Monday, June 9, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

میانمار (برما) کے مظلوم مسلمان

قادر خان یوسف زئی
جب لہو بہتا رہا اقوام متحدہ اور عالمی میڈیا کے نمائندوں کی متاثرہ علاقوں کے دورے کے بعد دل دہلا دینے والی رپورٹ
گزشتہ دنوں برما میں مسلمانوں کی نسل کشی سے متعلق اقوام متحدہ کی رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ کئی مسلمانوں کو قبروں میں زندہ دفن کیا گیا۔ قتل عام میں سیکورٹی ادارے بھی شامل رہے۔ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی تنظیم کے مطابق کئی علاقوں سے اجتماعی قبریں ملی ہیں جن میں دفن افراد کے ہاتھ اور پیر بندھے ہوئے ملے۔ رپورٹ کے مطابق ان قبروں سے 28 بچوں کی لاشیں بھی ملی ہیں۔ عینی شاہدین کے مطابق بدھ مت کے پیروکاروں نے مسلمانوں کے اکثریتی علاقوں میں داخل ہو کر املاک کو نقصان پہنچایا اور لوگوں پر تشدد کیا۔ اس موقع پر سیکورٹی ادارے بھی اس قتل عام میں پوری مدد فراہم کرتے رہے۔ اقوام متحدہ کی جانب سے یہ رپورٹ عالمی استعماری طاقتوں کے لئے نوشتہ دیوار ہے کہ برما میں مسلمانوں کی نسل کشی پر انہوں نے آنکھیں بند کی ہوئی ہیں۔ حالیہ رپورٹ سے قبل اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے خصوصی نمائندہ برائے برما مس یہانگ ہیلی نے پہلی بار 2012ء کے بعد برما میں روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ حکومتی جبر، بدھوں کے مسلح حملے، حکومت کا جانبدارانہ مسلم دشمن رویہ، مسلمانوں کو غیرقانونی حراست میں رکھنے اور سنگین انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر ایک جامع اور مستند رپورٹ تیار کی تھی جس کی بنیاد پر برما کے روہنگیا مسلمانوں کو دُنیا کی مظلوم ترین اقلیت قرار دیا گیا تھا اور پہلی بار دُنیا پر آشکار ہوا کہ برما میں نسلی اور مذہبی بنیاد پر روہنگیا اقلیتی مسلمان کس قدر امتیازی سلوک کا سامنا کررہے ہیں۔
روہنگیا برما/میانمار کے علاقہ اراکان اور بنگلہ دیش کے علاقے چاٹگام، چٹاگانگ میں رہائش پذیر مسلمانوں کا نام ہے۔ روہنگیائی مسلمانوں پر بدھا پرستوں کی جانب سے انتہائی ظلم و ستم کے بعد بڑی تعداد میں مسلمان تھائی لینڈ ہجرت کر گئے۔ جس پر 28 مارچ 2008ء کو تھائی وزیراعظم سماک سندا رواج نے کہا کہ تھائی بحریہ کوئی ویران جزیرہ ڈھونڈ رہی ہے تاکہ روہنگیا مسلمانوں کو وہاں رکھا جاسکے۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ روہنگیا کے مسلمانوں پر ظلم و ستم کی تاریخ رقم کرنے والے وہ لوگ ہیں جو مہاتما بدھ کو دُنیا میں امن کا سب سے بڑا پیامبر اور عدم تشدد فلسفے کا داعی سمجھتے ہیں۔ مہاتما بدھ کے پیروکاروں کی تعداد قریباً 35 کروڑ ہے جو زیادہ تر ایشیائی ممالک میں آباد ہیں۔ ان ممالک میں جاپان، جنوبی کوریا، لاؤس، منگولیا، سنگاپور، تائیوان، تھائی لینڈ، کمبوڈیا، بھوٹان اور میانمار شامل ہیں۔ جنوب مشرقی ایشیائی ملک میانمار، جسے برما کے پرانے نام سے بھی جانا جاتا ہے، 1937ء تک برصغیر کا ہی حصہ سمجھا جاتا تھا، پھر برطانیہ نے 1837ء میں اسے برصغیر سے الگ کرکے ایک علیحدہ کالونی کا درجہ دے دیا اور 1948ء تک یہ علاقہ بھی برطانوی تسلط کے زیراثر رہا۔ میانمار کی قریباً 5 کروڑ 60 لاکھ کی آبادی میں 89 فیصد بودھ، 4 فیصد مسلمان (تقریباً ساڑھے 22 لاکھ)، 4 فیصد عیسائی، ایک فیصد ہندو اور 2 فیصد دوسری قومیں آباد ہیں۔ یہاں پر اسلام کی آمد کے آثار 1050ء سے ملتے ہیں، جب اسلام کے ابتدائی سالوں میں ہی عرب مسلمان تجارت کی غرض سے برما آئے اور پھر یہیں کے ہو کر رہ گئے۔ سات صوبوں کے اس ملک میں مسلمانوں کی اکثریت راکھین (رخائن) میں آباد ہے اور یہاں تقریباً 8 لاکھ کے قریب مسلمان بستے ہیں جنہیں روہنگیا کہا جاتا ہے۔
اقوام متحدہ نے اپنی ایک رپورٹ میں راکھین کے روہنگیا مسلمانوں کو ’’روئے عالم کی مظلوم ترین اقلیت‘‘ قرار دے رکھا ہے۔ میانمار کو دنیا کا واحد ملک قرار دیا جاتا ہے جو محض مذہبی عناد کی وجہ سے اپنے ملک کے شہریوں کو حقوق دینے کے بجائے ان کی نسل کشی اور قتل و غارت میں ملوث ہے۔ برمی بودھوؤں کا خیال ہے کہ چونکہ مسلمان یہاں غیرقانونی طور پر ہجرت کرکے آئے اس وجہ سے انہیں خود کو ملک کا شہری کہنے کا کوئی حق حاصل نہیں، اس لئے عدم تشدد کے پیروکار کہلانے والوں نے تشدد کی وہ تاریخ رقم کی جس پر پوری دنیا ورطۂ حیرت میں ہے کہ مہاتما بدھ کے پیروکاروں میں اتنی سفاکیت کہاں سے آگئی کہ معصوم بچے بھی ان کے اجتماعی قتل سے محفوظ نہیں رہ سکے۔ روہنگیا مسلمانوں کی بڑی تعداد بنگلہ دیش میں پناہ لینے پر مجبور ہوئی اور پاکستان کے ساتھ سعودی عرب وہ ممالک ہیں جنہوں نے روہنگیا کے مسلمانوں کی بحالی میں اہم کردار ادا کیا، پاکستان نے انہیں شہریت دی اور بنگلہ دیش اور بھارت سے آنے والوں کو پاکستان میں آباد کیا۔ ’’اراکان اسٹوریکل سوسائٹی‘‘ کے اعدادوشمار یہ بتاتے ہیں کہ اس وقت بھی 2لاکھ سے زائد برمی مسلمان کراچی میں آباد ہیں جبکہ سعودی عرب نے بھی 3 لاکھ کے قریب روہنگیا مسلمانوں کو ورک پرمٹ جاری کرکے ان کی غیرقانونی ہجرت کو قانونی بنایا اور انہیں اپنے ملک میں رہنے کے لئے ملازمت کے ساتھ رہائش بھی مہیا کی۔
مسلمانوں کے ساتھ برما کا رویہ نیا نہیں ہے بلکہ برما کی تاریخ اٹھا کر دیکھی جائے تو ہمیں روہنگیا مسلمانوں پر ظلم و ستم اور مذہبی تعصب کی بے شمار مثالیں ملیں گی۔ 1559ء میں مذہبی عقائد کی آڑ میں جانور ذبح کرنے پر پابندی، 1752ء میں بھی جانوروں کے ذبح پر پابندی، 1782ء میں تو بادشاہ ’’بودھاپایہ‘‘ نے مسلمان علمائے کرام کو سور کا گوشت کھانے پر مجبور کیا اور انکار پر ان سب کو قتل کرایا۔ 1938ء میں برمی بودھ برطانوی فوجوں کے خلاف جنگ آزادی میں گولیوں سے بچنے کے لئے مسلمانوں کو بطور ڈھال استعمال کرتے تھے۔ برطانیہ سے آزادی کے بعد مسلمانوں کا پہلا قتل عام 1962ء کیا گیا، جب فوجی حکومت نے مسلمانوں کو باغی قرار دے کر ان کے خلاف آپریشن کا آغاز کیا۔ 1982ء تک اس آپریشن میں کم و بیش ایک لاکھ مسلمان شہید ہوئے اور لاکھوں مسلمان اس دور میں بنگلہ دیش، بھارت اور پاکستان کی طرف ہجرت کر گئے۔ برما کی فوجی حکومت نے 1982ء کے سیٹزن شپ قانون کے تحت روہنگیا نسل کے 8 لاکھ افراد اور برما میں موجود دوسرے 10 لاکھ چینی و بنگالی مسلمانوں کو شہری ماننے سے انکار کردیا اور ان مسلمانوں کو اپنے علاقوں سے باہر جانے کی اجازت دینے سے بھی انکار کردیا۔ مسلمانوں کو ہجرت کرنے کے لئے بھی مشکلات کا سامنا رہا اور ابھی تک ہزاروں مسلمان ایسے ہیں جنہیں سمندر سے زمین پر اترنے کی اجازت نہیں ہے۔ روہنگیائی مسلمانوں کو انسانی اسمگلروں نے بھی اپنے مقاصد کے لئے خوب استعمال کیا۔ جہاں انہیں بدھ تشدد پسندوں سے بچنے کے لئے ہجرت کرنے والے مسلمانوں سے بھاری رقوم وصول کیں وہیں یہ حکومت کو مخبریاں بھی کر دیتے جس کی وجہ سے ہزاروں روہنگیائی مسلمان انسانی اسمگلروں کے ہاتھوں بھی شہید ہوئے۔ 16 مارچ 1997ء کو دن دیہاڑے بے لگام بودھ راکھین صوبے کے شہر ’’مندالے‘‘ کے مسلم اکثریتی علاقوں میں داخل ہو کر گھروں، مسجدوں اور مذہبی کتابوں کو نذرآتش کردیا گیا، دکانوں کو لوٹ لیا گیا اور مسلمانوں کو ہجرت پر مجبور کردیا گیا، جس کے بعد مسلمانوں نے دوسرے شہروں میں پناہ لی۔ 15 مئی سے 12 جولائی 2001ء تک بددھوؤں نے ایک مسجد پر حملہ کرکے عبادت میں مصروف نمازیوں کو قتل کردیا اور اس فساد کے نتیجے میں 11 مساجد شہید، 400 سے زائد گھروں کو نذرآتش اور کم و بیش 200 مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔
1962ء سے میانمار فوجی حکومت کے زیراثر تھا۔ 2010ء میں الیکشن ہوئے جس کے نتیجے میں طویل آمریت ختم ہوئی۔ روہنگیا مسلمانوں نے اپنے حقوق کے لئے آواز بلند کی لیکن نام نہاد جمہوری حکومت نے بھی ان کی آواز کو دبا دیا۔ مسلم کش فسادات کا ایک اور واقعہ اس وقت ہوا جب 2012ء کو ایک بودھ لڑکی نے اسلام قبول کرلیا جس پر بودھ مشتعل ہوئے اور لڑکی کو گھر بدر کردیا، لڑکی نے مسلم آبادی میں پناہ لے لی۔ چند دن بعد اس لڑکی کی لاش ملی جسے زیادتی کے بعد قتل کیا گیا تھا۔ مسلمانوں نے الزام لگایا کہ بودھوؤں نے اپنی خفت مٹانے کے لئے اسے قتل کیا ہے جبکہ بودھوؤں نے تین مسلمان نوجوانوں کو اس قتل کا ذمہ دار قرار دے دیا۔ 3 جون 2012ء کو بودھ بھکشوؤں نے زائرین کی ایک بس روکی اور اس میں سے عمرہ کی ادائیگی کرکے واپس آنے والے 10 مسلمان علمائے کرام کو باہر نکال کر موت کے گھاٹ اتار دیا اور بس جلا دی۔ اگست 2012ء میں برطانوی ٹی وی چینل ’’چینل فور‘‘ نے ایک دستاویزی رپورٹ نشر کی جس میں دکھایا گیا کہ مسلمان کس طرح کیمپوں میں جانوروں والی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ اس کے علاوہ رپورٹ میں قریباً 10 ہزار مکانات کا ملبہ بھی دکھایا گیا جس کے بعد اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین نے اپنی رپورٹ جاری کی جس کے مطابق تشدد کی اس لہر میں کم از کم 80 ہزار مسلمان اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوگئے۔ اقوام متحدہ کی ایک اعلیٰ عہدیدار ’’نومی پلے‘‘ نے انتظامیہ کے سلوک و رویے کے حوالے سے بھی ایک رپورٹ دی کہ مقامی پولیس اور بدامنی پر قابو پانے کے لئے بھیجے جانے والی فوج بھی بے گناہ مسلمانوں کو ہی نشانہ بنا رہی ہے۔ پھر جولائی 2012ء میں برطانوی نشریاتی ادارے نے بنگلہ دیش کے کیمپوں میں مقیم روہنگیا مسلمانوں پر ایک رپورٹ شائع کی جس میں اکثر نے یہ دعویٰ کیا کہ ان کے عزیزوں اور رشتہ داروں کو میانمار کی فوج نے قتل کیا۔ اکتوبر 2012ء میں جب مسلم ممالک کی تنظیم او آئی سی نے مسلمانوں کی مدد کے لئے میانمار میں دفتر کھولنے کی اجازت طلب کی تو میانمار کے صدر نے نہ صرف اجازت دینے سے انکار کردیا بلکہ یہ بھی کہا کہ اس طرح کے دفاتر ’’لوگوں کی خواہشات‘‘ سے مطابقت نہیں رکھتے۔ ہیومن رائٹس واچ نے بارہا عالمی برادری کے سامنے بے شمار ٹھوس دستاویزی اور تصویری ثبوت پیش بھی کئے اور اس ضمن میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بانکی مون سے بھی اپیل کی کہ وہ تشدد روکنے میں اپنا کردار ادا کریں لیکن ساری کوششیں بے سود رہیں۔ اس سے قبل اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے جولائی 2009ء میں میانمار (برما) کا تاریخی دورہ کیا تھا۔ دورے کے دوران انہوں نے فوجی سربراہ جنرل تھان شوئے میدو سے ملاقات کی تھی لیکن انہیں اپنے مقاصد میں ناکامی ہوئی اور اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل اپنے اہداف کے حصول میں ناکام رہے تھے جس کا اعتراف بانکی مون کر چکے تھے۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل فوجی حکومت کے سربراہ جنرل تھان شوئے سے ملاقات کے دوران مقید خاتون اپوزیشن لیڈر سے ملاقات کرنا چاہتے تھے لیکن جنرل تھان شوئے نے ملاقات کو ممکن نہیں بنایا۔
دوسری جانب میانمار کی عالمی شہرت یافتہ رہنما ’’آنگ سان سوچی‘‘ نے مسلمانوں کو ’’صبر‘‘ کی تلقین کرتے ہوئے یہاں تک کہا کہ ’’رہنما کو مسائل کی بنیاد دیکھے بغیر کسی خاص مقصد کے لئے کھڑے نہیں ہوجانا چاہئے۔‘‘ انسانی حقوق کی تمام تنظیموں نے اس پر سوچی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ انہیں اس قسم کے ردعمل پر سخت مایوسی ہوئی ہے۔ تاہم میانمار نے 25 برس بعد پہلی مرتبہ عام انتخابات کا انعقاد کیا تھا جس میں امن کی نوبل انعام یافتہ آنگ سان سوچی کی نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی نے واضح کامیابی حاصل کی تھی۔ اگرچہ وہ آئینی اصولوں کے مطابق ملک کی صدر نہیں بن سکتیں اس کے باوجود آنگ سان سوچی کو بطور اسٹیٹ کونسلر ملک کا حکمران ہی تصور کیا جاتا ہے۔ لیکن ان کی حکومت کو رخائن ریاست کی خراب صورتِ حال کے باعث عالمی سطح پر سخت تنقید کا سامنا ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل، ہیومن رائٹس واچ اور اقوام متحدہ سمیت کئی عالمی اداروں نے حکومت سے غیرجانبدارانہ تحقیقات کا بارہا مطالبہ کیا ہے مگر ہمیشہ ٹال مٹول سے کام لیا جاتا رہا۔ ان عالمی اداروں کی کاوشوں سے فسادات کی تحقیقات کے لئے 2012ء میں مسلمانوں، بودھ، عالمی اور مقامی لوگوں پر مشتمل ایک کمیشن بھی تشکیل دیا گیا مگر عین وقت پر میانمار کی حکومت نے اقوام متحدہ کی قیادت میں کمیشن کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔
گزشتہ دنوں اقوام متحدہ اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کی ایک ٹیم نے میانمار کا دورہ کیا۔ دورے کے دوران انکشافات سامنے آئے کہ روہنگیا مسلمانوں کی طرف سے میانمار حکومت پر جو الزامات لگائے جاتے تھے وہ درست تھے۔ دورے کے دوران اجتماعی قبروں اور معصوم بچوں کے قتل عام کا بھی انکشاف ہوا۔ میانمار میں گزشتہ سال فوجی آپریشن میں روہنگیا مسلمانوں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا گیا۔ یہ آپریشن میانمار حکومت کے 9 سرحدی محافظوں کے قتل کے بعد شروع کیا گیا۔ اس حملے کی ذمہ داری حرکۃ القین نامی ایک تنظیم نے قبول کی تھی۔ میانمار حکومت نے روہنگیا مسلمانوں کے خلاف آپریشن شروع کیا۔ جس میں جو لوگ اپنی جان بچانے کے لئے بھی بھاگتے تو انہیں گولیاں مار کر ہلاک کردیا جاتا۔ میانمار کی حکومت نے تسلیم کیا تھا کہ اس کی فوج نے ریاست رخائن میں ان دیہات پر گن شپ ہیلی کاپٹروں سے فائرنگ کی جہاں روہنگیا مسلم اقلیت آباد ہیں جبکہ اطلاعات کے مطابق دیہاتوں کو جلانے کے واقعات ہوئے۔ میانمار حکومت کی جانب سے روہنگیا مسلمانوں کے خلاف کریک ڈاؤن پر بڑی تعداد میں روہنگیا مسلمانوں نے بنگلہ دیش کا دوبارہ رخ کیا لیکن بنگلہ دیشی حکومت نے مہاجرین کی نئی لہر کو روکنے کے لئے چار اضافی پلاٹونز کو تعینات کردیا اور مہاجرین کی بنگلہ دیش میں داخلے کی بھی کوششوں کو ناکام بنا دیا۔ برما میں مردم شماری کے دوران روہنگیا مسلمانوں کا اندراج بھی نہیں کیا گیا۔ حالانکہ اقوام متحدہ نے اس بنیاد پر تعاون فراہم کیا تھا کہ تین دہائیوں بعد ہونے والی مردم شماری میں برما کے تمام باشندوں کو اپنی نسلی شناخت کے انتخاب کی آزادی ہونی چاہئے، لیکن برما کی حکومت نے روہنگیا مسلمانوں پر پابندی عائد کی، وہ خود کو بنگالی مسلمان کے طور پر اندراج کرائیں ورنہ ان کی رجسٹریشن نہیں کی جائے گی جبکہ روہنگیا مسلمانوں کو ماننا ہے کہ انہیں تارکین وطن کے حیثیت سے نہ دیکھا جائے بلکہ میانمار (برما) کا حصہ ہیں۔ انہیں شہریت لینے سے روکنے کے لئے حکومت ان پر ظلم و ستم کرتی ہے۔ حکومت کے ترجمان کا کہنا ہے کہ جو کوئی بھی اگر اپنے آپ کو روہنگیا کہے گا اس کا اندراج نہیں کیا جائے گا۔ روہنگیا مسلمانوں کی حالت زار اور ان پر ہونے والے ظلم کو اقوام متحدہ کی جانب سے اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے بعد صرف زبانی جمع خرچ کیا جائے گا تو ایک بڑا انسانی المیہ جنم لے گا، کیونکہ جو تکالیف روہنگیا کے مسلمان مہاجرین کو درپیش ہیں وہ عالمی برادری سے سنجیدگی کا متقاضی ہے، کیونکہ مہاجرین کے طور پر بنگلہ دیش جہاں انہیں پناہ دینے کو تیار نہیں تو دیگر ایشیائی ممالک بھی ایسے مہاجرین کو قبول نہیں کررہے جن کی کوئی شناخت نہیں ہے۔ روئے زمین پر مظلوم ترین اقلیت قرار پانے کے باوجود بھی روہنگیا مسلمان اپنے گھروں سے بے گھر اور سمندری کشتیوں میں موت سے لڑتے ہوئے انصاف کے منتظر ہیں۔ اقوام متحدہ یا کسی مسلم ملک کی جانب سے ان کی امداد کے لئے جامع پالیسی بھی موجود نہیں ہے۔ لاکھوں روہنگیا مسلمان اپنی شناخت اور اپنے وجود کو محفوظ رکھنے کے لئے امداد کے منتظر ہیں۔ میانمار حکومت کی ہٹ دھرمی ہے کہ آٹھ لاکھ کے قریب روہنگیا مسلمانوں کو شہریت دینے سے انکار کرتی ہے۔ اقوام متحدہ اور عالمی ذرائع ابلاغ کو میانمار حکومت کی جانب داری اور بے گناہ مسلمانوں پر ظلم و ستم کے ٹھوس شواہد آنے کے بعد سخت اقدام اٹھانے کی ضرورت ہے۔ لاکھوں روہنگیا مسلمان، مسلم ممالک کی جانب بھی دیکھ رہے ہیں کہ وہ اسلام کے نام لیواؤں کے لئے میانمار حکومت پر کس قدر دباؤ بڑھاتے ہیں۔ مسلم ممالک پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ روہنگیا مسلمانوں کی مدد کریں اور جہاں دنیا بھر میں تسلیم کیا جاتا ہے کہ میانمار کی حکومت روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کررہی ہے تو اس کے بعد عالمی برادری کو بھی میانمار کی حکومت کے خلاف وہی رویہ اختیار کرنا چاہئے جس طرح عراق، شام، افغانستان کے لئے اقدام اٹھایا گیا۔ حالانکہ امریکہ نے بھی میانمار میں حکومتی مظالم کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے جبکہ ہیومن رائٹس واچ نے کہا ہے کہ روہنگیا مسلمانوں کے گھروں کو جلانے میں میانمار کی حکومت اور فوج ملوث ہے۔ پریس ٹی وی کے مطابق ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ سیٹلائٹ سے موصول تصاویر اور عینی شاہدین کے بیانات کی روشنی میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ صوبہ رخائن میں کم سے کم 1500 گھروں کو منہدم کیا جا چکا ہے۔ عالمی ادارے کے مطابق یہ بات کسی طور پر بھی قابل قبول نہیں ہے کہ مسلح افراد نے مسلمانوں کے 300 گھروں کو ایک ماہ کے عرصے میں جلا کر راکھ کردیا اور فوج محض تماشا دیکھتی رہی۔ مسلم ممالک اور اقوام متحدہ کو بھی اب تماشا نہیں دیکھنا چاہئے بلکہ روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کے خلاف عملی قدم اٹھانا چاہئے۔

مطلقہ خبریں