Wednesday, July 16, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

نصرت مرزا کے مختلف اخبارات میں تجزیے

امریکی بیان، ٹرمپ کے دماغی اور اخلاقی دیوالیہ پن کا عکاس ہے
روزنامہ نئی بات کراچی، 3 جنوری 2018ء
جس اندازے ٹرمپ بات کررہا ہے اس سے اس کے دماغی اور اخلاقی دیوالیہ پن کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ہیلری کلنٹن کے بیانات ہی پڑھ لیں۔ جس میں انہوں نے اعتراف کیا کہ امریکا اگر سپر پاور ہے تو صرف اور صرف پاکستان کی وجہ سے۔ جس طرح پاکستان کو روس جیسی سپر طاقت کو پاش پاش کرنے کے بدلے ہیروئین اور کلاشنکوف کلچر ملا ایسا ہی کچھ صلہ امریکا نے پاکستان کو اس کی جنگ میں اپنا قیمتی جانی و مالی نقصان کرنے پر دیا۔ روس کے خلاف مدد کے باعث پاکستان میں چار ملین ہیروئن کے عادی ہیں جبکہ اس سے پہلے یہ تعداد صفر تھی۔ دھوکہ تو امریکا نے دیا۔ یہ بات سچ ہے امریکا نے پاکستان کو اکیلا چھوڑا اور افغان جنگ کا سارا گند اب پاکستان کو صاف کرنا پڑ رہا ے۔ ہزاروں میل دور بیٹھ کر جنگ لڑنا امریکی پالیسی ہے۔ امریکا اپنے لوگوں کو محفوظ اور باقی ساری دنیا کو غیرمحفوظ بناتا ہے۔ آج کی صورتِ حال میں سب سے بہترین حل ایشین اٹامک کلب ہے جو چین، پاکستان، روس اور بھارت پر مشتمل ہونا چاہئے۔ ان چاروں ملکوں کی سرحدیں آپس میں ملتی ہیں اور یہ دنیا کا سب سے طاقتور خطہ بن سکتا ہے۔ پاکستان پر بڑھتے دباؤ کی اصل وجہ سی پیک ہے جو انڈیا اور امریکا کو قبول نہیں۔ امریکا چین کی ترقی اور روس سے بھی خوف زدہ ہے۔ فورتھ جنریشن وار میں سب سے بڑا ہتھیار سوشل میڈیا ہے۔ شاید اسی لئے مریم نواز سوشل میڈیا ونگ بنا چکی ہیں اور فوج کے خلاف کھلم کھلا باتیں کررہی ہیں۔ افغانستان میں امریکا کا ایک شعبہ جوائنٹ آپریشنل کمانڈ چھوٹے چھوٹے گاؤں، قصبے اور شہر بنا کر مشقیں کررہا ہے کہ کیسے اٹامک ہتھیاروں تک پہنچ کر جوہری ہتھیار لے اڑیں۔ اس طرح کی سازشیں امریکا پہلے بھی کر چکا ہے کبھی ٹی ٹی پی بنا کر اور اب داعش کے دس ہزار خودکش افراد کو اکٹھا کرکے کارروائی کرنا چاہتا ہے۔ لیکن اٹامک ہتھیار، میزائل اور دوسرے دفاعی اثاثوں پر انتہائی قابل اور اہل لوگ متعین ہیں۔ نعمت اللہ شاہ ولی کی روحانی پیشگوئیاں جو آج تک سو فیصد ٹھیک ہیں اور غزوہ ہند کا وقت قریب ہوتا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ میڈیا کو گھروں میں جوہری ہتھیاروں سے بچنے اور ان کے اثرات سے محفوظ رہنے کی پناہ گاہیں بنانے کی تربیت دینی چاہئے۔ امریکا پاکستان، ایران اور شمالی کوریا کو اکسانے کے لئے ایسے بیان دے رہا ہے۔ امریکا یاد رکھے اگر ٹیکنیکل جنگ ہوئی تو اسے منہ کی کھانی پڑے گی اور بھارت نے اسی مہم جوئی کا حصہ بننے کی کوشش کی تو غزوہ ہند کی بشارت مکمل ہوگی۔ امریکا اس وقت پوری دنیا میں یوکرائن، مڈل ایسٹ، ساؤتھ چائنا سی اور افغانستان میں اپنے اڈے مضبوط کررہا ہے۔ دوسری طرف امریکا یاد رکھے پاکستان کے پاس تین اطراف میں زمین اور سمندر ہے۔ فضا سے بھی میزائل داغنے کی صلاحیت ہے، جو افغانستان میں موجود امریکی فوجیوں اور ہندوستان کو سبق سکھا سکتا ہے۔
نواز شریف راز بتا دیں، عمران نے کرپشن کے بت گرائے
روزنامہ نئی بات کراچی، 5 جنوری 2018ء
سابق وزیراعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ پردوں کے پیچھے کھیل بند نہ ہوا تو راز کھول دوں گا اور سارے شواہد قوم کے سامنے لاؤں گا، میرا ووٹ بینک توڑنے کی کوشش کی جارہی ہے اور ایک جماعت کا راستہ روک کر لاڈلے کے لئے راستہ ہموار کیا جارہا ہے۔ نواز شریف کے پاس کون سے راز ہیں اور کیا عمران خان کا راستہ ہموار کیا جارہا ہے، اس حوالے سے ’’نئی بات‘‘ فورم میں گفتگو کرتے ہوئے تجزیہ کار نصرت مرزا نے کہا کہ نواز شریف کے پاس کوئی راز نہیں، وہ بیانات سے اداروں کو دباؤ میں لانا چاہتے ہیں، عمران خان کا سیاسی مستقبل روشن ہے۔
بھارت، امریکا، اسرائیل گٹھ جوڑ، پاکستان کے لئے سیکورٹی رسک
روزنامہ نئی بات کراچی، 17 جنوری 2018ء
پاکستان اس وقت انتہائی سیکورٹی رسک میں ہے۔ اس کی وجہ بھارت، اسرائیل اور امریکا کا گہرا گٹھ جوڑ ہے۔ آج کل نیتن یاہو بھارت کے دورے پر ہے۔ یاد رہے کچھ عرصہ پہلے ہندوستانی وزیراعظم مودی امریکا کے دورے سے سیدھے اسرائیل گئے تھے۔ دونوں جگہ ٹرمپ اور نیتن یاہو نے انتہائی گرم جوشی سے استقبال کیا۔ مودی کو بے مثال، مخلص دوست اور بھائی کہا۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ بھارت، اسرائیل اور امریکا نے مسلمانوں کی مخالفت کی وجہ سے ووٹ لئے اور تینوں کا مشترکہ مشن ہے دنیا کے مسلمانوں کو خدانخواستہ نیست و نابود کرنا جبکہ انڈیا کے ایما پر سب سے پہلے پاکستان کو نقصان پہنچانا ہے۔ بھارت اس وقت بھی دنیا میں کوئی ایسا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا جس سے پاکستان کی عوام اور ساکھ کو نقصان ہو۔ نیتن یاہو کی آمد پر پیر کو بھارت کنٹرول لائن پر پھر آؤٹ آف کنٹرول ہوگیا۔ اقوام متحدہ سمیت دنیا کے تمام بڑے اور طاقتور ممالک خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ حالیہ انڈین کمانڈر انچیف کا بیان بھی مودی فرعونیت کی غمازی کرنتا ہے جس میں اس نے کھلے الفاظ میں پاکستان کو نقصان پہنچانا ان کا مقصد اولین بتایا گیا۔ سرحدی صورتِ حال کے ساتھ انڈیا پاکستان میں انتشار پھیلانے کی کارروائیاں کرا رہا ہے۔ تین دنوں میں کراچی میں تشدد کی کارروائیوں اور جرائم کی شرح بھی بڑھ گئی ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں ہ انڈیا کے ایجنٹ اس وقت پورے پاکستان میں پھیلے ہوئے ہیں جبکہ کراچی میں ایم کیو ایم لندن کے لوگوں کا ’’را‘‘ کے ایجنٹ ہونے اور کارروائیوں کے ثبوت موجود ہیں۔ اسی طرح حال ہی میں ہونے والا قصور میں دلخراش واقعہ بھی اس چیز کا متقاضی ہے کہ قصور انڈیا کے بارڈر پر موجود شہر ہے۔ جہاں کا بارڈر مضبوط نہیں۔ ہندوستان سے ایجنٹ آکر ایسی کارروائیاں کرسکتے ہیں۔ قصور واقعہ میں بھی بھارت کے ملوث ہونے کے امکان کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ ورنہ اتنے چھوٹے ایریا میں پانچ دن تک بچی کا غائب رہنا سوالیہ نشان ہے۔ دوسری طرف خادم اعلیٰ پنجاب ایک مریض ہیں جو ساری رات سوتے نہیں اور حکومت بیورو کریسی کے سہارے چل رہی ہے۔ اب بیورو کریسی بھی تنگ آگئی ہے۔ اتنے سنگین واقعہ پر صرف ڈی پی او کو تبدیل کرنے کا کیا مطلب ہے۔ پولیس کینو کھاتی رہی۔ لواحقین سے پیسے مانگتی رہی۔ یہ گڈگورننس ہے اور آج اتنے دن گزرنے کے باوجود مجرم گرفتار نہیں ہوسکا۔ دوسرا فوڈ سیکورٹی رسک بھی ہے۔ ناقص گوشت اور دوسری اشیا بازار میں موجود ہیں۔ یہ پاکستانی عوام کی صحت کو کمزور کرنے کی سازش ہے۔ امریکا کی مدد سے داعش کے لوگ تورابورا میں موجود ہیں۔ ابھی تک امریکا کہہ تو رہا ہے حملہ نہیں کرے گا لیکن انڈیا اور افغانستان کی طرف سے حملہ ہونے کا خدشہ موجود ہے جبکہ جدید سائنسی ٹیکنالوجی سے پاکستان کے سائبر سسٹم اور مواصلات مشینری سمیت جام کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ غذائی خودمختار پاکستان میں جب بھی معاشی پابندیاں لگیں ملک میں ترقی ہوئی۔ ایئرچیف کا بیان انتہائی اہم ہے کہ اگر بھارت کے علاوہ کسی سپرپاور نے حملہ کیا تو پاکستان اس کا منہ توڑ جواب دینے اور اپنے ایٹمی اثاثہ جات کا دفاع کرنے کی بھرپور اہلیت رکھتا ہے۔
شاہد مسعود جیسے لوگ صحافیوں کے لئے شرمندگی کا باعث بنتے ہیں
روزنامہ نئی بات کراچی، 30 جنوری 2018ء
زینب قتل کے مرکزی ملزم کے ح والے سے نجی ٹی وی اینکر پرسن کے انکشافات اور سپریم کورٹ کے ازخودنوٹس اور صحافت کی تعریف کے حوالے سے روزنامہ نئی بات فورم میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی نصرت مرزا نے کہا کہ ڈاکٹر شاہد مسعود بنیادی طور پر اینکر یا صحافی نہیں ہیں۔ ایسے لوگ حادثاتی اور کبھی خوش قسمتی سے اینکر بن جاتے ہیں اور پھر اپنے غیرصحافتی رویے کے باعث صحافیوں کے لئے شرمندگی کا باعث بنتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی شعبہ صحافت میں حوصلہ شکنی کی جانی چاہئے۔ دنیا میں کوئی بھی کسی صحافی کے اس رویے کو قبول نہیں کرسکتا۔ آپ اتنی بڑی خبر تصدیق کئے بغیر کیسے دے سکتے ہیں، سپریم کورٹ نوٹس لے تو آپ کوئی ثبوت ہی نہ دے سکیں۔
فاروق ستار کو یہ دن کیوں دیکھنے پڑے؟
روزنامہ دنیا کراچی، 14 فروری 2018ء
ایم کیو ایم کے ساتھ جو ہورہا ہے وہ مکافاتِ عمل ہے۔ الطاف حسین نے فسطائی طریقہ استعمال کرکے اور لوگوں کو مروا کر پارٹی پر اس قدر سخت کنٹرول کرلیا تھا کہ کراچی شہر کے تمام مکاتب فکر کے عالم دین، استاد، نامور شاعر و ادیب سمیت ہر طبقہ فکر کے لوگ نیچے بیٹھ کر اس کی تقریر سنتے تھے جوکہ ان کی توہین تھی مگر ہوتی تھی۔ جب پارٹی میں ٹوٹ پھوٹ کا سلسلہ شروع ہوا تو اس وقت سب سے سینئر ڈاکٹر فاروق ستار کو سربراہ بنا لیا گیا کیونکہ اس میں سب کا مفاد تھا، ایم این ایز اور ایم پی ایز کو اسمبلیوں کی رکنیت بحال رکھنی تھی۔ ڈاکٹر فاروق ستار نے سوچا کہ میں بھی آمر مطلق بن جاؤں جبکہ فیصلہ یہ ہوا تھا کہ اب کسی کو بھی آمر مطلق نہیں بننے دیا جائے گا اور انفرادی کے بجائے اجتماعی لیڈر شپ آئے گی اور انہوں نے تمام اختیارات رابطہ کمیٹی کو دے دیئے تھے۔ ڈاکٹر فاروق ستار جسے سمجھ نہیں سکے اور رابطہ کمیٹی نے اب انہیں دوتہائی اکثریت کے ساتھ نکال دیا ہے۔ اس کے علاوہ ایک اور عنصر بھی اہمیت کا حامل ہے وہ کامران ٹیسوری ہیں جو جماعت کو تباہ کرنے کے لئے اس میں شامل کرائے گئے کیونکہ فاروق ستار نے جو وعدہ کیا تھا وہ پورا نہیں کیا اور پی ایس پی کا حصہ نہیں بنے۔ ایم کیو ایم کے نام سے جماعت کا وجود اب ٹھیک نہیں اور نہ ہی ان کے پاس اب قوت نافذہ ہے اس لئے اُردو بولنے والے کسی اور نام سے اپنی جماعت بنا لیں۔ پی ایس پی میں اسٹیبلشمنٹ کے منتخب کردہ لوگ ہیں لیکن مصطفی کمال کا بطور لیڈر انتخاب غلط ہے۔ مہاجروں کے نام پر سیاست میں کوئی بُرائی نہیں اگر ان کو سندھی تسلیم کرلیا جائے تو یہ خود کو مہاجر نہ کہلوائیں۔ اب لوگوں کو جو ایم کیو ایم کا حصہ بن کر تشدد کی طرف جا چکے تھے ان کو ریاست واپس ایک نارمل زندگی کی طرف لائے، اگر ایسا نہ کیا گیا تو یہ ملک کے لئے بہت خطرناک ہوگا۔
ایم کیو ایم میں تقسیم کا فائدہ پیپلزپارٹی کو ہوگا
روزنامہ نئی بات کراچی، 15 فروری 2018ء
