عطاء الرحمن چوہان
جب ہم اُردو کے نفاذ کا مطالبہ کرتے ہیں تو کچھ لوگ اسے انگریزی دشمنی سے تعبیر کرتے ہیں۔ انگریزی کی بین الاقوامیت اور افادیت سے انکار نہیں۔ پاکستانیوں کو انگریزی پڑھنی اور سیکھنی چاہئے۔ یقیناً انگریزی علوم کا خزانہ ہے اس سے اہل پاکستان اور امت مسلمہ کو مستفید ہونا چاہئے۔ خیر جہاں سے ملے اسے قبول کرنا چاہئے۔ یاد رہے کہ اُردو بھی بین الاقوامی زبان ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق اُردو دنیا کی چوتھی بڑی زبان ہے۔ اسلام کا علمی خزانہ بھی سب سے زیادہ اُردو میں ہی میسر ہے اس لئے اُردو ہمارے لئے بہت اہم ہے۔
اُردو پاکستان میں رابطے کی واحد زبان ہے۔ سندھی، بلوچی، سرائیکی، بروہی، پنجابی، پوٹھوہاری، ہندکو، گوجری، پشتو، شینا اور بلتی زبانیں بولنے آپس میں قومی زبان اُردو میں تبادلہ خیال، کاروبار اور معاشرتی امور انجام دیتے ہیں جبکہ انگریزی پاکستان میں بمشکل ایک فیصد لوگ سمجھتے ہیں لیکن عام زندگی میں بولتے نہیں۔ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ نے اُردو کو پاکستان کی قومی اور سرکاری زبان قرار دیا بلکہ اس شدت سے قرار دیا اور کہا کہ جو اُردو کے بارے میں آپ کو گمراہ کرے وہ پاکستان کا دشمن ہے۔
اردو پاکستان کی پہچان اور تشخص کی علامت ہے، اس لئے اہل پاکستان کا یہ بنیادی حق ہے کہ وہ اپنی قومی زبان میں پڑھیں، لکھیں اور اسی زبان میں ان سے ریاست معاملات کرے۔ یہ حق دستور پاکستان کی شق 251 میں تسلیم کیا گیا ہے اور ریاست کو حکم دیا گیا ہے کہ اسے بطور سرکاری، دفتری اور تدریسی زبان نافذ کیا جائے۔ انگریزی سے اردو کی طرف منتقلی کے لیے دستور میں پندرہ سال کی جو مہلت دی گئی تھی وہ بھی 1998ء میں ختم ہوچکی ہے۔ نوکرشاہی 1998ء سے مختلف حیلوں اور بہانوں سے سپریم کورٹ سے مزید مہلت لیتی رہی ہے۔ الحمدللہ 2015ء کے عدالت عظمیٰ کے فیصلے نے مزید مہلت کا راستہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بند کردیا ۔ یوں نوکر شاہی اب عدالتی مہلت سے بھی محروم ہوچکی ہے اور دستور شکنی کے ساتھ ساتھ توہین عدالت کی بھی مرتکب ہو رہی ہے۔
جنرل ضیاء الحق مرحوم کی ذاتی دلچسپی کی وجہ سے مقتدرہ قومی زبان نے 1998ء تک پورے نظام حکومت اور نظام تعلیم کو قومی زبان میں منتقلی اہتمام کردیا تھا۔ تمام دفتری مراسلت، قوانین، قواعد اور ضروری دستاویزات اردو میں منتقل کردی گئیں تھیں۔ دفتری زبان میں استعمال ہونے والی تمام اصطلاحات کو بھی اردو میں منتقل کیا گیا۔ سیکریٹریٹ ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ کے زیراہتمام تمام سرکاری محکموں کے افسران اور عملہ اراکین کو بھی دفتری اردو کی تربیت کا اہتمام بھی مکمل کردیا گیا تھا۔ آج تک اردو دفتری مراسلت کورس کرنے کا خصوصی الاوئنس بھی لے رہے ہیں۔
