰ کا نقشہ بدل جائے گا لیکن امید ہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے جس بھاری اکثریت سے ٹرمپ کی پالیسی کے خلاف ووٹ دیا ہے وہ امریکہ اور اسرائیل کے ناپاک عزائم کو آگے بڑھنے سے روک دے گی۔

مطلقہ خبریں