سید زین العابدین
عام انتخابات ہوگئے، تحریک انصاف کی سونامی بڑے بڑے سیاسی قلعہ کو بہا لے گئی، 25 اپریل 1996ء کو عمران خان نے اپنی سیاسی جماعت کی بنیاد رکھی۔ 6 سال بعد 2002ء کے انتخابات میں ایک نشست ملی جسے جنرل پرویز مشرف کی مہربانی کہا جاتا تھا، 2008ء میں پی ٹی آئی نے انتخابات کا بائیکاٹ کیا، لندن کانفرنس میں ن لیگ نے بھی بائیکاٹ کا ساتھ دینے کا کہا تھا مگر انتخابی میدان چھوڑنے سے ہونے والے نقصانات کے ڈر سے اپنے اعلان سے پیچھے ہٹ گئی، اپنے اتحادیوں کو اعتماد میں بھی نہیں لیا، عمران خان کو جس کا قلق بھی رہا، 2013ء میں پی ٹی آئی طاقتور سیاسی لہر بن کر اٹھی مگر سیاسی مافیا نے اس کے آگے بند باندھ دیا، اس طرح روایتی سیاسی پہلوانوں کو پچھاڑنے میں کامیابی نہ مل سکی، پی ٹی آئی نے دھاندلی کا شور مچایا پی پی نے ہم آواز ہو کر اسے آر او (ریٹرننگ افسران) کا الیکشن قرار دیا لیکن کشتیاں جلا کر میدان میں کودنے سے گریز کیا، عمران خان کو سمجھ آگئی کہ پاکستان کے سیاسی نظام پر مسلط مافیا کے ساتھ مل کر تبدیلی نہیں لائی جاسکتی پھر تحریک انصاف نے بھی الیکٹیبلز کو توڑ کر سیاسی گروہ میں نقب لگائی، اس طرح اپنی سیاسی قوت اور انتخابی اکھاڑے کے کھلاڑیوں کو اپنے کیمپ میں شامل کیا، 2013ء میں پی ٹی آئی کو 75 لاکھ سے زائد ووٹ پڑے تھے، اسمبلی میں 32 نشستیں تھیں، حالانکہ پی ٹی آئی کی لہر پورے ملک میں زوروں پر تھی مگر ن لیگ کو بڑی کامیابی دلوائی گئی، عمران خان مایوس ہونے کے بجائے مزید جوش و جذبے کے ساتھ اپنے کارواں کی قیادت کرتے رہے، 126 دن کا دھرنا دیا، مقدمات کا سامنا کیا، کھلاڑیوں کو متحد رکھا، 25 جولائی 2018ء کے انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف نے 16858900 ووٹ حاصل کرکے 115 نشستیں جیتیں، اس طرح 25 اپریل 1996ء کو پی ٹی آئی نے جس سفر کا آغاز کیا تھا اس کی پہلی منزل آگئی اب اگلا ہدف اور منزل پاکستان سنوارنے کی ہے۔
سب سے پہلے دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ کا بیانیہ درست کرنا ہے، یہ جنگ ہماری نہیں تھی مسلط کی گئی، ہمارے 7500 سے زائد سیکورٹی اہلکار اور 75 ہزار سے زائد عوام کی شہادتیں ہوئیں، امریکا کو یہ سمجھانا ہے کہ ہمارے ملک میں دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے نہیں ہیں، آپ دہشت گردوں کو نشانہ بنانے کے لئے ڈرون حملے بند کردیں، ان سے ہم خود نمٹ لیں گے، افغانستان میں قیام ختم کریں، افغانوں کا ملک ان کے حوالے کردیں، 9 فوجی اڈے بنا کر خطے میں بالادست رہنے کی حکمت عملی کامیاب نہیں ہوسکے گی کیونکہ چین معاشی کے ساتھ عسکری طاقت بن کر ابھرا ہے، روس بھی سنبھل کر مضبوط ہوچکا ہے۔ اسی طرح بھارت کو یہ پیغام دینا ہوگا کہ وہ امریکی اشارے پر خطے کے امن سے نہ کھیلے، غربت بہت بڑا مسئلہ ہے جس سے مل کر نمٹنا ہوگا، کشمیر، سرکریک، سیاچن اور پانی کے تنازعات کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنا ہوگا ورنہ خطے کا امن خطرے میں رہے گا۔
عرب ملکوں سے پی ٹی آئی کو ڈپلومیسی سے نمٹنا ہوگا، عقیدے اور جذباتی وابستگی کو ایک طرف رکھنا ہوگا کیونکہ شام اور افغانستان پر امریکی بمباری ظلم ہے تو یمن پر سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کی چڑھائی بھی ظلم ہے کیونکہ یمن کے عوام نے خود پر مسلط بدعنوان حکمرانوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش کی ہے، انہوں نے سعودی عرب کے کسی علاقے پر قبضہ کرنے کے لئے جارحیت نہیں کی، اس طرح ایران اور سعودی عرب کے اختلافات میں جائے بغیر اپنی خارجہ پالیسی کی سمت کا تعین کرنا ہوگا، خارجہ پالیسی اگر سیاسی لوگوں کے ہاتھ میں آئی تو پی ٹی آئی کی کامیابی یقینی ہے، اس کے ساتھ ملک کے معاشی مسئلے کو نہایت سرعت اور انقلابی انداز سے ٹھیک کرنا ہوگا۔
بھارت اور پاکستان ایک ساتھ آزاد ہوئے، آج بھارت کی جی ڈی پی 2.6 کھرب ڈالر تک پہنچ کر فرانس سے بھی آگے نکل گئی، بھارت اس وقت 6 بڑی معیشت ہے، پاکستان کی جی ڈی پی 325 ارب ڈالر ہے، معاشی فہرست میں پاکستان کا 41 واں نمبر ہے۔ پاکستان کی برآمدات صرف 25 ارب ڈالر ہے جبکہ درآمدی بل 60 ارب ڈالر ہے، 35 ارب ڈالر کا خسارہ ہے، زرمبادلہ کے ذخائر اسٹیٹ بینک کے پاس 9 ارب اور کمرشل بینکوں کے پاس 6 ارب ڈالر ہیں، یعنی صرف 9 ارب ڈالر ملکی خزانہ ہے جس میں سے آئل کا درآمدی بل اور آئی ایم ایف کی قسط دینے کے بعد 5 ارب ڈالر رہ جائے گا، چین نے 2 ارب ڈالر کا فوری قرضہ دینے کا اعلان کردیا ہے، سعودی سفیر نے سعودی ولی عہد کی آمد کی خوشخبری دی ہے، اس طرح عمران خان کی حکومت کو سعودی عرب سے بھی 3 سے 4 ارب ڈالر ملنے کے امکانات ہیں، ایرانی سفیر مہدی ہنردوست نے بھی اپنی حکومت کی جانب سے نیک خواہشات کا پیغام پہنچایا۔ اس طرح ایران نقد امداد کے بجائے تیل رعایتی قیمتوں پر دے کر مدد کرسکتا ہے، امریکا بھی ہاتھ ہولا رکھے گا، پی ٹی آئی رہنما اسد عمر نے آئی ایم ایف کے پاس جانے کا آپشن کھلا رکھا ہے، فی الحال کشکول لے کر نکلنا پڑے گا، آئی ایم ایف کے لئے امریکی مدد درکار ہوگی کیونکہ ایف اے ٹی ایف کی گرے سے بلیک لسٹ والا معاملہ آڑے آئے گا۔