آج انگریز سامراج کی زبان کو پاکستان میں مسلط رکھنے کا کوئی قانونی اور اخلاقی جواز باقی نہیں رہا۔ یہ صرف حکمرانوں کی نااہلیت، قومی زبان کی اہمیت سے لاعلمی اور استعماریت کے مرعوبی اور نوکرشاہی کی ہٹ دھرمی سے جابرانہ طور پر قائم ہے۔ انگریزی محض ایک زبان نہیں بلکہ ایک تہذیب ہے جو ہماری سوچ اور فکر پر بھی اثرانداز ہورہی ہے۔ نئی نسل انگریزی میڈیم کی وجہ سے آج اردو لکھنے سے محروم ہو رہی ہے اور انگریزی رسم الخط میں رومن اردو لکھی جارہی ہے۔ کچھ ملٹی نیشنل کمپنیاں رومن اردو کو فروغ دے کر ہمیں اپنی میراث سے محروم کرنے کی سازش میں ملوث ہیں۔
حد تو یہ ہے کہ ہمارے ملک میں ہی ہماری زبان کی توہین کی جارہی ہے۔ سوائے چند ایک کے، ہمارے حکمران جاہل ہی تھے۔ نوکر شاہی ان کے ساتھ کام کرنے میں آسانی محسوس کرتی تھی۔ وزراء کی اکثریت وہ زبان جانتی ہی نہیں تھی، جس میں نوکرشاہی حکومت کررہی تھی۔ یہ وزراء بس انگریزی میں دستخط کرنا ہی جانتے تھے۔ یوں نوکر شاہی جاہل حکمرانوں کے ذریعے اپنی نسلوں کو پاکستان پر مسلط رکھنے کے منصوبے پر کام کرتی رہی۔ انگلش میڈیم اداروں پر قومی خزانے سے بھاری اخراجات کئے گئے، جن میں نوکرشاہی، حکمرانوں اور مراعات یافتہ طبقے کے بچے تعلیم حاصل کرتے رہے اور غریب کے بچے کھلے آسمان تلے ٹاٹ پر بیٹھنے پر مجبور کئے گئے۔
آسیہ بی بی کے کیس کا فیصلہ چیف جسٹس صاحب نے انگریزی کے ساتھ ساتھ اردو میں بھی جاری کیا اور اپنے ریمارکس میں کیا خوب کہا کہ اردو میں اس لئے جاری کیا جارہا ہے تاکہ قوم کو سمجھ آجائے کہ فیصلہ کیا ہوا ہے۔ جناب چیف جسٹس کے ریمارکس سے بالکل واضح ہوتا ہے کہ وہ باقی سارے فیصلے انگریزی میں اس لئے کرتے ہیں کہ قوم کچھ بھی نہ سمجھ سکے۔ چیف جسٹس صاحب کی طرح ہمارے حکمران، بیوروکریٹ بھی معاملات حکومت انگریزی میں اس لئے چلا رہے ہیں کہ جس قوم کے پیسوں پر وہ پل رہے ہیں، اسے کچھ سمجھ نہ آئے کہ ان کے ساتھ کیا کیا جارہا ہے۔ سپریم کورٹ میں دیئے گئے ریمارکس کسی وضاحت کے محتاج نہیں بلکہ بہت واضح اور صاف ہیں۔
مراعات یافتہ طبقے نے سارے قومی وسائل اپنے بچوں کو انگریزی پڑھانے پر صرف کئے اور عوام کو جاہل رکھنے کی پوری کوشش کی۔ جہاں کہیں مجبوراً اسکول بنانے پڑے ان میں نہ عملہ ہے اور نہ تدریسی وسائل اور ماحول ہے۔ عوام کو کمیوں کی طرح دال پر ٹرخانے والے کب تک قومی دولت کو لوٹتے رہیں گے۔ عوام کے لئے جو تعلیمی ادارے قائم کئے گئے ان کو چلانے والے یہی نوکر شاہی تھی جس نے ان میں کبھی بھی معیار قائم کرنے کی کوشش نہیں کی۔ آج کتنے سرکاری افسروں اور حکمران طبقے کے بچے سرکاری اسکولوں میں زیرتعلیم ہیں۔ اگر نہیں تو کیوں؟ یہ ظلم اور دادا گیری کب تک جاری رہے گی؟ قومی وسائل پر پانچ فیصد مراعات یافتہ لوگوں کو کب تک پالا جاتا رہے گا؟
عمران خان گزشتہ 22 سالوں سے کالے انگریزوں کی مذمت کرتے رہے ہیں، انہوں نے عنان حکومت سنبھالتے ہی قومی وقار کو ملحوظ رکھا، قومی لباس کو عزت دی اور قومی زبان میں حلف لیا۔ صدر مملکت نے بھی قومی زبان میں ہی حلف لیا، یہ اس بات کی علامت ہے کہ عمران خان ماضی کے حکمرانوں کی طرح مغرب سے مرعوب نہیں۔ وہ بیرونی دوروں کے دوران بھی قومی لباس ہی پہنتے ہیں۔ ہمارے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے اقوام متحدہ جیسے موقر پلیٹ فارم پر قومی زبان اردو میں خطاب کرکے تاریخ رقم کی۔ یہ توفیق میاں محمد نوازشریف اور آصف علی زرداری سمیت کسی کو حاصل نہیں رہی۔
