Wednesday, July 30, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

نوازشریف: بادشاہت قائم کرنے کی کوشش میں

نصرت مرزا
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں محمد نواز شریف، پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری، ایم کیو ایم لندن کے بانی الطاف حسین اور تمام فوجی آمروں سے زیادہ خطرناک ہیں، کیونکہ انہوں نے اپنی بادشاہت کے لئے نیٹ ورک بچھا دیا ہے اور اب جو آخری رکاوٹ ہے اس پر دباؤ بڑھا رہے ہیں۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کیونکہ ایک شریف آدمی ہیں، وہ ڈان لیکس پر دباؤ میں آئے اور اب بھی دباؤ میں آئے ہوئے ہیں اور اسی وجہ سے مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز اتنی کھل کر بول رہی ہیں اور مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف ایک میسنے کی طرح اسٹیبلشمنٹ کی خوشامد کررہے ہیں، اگر تاریخ دُہرائی جائے تو نوازشریف نے کسی معاہدے کی پاسداری نہیں کی، چاہے وہ سابق صدر پرویز مشرف سے کیا ہو یا کسی اور سے۔ انہوں نے پہلے جنرل مرزا اسلم بیگ اور جنرل حمید گل پر الزام لگایا کہ وہ اخراجات پورا کرنے کے لئے ہیروئن کی اسمگلنگ کراتے ہیں، جو سراسر جھوٹ کا پلندا تھا پھر جنرل آصف نواز کی موت مشکوک ہے، ان کا آئی بی کے ادارے کے ذریعے تعاقب کرایا جاتا تھا اور ان سے ملنا تک بند کردیا تھا، یہ بات انہوں نے خود مجھے بتائی، اس سے پہلے جنرل آصف نواز کو نواز شریف کے ابا جی نے بی ایم ڈبلیو کار پیش کی، جس کو جنرل آصف نواز نے قبول نہیں کیا، اس کی تصدیق ان کی بیٹی نے بھی کی جبکہ خود انہوں نے مجھے بتلایا تھا کہ نواز شریف فوج میں کرپشن پھیلا رہے ہیں، وہ نواز شریف کے ممنون تھے کہ انہوں نے ان کو چیف بنایا تھا، میرے مشورے پر جب وہ صدر غلام اسحاق سے ملے تو ان پر صورتِ حال واضح ہوگئی کہ ان کو دراصل غلام اسحاق نے چنا تھا اور اس میں میرا مشورہ شامل تھا، اس کے بعد آصف نواز، نواز شریف کے دباؤ میں نہ رہے۔ ایک خاتون سیاستدان کے مطابق وہ کچھ اور کرنا چاہتے تھے، اس کے دس دن کے اندر ان کی مشکوک طور پر موت واقع ہوگئی، میری ان کی آخری ملاقات ان کی موت سے دس دن پہلے ہوئی تھی، اس وقت انہیں معلوم تھا کہ جنرل سلیم ملک جن کے بھائی نعیم ملک مسلم لیگی وزیر تھے وہ نواز شریف کے لئے کراچی میں الگ سے کام کررہے تھے، کراچی کے بطور جی او سی کام کررہے تھے، یہ کہانی بہت طویل ہے جو الگ سے لکھی جانا چاہئے۔ پھر جنرل جہانگیر کرامت کو بے عزت کرکے نکال دیا، سپریم کورٹ پر حملہ کیا، جونیجو کو ہٹایا، اس عمل میں قاضی حسین احمد کو دھوکہ دے کر استعمال کیا، عبدالوحید کاکڑ کے ساتھ گڑبڑ کی، پرویز مشرف سے معاہدہ کیا اس کو توڑا، جنرل طارق پرویز کو چیف بنانے کے لئے اور پرویز مشرف سے جان چھڑانے کی بات کی۔ اب فریب اور دھوکہ دے کر ملک سے فرار ہوا اور وہاں سے پاکستان کے خلاف ایک کے بعد دوسری کارروائی کرتا جارہا ہے۔ اُن کی بیٹی مریم نواز صاحبہ سوشل میڈیا پر جنگ کی سرحد لائن عبور کر چکی ہیں۔ وہ کبھی جج حضرات کے خلاف ویڈیو نکالتی ہیں اور کبھی کسی اور کے خلاف۔ انہوں نے جو میڈیا سیل بنایا تھا اس وقت نواز شریف وزیراعظم تھے اور وہ فیصلہ کرتی تھیں کہ کس اخبار یا ٹی وی چینل کو اشتہار دیئے جائیں، انہوں نے ڈان لیک جاری کرائی۔ انہوں نے یہ صلاحیت حاصل کرلی کہ بیانات کو جوڑ کر ایسی بے داغ ویڈیو بنائی جائے جو سچ اور درست لگے اور پھر اس ویڈیو کو لے کر ایسے ادارے بھی گئے جو اس بات کی تصدیق کر دیتے ہیں کہ یہ درست ہے جب کہ کچھ ادارے ایسے بھی ہیں جو اس ویڈیو کو غلط ثابت کر دیتے ہیں، مگر وہ مسلسل برسرپیکار ہیں، انہوں نے تین طرح کی پالیسی وضع کررکھی ہے، دوسری جانب شہباز شریف اداروں کی خوشامد کرکے انہیں کسی انتہائی اقدام اٹھانے سے باز رکھتے ہیں، دوسرے انہوں نے صحافیوں، اداروں، نوکر شاہی، تاجروں اور صنعتکاروں میں اپنے لئے گروپ بنایا ہوا ہے اور تیسرے اُن کی صاحبزادی مریم نواز اور اُن کے مراعات یافتہ سیاستدان اداروں کے خلاف ڈھول پیٹتے رہتے ہیں تاکہ وہ دباؤ میں رہیں۔ میں اِن محترمہ کی شرارت کی ایک مثال دینا چاہتا ہوں جب ایک وقت میں نے جنرل راحیل شریف سے یہ شکایت کی کہ محترمہ مریم نواز صاحبہ انہیں ”مچھندر“ کہہ کر پکارتی ہیں، انہوں نے کہا کہ بیٹی کی حیثیت سے اُسے ایسا نہیں کرنا چاہئے، اُس کو نوازشریف نے اپنی فتح قرار دیا اور وہ جب مریم نواز کے میڈیا سیل میں گئے تو نوازشریف زندہ باد کے نعرے لگے، کہ فوج کا چیف دباؤ میں آگیا ہے اور اُس کے بعد نوازشریف کو زیادہ سے زیادہ اختیارات دیتے چلے گئے اور اُن کو اپنی بادشاہت قائم کرنے کا ہر اول دستہ بنا لیا، اُن کے ساتھ ہمارے ایک شریف دوست مگر اداروں سے زخمی بھائی بھی لگے ہوئے ہیں، میں نے اُن کی اس وقت مدد کی جب وہ مشکل میں تھے مگر انہوں نے کبھی میری مدد کرنے سے گریز نہیں کیا، ویسے میرا کوئی ذاتی کام نہیں ہوتا، البتہ انہوں نے مجھ پر یہ جملہ ضرور کسا کہ نوکری کرلی ہے۔ میں نے کہا کہ حرام کھانے یا کسی کا ”کل پرزہ“ بننے سے نوکری بہتر ہے، جہاں کم سے کم مجھے بولنے اور لکھنے کی آزادی ہے۔ ممکن ہے راحیل شریف کے حوالے سے کچھ اگر خوش نہ ہوں گے مگر یہ بات یاد رکھنا چاہئے کہ کسی کے ساتھ بھی یہ توہین آمیز سلوک ہوسکتا ہے، جیسا کہ جنرل قمر جاوید باجوہ کے خلاف ہوا کہ جب اُن کو ڈان لیک پر اپنا ٹیوٹ واپس لینا پڑا، جس سے اُن کی سبکی ہوئی۔ اب جج رانا شمیم کو لے کر آگئے ہیں کیونکہ وہ ن لیگی تھے، اُن کے احسان مند اور اُن کو رسوا کرکے چھوڑیں گے، اسی طرح آزاد کشمیر کے وزیراعظم نے یہاں تک کہہ دیا کہ اگر نوازشریف کو نکال دیا گیا تو کشمیریوں کو سوچنا پڑے گا کہ انہیں کیا کرنا پڑے گا، میں اصل الفاظ جان بوجھ کر استعمال نہیں کررہا ہوں، پھر دو اور مسلم لیگی بھارت سے مدد مانگنے کی بات کرتے ہوئے عدالتوں کے چکر لگاتے ہیں، مگر وہ یہ نہیں سمجھ سکے کہ ملک اور نواز شریف کی وفاداری میں کیا فرق ہے، خود نوازشریف بھارت سے مل گئے اور اُن کو اسی طرح جس طرح بینظیر بھٹو نے راجیوگاندھی سے کہا تھا اور جس طرح ذوالفقار علی بھٹو نے اندراگاندھی سے کہا تھا کہ پاکستان کی فوج جس طرح آپ کی دشمن ہے اس طرح میری بھی ہے۔ یہ کہنے سے باز نہ آئے اور اس کا اظہار بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو بلانا جس کا مذاق نریندر مودی اپنی کئی ویڈیوز میں کہہ چکے ہیں اور پھر ایک بھارتی تاجر کو بلا ویزا کے مری میں ملاقات کے لئے بلایا، پاکستان کے قانون کو توڑنے اور اُن کے بادشاہوں کی طرح اقدامات اٹھانے کے مترادف ہے، اگر میں انہیں غداری کا الزام نہ بھی لگاؤں تو کم از کم بادشاہت قائم کرنے کا ثبوت فراہم تو کرسکتا ہوں۔ میں خود بھی نواز شریف کی جال میں پھنس جاتا مگر اللہ نے مجھ پر ہمیشہ کرم کیا ہے اور مجھ سے وہ کام لئے ہیں جو لوگوں کو ورطہئ حیرت میں ڈال دیں گے۔ اِس کی ایک مثال تو یہ ہے کہ جب نوازشریف کو جنرل عبدالوحید کاکڑ نے نکالا تو میں نے سوچا کہ میں اثرورسوخ استعمال کرکے نوازشریف کی کاکڑ صاحب سے دوستی کرا دوں، اس سلسلے میں جب محترم مجید نظامی صاحب کے ساتھ اُن کے گھر کھانے پر بلایا گیا تو اُن کے گھر کے داخل ہوتے ہی داہنی ہاتھ پر مغل بادشاہوں کی تصویریں آویزاں تھیں اور آخر میں ایک جگہ خالی تھی، جس پر مجید نظامی صاحب نے نواز شریف سے پوچھا کہ یہ جگہ کس کے لئے چھوڑ دی ہے، پھر خود ہی کہا کہ یہ اپنے واسطے۔ اس پر نواز شریف مسکرائے، اس وقت میرے دل میں موہوم سا خیال آیا کہ یہ شخص واقعی بادشاہ بننا چاہتا ہے، اب یہ خیال واضح ہوگیا ہے اور میں عوام سے یہ گزارش کرنے میں حق بجانب ہوں کہ ان کا راستہ روکا جائے کیونکہ یہ شخص، آصف علی زرداری اور الطاف حسین سے زیادہ خطرناک ہے۔ بھارت کے ریٹائرڈ جنرل یہ کہتے سُنے گئے ہیں کہ ہم نے نواز شریف پر بہت سرمایہ کاری کی ہے، ہم اُسے اکیلا نہیں چھوڑ سکتے، اس وقت اخباری اطلاعات کے مطابق نواز شریف کو کئی بلین ڈالرز دیئے گئے ہیں کہ پاکستان کو عدم استحکام کا شکار کیا جائے اور اُن کی واپسی کی راہ ہموار کی جائے تاکہ اُن کی بادشاہت قائم ہو، اس لئے بے دریغ پیسے استعمال کئے جارہے ہیں، اب اُن سے کون کون خریدا جارہا ہے معلوم نہیں۔ مگر حالات ایسے نظر آتے ہیں کہ نوازشریف اپنے کام میں لگا ہوا ہے اور لوگ اور ادارے تھک چکے ہیں۔

مطلقہ خبریں