Sunday, July 27, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

معیشت خراب کیوں ہے؟

سید زین العابدین

آئی ایم ایف کا وفد کیا سمجھانے آیا تھا، سعودی عرب اور چین کا امداد دینے سے انکار، اسد عمر نئے پاکستان میں پرانا فارمولا چلائیں گے، گیس، بجلی کے نرخوں میں اضافہ ابتدا ہے، معاشی بحران کا سارا بوجھ عوام ہی اٹھائیں گے، ٹیکسٹائل، لائیو اسٹاک اور شپنگ سیکٹر میں بڑی صلاحیت ہے، رئیل اسٹیٹ اور بلڈرز مافیا کی نظریں 50 لاکھ رہائشی یونٹس کی تعمیر پر ہیں، اسٹیل ملز، پی آئی اے کا خسارہ ختم کرنے کے اقدامات ہونے چاہئے، وزیراعظم کے دوست کی نگاہ ریڈیو پاکستان اسلام آباد پر تھی،ملازمین کے احتجاج نے فی الحال معاملہ ٹال دیا

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت سے عوام نے بڑی اُمیدیں باندھ لی تھیں، 40 دنوں کی کارکردگی سے کسی بھی جمہوری حکومت کی آئندہ پانچ سالہ طرزِ حکومت کا نقشہ کھینچنا ناانصافی پر مبنی ہوگا لیکن انصاف کا پیمانہ ایسا ہے جس سے پہلے دن کی کارکردگی سے ہی پورے نظامِ حکومت کی جانچ کی جاسکتی ہے، اس لحاظ سے پاکستان تحریک انصاف کے انقلابی نعروں کو بھول جانا چاہئے، پاکستان میں وہی کچھ ہوگا جو ہوتا آیا ہے کیونکہ چہرے وہی ہیں بس ان کے گلے میں پی ٹی آئی کا سہ رنگی پٹہ ہے، قرضہ نہیں لینے کا نعرہ تھا، آئی ایم ایف کی ٹیم مذاکرات کرنے اسلام آباد آئی، وزیرخارنہ کا فرمان ہے کہ معیشت کا بائی پاس ہورہا ہے، ایسی کوئی ایمرجنسی نہیں کہ مریض کے لئے ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے اسپتال سے ایمبولینس مانگی جائے، سعودی عرب نے اربوں ڈالر کی امداد دینے سے منع کردیا ہے، البتہ چین پاکستان اقتصادی راہداری میں پارٹنر بنانے کا مطالبہ کیا ہے تاکہ سرمایہ کاری کی مد میں پاکستان کو ڈالرز مل سکیں، اسی طرح چین نے سرمایہ کاری بڑھانے کی بات ضرور کی لیکن امداد کے نام پر ڈالر دینے سے معذرت کی ہے۔
حکومت نے گیس کے نرخ آئی ایم ایف کے دباؤ پر ہی بڑھائے ہیں، بجلی کی قیمتوں میں اضافہ بھی اسی وجہ سے ہوا ہے، پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کا تعین بھی پرانے پاکستان کے نظام کے تحت ہی رہے گا، سپریم کورٹ جتنی بھی سماعت کر لے قیمتیں 70 یا 75 روپے لیٹر نہیں ہوں گی، کیونکہ یہ حکومت کے لئے براہ راست آمدنی کا ذریعہ ہے اور تمام اداروں کے سربراہان اور افسران کے اللے تللے بھی اسی وجہ سے چل رہے ہیں، حالیہ بجٹ سے پی ٹی آئی کی حکومت کا ایجنڈا سمجھا جاسکتا ہے، سرمایہ کاروں اور محکمہ زراعت کے تعاون سے حکومت بنانے میں آسانی ہوئی ہے، اس لئے اے ٹی ایمز مشینوں والوں کے کاروبار بڑھانے کی فضا بنانی ہے، بجٹ کا پہلا فوری اثر سیمنٹ سیکٹر پر ہوا، منافع خوروں نے 80 روپے فی بوری یعنی تقریباً 18 فیصد قیمتیں بڑھا دیں، جس سے سیمنٹ کی بوری 600 روپے کی ہوگئی۔ اس حکومت نے 50 لاکھ سستے گھر آئندہ پانچ سالوں میں بنانے ہیں، سیمنٹ والوں کی طرح سریا، اسٹیل اور لکڑی والے بھی قیمتیں بڑھائیں گے، عمران خان کی کامیابی میں اور حکومت بنانے میں جہانگیر ترین کے طیارے کا کردار اہم ہے تو بلڈرز مافیا کی خدمات بھی کم نہیں ہیں، پاکستان کے بلڈرز اور رئیل اسٹیٹ مافیا عوام سے تقریباً لاگت سے چار گنا زیادہ قیمتیں وصول کرتا ہے، جو خطے میں سب سے زیادہ منافع خوری ہے، 50 لاکھ سستے گھر بنانے کا معاہدہ انہی مافیاز سے ہونا ہے، 600 اسکوائر فٹ کے فلیٹ کی مالیت تقریباً 30 سے 35 لاکھ وصول کی جارہی ہے، 1200 اور 1800 اسکوائر فٹ کے فلیٹس تو عام آدمی کی سوچ سے بھی دور ہیں، اپر مڈل کلاس ہی افورڈ کرسکتی ہے جس کا مقصد رہائش نہیں بلکہ سرمایہ کاری ہوتا ہے، عمران خان کی حکومت کے لئے 50 لاکھ گھروں کی تعمیر کا ٹھیکہ ایک اور ٹیسٹ کیس ہوگا۔ ہمارے ملک میں ہاؤسنگ و تعمیرات کی وزارت ہے، سمجھ نہیں آتا امیر وزارت غریب اور متوسط طبقے کے لئے کیا کام کرتی ہے، پی ٹی آئی کی حکومت ماضی کے لٹیروں کی طرح بندربانٹ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے تو ق لیگ کا انجام یاد رکھے۔