عمران خان یکساں نظام تعلیم کے علمبردار ہیں اور انہوں نے اس کے لئے عملی کام بھی شروع کردیا ہے۔ میری معلومات کے مطابق موجودہ حکومت نے یکساں نظام تعلیم کے لئے جو ٹاسک فورس بنائی تھی، اس نے یکساں نظام تعلیم کو قومی زبان اردو میں رائج کرنے کی سفارش کردی ہے۔ گزشتہ ہفتے پنجاب کے وزیرتعلیم ڈاکٹر مراد راس نے طباعتی اداروں کے ساتھ نشست میں بہت واضح الفاظ میں کہا ہے کہ پنجاب کے سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں میں یکسان نصاب رائج کیا جارہا ہے اور پرائمری سطح پر قومی زبان میں تعلیم دی جائے گی۔ ہم اس اقدام کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور امید رکھتے ہیں کہ موجودہ حکومت جلد ثانوی اور اعلیٰ تعلیم بھی قومی زبان میں دینے کا تاریخ ساز فیصلہ کرے گی۔
تعلیمی نظام کو قومی زبان میں منتقل کرنے کے ساتھ ساتھ سی ایس ایس، وفاقی اور صوبائی ملازمتوں کے لئے مقابلے کے دیگر امتحانات بھی قومی زبان میں لینے کی ضرورت ہے۔ ہماری 80 فیصد آبادی دیہی علاقوں میں مقیم ہے جہاں اب تک اردو ہی ذریعہ تعلیم ہے۔ دیہی تعلیمی اداروں سے پڑھ کر آنے والے نوجوان کسی بھی طور انگریزی میں امتحان دینے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ کئی سالوں سے سی ایس ایس کے امتحانات میں 80 فیصد امیدوار ناکام ہوجاتے ہیں، صرف 20 فیصد امیدوار کامیاب ہوتے ہیں، جو ان سول اور ملٹر ی بیوروکریٹ کے بچے ہیں۔
دنیا میں ترقی کرنے والی قوموں کا جائزہ لیا جائے تو اسرائیل جیسا ملک جس کی سرکاری اور تدریسی زبان عبرانی زبان ہے، جو اسرائیل کے علاوہ کہیں بولی اور سمجھی نہیں جاتی۔ اس کے باوجود سب سے زیادہ نوبل انعام یافتہ سائنسدان اسرائیل نے پیدا کئے ہیں۔ جاپان والے جاپانی میں، جرمنی، فرانس، اٹلی، روسی، ایرانی اور عرب اپنی قومی زبانوں میں پڑھ کی عالمی شہرت حاصل کرچکے ہیں۔ معاملہ علم کی تفہیم کا ہے جسے انگریزی میں انڈر اسٹینڈنگ کہتے ہیں۔ ہمارے بچے رٹا لگا کر ڈگریاں لے لیتے ہیں لیکن تفہیم حاصل نہیں کرپاتے۔
اردو کا نفاذ تحریک آزادی کا نامکمل ایجنڈا ہے۔ اْردو ہماری قومی اور دینی زبان ہے۔ اپنے ملک، اپنی قوم، اپنے تشخص، اپنی پہچان اور اپنی نسلوں کی ترقی کے لئے ہمیں اردو کو نافذ کرنا ہے۔ اس مسئلے میں نہ تاخیر قبول کی جاسکتی ہے اور نہ ظالم و سفاک انگریز کی زبان کا غلبہ برداشت کیا جاسکتا ہے، ہمیں اب فیصلہ کن جدوجہد کرنی ہے۔ یہ جدوجہد مطالبات اور درخواستوں کی نہیں بلکہ عوام کی بات عوام کی ضرورت اور عوام کی خواہش کو عوام کی قوت کے ذریعے نافذ کروانا ہے۔ انگریزی زبان کا جابرانہ قبضہ ہمارے لئے زہر قاتل ہے۔ انگریزی کا تسلط ہماری نسلوں کی تباہی کی ذمہ دار ہے۔ ہم آئندہ نسلوں کو انگریزی کی بھینٹ نہیں چڑھنے دیں گے۔