محمد ایاز
دنیا میں تمام ریاستیں اپنے مخصوص سیاسی، معاشرتی، معاشی اور ثقافتی پس منظر میں خارجہ پالیسی مرتب کرتی ہیں۔ ہر ریاست کی اختیار کردہ پالیسی اس ریاست کی عوام کے لئے ایک مربوط معاشرتی و ثقافتی نظام سمیت مضبوط قومی طاقت کی ضامن ہوتی ہے اور یہی پالیسی کسی بھی ریاست کے عوام کے اندر خودداری اور اولولعظمی جیسی صفات پیدا کرتی ہے۔ ریاست کے امن وامان اور ترقی واستحکام کا انحصار کامیاب خارجہ پالیسی پر ہوتا ہے، خارجہ پالیسی مخصوص حالات میں قومی مفادات کے حصول کے لئے دوسری ریاستوں سے نہ صرف تعلقات استوار کرنے میں معاون ہوتی ہے بلکہ ریاستوں کی عوام کے درمیان معاشرتی اور ثقافتی رشتوں کو بحال کرکے فلاح و بہبود کی راہ ہموار کرتی ہے۔ یہاں خارجہ پالیسی کی اہمیت پر بات کرنا مقصود نہیں ہے لہٰذا اس سے صرفِ نظر کرتے ہوئے پاکستان کی خارجہ پالیسی پر مختصر روشنی ڈالی جاتی ہے۔
ویسے تو مختلف حالات و واقعات میں پاکستان کی خارجہ پالیسی کے مقاصد مختلف رہے ہیں لیکن مستقل اور عمومی مقاصد میں قومی مفادات، اقتصادی ترقی، ریاست کی خودمختاری، عالمی برادری سے برابری کی بنیاد پر دوستانہ تعلقات شامل ہیں۔ پچھلے دس سال سے پاکستان کی خارجہ پالیسی نسبتاً بہتری کی طرف گامزن ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان نے امریکہ پر انحصار کم کرکے روس کی طرف رجحان بڑھایا ہے۔ 2016ء میں جب نواز شریف کی حکومت تھی روس کے افواج نے پاکستان آکر پاکستانی فورسز کے ساتھ مشقوں میں حصہ لیا تھا اور یہ وہ وقت تھا جب پاک بھارت کشیدگی عروج پر تھی ان فوجی تعلقات کا آغاز جنرل پرویز اشفاق کیانی کے دور سے ہوا تھا جو تاحال جاری ہے۔ حال ہی میں جنرل قمر جاوید باجوہ روس گئے جہاں انہیں گارڈ اف آنر پیش کیا گیا اور انہوں نے گمنام سپاہیوں کی یادگار پر پھول بھی چڑھائے۔ ’’کریملن پیلس‘‘ میں روسی بری فوج کے سربراہ جنرل اولیگ سیلکوف سے ملاقات میں دوطرفہ فوجی تعاون بڑھانے پر بات چیت بھی کی۔ روس پاکستان کو سامان رسد لے جانے والے ایم آئی سیونٹین ہیلی کاپٹر گزشتہ پندرہ بیس برسوں سے دے رہے ہیں اور اب اس بات کے اشارے بھی ملے ہیں کہ پاکستان اپنی ضرورت کے دیگر ہتھیار بھی روس سے حاصل کرسکتا ہے۔ پچھلے دنوں روس سے ایک بہت بڑا وفد بھی پاکستان آگیا تھا، جس کے ساتھ اقتصادی تعلقات کی بہتری کے لئے بات ہوئی۔ امریکہ سے تعلقات میں سردمہری کے بعد اب پاکستان اپنی اقتصادی اور عسکری ترقی کے لئے امریکہ پر انحصار نہیں کر رہا بلکہ موجودہ حالات میں عالمی طاقتوں کے ساتھ تعلقات میں توازن کے لئے پاکستان کے پاس یہ آپشن ہے کہ وہ روس کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرے جس کو وہ بروئے کار لارہا ہے لیکن دوسری طرف روس کا بھی پاکستان کے ساتھ تعلقات بنانا ذاتی مفاد میں ہے کیونکہ روس کو ایشا میں پارٹنر کی ضرورت ہے اور اس کے لئے پاکستان سے بہتر آپشن اس کے پاس نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ روس سے نہ صرف تجارت بڑھ رہی ہے بلکہ عسکری تعاون بھی بڑھ رہا ہے اور بدلے میں روس بھی بڑے پیمانے پر پاکستان کے اندر سرمایہ کاری کا خواہش مند ہے۔ اس اثنا میں پاکستان کی خارجہ پالیسی کو جغرافیائی محل وقوع کی بدولت چین کے ساتھ راہداری معاہدے نے اہم مقام پر لا کھڑا کیا ہے کیونکہ سی پیک پر پوری دنیا کی نظریں ہیں جس کی وجہ سے ایشیائی ممالک کی بالخصوص اور دیگر کا بالعموم سی پیک خارجہ پالیسی کا حصہ ہیں۔ امریکہ نے ماضی میں پاکستان کو استعمال کیا ہے اور پاکستان کا مزید امریکہ کے لئے استعمال نہ ہونے کا فیصلہ یقیناً قابل ستائش ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کو چاہئے کہ اپنے پڑوسیوں کے ساتھ تعلقات پر خصوصی توجہ دیں، افغانستان کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہیں، ایران کا جھکاؤ ہندوستان کی طرف ہے، ہندوستان کے ساتھ تو ازلی دشمنی چلی آرہی ہے، ایسے میں خطے کے ممالک کے ساتھ خوشگوار تعلقات بنانا موجودہ حکومت کے لئے کسی چیلنج سے کم نہیں۔ اس وقت وزیراعظم پاکستان معاشی واقتصادی مسائل کے حل کے سلسلے میں تگ و دو میں ہیں اور دورہ پر دورہ کئے جارہے ہیں، یہ بات خوش آئند ہے لیکن جو حل تلاش کیا جارہا ہے وہ عارضی ہے اور سر سے وقتی طور پر مصیبت ٹالنے کے مترادف ہے، اس مسئلے کا مستقل اور دیرپا حل صرف پڑوسیوں کے ساتھ خوشگوار تعلقات میں پوشیدہ ہے کیونکہ افغان امن کا نہ ہونا اور ہندوستان و ایران کا مخالف ہونا، باہر کے سرمایہ کاروں کے پاکستان میں سرمایہ کاری کے راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں، اس لئے کہ امن اور سرمایہ کاری لازم و ملزوم ہیں لہٰذا وزیراعظم عمران خان کو اس طرف توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے، ہندوستان کے ساتھ مذاکرات یا سارک کی فعالیت کے ذریعے سے ممکن ہو تو اچھے تعلقات بنانا دونوں کے لئے فائدہ مند ہے خصوصاً پاکستان کے لئے لیکن اس معاملے میں کشمیر پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں ہونا چاہئے، ایران کے ساتھ تعلقات میں یہ بات مدنظر رہنی چاہئے کہ سعودی عرب اور ایران میں کسی ایک کی طرف جھکاؤ دوسرے کے لئے ناراضگی کا سبب بن سکتا ہے، افغانستان سے متعلق جو بھی فیصلہ ہو پارلیمنٹ اور دفتر وزارت خارجہ میں ہونا چاہئے کیونکہ اس سے متعلق بہت زیادہ تشویش پائی جاتی ہے اور یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ سی پیک جو پاکستان کیلئے مستقبل میں امیدوں کا سامان لیے ہوئے ہے، اس کا کارگر ہونا افغانستان کے ساتھ اچھے تعلقات کی صورت ہی میں ممکن ہے کیونکہ سرزمین افغانستان صرف افغانیوں کی نہیں بلکہ کئی بڑے ممالک خصوصاً پاکستان مخالف امریکہ اور بھارت کی آماجگا بن چکی ہے۔ ایسے میں جغرافیائی محل وقوع، عسکری قوت، داخلی استحکام، زرمبادلہ کے ذخائر، درآمدات و برآمدات یہ وہ ذرائع ہیں جو خارجہ پالیسی میں نمایاں کردار ادا کرتے ہیں لہٰذا اس کو بروئے کار لاتے ہوئے عمران خان پاکستان کی خارجہ پالیسی کو بہتر پوزیشن میں لاسکتے ہیں اور وہ کوشش بھی کررہے ہیں لیکن اس معاملے میں یوٹرن سے محتاط رہنا چاہئے ورنہ پھر دوبارہ راہ راست پر آنے کے لئے کٹ نہیں ملے گا۔