معیشت کو اسد عمر جیسوں سے بہتر نہیں کیا جاسکتا، دو سے تین سال گزرنے دیں، شوکت عزیز اور اسحاق ڈار کی نالائقی بھلا دی جائے گی۔ حکومت کو سب سے پہلے امپورٹ کم کرنے پر توجہ دینی چاہئے اور ایکسپورٹ سیکٹر کا جائزہ لینا چاہئے، کس صنعت کی برآمدات فوری بڑھائی جاسکتی ہیں اس کا ادراک ہونا چاہئے، ٹیکسٹائل سیکٹر کا برآمدات میں حصہ 60 فیصد ہوا کرتا تھا جو پرویز مشرف کے لاڈلے شوکت عزیز کی وجہ سے تباہ ہوگیا۔ پاکستان اب بھی روئی پیدا کرنے والے بڑے ممالک میں شامل ہے، لیدر سیکٹر میں ہر سال تقریباً ایک کروڑ جانوروں کی قربانی کا چمڑا آتا ہے جبکہ سارا سال اس سیکٹر میں پیداواری میٹریل فراہم رہتا ہے۔ اسپورٹس اور آلات جراحی کا سیکٹر ابھی تک برآمدات میں فعال ہے، بڑھتی ہوئی پیداواری لاگت اس کا بھی سب سے بڑا مسئلہ ہے، وفاقی وزیر صحت کے مطابق فارماسیوٹیکل سیکٹر میں 2 ارب ڈالرز کی برآمدات کرنے کی صلاحیت موجود ہے، بہترین لائیو اسٹاک کی وجہ سے ہلال گوشت کی برآمدات پر توجہ دینی چاہئے، سیمنٹ سیکٹر کی ایکسپورٹ بھی بڑھائی جاسکتی ہے۔ پاکستان کے شپنگ سیکٹر پر خاص توجہ نہیں دی گئی جس میں ملکی سرمایہ کاری کے ذریعے زرمبادلہ بچایا جاسکتا ہے، پاکستان نیوی کے سربراہ ایڈمرل ظفر محمود عباسی کے مطابق پاکستان کی درآمدات اور برآمدات میں ٹرانسپورٹیشن کا 95 فیصد حصہ سمندری ہے جس میں 16 فیصد حصہ ملکی کمپنیوں کا ہے بقیہ 71 فیصد غیرملکی جہازوں کے ذریعے کیا جاتا ہے جس سے بھاری مقدار میں زرمبادلہ ادا کرنا پڑتا ہے، چین پاکستان اقتصادی راہداری کی وجہ سے شپنگ اور تعمیرات کے سیکٹر پر کام کا دباؤ آئے گا، اگر حکومت ریڈیو پاکستان اور دیگر اہم سرکاری عمارتوں سے اپنا فوکس اُدھر کر لے تو معیشت بہتر ہوسکتی ہے، بیرون ملک پاکستانیوں کی ترسیلات بحریہ ٹاؤن، ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹی اور ان جیسی غیرپیداواری سیکٹر میں چلی جاتی ہیں، حکومت کو رئیل اسٹیٹ کو لگام دینا ہوگا، روزگار فراہم کرنے میں بھی اس سیکٹر کا زیادہ حصہ نہیں ہوتا، اربوں روپے کے پروجیکٹس پر 15 سے 20 لوگوں کا اسٹاف ہوتا ہے۔
پی ٹی آئی کے وزراء کنٹینر کی سیاست کے اثرات سے جتنی جلدی باہر نکلیں گے اتنا ملک کے لئے اچھا ہوگا، اسٹیل ملز اور پی آئی اے کے لئے اب تک جامع منصوبہ آجانا چاہئے تھا، ریڈیو پاکستان اسلام آباد کی عمارت سے اسٹیل مل زیادہ اہم ہے لیکن وزیراعظم کے دبئی کے دوست کو ریڈیو پاکستان پسند ہے، عمران خان ملک کی جامعات سے فارغ التحصیل معاشی ماہرین کو اپنے قریب لائیں جنہوں نے پرائمری اور سیکنڈری کی تعلیم پہلے اسکولوں سے حاصل کی ہو، بیرون ملک کے ڈگری یافتہ ماہرین کا تجربہ ملکی معیشت کے لئے اب تک ناگوار ثابت ہوا ہے، پیٹرولیم مصنوعات کا بڑھتا درآمدی بل حکومت کے لئے مزید مشکلات کھڑی کرے گا، پاور سیکٹر کے تقریباً 1200 ارب روپے کی ادائیگی ویسے ہی ایک مسئلہ ہے، جب پی پی کے بعد 2013ء میں ن لیگ کی حکومت آئی تھی تو گردشی قرضہ 400 ارب روپے تھا، عوام کو مہنگی بجلی دینے کے باوجود اس سیکٹر میں بڑھتا ہوا قرض سمجھ سے بالاتر ہے، وزیراعظم ایک مرتبہ قوم سے خطاب کریں اور تمام سیکٹر کے حقائق عوام کے سامنے لائیں، انہیں اعتماد میں لیں، مشیران کی باتوں میں آئیں گے تو سب کچھ خراب ہوگا، کیونکہ یہی لوگ گزشتہ ادوار میں پرویز مشرف، آصف علی زرداری اور نواز شریف کے مشیر رہے ہیں، عوام کی مشکلات کم کرنے کا نسخہ ان کے پاس نہیں ہے۔

مطلقہ خبریں