Wednesday, July 23, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

نئی جنگ کا طبل

مشتاق سرور
پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کے خلاف جنگ اپنے انجام کی طرف بڑھ رہی ہے۔ اس سلسلے میں پاک فوج اپنے بیشتر اہداف مکمل کرچکی ہے، لیکن بہت سا کام ابھی باقی ہے۔ مذہب کے نام پر شروع کی جانے والی دہشت گردی دم توڑ چکی ہے تو دشمن نسلی ولسانی تعصب کی جنگ پر اْتر آیا ہے، اس مقصد کے لئے اس نے باقاعدہ ففتھ جنریشن وار کا آغاز کردیا ہے جو سوشل میڈیا پر اظہار رائے کے ذریعے لڑی جارہی ہے۔ اس سے قبل ففتھ جنریشن وار کا یہ کھیل ملا فضل اللہ، منگل باغ اور بیت اللہ کے ایف ایم ریڈیو کی صورت میں کھیلا گیا اور مذہب کی آڑ میں لوگوں کی منفی ذہن سازی کی گئی۔ ان ریڈیو چینلز کے ذریعے لوگوں کو اسلام کے نام پر خود اپنی ہی ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھانے کی ترغیب دی جاتی تھی۔ شمالی علاقوں کے ہزاروں لوگ اس جھانسے میں آئے اور ایک خونریز جنگ کا آغاز کردیا جس میں بہت سے پاکستانی شہید ہوئے۔ پاک فوج نے اسی علاقے کے غیور پشتونوں کے ساتھ مل کر دشمن کے اس منصوبے کو ناکام بنایا تاہم اس جنگ کے اثرات ابھی باقی ہیں۔ جنگ زدہ علاقوں میں اب بھی پاک فوج موجود ہے اور جنگ سے متاثرہ لوگوں کی بحالی کا کام کررہی ہے۔ یہ دشمن کا وہ منصوبہ تھا جو بْری طرح ناکام ہوگیا جس کے بعد منفی پروپیگنڈے کے لئے مختلف مقامی ایف ایم ریڈیو چینلز بنائے گئے ہیں جبکہ عالمی سطح پر اس پروپیگنڈے کو ہوا دینے کے لئے معروف نشریاتی اداروں کو یہ کام سونپا گیا ہے مگر اس بار اسلام کے بجائے قوم پرستی اور عصبیت کے نام پر اس جنگ کا آغاز کیا گیا ہے جس کے لئے منظور پشتین جیسے کرداروں کو تراشا گیا ہے۔
کچھ عرصہ قبل کراچی میں ایک نوجوان نقیب اللہ محسود کو مبینہ طور پر ایک پولیس مقابلے میں ہلاک کیا گیا تھا جسے جواز بنا کر ملک دشمن عناصر نے پشتونوں کو اپنی ہی ریاست کے خلاف اکسانے کی کوشش کی اور یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی کہ ریاست پشتونوں کے ساتھ زیادتی کررہی ہے۔ اس معاملے میں بھی پاک فوج کے خلاف زہریلا پروپیگنڈا شروع کردیا گیا حالانکہ نقب اللہ محسود خود فوج سے بے پناہ محبت کرتا تھا اور اپنے بیٹے کو بھی فوج میں بھرتی کرانے کا خواہش مند تھا۔ ریاست پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کے لئے امریکا اور بھارت کا کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں جبکہ افغانستان حسب معمول جنگجو تیار کررہا ہے۔ اس طرح ڈیورنڈ لائن کو غیرمحفوظ بنانے کے لئے سرحد کے اس پار افغانستان جنگجوؤں کی عسکری تربیت کی جارہی ہے تو سرحد کے اس پار پاکستان کے شمالی علاقوں کے لوگوں کو قوم پرستی اور عصبیت کے نام پر پاک فوج اور ریاست کے خلاف اْکسایا جارہا ہے۔ نفرت کی جس فصل کے بیج بوئے گئے ہیں ان سے کونپلیں پھوٹ پڑی ہیں، اب دشمن فصل پکنے کا انتظار کررہا ہے۔ آپریشن ضرب عضب اور آپریشن ردالفساد کے ذریعے معصوم پشتونوں کو دہشت گردوں کے چنگل سے چھڑانے والی پاک فوج کے خلاف سوشل میڈیا پر زہر اْگلنے کا سلسلہ شروع کردیا گیا ہے جس میں پاک فوج کو ظالم بنا کر پیش کیا جارہا ہے۔ اس سلسلے میں یہ احمقانہ سوالات اٹھائے جارہے ہیں کہ پاک فوج نے جنگ زدہ علاقوں میں چیک پوسٹیں کیوں بنائی ہیں۔ ان چیک پوسٹوں پر لوگوں کی تلاشی کیوں لی جاتی ہے۔ شورش زدہ علاقوں میں کرفیو کیوں لگایا جاتا ہے، ان علاقوں میں پاک فوج گشت کیوں کرتی ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ بی ایل اے کی طرح افغانستان میں چْھپے تحریک طالبان پاکستان کے دہشت گردوں کو بھی لاپتہ افراد ظاہر کرکے پاکستان کی سلامتی کے ضامن خفیہ اداروں اور فوج کے خلاف نفرت ابھارنے کی بھرپور کوشش کی جارہی ہے۔
اسی طرح کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی طرف سے بچھائی گئی بارودی سرنگوں کو پاک فوج سے منسوب کیا جارہا ہے کہ یہ سرنگیں پاک فوج نے بچھائی ہیں، حالانکہ پاک فوج خود ان سرنگوں سے بھاری جانی نقصان اٹھا چکی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف برسرپیکار پاکستان کے لئے یہ خبر خوش آئند ہے کہ 13 جون کو کنٹر، افغانستان میں ہونے والے امریکی ڈرون حملے میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کا سربراہ ملافضل اللہ ہلاک ہوچکا ہے۔ یاد رہے کہ ماضی میں بھی ملا فضل اللہ کی ہلاکت کی خبریں سامنے آتی رہی ہیں تاہم بعدازاں ان کی تردید کردی گئی تھی۔ ملافضل اللہ امریکی ڈرون سے چلائے جانے والے میزائلوں سے نشانہ بننے والے طالبان کے پہلے سربراہ نہیں۔ 2007ء میں قائم کی جانے والی اس دہشت گرد تنظیم کے بانی رہنما بیت اللہ محسود اور ان کے جانشیں حکیم اللہ محسود جیسے کئی اہم ترین رہنماؤں کی ہلاکت امریکی ڈرون حملوں میں ہوئی۔ یہاں اس امر کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ یہ ڈرون حملہ ایک ایسے وقت پر ہوا جب افغانستان میں حکومت نے عید کے موقع پر عارضی جنگ بندی کا اعلان کر رکھا تھا جسے طالبان نے بھی قبول کیا تھا۔ اس واقعے کے کچھ گھنٹوں بعد سرحد پار سے پاکستان چیک پوسٹوں پر حملے کئے گئے جنہیں ناکام بنا دیا گیا، ان حملوں کے دوران پاک فوج کے تین جوان شہید اور پانچ دہشت گرد جہنم واصل ہوگئے۔ ڈرون حملے میں مارے جانے والے ملافضل اللہ کا شمار پاکستان کو انتہائی مطلوب دہشت گردوں میں ہوتا تھا جس نے پس منظر میں رہتے ہوئے پاکستان میں دہشت گردی کے انتہائی سنگین واقعات میں مرکزی کردار ادا کیا۔ پاکستان نے افغانستان میں اس کی موجودگی، مقام کی نشاندہی اور حکومتی سطح پر اس کو حاصل تحفظ کے شواہد متعدد بار پیش کئے اور افغان حکام سے اس کے خلاف کارروائی اور حوالگی کا مطالبہ کیا اور اس سلسلے میں امریکی حکام سے بھی رابطے کئے لیکن ان کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا تھا تاہم رواں سال امریکا نے ملافضل اللہ کی اطلاع دینے پر 50 لاکھ ڈالر کا انعام کا اعلان کیا تھا۔
