بھارت کی اسٹار اینکرپرسن پرکھاوت نے کہا ہے کہ ”سوری امریکا ہم آپ کے اتحادی نہیں بن سکتے“
نصرت مرزا
گجرات کے قصائی کو ایک مرتبہ امریکا کا ویزا دینے سے انکار کردیا تھا مگر غیرمعمولی جمہوریت پسند، انسانی دوست، اصول پسند امریکا نے اپنے سارے اصول بالائے طاق رکھ کر اسی شخص کو گجرات میں مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلے والے کو ریاستی دورے یا سرکاری دورے پر بلایا ہے، یہ دوسری مرتبہ ہوگا کہ مودی امریکی کانگریس کو خطاب کیا ہے اور جو مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا ہے اس میں پاکستان سے ڈومور کہا گیا ہے۔ پاکستان سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ اُن عناصر کے خلاف کارروائی کرے جو بالاکوٹ کے حادثے میں ملوث تھے، اگرچہ یہ بات پرانی ہوگئی مگر بھارت کسی بھی طرح اور کسی بھی وقت پاکستان کو نہیں بخشتا جبکہ پاکستان کے حکمراں امریکا کے زیرنگیں رہنے میں اپنی عافیت سمجھتے ہیں، پاکستان کے وزیردفاع نے البتہ اس پر سخت ردعمل کا مظاہرہ کیا اور کہا کہ ہم نے امریکا کا ساتھ دے کر جو قربانیاں دیں، اُن کی قدر نہیں کی گئی، پاکستان نے امریکا کے افغانستان میں جانے کے بعد جو ردعمل آیا اس کو سہا، خون کے نذرانے دیئے، ہیروئن اور کلاشنکوف کلچر نے جو تباہی مچائی اس سے نمٹا گیا مگر امریکا کو ہماری قربانیاں یاد ہیں اور نہ اُن کی کوئی قدر، مارچ 1997ء میں کراچی میں ایک امریکی دانشور پیٹر لوائے آئے تھے جب میں نے ان سے یہ شکایت کی کہ آپ ہمیں تنہا چھوڑ کر چلے گئے تو اس نے کہا پاکستان نے اپنے حصہ کا کام اور ہم نے اپنے حصے کا۔ جب میں نے جرح کی تو اس نے کہا کہ اچھا یہ تو صحیح ہے کہ ہم واحد سپر طاقت بن گئے اور پاکستان نے ایٹم بم بنا لیا۔ حساب کتاب برابر۔ میرا مزید سوال یہ تھا کہ پھر بھی ایک اتحادی کے طور پر امریکا کو ہمارا ساتھ دینا چاہئے تھا تو اس نے کہا کہ پاکستان نے ایٹم بنا کر معاہدہ کی خلاف ورزی کی اس لئے ہم آپ کا ساتھ نہیں دے سکتے۔
امریکا کے مفادات ہر دور میں بدلتے رہتے ہیں، اس وقت امریکا کی عالمی بالادستی کو دو عشروں سے چیلنج کا سامنا ہے اور ساتھ ساتھ پیٹرو ڈالر کی دُنیا بھر کی کرنسی رہنے والا معاملہ بھی اٹھ گیا ہے، اِس کرنسی کی جگہ بارٹر تھی مال کے بدلے میں مال، یا اپنے اپنے ملکوں کی کرنسی میں تجارت کی جائے گی۔ جو امریکا کو سخت ناپسند ہے، اس طرح اس کی دُنیا پر بالادستی آہستہ آہستہ ختم ہورہی ہے، اس لئے وہ امریکا روس اور چین کے چیلنج سے نمٹنے کے لئے بہت پیچیدہ طریقہ کار وضع کررہا ہے۔ بہت سے سرگرمیوں کو روبہ عمل لارہا ہے۔ اس نے انڈیا، آسٹریلیا، جاپان اور امریکا پر مشتمل ایک QUAD نامی تنظیم کو جنم دیا ہے، اس پر ایک اور تنظیم آسٹریلیا، برطانیہ اور امریکا پر مشتمل تنظیم جو سفید فاموں پر مشتمل بھی بنا ڈالی ہے، ان دونوں تنظیموں کا مقصد جنوبی بحر چین اور خلیج تائیوان میں چین کی پیش رفت کو روکنا ہے۔ مگر چین ہے کہ بڑھتا ہی چلا جارہا ہے، جیو اکنامکس سے اب جیو اسٹرٹیجک دور میں شامل ہوگیا ہے، اس نے سعودی عرب اور ایران کے درمیان تعلقات بحال کرا دیئے ہیں، دونوں ممالک کے سفیر اپنے اپنے سفارتخانے میں آکر بیٹھ گئے ہیں۔ یہ چین کی بڑی کامیابی اور امریکا کے لئے ایک ہزیمت سے کم نہیں، اس کے علاوہ چین نے فلسطین کے ساتھ اسٹرٹیجک تعلقات قائم کرکے اسرائیل کو ایک زبردست دھچکے سے دوچار کردیا ہے۔ فلسطین کے صدر محمود عباس کو چین کے دورے پر بھی بلا لیا ہے۔
اس سے پہلے امریکا کی فضائی حدود میں ایک غبارہ بھیج کر چین نے امریکا کو پیغام بھیجا کہ وہ امریکی فضائی حدود میں داخل ہوسکتا ہے۔ اس کے علاوہ چین نے یا کسی بھی ملک نے امریکا کے موسمیاتی تغیر کے اڈہ الاسکا پر ایک پتلی سے لوہے کی دھات بھیج کر بھی امریکا کو ایک قسم کی تنبیہ کی ہے وہ اس اڈہ سے آگاہ ہے۔ اگر امریکا نے اس کو چین کے خلاف استعمال کیا تو وہ اس اڈہ کو تباہ یا نقصان پہنچا سکتے ہیں یا صرف انتباہ ہی ہے۔ ان دو شئے غبارے اور میٹل کی امریکی فضائی حدود میں موجودگی نے امریکا کو سیخ پا کردیا اور ان دونوں واقعات کو امریکا نے فضائی حدود کی خلاف ورزی اور جاسوس کے طور پر استعمال کرنے سے تعبیر کیا، اگرچہ امریکا نے غبارہ اور میٹل نما سے کو گرا تو لیا اور اب اُس کا جائزہ لے رہے ہیں کہ اس میں کیا چیز تھی آیا جاسوس کے آلات تھے یا صرف امریکا کو فضائی حدود کی خلاف ورزی کرکے امریکا کو پیغام دینا تھا۔ اگرچہ چین نے غبارے میں جاسوسی آلات لگا دیئے تھے تو عین ممکن ہے کہ وہ کم وزن کے پلاسٹک کے ہوں یا پھر کسی اور ہلکی دھات کے ہوں تو امریکا کے گرانے کے بعد تباہ ہوگئے ہوں گے مگر امریکی اُن کا خوردبینی سے جائزہ لے رہے ہیں کہ وہ کیا چیز تھی۔ امریکا نے اس خلاف ورزی کو دُنیا پر اپنی بالادستی میں مداخلت سمجھا اور چین کو سخت وارننگ دی کہ اگر چین نے امریکی بالادستی میں مداخلت کی تو اس کی سخت مزاحمت کی جائے گی۔ اس کے بعد امریکی وزیرخارجہ انٹونی بلنکن چین کے دورے پر گئے اور وہاں پر اُن کے ساتھ سرد رویہ اختیار کیا گیا، جس سے امریکا نے اندازہ لگا لیا کہ چین اُس کے خلاف صف آرا ہوچکا ہے اور اُس کی زنبیل میں بہت کچھ ہے، اس کے فوراً بعد امریکا نے خلیج تائیوان اور ویتنام میں اپنے جنگی جہاز بھیج دیئے کہ اگر چین نے تائیوان پر حملہ کیا تو اس کا مقابلہ کرے گا۔ اس کے علاوہ امریکا کے پاس بھی بہت سے خفیہ ہتھیار موجود ہیں، ممکن ہے وہ روس کی طرح چین میں بغاوت کرانے کی کوشش کرے، مگر حیرت انگیز طور پر روس کی بغاوت یا خانہ جنگی اختتام پذیر ہوگئی یا پھر روس جو میدانی یا پیادہ فوج کی کمی کا شکار ہے اس نے اُس اثرات کو واضح کرنے کی کوشش کی ہو۔ اطلاعات کے بموجب روس افریقہ اور دیگر ممالک سے کرائے کے فوجی حاصل کررہا ہے۔ روس کی ویگنار جو 25 ہزار افراد پر مشتمل ہے اور تمام دُنیا میں پھیلی ہوئی ہے، یہ بلیک واٹر قسم کی تنظیم ہے مگر خوفناک درخوفناک تنظیم مانی جاسکتی ہے، بہرحال وہ قابو میں آگئی، اب یہ الگ بحث ہے کہ وہ امریکا کی سازش کا نتیجہ تھی یا پھر روس کو کسی سخت قسم اٹھانے کا بہانہ کے طور پر قائم ہوئی۔ دونوں صورتوں میں عین ممکن ہے کہ روس کسی کے خلاف بھی اب سخت قدم اٹھانے کی پوزیشن میں آگیا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ روس نے یوکرین پر میزائلوں سے بڑا حملہ کیا ہے اور ساتھ ساتھ یہ واقعہ بھی ہوگیا، تو یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ وہ اس حملہ کے اثرات کو زائل کرانے کے لئے یہ کھیل رچایا ہو، کیونکہ ساری دُنیا کا میڈیا اس بغاوت کی طرف متوجہ ہوگیا اور میزائل حملے کو یکسر نظرانداز کردیا۔ جس پر اب بات ہورہی ہے۔ اس کے مقابلے میں پیپلز لبریشن آرمی کے پاس افرادی طاقت کی کوئی کمی نہیں ہے، اس کے پاس بہت بڑی فوج ہے اور شاید افرادی طور پر سب سے بڑی فوج مانی جاسکتی ہے۔ وہ بھارت کے ساتھ نبردآزما ہے اور تقریباً ڈیڑھ ہزار کلومیٹر کی بھارتی سرحد پر تعینات ہے۔ امریکا کے بھارتی وزیراعظم کو اس دفعہ کی دعوت امریکا کی بھارت کو اپنے قبضہ میں لینے کی آخری کوشش ہو۔ کہ کسی طرح وہ رام ہوجائے تو امریکا بھارت کو اس بات پر راضی کرلے کہ وہ چین کو اپنی سرحدوں پر الجھا لے تو امریکا تائیوان اور بحرجنوبی چین میں چین کے ساتھ بھڑ جائے یا اُس کے لئے مشکلات کھڑی کرکے دیکھے کہ چین کا کیا ردعمل ہے۔ بظاہر لگتا ہے کہ بھارت امریکا کے چنگل میں نہیں پھنسے گا اور وہ امریکا اور چین کی لڑائی میں اپنے آپ کو نہیں پھنسائے گا، اگر بھارت امریکا کی جنگ میں شامل نہ ہوا تو اِن دونوں ممالک کے درمیان جنگ کے بعد اس کے ایک طاقتور ملک کے طور پر ابھرنے کے امکانات روشن ہوسکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت کی اسٹار اینکرپرسن پرکھاوت نے کہا ہے کہ ”سوری امریکا ہم آپ کے اتحادی نہیں بن سکتے“ اور شاید بھارتی دانشوروں، صنعتکاروں اور فوج کی رائے بھی یہی ہو جس کو پرکھاوت نے بیان کیا ہے۔