ایم کیو ایم میں تقسیم اور انتشار کا فائدہ صرف اور صرف پیپلزپارٹی کو پہنچے گا۔ اس وقت ایم کیو ایم الطاف کے بعد مزید دھڑوں میں تقسیم ہوگی اس تقسیم کے لئے ٹیسوری کی شکل میں وائرس چھوڑا گیا ہے اور ہوسکتا ہے یہ وائرس خود پیپلزپارٹی نے ہی چھوڑا ہو۔ دراصل پیپلزپارٹی کراچی پر قبضہ کرنا چاہتی ہے، جس کے لئے پیپلزپارٹی نے اپنی بی ٹیم پی ایس پی بنائی ہے۔ جس دن رینجرز ڈھیلی پڑی دوبارہ ایم کیو ایم کے لوگ متحرک ہوجائیں گے۔ اب بھی بہت اسلحہ ہے اس کے لئے باقاعدہ منصوبہ بندی ہونی چاہئے اور سخت ایکشن لینا چاہئے ورنہ صورت حال بہت خطرناک ہوگی۔ اس وقت جو سیاسی صورت حال موجود ہے اس میں ایم کیو ایم تین چار سیٹیں دلا سکتی ہے لیکن اب اس جماعت کی تقسیم در تقسیم ہوتی رہے گی جس کا فائدہ ہر حال میں پیپلزپارٹی کو ہی ہوگا جس سے کراچی، حیدرآباد سمیت بہت سے دوسرے سندھ کے بڑے شہروں میں بسنے والے مہاجر مشکل میں آسکتے ہیں۔ سندھ کے توازن کے لئے ایم کیو ایم کا موجود رہنا بہت ضروری ہے۔
ایک عفریت کراچی کے حسن، رنگینیوں اور خوشیوں کو گہنا رہا ہے
روزنامہ نئی بات کراچی، 24 جنوری 2018ء
کراچی میں حالیہ ہونے والے بے گناہ نوجوان کے قتل کے درپردہ واقعات نے پھر منی پاکستان کو دہشت اور وحشت زدہ کردیا۔ ایک عفریت ہے جو کراچی کے حسن، رنگینیوں اور خوشیوں کو گہنا رہا ہے۔ قیام پاکستان سے شروع ہونے والی سندھی، مہاجر لڑائی اور نفرت آج بھی کسی نہ کسی شکل میں زندہ ہے۔ پاکستان کی معاشی، سیاسی اور معاشرتی ریڑھ کی ہڈی کراچی کو دشمن تباہ و برباد کرنے کے لئے نت نئے حربے آئے روز استعمال کررہا ہے اور ہماری سیاسی قیادت گھاس کھائے بیٹھی ہے۔ سوائے ذاتی مفادات اور لوٹ مار زیادہ سے زیادہ مال بنانے کے رجحان نے کراچی کو بیروت بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ’’را‘‘ کے ایجنٹ کراچی کو قبضے میں لے رہے ہیں اور ان کے کارکن باقاعدہ ’’را‘‘ کے تربیت یافتہ ہیں، 12 جون 1980ء کو میں نے لکھا تھا کہ الطاف حسین اسے علیحدہ کرنا چاہ رہا ہے۔ ایم کیو ایم کے بھتہ خور اور قبضہ گروپ قاتلوں کی جماعت بنانے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی۔ کراچی اور کراچی والوں پر لمبے عرصے تک دہشت طاری رکھی۔ سب سے پہلے 1992ء میں آصف نواز جنجوعہ نے جو آپریشن کیا وہ بہت ضروری تھا اور خود اس وقت مجھ جیسے محب وطن پاکستانیوں نے مطالبہ کیا تھا ورنہ خدانخواستہ دشمن اپنی چال میں کامیاب ہوجاتا۔ کراچی، سندھی، بلوچی، پنجابی، پختون سب کا شہر ہے لیکن موجودہ وزیراعلیٰ سندھ کیونکہ سندھی وڈیروں کا نمائندہ ہے اور پیپلزپارٹی سندھی وڈیروں کی پارٹی ہے وہ کراچی پر قبضہ کرنا چاہتی تھی کرلیا اب کسی بھی عہدے پر آپ کو پنجابی اور پختون نہیں ملیں گے۔ سب کو سائیڈلائن کردیا ہے۔ اکادکا لوگ اگر بیٹھے ہیں وہ بھی دبکے ہوئے کسی بھی ملک یا شہر کے باسیوں کو اگر عدم تحفظ کا شکار کردیا جائے یا انہیں یہ یقین دلایا جائے کہ ان کی جان، مال، اولاد غیر محفوظ ہے تو اس شہر اور ملک کی خدانخواستہ تباہی کے لئے کافی ہے، دوسرا دولت کو ہائز ناجائز اکٹھا کرنے کا منفی رحجان بھٹو، بے نظیر سمیت متعصب سندھی حکمرانوں نے اپنی پسند کے لوگوں کو تعینات کیا ہے اور انہیں کھلی چھٹی دے رکھی ہے اسی میں راؤ انوار بھی آصف علی زرداری کا پروردا ہے اور خوب مال بنانے والا افسر ہے۔ اس نے طالبان کے دو سو کے قریب آدمی مارے ہیں ورنہ کراچی کو خون میں نہلا دیا جاتا جو ایک اچھا قدم تھا لیکن لگتا ایسا ہی ہے کہ راؤ انوار سے یہ یہ کام کروا کر پھنسوایا گیا ہے، کراچی سمیت سندھ پولیس کی بدقسمتی ہے کہ جن لوگوں کو سیاسی ترقیاں اور بھرتیاں کی گئی تھیں آج وہی لوگ بڑے بڑے عہدوں پر بیٹھے ہیں اور سب پر موٹی اور کسی نہ کسی جاگیردار کا سفارش زدہ اگر رینجرز نہ ہوتی تو کراچی میں بسنے والے آتش فشاں بیٹھے ہیں اور انتہائی سنگین صورتحال ہے کراچی کے میئر کو اختیار ملنے چاہئے اور سندھی، مہاجر، پٹھان، بنگالی کی سوچ کو تبدیل کرکے پہلے پاکستانی بننے اور ہونے کی سوچ کو پروان چڑھانا چاہئے، ورنہ حالات مزید کشیدہ ہوجائیں گے۔ راؤ انوار کے دبئی فرار ہونے کی خبر سوشل میڈیا پر چل رہی ہے۔ یہ کہاں تک درست ہے۔ لیکن بڑے بڑے جاگیردار جو سیاست پر بھی قابض ہیں ان کی آشیرباد کے بغیر نہ تو انہیں اچھی پوسٹنگ ملتی ہے نہ ترقی اور ایسے موقعوں پر پناہ اور مدد فراہم کرنا پرانا طریقہ کار ہے جس کی وجہ سے جاگیردار اپنا رعب اور اثر قائم رکھتا ہے اگر آصف علی زرداری جو اس میں یدطولیٰ رکھتے ہیں اور اپنے لوگوں کی پوری پیروی کرتے ہیں۔ جو ایان علی کو کچھ ہونے نہیں دیتے تو راؤ انوار کو کیا ہونے دیں گے۔ لگتا ہے بادالنظر میں راؤ انوار کو نیشنل یا انٹرنیشنل ایشو میں پھنسوانے کے لئے پیسے دے کر یہ کام کروایا گیا ہے۔
بیورو کریٹس کی ہڑتال بغاوت، پشت پناہ سمیت سب کو سزا ملنی چاہئے
روزنامہ نئی بات کراچی، 26 فروری 2018ء
پنجاب میں بیوروکریسی کی بغاوت، جسے ہڑتال کا نام دیا جارہا ہے اور جو بھی اس کے پیچھے کارفرما ہے وہ بھی پاکستان کے آئین کے مطابق ملک کا غدار ہے۔ ان تمام گندے انڈوں کو اٹھا کر باہر گلی میں پھینک دینا چاہئے۔ انہیں گرفتار کرکے ان کے خلاف مقدمات بننے چاہئیں اور قرار واقعی عبرتناک سزائیں دینی چاہئیں تاکہ آئندہ کسی کو ایسی مثال بننے کی جرأت نہ ہو۔ یہ ملک اور عوام کے لئے انتہائی خطرناک بات ہے۔ ہڑتال میں شامل تمام بیوروکریٹس سمیت مریم نواز، نواز شریف اور شہباز شریف آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت غداری کے مرتکب ہوئے ہیں۔ ان کے خلاف مقدمات بننے چاہئیں۔ یہ ملک میں انتشار پیدا کرنے کی سازش اور کوشش ہے۔ نیب کی حفاظت کے لئے رینجرز کو طلب کیا جانا اس بات کا غماز ہے کہ اس ادارے پر حملہ ہوسکتا ہے، اسے ڈرایا دھمکایا جاسکتا ہے۔ نقصان پہنچانے کی کوشش ہوسکتی ہے، ریکارڈ ضائع یا جلایا جاسکتا ہے۔ احد چیمہ جیسے افسر کو جس کا تعلق بہت نیچے والے طبقے سے ہے، ایسے لوگوں کو اوپر لایا جاتا ہے تاکہ وہ ان کے من مانے کام کرسکیں، یہ شریف برادران کی پرانی پالیسی ہے۔ شاید انہوں نے یہ بات میکاولی کی کتاب ’’دی پرنس‘‘ سے لی ہے جس میں میکاولی لکھتا ہے کہ اگر آپ اپنی مرضی کے کام لینا چاہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ آپ کے کام میں رکاوٹ پیدا نہ ہو تو بہت نچلے طبقے سے لوگوں کو اوپر لایا جائے اور ان سے من پسند کام لئے جائیں، 14 ارب روپے کی کرپشن کے الزامات چھوٹے نہیں ہیں، شریف برادران کی رنجیت سنگھ جیسی بادشاہت اور مغلیہ طرز کی حکومت قائم رکھنے کے لئے پولیس سے بھی بغاوت کرائی جاسکتی ہے۔ اس کے بعد مجبوراً فوج کو آنا پڑے گا اور اگر پولیس اور فوج آمنے سامنے آجائے تو عوام اور ملک کے لئے بہت بُرا ہوگا۔ تمام محب وطن پاکستانی، دانشور، صحافی، وکلاء، ڈاکٹر، انجینئر، پروفیسر جو بھی پڑھا لکھا باشعور انسان ہے وہ اس صورت حال سے پریشان اور فکرمند ہے۔ کچھ عرصہ قبل جب پنجاب پولیس کو ’’شوٹر گنیں دی گئی تھیں تو میں نے تب بھی اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ ایسا نہیں ہونا چاہئے۔ یہ لوگ اپنے مفاد کے لئے کسی بھی انتہا تک جاسکتے ہیں، اپنی انا اور ضد کی خاطر ملک کی تقدیر سے کھیلا جاسکتا ہے لیکن اس دفعہ فوج کی طرف سے مجبوراً مداخلت کی جائے گی۔ یہ انقلاب پہلے انقلابات سے مختلف اور سخت بھی ہوگا جس نے بھی کرپشن کی ہوگی اس کو سیکا ضرور لگے گا۔ ان تمام ہڑتالی افسران کو فی الفور فارغ کرکے ان کی جگہ نئے پی ایس جی افسران کو لگانا چاہئے، میں عام طور پر اپنے کالموں اور تجزیات میں نعمت اللہ ولی کی ساڑھے آٹھ سو سالہ پرانی پیشگوئیوں کا حوالہ ضرور دیتا ہوں۔ جس میں سے آج تک ایک بھی پیشن گوئی غلط ثابت نہیں ہوئی۔ وہ لکھتے ہیں کہ ایک ایسا وقت بھی آئے گا جب حکمران فائن اور ان کے وزیر کتے ’’سگ‘‘ ہوں گے، پاکستان پر آج تک جاگیردار، وڈیرے، فوجی اور اب جیسے حاکم رہے ہیں لیکن اب ان کا خاتمہ بخیر ہوگا اور یہ خاتمہ بخیر نواز شریف کا بھی ہے۔

مطلقہ خبریں