آج جس امر کی سب سے زیادہ ضرورت ہے وہ تحریک ِپاکستان، قیام ِپاکستان کی یادوں اور ان سے جڑے واقعات کو یاد رکھنے کی ہے تاکہ بحیثیت قوم ہم ماضی سے سبق سیکھ کر مستقبل کی جانب قدم بڑھا سکیں لیکن اگر ماضی کو فراموش کرنے اور قومی رہنماؤں کے کار ہائے نمایاں کو نظرانداز کرکے آگے کی جانب پیش قدمی کی گئی تو وہ لایعنی ہوگی
محفوظ النبی خان
امسال پاکستان کا 75 واں یوم آزادی جو درحقیقت یوم تاسیس بھی ہے، حسب دستور 14 اگست کو منایا جا رہا ہے۔ 14 اگست کو یوم تاسیس منانے کا فیصلہ وزیراعظم لیاقت علی خان کی زیرصدارت پاکستان کی پہلی کابینہ کے اجلاس میں کیا گیا تھا جس کا ایک پس منظر ہے۔ گزشتہ صدی کی تیسری دہائی میں برصغیر کے لوگوں نے ڈوگرا راج کے محکوم مسلمانان جموں و کشمیر کے ساتھ یکجہتی کا دن منایا تھا۔ اس تحریک کے روح رواں شاعر مشرق علامہ محمد اقبال تھے۔ پاکستان کا یوم تاسیس جموں و کشمیر کے مسلمانوں کے ساتھ یکجہتی کے اظہار کا تسلسل ہے۔ قائداعظم اور لیاقت علی خان کے دور ہی میں اقتدار کی ہوس میں مبتلا سیاسی و غیرسیاسی عناصر نے ”دو قومی نظریہ“ کے سیاسی نور اور پاکستانیت کے شعور کو گھائل کرنا شروع کردیا تھا۔ ان عناصر کا داؤ اس وقت چلا جب آہستہ آہستہ شعوری اور لاشعوری طور پر پاکستان کی منزل کو دور کرنے کے لئے عوام کو ماضی سے کاٹنے کا عمل تیز ہوگیا۔ عجب اتفاق ہے کہ آج قوم پاکستان کی تاریخ کو 16 دسمبر 1971ء کے بعد سے شروع کرتی ہے جس روز قائداعظم کا پاکستان جغرافیائی اعتبار سے دو لخت ہوگیا تھا۔ خصوصاً ملک کے بیشتر ٹی وی چینلز میں اسکرین پر آنے والے دانشور، صحافی و سیاست کار حالات کو اسی تناظر میں دیکھتے ہیں، البتہ پرنٹ میڈیا میں 1947ء سے لے کر 15 دسمبر 1971ء کے متحدہ پاکستان کا ذکر بھی نظر آتا ہے اور مخصوص قومی ایام 23 مارچ، 14 اگست، 11 ستمبر، 16 اکتوبر، 9 نومبر یا 25 دسمبر کے مواقع پر ٹی وی پروگرامز میں آل انڈیا مسلم لیگ کی جدوجہد سے تشکیل پانے والے پاکستان کا تذکرہ بھی ہوتا ہے لیکن ان میں اکثر تحقیقی مواد شامل نہیں ہوتا ہے۔
پاکستان برصغیر جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کی مشترکہ جدوجہد کا ثمر ہے جس کے لئے انہوں نے 1945-46ء کے انتخابات میں اپنا حق خوداداریت استعمال کیا تھا اور اس رائے دہی میں برصغیر کے مسلم اکثریتی علاقوں کے علاوہ اقلیتی صوبوں کے مسلمانوں نے بھی ووٹ دیا تھا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو پاکستان معرضِ وجود میں آنا مشکل ہوتا۔ غیرمنقسم مسلمانان ہند نے اپنے اسلامی تشخص اور مسلم قومیت کے جذبے کے اظہار کے ذریعے برصغیر میں مسلمانوں کے قومی وطن کی بنیاد رکھی تھی۔ برصغیر جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کا اتحاد تحریک خلافت کا ثمر تھا جس نے مسلمانوں کو ایک نکتے پر مجتمع کیا، بعدازاں آل انڈیا مسلم لیگ نے قائداعظم کی سربراہی میں مسلم قومیت کے اس جذبے کو منظم کرکے علیحدہ قومی وطن کا مطالبہ کیا جو کامیابی سے ہمکنار ہوا۔ ملی وحدت کے جذبے کی بیداری میں جہاں عوام الناس شامل تھے وہیں سر سید اور ان کے رفقاء کی جانب سے جدید تعلیم کا فروغ بھی اہم حصہ تھا۔ ملک بھر میں جدید تعلیم کا نصاب یکساں تھا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ قومی وحدت کے لئے یکساں نظام تعلیم کی کیا اہمیت ہے۔ ہمارے ہاں اب کہیں جا کر یکساں نظام تعلیم کے نفاذ پر عملی کام کا آغاز ہوا ہے۔ بدقسمتی سے قیام پاکستان کے اولین سالوں کے بعد مسلم قومیت کا یہ جذبہ ڈھلنے لگا جبکہ پاکستانیت کا جذبہ پوری طرح بیدار نہ ہوسکا۔ حالات کو اس تناظر میں دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلم قومیت کا جذبہ فرقوں اور مسالک میں منتقل ہو کر آہستہ آہستہ اپنی گرفت کم کرتا رہا لیکن پاکستان میں صوبائیت، علاقائیت و نسل پرستی پروان چڑھتی رہی۔ 1947ء میں قیام پاکستان کے وقت سارے لوگ پاکستانی تھے اور ان کا ایک ہی جذبہ تھا کہ وہ مسلمان ہیں اور پاکستانی بس۔ مشرقی اور مغربی پاکستان کے سیاستدانوں نے ایک وفاق کی حیثیت سے ملکی بقاء کی خاطر اپنی زمینی شناخت اور عددی اکثریت کو قربان کرکے پہلے مغربی پاکستان میں ون یونٹ قائم کیا جس میں مغربی بازو کے چاروں صوبوں نے مدغم ہو کر مغربی پاکستان کی شکل میں ایک صوبائی وحدت کی تشکیل کی جس کے لئے سیاستدانوں نے اپنی سیاسی انا اور صوبائی شناخت کو بھی پس پشت ڈال دیا۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ وحدت مغربی پاکستان میں شامل ہونے والے صوبہ پنجاب نے 15 سال کے لئے صوبائی اسمبلی میں اپنی عددی اکثریت کو ایک وحدت میں شامل تینوں چھوٹے صوبوں میں تقسیم کردیا تھا اور یہی حال 1956ء کے آئین کی ترتیب کے وقت مشرقی پاکستان نے اپنی عددی اکثریت کو فراموش کرکے مغربی پاکستان کے ساتھ مساوی نمائندگی (پیریٹی) کو تسلیم کرلیا تھا لیکن 1956ء کے آئین کے مطابق فروری 1959ء میں ہونے والے انتخابات سے قبل ہی امریکا کی آشیرباد سے پاکستان میں جنرل اسکندر مرزا اور ایوب خان نے آئین منسوخ کرکے مار شل لاء نافذ کردیا۔ اس آمرانہ دور کا عجیب الخلقت کارنامہ یہ ہے کہ اس دور میں نہ صرف ان سیاستدانوں کو مطعون کیا گیا جنہوں نے حصول پاکستان میں حصہ لیا تھا بلکہ عوام کو ماضی سے فطری طور پر کاٹ کر علیحدہ کردیا گیا، جس کے باعث اخلاقی اقدار کمزور ہوئیں اور تعمیری قدریں بھی پروان نہ چڑھ سکیں۔ دسمبر 1971ء میں سقوط ڈھاکہ کے بعد سے لے کر آج تک ماضی کی یادوں سے دوری کا عمل دانستہ طور پر جاری ہے جس سے ریاست کا استحکام متاثر ہوا ہے۔
