سردار شیراز خان
تمام تر خدشات، افواہوں اور سازشوں کے باوجود ملک انتخابات کے راستے پر گامزن ہوچکا ہے، ملکی تاریخ میں یہ دوسرا موقع ہے کہ ایک منتخب جمہوری حکومت اپنی آئینی مدت پوری کررہی ہے۔ اس سے قبل پیپلزپارٹی کی حکومت نے اپنی مدت پوری کرتے ہوئے اقتدار دوسری منتخب حکومت کو منتقل کیا تھا۔ دو روز قبل یہ اعلان کیا گیا کہ ملک میں عام انتخابات 25 جولائی 2018ء کو ہوں گے۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے نگراں وزیراعظم کے لئے سابق چیف جسٹس ناصر الملک کو نامزد کردیا ہے۔ جسٹس (ر) ناصر الملک کے بارے میں مختلف حلقوں میں شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں، ایک حلقے کا موقف ہے کہ اول یہ کہ جسٹس (ر) ناصر الملک نے 2014ء میں اس وقت پاکستان کے چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالا تھا جب ملک دھرنوں کے بوجھ تلے دبا ہوا تھا۔ تحریک انصاف کے باغی رہنما جاوید ہاشمی نے ایک پریس کانفرنس میں اس بات کا انکشاف کیا تھا کہ عمران خان نے ایک اجلاس کے دوران بتایا تھا کہ ہماری مقتدر قوتوں سے بات ہوچکی ہے، ابھی جسٹس تصدق جیلانی چیف جسٹس ہیں جیسے ہی جسٹس ناصر الملک آئیں گے اسمبلیاں ختم کردی جائیں گی، 90 دن کے بعد انتخابات کروائے جائیں گے اور ہم اکثریت سے حکومت بنانے کی پوزیشن میں آئیں گے۔ ایک دوسرے حلقے کی یہ رائے ہے کہ جسٹس (ر) ناصر الملک ایک کمزور منتظم ہیں، وہ اپنے گارڈ کے اغوا ہونے والے پانچ بچوں اور داماد کو رہا نہیں کروا سکے تھے، ان کے لئے اتنے بڑے انتخاب میں مختلف اطراف کے دباؤ کو برداشت کرنا اور شفاف انتخابات کو یقینی بنانا ناممکن ہوگا۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے بقول نگراں وزیراعظم کا فیصلہ کرنا آسان نہیں تھا لیکن وہ اتفاق رائے قائم کرنے کے لئے سب جماعتوں کے مشکور ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایک ایسی شخصیت کا انتخاب کیا گیا ہے جس کا ماضی واضح ہے۔ سید خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ نگراں وزیراعظم کے لئے زیرغور آنے والے تمام نام قابل اعتبار اور محترم تھے اور جمہوری انداز سے اس معاملے کا فیصلہ ہونا خوش آئند اور تاریخی ہے۔ سیاسی مبصرین کے مطابق اس وقت بھی حالات ایسے تھے کہ 2013ء کے انتخابات کی طرح اس دفعہ بھی نگراں وزیراعظم کے انتخاب کے لئے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اتفاق رائے نہیں ہوپائے گا اور پارلیمنٹ کی بجائے الیکشن کمیشن نے نگراں وزیراعظم کا فیصلہ کرے گا۔ آخری لمحوں میں وزیراعظم کے مطابق تمام جماعتوں نے جسٹس (ر) ناصر الملک کے نام پر اتفاق کرلیا۔ ان کے حق میں جو دلائل دیئے جارہے ہیں، ان کے مطابق 2014ء میں جب ناصر الملک نے پاکستان کے چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالا تھا اس وقت وہ قائم مقام چیف الیکشن کمشنر بھی تھے، اس لئے ان کے پاس دونوں عہدوں کا تجربہ ہے، پھر یہ کہ وہ سپریم کورٹ کے اُن ججوں میں شامل ہیں جنہیں سابق فوجی صدر پرویز مشرف نے 3 نومبر 2007ء کو ملک میں ایمرجنسی کے نفاذ کے بعد گھروں میں نظربند کردیا تھا۔ تاہم انہوں نے 2008ء میں ملک میں عام انتخابات کے بعد پاکستان پیپلزپارٹی کے دور میں اُس وقت کے چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر سے دوبارہ اپنے عہدے کا حلف لیا تھا۔ جسٹس ناصر الملک اس بینچ کا بھی حصہ تھے جس نے سابق صدر پرویز مشرف کی طرف سے 3 نومبر 2007ء کو ملک میں ایمرجنسی کے نفاذ کو کالعدم قرار دیا تھا۔ جسٹس ناصر الملک نے اس سات رکنی بینچ کی بھی سربراہی کی تھی جس نے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو 26 اپریل 2012ء میں اُس وقت کے صدر آصف علی زرداری کے خلاف مقدمات کھولنے کے لئے سوئس حکام کو خط نہ لکھنے پر توہین عدالت کے مقدمے میں مجرم قرار دیا تھا۔ جسٹس ناصر الملک نے سپریم کورٹ کے اس بینچ کی سربراہی کی تھی جس نے مختاراں مائی کیس کا فیصلہ سنایا تھا، نگراں وزیراعظم جسٹس ریٹائرڈ ناصر الملک چیف الیکشن کمشنر جسٹس ریٹائرڈ فخر الدین جی ابراہیم کے مستعفی ہونے کے بعد قائم مقام چیف جسٹس الیکشن کمشنر بھی رہے ہیں۔ جسٹس (ر) ناصر الملک کے بارے میں ان دو آراء کی موجودگی میں اچھی بات یہ ہے کہ ان کے نام پر تمام جماعتوں نے اتفاق کیا ہے، اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ 2013ء کے انتخابات میں دھاندلی کیس میں یہ موقف اختیار کیا تھا کہ انتخابات میں منظم دھندلی کا کوئی ثبوت نہیں ملا ہے۔ البتہ بے قاعدگیوں کے انفرادی واقعات ہوئے ہیں جنہیں انتظامی امور کو بہتر بناتے ہوئے دور کیا جاسکتا ہے۔ خیال رہے کہ پاکستان کے صدر ممنون حسین ملک میں 25 جولائی 2018ء کو عام انتخابات کروانے کی منظوری دے چکے ہیں۔ قومی و صوبائی اسمبلی کے انتخابات ایک ہی دن منعقد کئے جائیں گے۔ آئین کے تحت موجودہ حکومت کی مدت اس مہینے کے آخر میں مکمل ہورہی ہے جس کے بعد 60 روز کے اندر عام انتخابات کروانا ضروری قانونی تقاضا ہے۔ عام انتخابات نگراں حکومت کے تحت منعقد کئے جاتے ہیں جو انتقال اقتدار تک اپنے فرائض انجام دے گی۔ دستور کے مطابق حکومت کی آئینی مدت مکمل ہوجانے سے پہلے ہی نگراں وزیراعظم کے عہدے کے آئینی تقاضے پورے کر لئے جاتے ہیں۔