نصرت مرزا
امریکا کی ملٹری انڈسٹری دراصل ملکوں کو غلام بنانا اور سرمایہ دار نظام کو جاری رکھنے والی مشین ہے، اگر ایشائی زبان میں بات کی جائے تو یہ کہنا درست ہے ملکوں پر قبضہ کرنے اور سرمایہ دارانہ نظام کو لاگو کرنے والے نظام کی ”ماں“ ہے
نیٹو 30 ممالک پر مشتمل ایک فوجی اتحاد ہے جو امریکا کی کوشش سے بنا ہے۔ اس کو برقرار رکھنے کے لئے تقریباً ایک ٹریلین ڈالرز سالانہ اخراجات آتے ہیں۔ اس میں امریکا 740 بلین ڈالرز دیتا ہے جوکہ نیٹو کے بجٹ کا تین چوتھائی ہے۔ فروری کے تیسرے ہفتے ان 30 ممالک کے وزرائے دفاع کا ویڈیو کانفرنس کے ذریعے سے اجلاس ہوا۔ امریکا کی طرف سے امریکی وزیردفاع جان آسٹن اس اجلاس میں شریک ہوئے۔ وزرائے دفاع کے اس اجلاس میں امریکا نے نیٹو میں ایک دفعہ پھر جان ڈالنے کی کوشش کی ہے اور اپنے مشن کو موجودہ حالات جس میں امریکا کو چین اور روس سے خطرات درپیش ہیں۔ اُس کو Update یا موجودہ حالات کے مطابق بنانے کی کوشش کی۔ اس لئے پچھلے 10 برسوں سے یہ تنظیم اپنے موجودگی کا جواز تلاش کرنے میں سرگرداں تھی۔ امریکی وزیر دفاع جان آسٹن نے اس اجلاس میں تقریر کرکے اپنے مایوس اور منتشر اتحادیوں کو یکجا رکھنے کے لئے یقین دلایا کہ جوبائیڈن کی حکومت اس اتحاد کو برقرار رکھنا چاہتی ہے اور اس میں نئی روح اور نئی حرارت ڈالنے کی متمنی ہے۔ اگرچہ دوسرے ملکوں نے اِس پیغام کو واشنگٹن کے پرانے پیغامات کی طرح ایک دلاسہ قرار دیا۔ جس کا مطلب ہے کہ وہ روس اور چین کے خطرے کی خاطر زیادہ سے زیادہ اخراجات برداشت کریں جبکہ اُن میں سے بعض ممالک روس اور چین کو کم از کم چین کو اپنے لئے خطرہ نہیں سمجھتے، چاہے وہ امریکا کے لئے خطرہ کیوں نہ ہو۔ اُن کے لئے نیٹو ایک ٹوٹا پھوٹا تعلق ہے اور آج کے زمانے کی بات کی جائے تو ٹوٹی ہوئی لائن ہے۔ وہ جوبائیڈن کی انتظامیہ کو ایک نیا اسٹائل سمجھتے ہیں کیونکہ نیٹو کو زندہ کرنے کے لئے ٹھوس مواد موجود نہیں ہے۔ ٹرمپ نے اپنے یورپی اتحادیوں کی کئی مرتبہ توہین کی کہ روس اور چین سے خطرے سے نمٹنے کے لئے یورپ پر امریکا بڑے اخراجات کرتا ہے۔ یورپی ممالک کو نیٹو کے اخراجات میں اپنا حصہ بڑھانا چاہئے۔ جس کو یورپی ممالک نے اپنے اوپر بوجھ سمجھا اور ساتھ ساتھ ٹرمپ کے رویے کو توہین آمیز گردانا گیا۔ جس کے بعد یورپی ممالک نے اپنی پوزیشن کو صورتِ حال کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی۔ کچھ ممالک نے چین سے تعلقات استوار کرلئے، جیسے اٹلی نے چین سے ون بیلٹ ون روڈ کو وینس کی بندرگاہ پر آنے کی اجازت دے دی۔ برطانیہ، جرمنی اور فرانس نے P5+1 میں ایران کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔ یوں ہر ایک ملک نے اپنا خود راستہ بنانے کے لئے منصوبہ بندی شروع کردی اور پھر انہوں نے جان لیا کہ ویت نام، شام، عراق، لیبیا اور افغانستان میں اُن کو کیا ملا۔ اپنے فوجی اور شہری مروا کے صرف امریکا کی بالادستی کو برقرار رکھا۔ اس کے بعد امریکا نے نیٹو کو ٹشوپیپر کی طرح سے نکال دیا، خود معاہدہ کرلیا، اگرچہ نیٹوافغان طالبان سے معاہدات کے خلاف تھا اور اب امریکا نیٹو کی اہمیت کو اُجاگر کرنے کی کوشش کررہا ہے، امریکا اپنے موقف کو اپنے اتحادیوں کو نرمی سے تھوپنے کی کوشش کرتے رہے ہیں اور بحراوقیانوس سے آگے شراکت داری پر زور دیتے رہے اور یہ یقین دہانی کراتے رہے کہ جوبائیڈن کی انتظامیہ نیٹو اتحادی سے فیصلہ سازی میں مشاورت کی سطح کو بڑھائے گی اور اپنے اتحادیوں کو فیصلہ سازی میں شا مل کرے گی۔
یورپی ممالک اس کو پرانا امریکی منترا سمجھتے ہیں کہ وہ یورپی ممالک کے وسائل کو امریکی مفاد کے لئے استعمال کرنا چاہتا ہے اور ملٹری سازوسامان یورپی ممالک کو بیچنے کی ایک کوشش سمجھی جارہی ہے۔ ہمارا اس حوالے سے یہ خیال ہے کہ پاکستان اور ایشیائی ممالک زیادہ آزاد ہیں جبکہ یورپی ممالک کو امریکا نے دبا کر رکھا ہوا ہے، آج سے کوئی 10 سال پہلے یورپی ممالک کے سوئیڈن کے وزیرخارجہ کارل بلڈٹ اور پولینڈ کے وزیرخارجہ راویک سیکو برسکی نے 2010ء میں ایک مشترکہ مضمون میں امریکا اور روس کے درمیان اسٹرٹیجک ایٹمی اسلحہ کی معاہدہ میں تاخیر پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔ یورپ میں اسٹرٹیجک اور محدود پیمانے پر نقصان پہنچانے والے ایٹمی ہتھیاروں کی اتنی بھرمار ہے کہ پورا یورپ اس کے خوف سے لرزہ براندام ہے۔ میں نے ”ایٹمی اسلحہ، ایشیا لرزہ اور سہما یورپ“ کے عنوان سے لکھے گئے ایک مضمون میں ذکر کیا تھا۔
امریکا کی ملٹری انڈسٹری دراصل ملکوں کو غلام بنانا اور سرمایہ دار نظام کو جاری رکھنے والی مشین ہے۔ اگر ایشائی زبان میں بات کی جائے تو یہ کہنا درست ہے ملکوں پر قبضہ کرنے اور سرمایہ دارانہ نظام کو لاگو کرنے والے نظام کی ”ماں“ ہے۔ امریکن یہ چاہتے ہیں کہ اُن کا اسلحہ یورپ خریدے اور اُن پر روس اور چین کا خوف طاری رہے۔ امریکا نے یورپ میں بہت زیادہ ایٹمی اسلحہ نصب کیا ہوا ہے، جواباً روس نے بھی یورپ کے اطراف اس سے کہیں زیادہ اسلحہ نصب کر رکھا ہے، جس سے یورپ بہت خوفزدہ ہے۔ اس دفعہ امریکا اپنے جنگی جہاز اور میزائل سسٹم بیچنا چاہتا ہے تاکہ اس کا سرمایہ دارانہ نظام قائم و دائم رہے۔ اب ساری دُنیا کی معیشت بدحالی کا شکار ہے۔ عالمی ماحولیات کی فراہمی کا شکار ہے اور سوشل حالات کی بدحالی کی وجہ سے اب جنگی جہاز اور میزائل خریدنا یورپ کے لئے کافی مشکل نظر آتا ہے، یورپ کے ممالک اس نتیجے پر پہنچ گئے ہیں کہ یہ ایک ٹریلین ڈالر کی رقم ایک ایسی تنظیم پر خرچ کرنا جس سے کچھ آمدنی نہیں ہوتی تو اس کے وجود کا کیا فائدہ۔
اگر نیٹو کے وجود کو قائم رکھنے کے لئے امریکا کے پاس روس اور چین کا واقعی کوئی خطرہ ہے تو اس کے لئے امریکا کو یورپی ممالک کو سمجھانا پڑے گا ورنہ تو یہ ایک بے وقوفی کی بات ہوگی کہ نہ تو چین اور نہ ہی روس کسی طور پر یورپ کے لئے خطرہ محسوس نہیں کرتے۔ چین کے ذمہ داران نے واضح طور پر کہا ہے کہ امریکا کی عالمی بالادستی کو چیلنج نہیں کرنا چاہتے اور روس بھی امریکا کے لئے کوئی خطرہ نظر نہیں آتا سوائے اس کے امریکا کا بیانیہ کی تکرار ہے کہ یہ ان ممالک سے خطرہ نہ تو روس کے کوئی توسیع پسندانہ عزائم ہیں اور نہ ہی چین کے بلکہ چین فوجی طور پر لڑتا نہیں ہے بلکہ وہ لوگوں کو معاشی طور پر آگے بڑھانے میں دلچسپی لے رہا ہے۔ امریکا کے سخت قوانین کی بجائے غریب ممالک کی مدد کے لئے نرم شرائط پر قرضوں کا بندوبست کررہا ہے۔ دوسرے وہ اپنے روڈ اور بیلٹ کے ذریعے دنیا کی خوشحالی اور وقار کی بحالی کا خواہاں ہے جبکہ امریکا دُنیا بھر میں خونریزی کررہا ہے، افغانستان سے نکلنے کے معاہدہ کو توڑ رہا ہے، انڈیا کو چین سے لڑنے کے لئے اسباب پیدا کررہا ہے، اُس کو زیادہ سے زیادہ اسلحہ فراہم کرکے خطے میں طاقت کا توازن بگاڑ رہا ہے اور پاکستان کو خطرے میں ڈال رہا ہے۔ وہ نہ تو فلسطین کے غریبوں کی مدد کو دستیاب ہے اور نہ ہی مظلوم کشمیریوں کی حمایت کرنے کی کوشش کررہا ہے کہ بھارت کو مجبور کرے کہ وہ کشمیریوں کو مکمل آزادی دیدے، بلکہ امریکا بھارت جیسے نسل پرست اور انتہاپسند ناپسندیدہ مذہب کے حامل ملک جس میں انسانوں کو دوسرے انسانوں پر برتری مذہبی طور پر حاصل ہے مدد کررہا ہے، جوکہ ایک انسانیت سوز ظلم ہے، خودغرضی کی انتہا ہے اور انسانیت کے منہ پر طمانچہ ہے۔
نیٹو کا بجٹ روس اور چین کے دفاعی بجٹ سے بھی زیادہ ہے، اس کے باوجود بھی امریکا ان کو اپنا دشمن سمجھتا ہے جبکہ نہ تو چین اور روس یورپ کو اپنا دشمن قرار دیتے ہیں اور نہ ہی یورپ کے خلاف کوئی کارروائی کررہے ہیں، اس لئے نیٹو کا اب فعال ہونا محال نظر آتا ہے۔