تاریخ میں شخصیات اور ادوار کتنے ہی ناپسندیدہ کیوں نہ ہوں انہیں ریکارڈ سے حذف نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان کی 74 سالہ تاریخ میں اولین 6 سالوں کو چھوڑ کر 1958ء کا عرصہ کچھ زیادہ خوشگوار نہیں ہے۔ 1969ء کے اوائل تک ملک میں آمریت کا راج رہا جس کی یادیں بھی قابل فخر نہیں۔ دسمبر 1971ء کے بعد پاکستان کی سیاسی تاریخ میں منتخب اور غیرمنتخب حکومتیں آتی رہیں اور ان ادوار کی یادیں بھی قابل تحسین قرار نہیں دی جاسکتیں لیکن بہرصورت یہ ادوار ہماری ملی تاریخ کا حصہ ہیں۔ آج جس امر کی سب سے زیادہ ضرورت ہے وہ تحریک پاکستان، قیام پاکستان کی یادوں اور ان سے جڑے واقعات کو یاد رکھنے کی ہے تاکہ بحیثیت قوم ہم ماضی سے سبق سیکھ کر مستقبل کی جانب قدم بڑھا سکیں لیکن اگر ماضی کو فراموش کرنے اور قومی رہنماؤں کے کار ہائے نمایاں کو نظرانداز کرکے آگے کی جانب پیش قدمی کی گئی تو وہ لایعنی ہوگی۔
مورخ 1947ء سے 1958ء کے عرصہ میں ”جس کے آخری 5 سال ملک میں سیاسی عدم استحکام رہا“ ہونے والی اقتصادی ترقی کو نظرانداز نہیں کرسکتا۔
لوٹ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو
اس دور کی ترقی بیرونی امداد اور قرضوں کے بغیر ہوئی تھی۔ یہ المیہ ہی ہے کہ آج پاکستان کے سالانہ بجٹ ملکی وسائل کے ذریعے نہیں بلکہ غیرملکی قرضوں اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے زرمبادلہ کی ترسیل سے تیار کئے جاتے ہیں اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ ملک میں 1956ء کے آئین کو اس کے تحت منعقد ہونے والے پہلے انتخابات سے قبل ہی منسوخ کردیا گیا۔ 1962ء کا آئین ایک فرد واحد نے نافذ کیا جس کے ذریعے محدود جمہوریت کو متعارف کرایا گیا۔ ستم ظریفی ہے کہ جس شخص نے آئین دیا تھا اس نے خود ہی اپنے آئین سے روگردانی کرکے اقتدار قومی اسمبلی کے اسپیکر کے حوالے کرنے کے بجائے فوج کے سربراہ کو دے دیا، جنہوں نے آئین کو منسوخ کردیا اور بعض ایسے فیصلے بھی کئے جو دستور ساز اسمبلی کے کرنے کے تھے۔ ون یونٹ کو رائے عام کی منظوری کے بغیر ختم کرکے نئے صوبے تشکیل دیئے گئے، بہاولپور اور کراچی کی ماضی کی صوبائی حیثیت کو بحال نہیں کیا گیا۔ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے مابین مساوی نمائندگی (پیریٹی) کے مسلمہ اصول کو بہ جنبش سنگین منسوخ کردیا گیا، حالانکہ یہ آئینی اقدامات دستور سازی کے بغیر نہیں ہونے چاہئے تھے۔ محض دستور ساز اسمبلی ہی اس طرح کے آئینی اقدامات کی مجاز تھی۔ 1970ء کے عام انتخابات کے نتیجے میں وجود میں آنے والی آئین ساز اسمبلی کا اجلاس بھی منعقد نہ ہوسکا اور ملک کا مشرقی حصہ علیحدہ ہوگیا۔ یہ انتخابات متحدہ پاکستان کی آئین سازی کے لئے منعقد ہوئے تھے لیکن 16 دسمبر کو سقوط ڈھاکہ کے بعد اقتدار ملک میں اقلیتی سیاسی پارٹی کے سپرد کردیا گیا جس نے مغربی پاکستان کی دیگر سیاسی جماعتوں سے مل کر 1973ء کا آئین مرتب کیا۔ مغربی پاکستان سے منتخب اراکین دستور ساز اسمبلی جو محض متحدہ پاکستان کے عوامی مینڈیٹ پر منتخب ہوئے تھے قانونی اور اخلاقی اعتبار سے عملاً مغربی پاکستان کے لئے دستور سازی کے مجاز نہ تھے۔ اس کے لئے مغربی پاکستان میں نئے انتخابات اور عوامی مینڈیٹ کے حصول کی ضرورت تھی۔ قبل ازیں 1972ء میں صوبہ سندھ کی اسمبلی نے اپنی قانون حدود سے تجاوز کرتے ہوئے ایک لسانی بل منظور کیا جو درحقیقت آئین ساز اسمبلی کا امتحان تھا۔ 1977ء اور 1999ء میں اس آئین کو بھی دو مرتبہ معطل کیا گیا لیکن اس میں مندرج ”مسلمان کی تعریف“ اور ”ختم نبوت“ سے متعلق باب اور آئین پر اسمبلی اور عوام میں طویل بحث و مباحثہ نیز اسمبلی میں موجود اس کی تمام متفقہ سیاسی پارٹیوں سے منطوری کے باعث آئین منسوخی سے محفوظ رہا لیکن کسی آئینی ترمیم کی پارلیمانی اور عوامی مباحث کے بغیر منظوری اس کے مستند ہونے کی ضمانت نہیں۔ بدقسمتی سے 18 ویں آئینی ترمیم سمیت بیشتر ترامیم مفاد عامہ کے بجائے گروہی، سیاسی یا شخصی مفاد کے لئے ہی کی گئی ہیں جن پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد قوم لاشعوری طور پر مایوسی کا شکار ہوگئی تھی جس کے نتیجے میں موجودہ پاکستان کے لوگوں میں ملکی معاملات سے لاتعلقی اور رویوں میں غیرسنجیدگی بڑھنے لگی۔ عوام کے مختلف طبقات کی سیاست سے عدم دلچسپی کے ساتھ ساتھ غیرسنجیدگی لمحہ فکریہ ہے جو خطرناک نتائج کا پیش خیمہ ہوسکتا ہے۔ آج لوگ محسوس کرتے ہیں کہ ملکی معاملات اور زندگی کے مراحل میں نہ تو ان کی کوئی شنوائی ہے اور نہ ہی وہ کوئی کردار ادا کرسکتے ہیں۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے ہونے والے انتخابات نتائج کے اعتبار سے لایعنی ثابت ہوئے ہیں جس کی بنا پر عوام اور خواص دونوں گہری مایوسی میں مبتلا ہیں۔ اگر ان کی مایوسی دور کرکے انہیں سیاست میں حصہ لینے پر آمادہ نہیں کیا جاسکا اور زندگی کے مراحل میں ان کی شنوائی پر توجہ مبذول نہ کی گئی تو قوم کی مشکلات میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ دنیا بھر میں صنعتی انقلاب کے بعد عوامی حاکمیت کا جو شعور پیدا ہوا ہے اسے بروئے کار لانے کی ضرورت ہے۔ ہمارے سامنے برصغیر میں برطانوی راج کی تاریخ موجود ہے۔ انگریزوں نے اپنی حکمرانی کو دوام بخشنے کے لئے محض جلیانوالہ باغ اور حروں کے روحانی پیشوا کا سہارا ہی نہیں لیا بلکہ صنعتی ترقی کے فوائد کو بھی برصغیر میں منتقل کیا۔ سیاسی طور پر ہوم رول سے لے کر مقامی حکومتوں کے نظام کے اجرا، مرکز اور صوبوں میں قانون ساز اداروں کے قیام اور وفاقی و صوبائی سطح پر اسمبلیوں کی تشکیل وہ اقدامات تھے جو ایک سامراجی طاقت نے برصغیر کے لوگوں کو اقتدار میں شامل کرنے کے لئے کئے تھے، نیز معاشرہ کے بااثر افراد کی عزت افزائی کرکے ان کو بھی جہانبانی کے عمل میں شامل کیا تھا۔ یہ اقدامات ایک طرح کی سیاسی مصالحت یا سمجھوتے تھے اور ایسے اقدامات آج بھی عوام میں اعتماد کی بحالی کے لئے کارآمد ثابت ہوسکتے ہیں۔ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ سیاسی یا انتظامی اقدامات خاص وقت کے لئے اور خاص تاثر پیدا کرنے کے لئے ہوتے ہیں۔ وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا۔ معاشرتی جائزے سے بعض حقائق منظر عام پر آتے ہیں اور مشاہدہ بھی اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ عوام الناس ہوں یا خواص، اسلام کے ساتھ ان کی قلبی وابستگی اظہر من الشمس ہے۔ وہ کبھی کسی غلط کام کو، کسی خونریزی کو، کسی بدعنوانی جعلسازی، بے انصافی کو مذہب کے تناظر میں جائز قرار نہیں دیتے بلکہ واشگاف الفاظ میں کہتے ہیں کہ یہ کام مسلمانیت کے شایان شان نہیں اور ایسے کام کرنے والا مسلمان نہیں ہوسکتا۔ سماج کے اس تاثر کے مطابق انتہائی وثوق کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں ”دوقومی نظریہ“ ایک زندہ حقیقت ہے۔ بدنصیبی یہ ہے کہ پاکستانیت کے حوالے سے عوام اور خواص کے جذبات عموماً منفی ہیں۔ معاشرے میں کسی غلطی کے ارتکاب پر یہ جملہ سننے کو ملتا ہے کہ ”یہ پاکستان ہے یہاں سب چلتا ہے“۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام اور خواص میں ”نظریہ پاکستان“ اور ”پاکستانیت“ کے جذبے کو جاگزیں کیا جائے اور معاشرہ میں عدل وانصاف اور اسلامی اخوت کے ساتھ ساتھ ”انسانی بھائی چارہ“ کو فروغ دیا جائے۔ بابائے قوم حضرت قائداعظم محمد علی جناحؒ نے ہمیشہ معاشرہ میں ”انسانی اخوت“ اور ”سماجی انصاف“ کے قیام و فروغ پر زور دیا ہے اور 1949ء کی قرارداد مقاصد قائداعظم کی سیاسی بصیرت، بین الاقوامی رجحانات اور برصغیر کے مسلمانوں کی امنگوں کی ترجمان ہے جس کو ”نظریہ پاکستان“ کی آئینی شکل قرار دیا جا سکتا ہے۔ ہم برصغیر میں مسلمانوں کے جس قومی وطن میں سکون کا سانس لے رہے ہیں اس کا نام جس عظیم شخصیت نے تجویز کیا تھا بحیثیت قوم ہم اس کے جسدخاکی کی باقیات کو بھی دیارِغیر سے اس کوئے یار میں منتقل کرنے سے قاصر ہیں۔ چوہدری رحمت علی ایک پاک طینت، مخلص، فہیم اور دردمند مسلمان تھے۔ یہ حقیقت ہے کہ ”پاکستان“ کے نام میں مسلمانوں کے دلوں اور اذہان میں جو جازبیت موجزن کی تھی یہ اسی کا فیضان تھا کہ 1940ء کی قرارداد لاہور میں ”پاکستان“ کا لفظ نہ ہونے کے باوجود محض 7 سال کے عرصہ میں برصغیر کے مسلمانوں نے آئینی اور پُرامن جدوجہد کے ذریعے اپنا علیحدہ وطن حاصل کرلیا۔