یاد رہے کہ گزشتہ ماہ جون میں پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے افغانستان کا دورہ کیا تھا جہاں انہوں نے افغانستان قیادت کے ساتھ ساتھ افغانستان میں امریکی فوج کے نمائندہ جنرل نکلسن سے بھی ملاقات کی تھی، یہاں یہ یاد رکھنا بھی ضروری ہے کہ حال ہی میں امریکی حکام نے افغانستان میں طالبان اور حکومت کے مابین امن مذاکرات کے لئے پاکستان سے مدد کی اپیل کی تھی۔ اس موقع پر ملا فضل اللہ کی ہلاکت پاکستان اور امریکا کے درمیان ہم آہنگی کا اظہار ہے۔ امریکا نے ملا فضل اللہ کو ہلاک کرکے پاکستان کا ایک بڑا مطالبہ تسلیم کیا ہے تاہم دیکھنا یہ ہے کہ جوابی طور پر پاکستان سے کیا مطالبہ کیا جائے گا۔ مئی 2009ء میں پاک فوج نے سوات میں فیصلہ کن کارروائی کا آغاز کیا تو فضل اللہ کے حامی عسکریت پسندوں کو علاقے سے نکال دیا گیا۔ اسی کارروائی کے دوران فضل اللہ اچانک غائب ہوگیا اور افغانستان کے علاقوں کنٹر اور نورستان میں محفوظ ٹھکانے بنا لئے اور وہیں سے پاکستانی علاقوں میں شدت پسندوں کی کارروائیوں کی منصوبہ بندی کرتا رہا۔ اس کی بڑی کارروائیوں میں پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر حملہ بھی شامل ہے جس میں 148 افراد شہید ہوئے جن میں بیشتر اسکول کے طلباء تھے۔
ملا فضل اللہ کی ہلاکت دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابی کا ایک اہم قدم ہے مگر یہ جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی۔ ٹی ٹی پی کے ایک سربراہ کی ہلاکت کے بعد کوئی دوسرا سربراہ آجائے گا اور دہشت گرد تنظیم کی قیادت سنبھال لے گا۔ لہٰذا یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک عالمی طاقتیں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنے دہرے معیار کو ختم نہیں کریں گی۔ دہشت گردوں کے خلاف بظاہر برسرپیکار عالمی قوتیں جب تک دہشت گردوں کی پشت پناہی کرتی رہیں گی اور اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لئے مختلف ریاستوں میں دہشت گردوں کی نرسریاں اگاتی رہیں گی تب تک کسی نہ کسی شکل میں دہشت گردی کا سلسلہ دنیا کے کسی نہ کسی کونے میں جاری رہے گا۔ پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کے لئے قوم پرستی کے نام پر پروپیگنڈا وار کا جو نیا سلسلہ شروع کیا گیا ہے وہ اسی دہرے معیار کا شاخسانہ ہے جس کی لپیٹ میں دنیا کی کئی ریاستیں ہیں۔ منفی پروپیگنڈے سے جن لوگوں کو ورغلا کر لسانی تعصب پر مبنی جس نئی جنگ کا طبل بجایا گیا ہے اس کی آواز بازگشت ثابت ہوگی اور یہ گڑھا کھودنے والے خود ہی اس میں گریں گے مگر اس کے لئے ضروری ہے کہ اس مرتبہ سوشل میڈیا کے جس میدان کو محاذ بنایا گیا ہے قوم خصوصی طور پر نوجوان طبقہ اسے محاذ ہی سمجھے اور منفی پروپیگنڈے کا جواب زمینی حقائق کی روشنی کے ہتھیاروں سے دے۔ اس سلسلے میں عوام اور قومی اداروں پر یکساں طور پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس محاذ پر اپنی موجودگی کا اظہار کریں اور قوم پرستی کے خلاف اس جنگ کو بھی اسی طرح ناکام بنائیں جس طرح اس سے قبل مذہب کے نام پر شروع کی جانے والی جنگ کو ناکام بنایا تھا۔
مطلقہ خبریں