ثنا شاہد
تعلیم، صحت اور روزگار ہر شہری کا بنیادی حق ہے مگر ایک بڑی آبادی اس بنیادی حق سے محروم کیوں؟ صحت اور روزگار بھی ثانوی حیثیت رکھتے ہیں مگر ایک بنیادی حق جو ہماری قوم کے لئے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے وہ ہے تعلیم جو حکومت کی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے ایک مافیا کے ہاتھ آ چکی ہے۔
دورحاضر میں تعلیم کی اہمیت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ کسی بھی ملک کی خوشحالی اور ترقی اس کے نظامِ تعلیم پر منحصر ہے۔ گزشتہ پچیس سال کے عرصہ میں پاکستان میں گورنمنٹ تعلیم کا معیار بہتر نہ ہونے کے باعث بہت سے نجی اسکول منظرنامے پر نمودار ہوئے۔ ابتدا میں ان کا اولین مقصد بہتر تعلیم کو فروغ دینا تھا لیکن گزرتے وقت کے ساتھ تعلیم نے منافع بخش کاروبار کی شکل لے لی اور تعلیم کو ہتھیار بنا کر والدین اور طلبا کا مستقل بنیادوں پر استحصال کیا گیا۔
کراچی کے چند نامی گرامی نجی اسکولوں کی فیسوں کا جائزہ لیں تو اندازہ ہوگا کہ کسی سفید پوش گھرانے کے لئے ایسے اسکولوں میں اپنے بچے کے ایڈمیشن کرانے کا خیال کسی دیوانے کے خواب سے زیادہ کچھ نہیں۔ ان اسکولوں کی پری پرائمری کی ماہانہ فیس 5 ہزار سے 80 ہزار کے درمیان ہے۔ اے اور او لیول کی ماہانہ فیس تقریباً تیس سے چالیس ہزار کے درمیان ہے۔ علاوہ ازیں مختلف حیلے بہانوں سے والدین سے پیسے بٹورنا، ہر سال فیسوں میں اضافہ کر دینا، والدین پر مخصوص پبلشرز کی کتابیں خریدنے کے لئے دباؤ ڈالنا نجی اسکولوں کا معمول بن گیا ہے۔ اسٹیشنری میں دو سیکشن اسکول سے متعلق ہیں۔ ایک سیکشن کورس سے تعلق رکھتا ہے۔ اس میں مختلف پبلشرز کا عمل دخل ہوتا ہے۔ دوسرے سیکشن میں وہ تمام اسٹیشنری کا سامان ہے جو طالبعلم کے زیراستعمال رہتا ہے۔ آہستہ آہستہ وہ دونوں سیکشن پرائیویٹ اسکولوں نے اپنے کنٹرول میں لے لئے جس کی وجہ سے تعلیم و تربیت کو ذاتی مقاصد کے حصول کا ذریعہ بنا لیا گیا۔
ابتدا میں نجی اسکولوں میں کورس سے متعلق کوئی خاص قوانین و قواعد وضع نہیں تھے۔ ایک طے شدہ نصاب کو مختلف پبلشرز چھاپتے تھے۔ والدین کو یہ آزادی حاصل تھی کہ وہ کسی بھی پبلشر کی چھپی ہوئی نصاب کی کتاب کو خرید سکیں۔ پھر آہستہ آہستہ پبلشرز نے براہ راست اسکولوں سے رابطہ کرنا شروع کیا جس میں ان کو بہترین آفرز دی گئیں کہ اگر وہ ان کی چھپی ہوئی کتاب اپنے نصاب میں شامل کریں گے تو ان کو فلاں فلاں طریقے سے فائدہ دیا جائے گا جو ہزاروں لاکھوں کی مد میں ہوتا ہے۔ چنانچہ والدین پر دباؤ ڈالا گیا کہ وہ مخصوص پبلشر کی کتاب خریدیں۔ اس کا براہ راست فائدہ پرائیویٹ اسکولوں اور گنے چنے پبلشرز کو ہوا جو سرمایہ کاری کرنے کی اہلیت رکھتے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ پرائیویٹ اسکولوں نے اپنے ٹریڈ مارک کے ساتھ کاپیوں اور رجسٹروں کا اجرا شروع کیا اور والدین پر دباؤ ڈالا کہ وہ انہی کے اسکول کی چھپی ہوئی کاپیاں خریدیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پہلے جو صارف مارکیٹ سے ایک کاپی ساٹھ روپے کی خریدتا تھا اب کم و بیش وہی کاپی اسکول کے نام کے ساتھ اسے دگنی سے زیادہ قیمت پر مخصوص دکان سے خریدنی پڑی۔ نیز یہ کہ جب وافر مقدار میں کتابوں اور کاپیوں کا اجرا شروع ہوا تو اسکولوں کو رعایتی نرخ پر کتابیں اور کاپیاں ملنی شروع ہوگئیں جبکہ ایک عام دکان دار کو وہی مواد اسکول سے زیادہ نرخ پر دستیاب ہوا۔ اس کے باوجود مارکیٹ میں پرائیویٹ اسکول سے آدھی قیمت پر کاپیاں اور رجسٹر موجود ہیں تاہم طالبعلم اور والدین کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ دگنی قیمت میں اسکول سے ہی کاپی خریدیں۔ مثال کے طور پر ایک نجی اسکول میں ساتویں جماعت کی 160 صفحات کی سنگل 11 کاپیاں اور ڈرائنگ بک 1835 روپے میں دی گئیں، جس کے مطابق والدین کو ایک کاپی تقریباً 161 روپے کی پڑی۔ کم و بیش یہی کاپی مارکیٹ میں 55 روپے میں دستیاب ہے جس میں دکاندار اپنا منافع رکھ کر صارف کو بیچ رہا ہے، جس سے اس کی اصل قیمت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ان کاپیوں کے صفحات مختصر ہونے کی وجہ سے سارے سال کا کام اس میں ہونا مشکل ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر اسکول سے فراہم کی گئی کاپیوں میں اگر ٹیسٹ لئے گئے تو وہ شروع کے ہی مہینوں میں ختم ہوجائے گی۔ چنانچہ وقفے وقفے سے روٹین ٹیسٹ کی مد میں والدین سے رجسٹر کے دستے بھی منگوائے جاتے ہیں جوکہ ایک اضافی خرچہ ہے۔ اب اگر اسکول کی کاپیاں، کتابیں ایک مخصوص دکان کے پاس موجود ہے تو جس وقت والدین وہاں سے کتابیں اور کاپیاں لینے جائیں گے تو لازمی بات ہے کہ مزید اسٹیشنری کا سامان بھی اسی دکان سے ہی خرید لیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک اسکول ایک وقت میں ایک پرنٹر کے پاس گیا جہاں سے اس نے اپنا سب مواد شائع کروایا، جس کا براہ راست اثر مارکیٹ اور طالبعلم دونوں پر پڑا۔
مزید برآں ہر گزرتے سال پبلشر کتابوں میں معمولی اضافے کے ساتھ نئے ایڈیشن شائع کررہے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے پرانی کتابیں قابل استعمال نہیں رہتیں۔ کہیں کہیں تو اسکول یونیفارم میں بھی معمولی تبدیلیوں کے ساتھ تبدیل کردیا جاتا ہے اور طالبعلم کو پابند کیا جاتا ہے کہ وہ مخصوص دکان سے جا کر نیا یونیفارم خریدے جو کہ غریب والدین کی استطاعت سے باہر ہے۔
اب گزشتہ چند سال میں ایک نیا رحجان دیکھنے میں آیا ہے کہ اسکولوں میں آرٹ کے سامان کے طور پر والدین سے رقم بٹوری جاتی ہے جس سے کلر ڈے اور کلچر ڈے وغیرہ منایا جاتا ہے۔ وہ آرٹ کا سامان اسکول اپنی تزئین و آرائش اور سجاوٹ میں استعمال کرتا ہے اور اس کا خمیازہ والدین کو بھگتنا پڑتا ہے۔ مونٹیسوری کے بچوں سے بھی آرٹ کی مد میں ہزاروں روپے کا سامان بٹورا جاتا ہے۔یہاں تک کہ اگر اسکول نے بڑے سائز کی یو ایچ یو منگوائی ہے تو والدین پر لازم ہے کہ وہ بڑے سائز ہی کی یو ایچ یو خرید کر بھیجیں۔ سامان کی مالیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ صرف ایک سب سے بڑے سائز کی یو ایچ یو مارکیٹ میں 295 روپے کی دستیاب ہے۔ اس کے علاوہ بھی آرٹ ورک کے نام پر طالبعلم سے کارڈ شیٹ، کمپیوٹر کلر پیپر، گلواسٹک، قینچی، فومک شیٹ، کریپ پیپر، ٹشو پیپر، آئسکریم اسٹک وغیرہ منگوایا جاتا ہے، جس کا سارا بوجھ والدین کے ناتواں کندھوں پر پڑتا ہے۔
کچھ اسکولوں میں اسٹیشنری کا سامان اور کتابیں بھی اسکول سے ہی لینے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک نجی اسکول نے اسٹیشنری کی مد میں 1500 روپے فی بچہ لیا۔ اس کے بعد اسٹیشنری کا سامان رعایتی نرخ پر 24000 کا مخصوص دکان سے خریدا۔ اب اگر 1000 بچے بھی اس اسکول میں تعلیم حاصل کررہے ہیں تو پندرہ لاکھ روپے بن جاتے ہیں۔ ان میں سے 24000 استعمال کرنے کے بعد بقیہ ساری رقم اسکول کی جیب میں جاتی ہے جوکہ کرپشن کی بدترین مثال ہے۔ ایسے لاتعداد پرائیویٹ اسکول موجود ہیں جنہوں نے تعلیم کو کاروبار بنایا ہوا ہے اور کوئی اس مسئلے کو سمجھنے، بولنے اور حل کرنے کے لئے تیار نہیں۔ ان حالات میں سفید پوش اور غریب والدین کے لئے بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔
اس ساری صورتِ حال کا فائدہ مخصوص سرمایہ داروں اور پرائیویٹ اسکولوں کو ہورہا ہے اور مارکیٹیں ویران سے ویران تر ہوتی جارہی ہے۔ اسکول اسٹیشنری کی مارکیٹ جو نئے سال کی آمد پر صارفین سے بھر جایا کرتی تھی اب ان کا گاہک مخصوص دکان سے سامان لینے کا پابند ہے۔ رواں سال میں بہت سے دکانداروں نے اسٹیشنری کا سامان مارکیٹ میں جا کر واپس کیا ہے، کیونکہ مارکیٹ میں گاہک موجود نہیں ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ صورتِ حال بدتر سے بدترین ہوتی جارہی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اس مسئلے کا سختی سے نوٹس لے اور نجی اسکولوں کو اس کا پابند کیا جائے کہ وہ کتابوں، کاپیوں اور اسٹیشنری کی مد میں والدین پر کسی قسم کا دباؤ نہ ڈال سکیں۔ والدین کو یہ آزادی حاصل ہو کہ وہ جہاں سے چاہیں سامان خرید سکیں تاکہ ہر خاص و عام کو تعلیم حاصل کرنے کے یکساں مواقع میسر ہوں۔