نصرت مرزا
پاکستان کے قدرتی و افرادی وسائل کی فراوانی کا اعتراف سب ہی کرتے ہیں۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ نے پاکستان کے قیام کے وقت ہی یہ خوشخبری سنا دی تھی، پھر وقتاً فوقتاً پاکستان کے وسائل کی خبریں آتی رہیں تاہم کبھی اُن کو تلاش کرنے کی سنجیدہ کوشش بھی کی گئی مگر یا تو لاحاصل رہی یا پھر مشکلات کا شکار ہوگئی۔ یہ اطلاع ملی کہ سندھ گیس پر تیر رہا ہے، یعنی اِس صوبہ میں ہر جگہ گیس و تیل بڑی تعداد میں موجود ہے، میں نے اس بات کا غلام مصطفی جتوئی سے ایک دفعہ ذکر کیا تھا تو انہوں نے کہا کہ اس گیس کو آئندہ نسلوں کے لئے چھوڑ دیا جائے، پھر پنجاب میں بڑی مقدار میں تیل اور سونے کے ذخائر کا تذکرہ دنوں تک اخبارات میں ہوتا رہا ہے۔ ویسے بھی تقسیم ہندوستان سے پہلے بھی اٹک کے قریب سے تیل نکلتا ہے اور راولپنڈی میں اٹک ریفائنری ہے اور یہ شاید واحد فیکٹری تھی جو پاکستان کے حصے میں آئی تھی۔ پھر کہا جانے لگا کہ بلوچستان میں معدنیات کی بہتات ہے لیکن کسی نہ کسی وجہ سے معدنیات نہیں نکالی جاسکی، اس کے بعد ریکوڈک میں تانبے اور سونے کے ذخائر دریافت ہوگئے جس کی اصل مالیت کا پتہ نہیں لگایا جاسکا البتہ یہ کہا جاتا ہے کہ 100 مربع کلومیٹر کے یہ ذخائر کوئی 1400 بلین ڈالرز کے ہیں، میں 2004ء میں جب محمد اکبر بگٹی سے ڈیرہ بگٹی جا کر ملا تھا تو اُن کا کہنا تھا کہ جو کمپنی کوئی معدنی دولت نکالتی ہے اُس کو 70 سے 75 حصہ ملتا ہے اور زمیندار کو 25 سے 30 فیصد حصہ ملتا ہے لیکن ریکوڈک میں پاکستان ایک غیرملکی کمپنی کے درمیان تنازعہ ہوا تو عالمی عدالت سے رجوع کیا گیا جہاں سے وہ کمپنی اپنے حق میں فیصلہ حاصل کرچکی ہے مگر معلوم نہیں کہ ریکوڈک پر کس کا زور چلتا ہے، آیا وہاں سے سونا نکالا جارہا ہے یا ابھی کانیں بند بڑی ہیں، پھر ایک آسٹریلوی کمپنی نے اطلاع دی تھی کہ گلگت بلتستان کے پہاڑوں میں سونا ہے، یہ بات اس لئے درست ہوسکتی ہے کہ گلگت بلتستان اور اُس کے ملحق علاقوں میں جہاں دریا نکلتا ہے وہاں مقامی لوگ دریائی ریت کو چھانتے اور اُن سے سونا نکالنے کی سعی کرتے ہوئے مل جاتے ہیں جو تصدیق کرتے ہیں کہ اُن کو اکثر سونے کے ذرات مل جاتے ہیں۔ حال ہی میں پاکستان کے عبوری وزیرخارجہ حسین عبداللہ ہارون نے انکشاف کیا تھا کہ پاکستان کے سمندری حدود میں اتنی مقدار میں تیل موجود ہے جتنا کہ کویت کے پاس ہے اور ایکسن کمپنی وہاں سے تیل نکالنے پر راضی ہے، اس نے پاکستان کو زرضمانت بھی جمع کرا دی ہے۔ اسی طرح ابھی تک پاکستان کے بحری حدود میں ہیرے اور موتیوں کے علاوہ مچھلی، سبزی اور دیگر اشیاء بڑی مقدار میں موجود ہیں جو پاکستان کی غذائی ضرورت تو کافی حد تک پوری کرسکتی ہیں اور ساتھ ساتھ بڑا زرمبادلہ بھی کما کر دے سکتی ہے، صرف مچھلی اور جھینگے کو لے لیں تو اس سے پاکستان زرمبادلہ کی ضروریات پوری کرنے کے لئے کافی ہیں، بھارتی بحریہ کے ایڈمرل حضرات یہ کہتے سنے گئے کہ پاکستان میں مچھلی کی صنعت کو فروغ دینے کی کبھی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی بلکہ سچ بات کی جائے تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں مچھلیوں کی کوئی صنعت سرے سے موجود ہی نہیں ہے، ہم صرف مچھلی پکڑ سکتے ہیں، اگر اس میں سرمایہ کاری کی جائے تو جو مچھلی ضائع ہوجاتی ہے وہ بچ سکتی ہے اور پاکستان کی آمدنی کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کو صنعت کے درجے پر لے آیا جائے، اس کو محفوظ کرنے اور عالمی معیار پر لا کر فروخت کرنے سے پاکستان کی آمدنی بڑھ سکتی ہے۔ تھر سے کوئلہ کی بڑی مقدار کا حصول ممکن بنا لیا گیا ہے، پھر سیاحت کی صنعت کو فروغ دینے سے پاکستان میں ڈالروں کی ریل پیل ہوسکتی ہے یا دنیا بھر کی کرنسیوں کی بھرمار ہوسکتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ صرف گلگت بلتستان پاکستان کو 50 ہزار میگاواٹ بجلی فراہم کرسکتا ہے لیکن پاکستان میں ٹرانسمیشن لائنز اس کا وزن نہیں اٹھا سکتی۔ ایسا ملک جس کے پاس آمدنی کے مختلف ذرائع ہیں مگر وہ اپنی افرادی قوت کو متحرک کرنے کی صلاحیت سے عاری ہے، وہ ملک کنگال ہونے کے قریب ہے اور اس کا وزیراعظم سعودی عرب، چین، ملائیشیا سے مدد کے حصول میں لگا ہوا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہے، ایک وجہ تو یہ ہے کہ پاکستان میں سرمایہ کاری کرتے ہوئے ڈرتے ہیں کہ وہ کہیں 70 کی دہائی کی طرح قومیا نہ لی جائے، دوسرے سیاستدانوں کو یہ خطرہ ہے کہ وہ کچھ کرتے ہیں اور ملک خوشحال ہوجاتا ہے تو اس کا مزہ لوٹنے کے لئے کوئی اور حکمران آجاتا ہے، اس لئے وہ پاکستان کو ترقی دینے میں دلچسپی نہیں رکھتے، پاکستان کے عوام لاتعلق ہوگئے ہیں، امن وامان، مساوات، انصاف کی فراہمی کا مسئلہ ہے۔ پاکستان سے سب فائدہ اٹھاتے ہیں اسے کوئی اپنا نہیں سمجھتا۔ امپورٹ بڑھی ہوئی اور ایکسپورٹ گھٹ گئی ہیں، سرمایہ دار یہاں کے ماحول، اغوا برائے تاوان اور امن وامان کی وجہ سے ملک چھوڑ گیا مگر دوسرے ملکوں میں بھی ان کا سرمایہ محفوظ نہیں رہا تو شاید وہ لوٹ آئیں پھر حکمرانوں کی جو کھیپ آئی ہے ان کے ساتھ جس قسم کے لوگ وزیر بن کر آجاتے ہیں وہ بھی پاکستان کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن جاتے ہیں، کوئی منصوبہ نہیں ہے سوائے اس کے کہ لوگ باہر دوسرے ملک جا کر پیسے کمائیں اور زرمبادلہ پاکستان بھیج دیں۔ کرپشن اس قدر بڑھ گیا ہے جیسے وقت کا قانون ہو، پھر قرضہ جات 95 بلین ڈالرز تک پہنچ گئے ہیں، ان کی ادائیگی کا مسئلہ درپیش ہے، تو قرضہ لینا ضروری ہوگیا ہے اور قرضہ بھی اتنا چاہئے کہ قسطیں ادا ہوجائیں اور ساتھ ساتھ اس کا سود بھی، اس کے بعد ترقی کی راہ کو ہموار کیا جاسکتا ہے کہ اگر آئی ایم ایف سے قرضہ لیا گیا تو وہ پاکستان کی شرح نمو 4 سے 5 فیصد اے آگے نہیں بڑھنے دے گا جبکہ قرضہ جات کے جنجال سے نکلنے کے لئے پاکستان کو 8 فیصد شرح نمو کم از کم دس سال تک درکار ہے، اس کے لئے پاکستان کو 20 بلین ڈالرز کی ضرورت ہوگی پھر جو طریقہ چین اور پاکستان نے وضع کیا ہے کہ توان اور روپے میں تجارت کی جائے وہ بھی ایک ذریعہ ہے، پاکستان کو زراعت کے لئے نئے کھیت بنانے ہوں گے اور نئی فصلیں اگانا ہوگی،جدید تکنالوجی کے ساتھ اس کے لئے پانی کی ضرورت ہے اور پانی کو ذخیرہ کرنے کے لئے ڈیم چاہئیں، جس میں بہت لاگت آئے گی مگر مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق پاکستان کو ہر طرح کے منصوبے بنانے ہوں گے، بہت سے لوگ میڈیا پر تنقید کررہے ہیں کہ وہ غلط بیان کررہا ہے، میرا خیال ہے کہ تاثر غلط ہے میڈیا وہی لکھ رہا ہے جو اُسے نظر آرہا ہے کہ موجودہ حکومت کو اپنی معاشی اور سیاسی ٹیم پر نظرثانی کرنا ہوگی۔ نہ تجربہ کی صلاحیت ایک طرف دوسری طرف بچکانہ حرکتیں اور ملک چلانے جیسے سنجیدہ کام موجودہ ٹیم کے بس کی بات نہیں۔ عمران خان کی ایمانداری پر شک نہیں کیا جاسکتا مگر ان کے وزراء بھی تجربہ کار، ہوشیار اور اپنے کام کے ماہر ہوں تو ہر مشکل پر قابو پایا جاسکتا ہے۔