طارق احسان غوری
مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی فائلوں میں گزشتہ ساڑھے چھ عشروں سے پڑا ہے، اس کو دبا دیا گیا اور کشمیریوں پر ظلم کرنے کا لائسنس دے دیا گیا۔ اقوام عالم کے اس فورم نے مسلمانوں، خصوصاً کشمیریوں اور فلسطینوں کو ہٹ دھرمی اور لاپروائی سے جس آگ میں جھونک رکھا ہے، اس سے ایک طرف یہودوہنود کی مسلمانوں پر بالادستی قائم کردی گئی اور دوسری جانب سفاک اور بے رحم فوجوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا، جو آئے روز نہتے مسلمانوں پر تشدد کررہے ہیں۔ ان دونوں خطوں میں انسانوں کے بنیادی حقوق کی پامالی کھلے عام کی جاتی ہے، جن کی روک تھام کے لئے مذکورہ فورم تشکیل دیا گیا تھا۔ یہ ادارہ اپنی افادیت کھو چکا اور جن مقاصد کی خاطر اسے قائم کیا گیا تھا، ان سے ہٹ چکا ہے۔ دنیا بھر کے تمام دساتیر اور خود یو این کے چارٹر میں بلاامتیاز تمام شہریوں کی آزادی کی ضمانت دی گئی ہے، لیکن جمہوریت کے علمبرداروں سمیت پوری دنیا روزانہ قتل و غارت، بھارتی فورسز کی طرف سے چادر اور چار دیواری کی پامالی اور جعلی مقابلوں میں کشمیری نوجوانوں کے مارے جانے کی ویڈیوز دیکھ رہی ہے۔ کشمیریوں کا خون سب سے سستا سمجھا جارہا ہے۔ کئی دہائیوں سے بھارتی مظالم کے خلاف احتجاج ہورہا ہے، یو این کے کردار پر انگلیاں اٹھائی جارہی ہیں لیکن وحشی ہاتھ کو روکنے والا کوئی نہیں۔
عصرِ حاضر میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات اور حالات سے یہ حقیقت ابھر رہی ہے کہ امت مسلمہ کے خلاف صہیونی طاقتیں متحد ہوچکی ہیں جن میں مودی ان سے کندھا ملائے ہوئے ہے اور پاکستان کو انتہا پسند ملک ثابت کرنے کے لئے عالمی گریٹر گیم میں نمایاں کھلاڑی بننے کی کوشش کررہا ہے۔ ایک سفاک اور انتہاپسند بلکہ دہشت گرد تنظیم کا کارکن رہنے والا بھارتی وزیراعظم برما میں انتہاپسند بھکشوؤں کو اکسا کر مسلمانوں کا قتل عام کروا رہا ہے اور دوسری طرف کشمیر میں اپنے فوجیوں کو کشمیری مسلمانوں کی نسل کشی پر لگا رکھا ہے۔
جس ظلم اور بُرائی میں وہ خود ملوث ہے، اس کا ملبہ وہ پاکستان پر ڈال کر خود کو پوتر ثابت کررہا ہے۔ اس پر یو این، یورپی یونین اور انسانی حقوق کی تنظیمیں اور امن کے علمبردار ادارے خاموش ہیں۔ ستم ظریفی کی حد یہ ہے کہ برما میں جاری روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی امن کی نوبل انعام یافتہ آنگ سان سوچی کی قیادت میں ہورہی ہے۔ مسلمانوں سے امتیازی سلوک کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ شمالی کوریا کے ہائیڈروجن بم کے مسئلے پر یو این کی سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس نیویارک میں طلب کیا جاسکتا ہے لیکن جنوبی ایشیا میں مسلمانوں کی نسل کشی پر ایسا اقدام نہیں کیا جاسکتا۔
