چین کی 20ویں نیشنل کانگریس کے بعد شہبازشریف دورہ کرنے والے پہلے غیرملکی رہنما ہیں، ایم ایل ون منصوبہ ناصرف اپ گریڈ ہوگا بلکہ نئے ٹریک بھی بچھائے جائیں گے، ریل کی رفتار موجودہ 65 کلومیٹر فی گھنٹہ سے بڑھا کر 160کلومیٹر گھنٹہ تک پہنچ جائے گی
ضمیر احمد اعوان
وزیراعظم محمد شہباز شریف نے گزشتہ ماہ نومبر کے آغاز پر عوامی جمہوریہ چین کے وزیراعظم لی کی کیانگ (Li ke Qiang) کی دعوت پر دو روزہ سرکاری دورہ کیا۔ گزشتہ ایک دہائی کے دوران وزیراعظم شہبازشریف کئی مرتبہ چین جا چکے ہیں اور تمام چینی قیادت سے کئی مرتبہ مل چکے ہیں بلکہ بعض رہنماؤں سے ان کے بہت اچھے مراسم استوار ہوچکے ہیں۔ وزیراعظم بننے کے بعد یہ ان کا پہلا دورہ تھا اس لئے اس کی اہمیت ذرا انفرادی تھی۔ چین کی 20ویں نیشنل کانگریس کے بعد وزیراعظم شہبازشریف پہلے غیرملکی رہنما ہیں جنہوں نے چین کا دورہ کیا۔ اس حوالے سے بھی ان کا دورہ انتہائی اہمیت کا حامل رہا۔ اس مختصر دورے میں وزیراعظم نے چینی صدر شی چن پنگ، وزیراعظم لی کی کیانگ کے علاوہ لی چان شو جوکہ اسٹینڈنگ کمیٹی آف نیشنل پیپل کانگریس کے چیئرمین ہیں سے بھی ملاقات کی اور باہمی امور پر تبادلہ خیال کیا۔ وزیراعظم نے صدر شی کو اگلے پانچ سال کے لئے دوبارہ سیکریٹری برائے کمیونسٹ پارٹی آف چائنا منتخب ہونے پر مبارکباد دی۔
صدر شی چن پنگ ایک مضبوط شخصیت کے حامل اور دوراندیش رہنما ہیں۔ وہ چین کے عوام سے بے پناہ محبت کرتے ہیں۔ ہر وقت چینی قوم کی بہتری کے لئے کوشاں رہتے ہیں اور ان کی مکمل فلاح و بہبود چاہتے ہیں۔ ان کی انہی صلاحیتوں کے مدنظر چینی عوام ان پر اندھا اعتماد کرتے ہیں۔ صدر شی انسان دوست رہنما ہیں اور اپنی قوم کے ساتھ پوری انسانیت کے لئے بھی فکرمند رہتے ہیں۔ ان کا فلسفہ نیشنز آف شیرڈ فیوچر ایک انتہائی اہمیت کی سوچ ہے جوکہ بنی نوع انسانیت کی فلاح اور بہبود کی کوشش ہے۔ صدر شی چین میں مقبول ہونے کے علاوہ اقوام عالم میں بھی اپنا ایک خاص مقام بنا چکے ہیں اور عالمی سطح کے رہنما کے طور پر ابھر آئے ہیں۔ اس تناظر میں ان کا اگلے پانچ سال تک دوبارہ سیکریٹری جنرل کے عہدے پر منتخب ہونا ایک خوش آئند بات ہے۔ اس طرح ان کی پالیسیوں میں تسلسل قائم رہے گا اور چین اسی رفتار سے ترقی کرتا رہے گا جس طرح گزشتہ کئی دہائیوں میں چین نے معجزاتی ترقی کی ہے۔ وزیراعظم کی ملاقاتوں کے دوران دوطرفہ تعلقات، علاقائی اور بین الاقوامی حالات کا جائزہ لیا گیا۔ دونوں ممالک نے اس بات کا اعادہ کیا کہ موجودہ عالمی صورتِ حال میں پاکستان، چین دوستی جوکہ آزمائی ہوئی ہے اور تمام موسموں میں یعنی ہر اچھے بُرے وقت کا ساتھ دیتی ہے اور تمام شعبوں میں مکمل ہم آہنگی کی حامل ہے انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ یاد رہے کہ چین نے پاکستان کا ہر مشکل وقت میں ساتھ دیا ہے، چاہے یہ 1965ء کی جنگ ہو یا 1971ء کی، چاہے یہ کشمیر کا مسئلہ ہو یا افغانستان کا، چین ہمیشہ پاکستان کے ساتھ کھڑا رہا ہے۔ اقتصادی میدان میں بھی چین نے پاکستان کی ہمیشہ مدد کی ہے، پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) ایک انتہائی اہمیت کا منصوبہ ہے جوکہ پاکستان کی خراب معاشی صورتِ حال میں آکسیجن کا کام سرانجام دے رہا ہے۔ ماضی میں استعماری طاقتوں نے ایک دوست ملک کے ذریعے پاکستان کو دباؤ میں لانے کی کوشش کی اور اس نے قبل از وقت قرضہ واپس مانگ لیا۔ پاکستان مشکل میں تھا اور قرضہ واپس کرنے کی پوزیشن میں بالکل نہ تھا، ایسے میں چین نے ایک بلین امریکی ڈالر پاکستان کو دیئے کہ اس کا قرضہ واپس کرسکے اور کسی استعماری طاقت کے سامنے بلیک میل نہ ہو۔ چند ماہ بعد ایک بلین امریکی ڈالر مزید مانگ لئے۔ اس مرتبہ بھی چین نے پاکستان کی مدد کی اور فوراً رقم کا انتظام کرکے پاکستان کو ڈیفالٹ ہونے سے بچا لیا۔ اقوام متحدہ میں کئی مرتبہ کوشش کی گئی کہ پاکستان کو مشکل میں ڈالا جائے اور مکمل تخریب کار ملک قرار دیا جائے لیکن چین نے ہمیشہ پاکستان کی حمایت کی، چین سیکیورٹی کونسل کا مستقل ممبر ہے اور ویٹو پاور کا حامل ہے۔ چین کی وجہ سے پاکستان متعدد بار مشکلات سے نکلا۔ چین کے پاکستان پر احسانات کی فہرست طویل ہے لیکن پاکستان بھی اپنی بساط کے مطابق چین کا ساتھ دیتا رہا ہے۔ چاہے سنکیانگ مسئلہ ہو یا تبت کا، چاہئے ہانگ کانگ کا مسئلہ ہو یا تائیوان کا، پاکستان نے ہمیشہ سے چینی موقف کی حمایت کی ہے اور بین الاقوامی سطح پر چین کا ساتھ دیا ہے۔ دونوں ممالک میں مکمل یکجہتی اور ہم آہنگی پائی جاتی ہے اور تعاون اور اعتماد کی فضا قائم ہے، وزیراعظم کے دورے میں چینی قیادت نے پاکستان سے دوستی کا اعادہ کیا اور اسے مزید فروغ دینے کا اظہار کیا جبکہ پاکستان نے بھی چین سے تعلقات کو اپنی خارجہ پالیسی کا کارنر اسٹون قرار دیا اور مکمل یکجہتی اور ہم آہنگی سے آگے بڑھنے کا اعادہ کیا۔ پاک چین اقتصادی راہداری پر بھی تفصیلاً بات چیت ہوئی اور اسے مزید بہتر بنانے پر اتفاق رائے ہوا۔ سی پیک میں توسیع لائی جائے گی، مزید پروجیکٹس شروع کئے جائیں گے، اس میں تیزی لائی جائے گی اور ہائی کوالٹی پر بھرپور توجہ دی جائے گی۔ ایم ایل ون منصوبہ جوکہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ منصوبہ نہ صرف اپ گریڈ ہوگا بلکہ نئے ٹریک بھی بچھائے جائیں گے۔ ریل کی رفتار موجودہ 65 کلومیٹر فی گھنٹہ سے بڑھا کر 160 کلومیٹر گھنٹہ تک پہنچ جائے گی۔ شمال سے جنوب کو ملانے والا یہ ایک بڑا منصوبہ ہے۔ اس کی تکمیل کے بعد نہ صرف فاصلہ کم ہوجائے گا بلکہ اعلیٰ رفتار کی وجہ سے سفر کا دورانیہ بھی کم ہوجائے گا۔ سفر اور تجارتی سامان کی ترسیل میں بہتری آئے گی اور تجارتی سرگرمیاں بڑھ جائیں گی۔ ملکی معیشت کو تقویت ملے گی۔ عام آمی کو فائدہ ہوگا۔ ایم ایل ون کے علاوہ کراچی سرکلر ریلوے کی بھی بات ہوئی ہے۔ یہ ایک دیرینہ مطالبہ تھا کہ کراچی کو اچھی سفری سہولیات مہیا کی جائیں، عوامی امنگوں کو مدنظر رکھتے ہوئے وزیراعظم نے اس دورے کے دوران کراچی سرکلر ریلوے کے منصوبے کو بھی حتمی شکل دے دی ہے اور جلد اس پر کام کا آغاز ہوجائے گا۔ سفری سہولیات، مال کی نقل و حرکت، کسی بھی معاشرے میں اقتصادی ترقی میں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں۔ پاکستان کے طول و عرض میں موٹرویز اور ہائے ویز کا جال بچھا دیا گیا ہے۔ مزید بہتری بھی لائی جا رہی ہے۔ نئے منصوبہ بھی شروع ہوچکے ہیں یا ابھی منصوبہ بندی کی اسٹیج پر ہیں۔ ریلوے کی اپ گریڈیشن کے بعد یقیناً اقتصادی ترقی کی راہ ہموار ہوجائے گی اور وہ دن دور نہیں جب پاکستان اقوام عالم میں اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کرلے گا۔ گوادر جوکہ سی پیک کا مرکز ہے، اس کی ترقی پر بھی بات چیت ہوئی۔ جاری پروجیکٹس کی رفتار تیز کرنے کی راہ ہموار کی گئی اور کئی نئے منصوبوں کی بھی نشاندہی ہوئی۔ گوادر مستقبل کا پورے خطے کا تجارتی مرکز بننے جا رہا ہے، اس کی قدرتی گہرائی اور محل و قوع انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور سی پیک میں مرکزی اہمیت کا حامل ہے جسے ترجیحی بنیادوں پر مکمل کیا جائے گا۔ اس کے ساتھ زراعت، کان کنی، آئی ٹی اور سوشو ایکو ڈویلپمنٹ سیکٹر میں بھی تعاون کو فروغ دیا جائے گا، صحت کے شعبہ کو ترجیحی بنیادوں پر فروغ دیا جائے گا، صنعتی میدان میں تعاون بڑھایا جائے گا۔ ڈیجیٹل اور گرین کوریڈور کو فوقیت دی جائے گی۔ وزیراعظم نے شمسی توانائی کو اہمیت دینے کی بات بھی کی اور چینی قیادت نے چینی کمپنیوں کی شمولیت کو ترجیحی بنیادوں پر یقین دہانی کروائی ہے۔ پاکستان اپنی توانائی کی ضروریات کو بہتر بنانے کے لئے شمسی توانائی کو بروئے کار لانا چاہتا ہے اور چین شمسی توانائی میں پوری دُنیا میں سب سے آگے ہے۔ پاکستان چینی ترقی اور تجربہ سے مستفید ہونا چاہتا ہے۔ حکومت پاکستان نے دس ہزار میگاواٹ شمسی توانائی کے منصوبے پر اظہار خیال کیا ہے اور متعدد چینی کمپنیاں اس میں دلچسپی کا اظہار کرچکی ہیں۔ دونوں ملکوں نے اعادہ کیا ہے کہ وہ اندرونی و بیرونی خطرات سے نمٹنے کے لئے ہرممکن تعاون کریں گے۔ بالخصوص کسی تیسرے ملک کی طرف سے دباؤ، تخریب کاری اور نقصان پہنچانے کی کسی بھی کوشش کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے۔ چینی حکومت نے چینی باشندوں اور ان کی املاک کے تحفظ کے لئے اقدامات کی بھی تعریف کی اور اسے تسلی بخش قرار دیا۔ دونوں ممالک کے درمیان تجارت کے فروغ کے لئے ٹھوس اقدامات اٹھائے جائیں گے اور چین ہرممکن طور پر تعاون کرے گا۔ پاکستانی برآمدات کو فروغ دینے کے لئے چین پاکستان کی صلاحیتوں میں اضافہ کرے گا، اس ضمن میں چین پاکستان میں ٹیسٹنگ لیب بھی بنائے گا اور تکنیکی مدد بھی فراہم کرے گا، خنجراب میں سہولیات کو بہتر کیا جائے گا اور زمینی رابطہ بڑھایا جائے گا۔ زمینی راستے سے بھی تجارت کو فروغ دیا جائے گا۔ چین نے ای کامرس کے میدان میں بے پناہ ترقی کی ہے اور پاکستان اس سے مستفید ہوسکتا ہے، چین نے اس حوالے سے بھی ہرممکن تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے۔ غربت کے خاتمے کے لئے ٹھوس اقدامات کے عزم کا اعادہ کیا گیا ہے اور چین کے تجربات سے مستفید ہونے کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔ چین نے تقریباً 800 ملین لوگوں کو خطِ غربت سے نکالا ہے اور ایک معتدل امیر معاشرہ قائم کردیا ہے۔ دونوں ممالک فضائی رابطے بڑھانے کے لئے اقدامات بھی کریں گے اور سفری سہولیات کو بہتر بنائیں گے۔ اس کے علاوہ سلامتی سے متعلقہ بین الاقوامی امور بھی زیربحث آئے۔ خاص کر کشمیر کا معاملہ بھی زیربحث آیا۔ چین اور پاکستان کے موقف میں مکمل ہم آہنگی ہے اور دونوں ممالک چاہتے ہیں کہ کشمیر کا معاملہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق پُرامن طریقے سے حل ہو۔ افغانستان کی صورتِ حال بھی زیربحث آئی اور دونوں ملک مل کر افغانستان کے امن اور ترقی کے لئے تعاون کریں گے۔ اس امر پر بھی زور دیا گیا کہ یو این چارٹر کے مطابق گلوبلائزیشن اور آزاد تجارت کو فروغ دیا جائے گا۔ پاکستان نے چین کی طرف سے پیش کردہ جی ڈی آئی اور گلوبل ڈیویلپمنٹ انییشی ایٹو کی تائید کی۔
امید کی جانی چاہئے کہ وزیراعظم کا یہ دورہ انتہائی دورس نتائج کا حامل ہوگا اور اس کے اثرات و ثمرات جلد نظر آنا شروع ہوجائیں گے۔ یہ دورہ اقتصادی تعاون میں معاون ثابت ہوگا اور اس کی اہمیت بہت زیادہ ہے اور آنے والے دنوں میں دنیا میں بڑھتی ہوئی تلخیاں کم کرنے میں بھی مفید ثابت ہوگا۔ مبصرین اس دورہ کو ماضی کے تمام دوروں سے منفرد اور زیادہ اہمیت کا حامل بھی قرار دے رہے ہیں۔