عمران خان کو ذہین اور وطن پرست ٹیم کی ضرورت ہے، جس کی نظریں سرکاری پروٹوکول اور مراعات پر نہ ہوں بلکہ معاشی مسائل کے حل پر توجہ ہو، عمران خان کو تاجروں کے ساتھ مل کر پیداواری لاگت پر بات کرنا ہوگی، اس کے بعد ہی برآمدات میں اضافہ ممکن ہے، بجلی کی قیمتیں، خام مال اور دیگر پیداواری عناصر کا بوجھ صنعتکاروں سے کم کرنا ہوگا، چین کے طرز پر کام کرنا ہوگا، 80 سے 90 کی دہائی تک چھوٹی انڈسٹری فروغ پا رہی تھی، شوکت عزیز کی مارکیٹ اکنانومی نے بیڑہ غرق کیا، خان صاحب کو بہترین معاشی ٹیم کو منظم کرنا ہوگا، ٹیکس نیٹ ورک بڑھانا ہوگا، اس کے بغیر ملک چلانے کے لئے سرمایہ حاصل نہ ہوسکے گا۔ ملک میں مالی ایمرجنسی نافذ کرکے سرکاری افسران اور اداروں کے سربراہان کی تنخواہ اور مراعات کم کرنا ہوگی، کسی بھی سرکاری عہدیدار کو ڈھائی سے تین لاکھ روپے سے زیادہ تنخواہ اور مراعات نہیں ملنی چاہئے، سرکاری پے اسکیل پر نظرثانی کرکے بہت کم سطح پر لانا ہوگا جسے 5، 10، 15، 20، 30، 40 لاکھ روپے تنخواہ چاہئے وہ کسی اور ملک میں نوکری کرلے۔
پاکستان کی قرض میں ڈوبی معیشت اتنا بڑا بوجھ مزید برداشت نہیں کرسکتی، مزدور کی تنخواہ 13 سے 14 یا 15 ہزار روپے اداروں کے سربراہان کے لئے 10، 10، 18، 18 اور 30، 30 لاکھ روپے حالانکہ وہ بھی آٹا 40 سے 44 چاول 100 سے 150 تیل، گھی 160 سے 180، دودھ 95 سے 120، گوشت 500 سے 900 روپے کلو اور آلو، سبزی بھی یکساں قیمت پر خریدتا ہے۔ کتنی بڑی ناانصافی ہے کہ کسی ادارے کا سربراہ 18 سے 20 لاکھ روپے تنخواہ لے کر اپنے ہی ادارے کے چپراسی (18 سے 22 ہزار روپے) تنخواہ لینے والے کے جیسا ہی اشیائے خوردونوش خرید رہا ہے، اس کے لئے بھی جہاز کا ایک شہر سے دوسرے شہر کا ٹکٹ 22 سے 24 ہزار کا ہے اور چپراسی اور مالی کے لئے بھی، غریبوں کے لئے 2 کمرے کا مکان بنانا مشکل ہے جبکہ سرکاری مسٹنڈوں کے لئے بڑے رہائشی یونٹس جس میں یوٹیلیٹی سہولیات مفت فراہم کی جاتی ہیں۔
عمران خان یقیناً اپنی تقاریر میں کئے گئے وعدوں کو پورا کریں گے، وزیراعظم کا منصب سنبھالتے ہی اپنی تنخواہ اور مراعات 70 فیصد کم کرنے کا اعلان کردیں تاکہ دوسرے اداروں کے سربراہان کو 18، 20 اور 30 لاکھ لیتے ہوئے شرم آئے، پاکستان کا معاشی دیوالیہ پن شاہانہ ٹھاٹ باٹ ترک کرکے ختم کیا جاسکتا ہے۔
انتخابی نتائج نہ ماننے والوں سے گزارش ہے کہ صبر کریں، جس نے ابھی کسی کے لئے میدان آسان کیا ہے ہوسکتا ہے اگلے انتخابات میں وہ آپ کے لئے بھی ایسا ہی کردے، سیاست صبر کا کام ہے، پانچ سال تیزی سے گزر جائیں گے پتہ ہی نہیں چلے گا کہ اگلے انتخابات کا وقت آجائے گا۔