یو این میں مسئلہ کشمیر کو بھارت لے کر گیا تھا۔ اگر یہ کام پاکستان کی طرف سے کیا گیا ہوتا تو آج دنیا اس مسئلے کو بھول چکی ہوتی۔ دنیا کی مہذب تاریخ سے لے کر آج تک کے تمام منصفین اس بات پر متفق ہیں کہ کسی ایشو پر فوری کارروائی کرنا اس وقت لازمی ہوجاتی ہے، جب انسانی جانوں کے اتلاف کا خدشہ ہو۔ بھارت بھی اسی بنیاد پر یو این میں جا کر فریادی ہوا تھا، کیوں کہ وہاں جنگ جاری تھی۔ اقوام متحدہ نے اس مسئلے کے بعد کئی جھگڑوں کا فیصلہ کیا اور عالمی عدالت انصاف نے کئی فیصلے کیے، لیکن کشمیر کو جان بوجھ کر نظرانداز کیا۔ اس عالمی ادارے کے عناصر خمسہ میں سے سوائے چین کے کوئی بھی براہ راست متاثر نہیں ہورہا اور نہ ہی بظاہر اس میں کوئی دولت ایسی ہے جس پر امریکا کے منہ میں پانی بھر آئے اور وہ اس کی طرف توجہ دے۔ اقوام متحدہ میں مسئلہ کشمیر پیش ہونے کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگیں لڑی جاچکی ہیں اور کسی بڑی تباہی کے خطرات ڈیڑھ ارب انسانوں کے سروں پر منڈلارہے ہیں۔ کشمیر میں اقوام متحدہ کے فوجی مبصر بھی موجود ہیں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بھی جاری ہیں۔ اگر عراق اور افغانستان کو محض اس لئے راکھ کے ڈھیر بنا دیا گیا کہ ان سے امن عالم کو خطرہ تھا اور وہاں بنیادی انسانی حقوق کی پروا نہ کرنے والے حکمرانوں کی حکومتیں تھیں تو بھارت جمہوریت کے بھیس میں یہ سب کچھ کررہا ہے، یو این کے مستقل ارکان پر یہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ آگے بڑھیں اور اس عالمی ادارے کی قراردادوں پر عمل درآمد کراتے ہوئے سوا کروڑ کشمیریوں کو بھارتی درندوں کے مظالم سے نجات دلائیں۔
جمہوری تقاضوں کو دیکھا جائے تو کشمیر میں حریت کانفرنس کی اکثریت ہے، لیکن ہر ڈرامہ انتخابات کا نتیجہ نیشنل کانفرنس کے حق میں ظاہر کیا جاتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ آج دنیا میں ہر ملک امریکی بدمعاشی کے سامنے بے بس ہے۔ امریکا نے بھارت کی پشت پر ہاتھ رکھا ہوا ہے اور اقوام متحدہ کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ بھارتی فوجی جموں وکشمیر میں جب چاہیں اور جسے چاہیں اٹھاکر غائب کردیتے ہیں۔ نسل کشی کے اس بھیانک کھیل میں سوا لاکھ سے زیادہ کشمیری شہید کیے جاچکے ہیں۔ 12 ہزار سے زیادہ خواتین اپنی عصمت گنوا چکی ہیں۔ 24 ہزار بچّے یتیم ہوئے ہیں اور 10 ہزار سے زیادہ کشمیری مسلمان عقوبت خانوں میں تشدد سے جاں بحق ہوئے ہیں۔ 8 ہزار کو جْرم بتائے بغیر گھروں یا کام کی جگہوں سے اٹھایا گیا اور گمنام اجتماعی قبروں میں دبا دیا گیا۔ ’’جب خلقِ خدا مٹ جائے گی تو انصاف کروگے‘‘ کے مصداق اقوام متحدہ کا ادارہ اس وقت انصاف کرے گا جب کشمیری مسلمانوں کو قتل کرکے کشمیر میں ان کی اکثریت ختم کردی جائے گی؟ دنیا بھر میں بسنے والے کشمیری اقوام متحدہ کے اجلاس میں شرکت کرنے والے ممالک سے اپیل کرتے ہیں کہ کشمیر میں جاری بھارتی سفاکیت، جارحیت، ظلم و تشدد، جبرواستبداد، دہشت گردی اور درندگی کے خلاف اپنا کردار ادا کریں اور مقبوضہ کشمیر میں اقوام متحدہ کی منظور کردہ قرارداد کے مطابق ’’استصواب رائے‘‘ کا انتظام کریں۔