یحییٰ مجاہد
مقبوضہ کشمیر میں پی ڈی پی اور بی جے پی کا منافقانہ دور حکومت ختم ہونے اور گورنر راج نافذ کئے جانے کے بعد سے ریاستی دہشت گردی کا سلسلہ پہلے سے زیادہ تیز ہو گیا ہے۔ رمضان المبارک میں بھارتی وزارت داخلہ نے دنیا بھر میں ا س امر کا ڈھنڈورا پیٹا کہ ماہ مقدس میں کشمیریوں کی سہولت کو مدنظر رکھتے ہوئے جنگ بندی کی جارہی ہے تاکہ کشمیری مسلمان آسانی سے روزے رکھ سکیں اور بھارتی فورسز کے جاری فوجی آپریشن کے سبب انہیں کسی قسم کی پریشانی نہ ہو لیکن یہ سب ڈھونگ اور فراڈ تھا۔ بھارتی فوج نے دنیا کو دھوکہ دینے کے لئے یہ ڈرامہ رچایا تاہم کشمیر میں ظلم و دہشت گردی کا بازار یونہی گرم رہا۔ غاصب اہلکار جگہ جگہ نام نہاد سرچ آپریشن کے دوران کشمیریوں کے گھروں میں گھس کر توڑ پھوڑ اور وحشیانہ بربریت کے ذریعہ ان کا خون بہاتے رہے۔ بھارتی فوج کشمیریوں کی قتل و غارت گری کا ارتکاب خود کرتی رہی اور الزام کشمیریوں پر لگایا گیا کہ ان کی کارروائیوں کے سبب بھارتی وزارت داخلہ کشمیر میں جنگ بندی پر مجبور ہوئی ہے۔ عیدالفطر کے دن بھارت سرکار نے باضابطہ جنگ بندی ختم کرنے کا اعلان کیا اور نماز عید کے بعد بھی نہتے شہریوں کو نشانہ بنایا جاتا رہا۔ اسی طرح عید کے تین دنوں میں کئی کشمیریوں کو شہید کیا گیا اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ ایک دن قبل بھی پلوامہ میں ایک رہائشی مکان کو تباہ کرتے ہوئے پانچ کشمیریوں کو شہید کیا گیا جس پر ہزاروں کشمیریوں نے شدید احتجاج کیا اور اسلام، آزادی اور پاکستان کے حق میں نعرے لگائے جاتے رہے۔ کشمیر میں یہ روایت بن چکی ہے کہ شہداء کو بہت زیادہ عزت و احترام سے نوازا جاتا ہے اور کرفیو جیسی پابندیوں کے باوجود لوگ ہر قسم کی پابندیوں کو توڑتے ہوئے دیوانہ وار شہداء کے جنازوں میں شریک ہوتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ بھارتی فوج اس صورتِ حال سے سخت پریشان ہے اور بی جے پی سرکار سے اپیل کی گئی ہے کہ شہداء کی میتیں ان کے لواحقین کے حوالے نہ کی جائیں کیونکہ جب مقامی کشمیری شہداء کی تدفین کرتے ہیں، ان کی نماز جنازہ کا اہتمام کیا جاتا ہے تو اس وقت ماحول زبردست جذباتی نوعیت کا ہوتا ہے، کشمیری نوجوان یہ ایمان افروز ماحول دیکھ کر گھروں سے نکلتے ہیں اور کشمیری مجاہدین کی صفوں میں شامل ہوجاتے ہیں۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ برہان وانی کی شہادت کے بعد سے خاص طور پر کشمیر میں ایک لہر سی چل پڑی ہے۔ انتہائی پڑھے لکھے لوگ بھی تحریک آزادی کا حصہ بن رہے اور شہادتیں پیش کر رہے ہیں جس سے بھارت سرکار اور اس کی عسکری قیادت میں کھلبلی مچی ہوئی ہے۔ یہ وہ حالات ہیں جنہیں دیکھ کر بھارتی فوج چاہتی ہے کہ شہداء کی نماز جنازہ کے اجتماعات نہ ہوں اور خاموشی سے ان کی لاشوں کو دفنا دیا جائے۔ بھارتی فورسز نے اس مذموم منصوبہ بندی پر عمل کا آغاز بھی کردیا ہے لیکن انہیں یہ معلوم نہیں کہ تحریک آزادی جس نہج پر پہنچ چکی ہے اب اس پر قابو پانا ممکن نہیں ہے۔ جو لوگ میدانوں میں اپنا خون پیش کرسکتے ہیں وہ شہداء کی لاشوں کو بھارتی فوجی درندوں سے زبردستی چھین بھی سکتے ہیں اور ماضی میں ایسی کئی مثالیں بھی موجود ہیں جب بھارتی فوج نے شہداء کی میتیں ان کے لواحقین کے حوالے نہ کرنے جیسی مذموم حرکت کی کوشش کی تو اسے سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا اور بالآخر بھارتی فورسز اہلکار گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوئے۔ بھارتی آرمی چیف جنرل بپن راوت نے یہی جذبہ دیکھ کر کہا ہے کہ ہم کشمیریوں کی مزاحمت کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ بھارتی فوج جتنے کشمیریوں کو شہید کرتی ہے اس سے زیادہ کشمیری مجاہدین کے ساتھ مل جاتے ہیں۔ ان کے اس بیان کو مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی شکست قرار جارہا ہے اور یہ بات کسی طور غلط نہیں ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں گورنر راج کا نفاذ مودی سرکار اور اس کی انتہاپسند کابینہ کی منظم منصوبہ بندی کا حصہ ہے۔ بھارتی فوج اور عسکری ماہرین مضبوط تحریک آزادی دیکھ کر بوکھلاہٹ کا شکار ہیں او ر تحریک آزادی کچلنے کے لئے آخری حربہ کے طور پر مظالم کی ایک نئی داستان رقم کرنا چاہتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ شاید اس طرح وہ آنے والے دنوں میں کوئی کامیابی حاصل کرسکیں۔ اس کے لئے انہوں نے پی ڈی پی حکومت سے جان بوجھ کر علیحدگی اختیار کی اور گورنر این این ووہرا کو جو ان کے خاص آدمی ہیں گورنر راج نافذ کرنے کا اختیار دیا گیا تاکہ محبوبہ مفتی کی کٹھ پتلی حکومت بھی عوامی دباؤ پر کسی موقع پر کوئی مزاحمت نہ کرسکے اور بھارتی فوج کو نہتے کشمیریوں کی نسل کشی کا مکمل اختیار حاصل ہو۔ وہ جس پر چاہیں کالا قانون افسپا لگا کر جیل میں ڈال سکیں۔ جسے چاہیں کشمیری مجاہد قرار دے کر شہید کردیں اور کشمیریوں کی معیشت تباہ کرنے کے لئے ان کی املاک، فصلوں اور پھلوں کے باغات برباد کرتے رہیں کوئی ان کے راستہ میں رکاوٹ نہ بن سکے۔ کشمیری حریت قیادت پہلے ہی نظربند رہتی ہے اور ان کی سیاسی سرگرمیاں زبردستی ختم کردی گئی ہیں۔ یہ صورتِ حال دیکھ کر کشمیر کی صورتِ حال سے آگاہی رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ آنے والے دنوں میں کشمیریوں کی قتل و غارت گری میں تیزی آنے کا امکان ہے۔ بی جے پی لیڈروں کی انتہاپسندی دن بدن بڑھتی جارہی ہے۔ مقبوضہ جموں کی طرح وادی کشمیر میں بھی خوف و ہراس کا وہی ماحول پیدا کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ بھارتی آرمی چیف اور بی جے پی کے صدر امیت شاہ نے حال ہی میں کشمیر کے دورے کئے ہیں۔ جنرل بپن راوت نے بھارتی فوجی حکام سے ملاقات کی اور اہلکاروں کا حوصلہ بڑھانے کی کوشش کی تو امیت شاہ ہندو انتہاپسندوں کو شہ دیتے نظر آئے۔ اس لئے صاف طور پر کہا جاسکتا ہے کہ کشمیر کے حالات مزید سنگین ہوسکتے ہیں۔ حریت پسند قیادت کی طرح کشمیری قوم کے جذبے بھی سربلند ہیں اور وہ ہر قسم کے حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہیں۔ انہیں کوئی پرواہ نہیں کہ بھارتی فوج بلیک کیٹ کمانڈوز کو تعینات کر رہی اور فورسز اہلکاروں کو جدید ہتھیاروں سے لیس کیا جارہا ہے۔ وہ ہر لمحہ شہادتیں پیش کرنے کے لئے تیار ہیں اور اسے اپنے لئے بہت بڑی سعادت سمجھتے ہیں۔ وہ کلمہ طیبہ کی سربلندی کے لئے میدانوں میں اپنا خون پیش کر رہے ہیں اور یہ بات طے شدہ ہے کہ جس علاقہ میں بھی لاالہ الااللہ محمد رسول اللہ کی بنیاد پر قربانیاں و شہادتیں پیش کی جائیں وہ خطے پھر کبھی غلام نہیں رہ سکتے۔ کشمیری قوم تو مضبوط عزم لے کر میدان میں کھڑی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستانی حکمران بھی مظلوم کشمیریوں کی ہرممکن مددوحمایت کا فریضہ سرانجام دیں لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ یہاں ایسا نہیں کیا جارہا۔ مرد مجاہد پروفیسر حافظ محمد سعید نے سال 2017ء کو کشمیر کے نام کیا تو انہیں محض بھارتی دباؤ پر دس ماہ تک نظربند رکھا گیا۔ اسی طرح سال 2018ء بھی انہوں نے کشمیریوں کی تحریک آزادی کے نام کیا تو جماعۃ الدعوۃ اور فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کی ملک بھر میں جاری ریلیف سرگرمیوں میں رکاوٹیں کھڑی کی گئیں، حتیٰ کہ انہیں سیاسی سرگرمیوں سے بھی روکا جارہا ہے۔ یہ روش کسی طور درست نہیں ہے۔ جن لوگوں نے کشمیریوں کی مدد کا فریضہ سرانجام دینا ہے اگر بھارتی خوشنودی کے لئے آپ ان کے ساتھ یہ سلوک کریں گے تو ایسے اقدامات سے تحریک آزادی میں قربانیاں دینے والے کشمیریوں کے دلوں کو ٹھیس پہنچے گی اور گزشتہ چند برسوں سے یہی کچھ ہو رہا ہے۔ حکمرانوں کو چاہئے کہ وہ کشمیری اور پاکستانی قوم کے جذبات کا خیال رکھیں اور قطعی طور پر ایسی پالیسیاں ترتیب نہ دی جائیں جن سے کشمیریوں کے جذبات مجروح ہوں اور ملکی سلامتی و استحکام کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو۔