وزیراعظم پاکستان کا حالیہ دورہ چین بڑی اہمیت کا حامل ہے
پاکستان اور چین لازم و ملزوم اور طویل مستقبل کے لئے ناگزیر ضرورت بن گئے ہیں، دونوں ملکوں کے درمیان ایک دوسرے کی حمایت اور قریبی تعاون ایسے تعلقات طویل مدت ہیں جنہیں دونوں ممالک کے عوام فوقیت دیتے ہیں، سی پیک کے تحت بنیادی ڈھانچہ توانائی اور ترقی کے شعبوں میں پہلے ہی بڑی کامیابی حاصل کی جا چکی ہے
رانا زاہد اقبال
حالیہ دنوں میں امریکا اور چین کے درمیان سرد جنگ عروج پر ہے۔ امریکا اور ا س کے اتحادی چین کی ترقی کرتی معیشت سے خائف ہیں اور مستقبل میں ان کے مفادات کی راہ میں چین کو ایک بڑی رکاوٹ تصور کررہے ہیں۔ دُنیا میں نئی صف بندیاں ہورہی ہیں، ایسے حالات میں پاکستان اور چائنا کے تعلقات بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ عالمی سطح پر بدلتے حالات کے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے پاکستان اور چین اپنے تعلقات کے نئے دور میں داخل ہونے جا رہے ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ چین دُنیا کا مستقبل ہے، مستحکم چین کا مطلب پاکستان کا استحکام ہے۔ چین کی معیشت جس رفتار سے ترقی کر رہی ہے بلا شبہ ہمارا یہ دوست ملک دُنیا کا مستقبل ہے۔ امریکا نے اسی خطرے کے پیشِ نظر بھارت کو علاقے کی بڑی طاقت بنانے کے لئے اس پر نوازشات کی بارش کر رکھی ہے۔ امریکی قیادت کی یہ خواہش ہے کہ بھارت کو اتنا جدید اسلحہ فراہم کر دیا جائے کہ وہ چین بلکہ روس سے بھی ٹکر لے سکے۔
اگر ہم عالمی منظرنامے پر نظر ڈالیں تو اس وقت دُنیا بڑی تیزی سے نئے بلاکس میں تقسیم ہو رہی ہے۔ معاشی اور عالمی بالادستی کی رسہ کشی نے چین اور امریکا کو ایک دوسرے کے مقابل لا کھڑا کیا ہے۔ آج کا چین سرد جنگ کے دنوں والے روس جیسا نہیں بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ موجودہ روس ماضی کے سوویت یونین سا نہیں۔ دُنیا میں طاقت کے محور تبدیل ہوچکے ہیں۔ دہشت گردی، امریکی جنگ اور عدم تحفظ نے اس خطے کے ممالک کو علاقائی سطح پر اتحاد بنانے کی جانب راغب کیا ہے۔ چین کے تعلقات اس خطے کے ممالک کے ساتھ پہلے بھی بہت بہتر تھے، پاک چین تعلقات کے حوالے سے یہ بڑی واضح حقیقت ہے مگر پچھلی دو دہائیوں کے دوران اس خطے میں امریکی مداخلت کے نتیجے میں پیدا ہونے والے حالات نے یہاں کے ممالک کے لئے چین کے ساتھ علاقائی معاشی تعلق کو مضبوط کرنے کے آپشن کو مزید تقویت دی ہے۔ ان بیس سالوں کے دوران جب امریکا جنوبی ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ میں فوجی کارروائیاں کر رہا تھا، چین اور روس نے معاشی اور دفاعی لحاظ سے خود کو بہت بلند سطح پر پہنچا دیا اور خاص طور پر چین نے اپنے آپ کو ایسا پارٹنر بنا کر پیش کیا جس پر اعتبار کیا جا سکتا ہے۔ چین اب تک پُرامن طریقے سے ابھرا ہے۔ 40 سال کے عرصے تک امریکا اور چین نے باہمی انحصار پر مشتمل معاشی اور ایک کافی حد تک تعاون پر مشتمل سیاسی رشتہ قائم رکھا ہے۔ امریکی معیشت میں طلب کم ہے کیونکہ لوگوں کی بنیادی ضروریات پوری ہوچکی ہیں اور آبادی میں اضافے کی شرح بہت سست ہے۔ امریکا کے اندر پرانی ہوتی مشینری اور زیادہ اجرتوں کی وجہ سے پیداواری ملازمتیں دوسرے ممالک میں منتقل ہوچکی ہیں اور اب ان ملازمتوں کے واپس آنے کا امکان نہیں ہے۔ معیشت کو زبردست مالیاتی امداد دیئے جانے کے باوجود امریکا کی شرح نمو دو سے تین فیصد سے زیادہ نہیں بڑھ سکی ہے۔ چین کی ترقی برآمدات اور سرمایہ کاری کی وجہ سے زیادہ تیزی سے بڑھی ہے۔ چینی معیشت ترقی کرتی رہے گی کیونکہ 30 کروڑ چینی اب غربت سے نکل کر چین کی وسیع ہوتی مڈل کلاس کا حصہ بننے جا رہے ہیں، چنانچہ طلب میں اضافہ ہوگا۔ اس کے علاوہ تاریخی بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے میں بھی کھربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی جا رہی ہے۔ اس دوران چین ایک ایسا مالیاتی نظام بنا رہا ہے جو بالآخر امریکا کے زیرِغلبہ چلنے والے مالیاتی نظام کو چیلنج کرسکتا ہے اور یہ جدید ترین ٹیکنالوجیز میں بھی ہر سطح پر بھاری سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ صدر ژی جن پنگ کی رہنمائی میں پیپلزلبریشن آرمی کو ایک تکنیکی اعتبار سے جدید فوج میں بدلا جا رہا ہے۔ چین عسکری تحقیق پر بے تحاشہ پیسا خرچ کر رہا ہے۔ اس نے جن اسلحہ سسٹمز کی نمائش کی ہے ان میں سے کچھ نے تو مغربی عسکری مبصرین کو بھی حیران کر دیا ہے۔ چین دوبارہ ابھرتے ہوئے روس کے ساتھ مضبوط معاشی اور عسکری روابط قائم کر رہا ہے جس کی وجہ سے بھارت اور جاپان پر مشتمل امریکی ایشیائی اتحاد کے دوسرے پلڑے میں توازن پیدا ہوگا۔ چین ہی سے دُنیا کا مستقبل وابستہ ہے۔ ان حالت میں وزیراعظم پاکستان کا حالیہ دورۂ چین بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ پاکستان اور چین لازم و ملزوم اور طویل مستقبل کے لئے ناگزیر ضرورت بن گئے ہیں۔
دونوں ملکوں کے درمیان ایک دوسرے کی حمایت اور قریبی تعاون ایسے تعلقات طویل مدت ہیں جنہیں دونوں ممالک کے عوام فوقیت دیتے ہیں۔ سی پیک کے تحت بنیادی ڈھانچہ توانائی اور ترقی کے شعبوں میں پہلے ہی بڑی کامیابی حاصل کی جا چکی ہے۔ مستقبل میں یہ منصوبہ صنعتی ٹیکنالوجی کے شعبوں میں تعاون کے فروغ کی جانب توجہ منتقل کرے گا جس سے پاکستان کی اقتصادی ترقی، بے روزگاری اور غربت کے خاتمے میں بڑی اہم پیش رفت ہوسکتی ہے۔ پاکستان اور چین کے تعلقات میں ماضی کی نسبت زیادہ گہرائی پیدا ہورہی ہے۔ چین کے صوبے سنکیانگ اور اس سے ملحقہ علاقوں کی ترقی کے لئے پاکستان کی راہداری وقت کی اہم ترین ضرورت بن چکی ہے جب کہ پاکستان کو ماضی کی نسبت آج عملی مدد کی زیادہ ضرورت ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان تزویراتی تعاون پر مبنی شراکت داری نے وقت کی تمام آزمائشوں کا مقابلہ کیا ہے۔ دونوں ممالک نے اپنے وژن، خوشحالی، ترقی اور امن و استحکام کی مشترکہ خواہش کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ایک بار پھر بھرپور عزم کا اعادہ کیا ہے۔ پاکستان فقط جیو پولیٹیکل اور جیو اکنامیکل پوزیشن و لوکیش ہی نہیں بلکہ ہماری دفاعی صلاحیت بہترین اور نتیجہ دینے والے اتحادی کے طور پر ثابت شدہ حقیقت ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے دورۂ روس سے قبل کہا تھا کہ وہ روس سے تعلقات بہتر کرنا چاہتے ہیں لیکن کسی بلاک کا حصہ نہیں بنیں گے۔ ماضی میں امریکا کا ساتھ دینے پر پاکستان کا بہت نقصان ہوا۔ قیامِ پاکستان سے ہی پاکستان کو عالمی سازشوں کا سامنا رہا ہے۔ دُنیا کا کوئی ایسا ملک نہیں ہے جسے پاکستان کی طرح کے چیلنجز کا سامنا رہا ہو۔ امریکی اتحادی رہنے کی وجہ سے پاکستان کو امریکی دباؤ کے تحت بہت سے ناپسندیدہ اقدامات کرنا پڑے۔ پاکستان گزشتہ سات دہائیوں سے امریکی بلاک کا حصہ ہے لیکن امریکا پاکستان کو کبھی معاشی طور پر ترقی یافتہ ملک نہیں دیکھنا چاہتا ہے کیونکہ جو ملک معاشی اعتبار سے ترقی یافتہ ہوگا وہ کسی کے دباؤ کو قبول نہیں کرتا۔ قیامِ پاکستان کے موقع پر دُنیا میں دو بڑے بلاک سرگرمِ عمل تھے ان میں سے ایک کی قیادت امریکا اور دوسرے کی قیادت روس کے پاس تھی۔ پاکستان نے اس وقت امریکا ومغرب پر مشتمل بلاک کا انتخاب کیا اور پھر یہیں سے روس اور پاکستان میں تلخی کا سفر شروع ہوا۔ وزیرِاعظم کا یہ کہنا درست ہے کہ ہم نے اب کسی بلاک کا حصہ نہیں بننا بلکہ تمام ممالک کے ساتھ بہترین تعلقات رکھنے ہیں۔ قائداعظم محمد علی جناح نے پاکستان کی داخلہ اور خارجہ پالیسی کی گائیڈلائن کا تعین کیا تھا مگر افسوس ان کے بعد آنے والے حکمرانوں نے اپنے اور سامراجی مفادات کے تحفظ کے لئے قائداعظم کے پالیسی اصولوں اور نظریات سے گریز اور انحراف کیا جس کے نتیجے میں پاکستان آج تک داخلی استحکام اور خارجہ پالیسی بحران کا شکار چلا آ رہا ہے۔ قائداعظم نے خارجہ پالیسی کے بنیادی اصول بیان کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ پاکستان ملک کے اندر امن کے قیام اور عالمی امن کے لئے کام کرے گا۔ اس کے کوئی جارحانہ مقاصد نہیں ہوں گے۔ پاکستان اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے مطابق اپنا کردار ادا کرے گا اور دُنیا کے امن اور خوشحالی کے لئے اپنا حصہ ڈالے گا۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی کا جائزہ لیں تو ہم اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ ہماری خارجہ پالیسی کسی دور میں بھی مکمل طور پر کامیاب نہیں رہی۔